Today, plastics are everywhere. All of this plastic originated from one small object— that isn’t even made of plastic.
آج کل ہر جگہ پلاسٹکس ہیں۔ اس تمام پلاسٹک کی ابتدا ایک چھوٹی سی چیز سے ہوئی— جو خود پلاسٹک سے نہیں بنی ہوئی۔
For centuries, billiard balls were made of ivory from elephant tusks. But when excessive hunting caused elephant populations to decline in the 19th century, billiard balls makers began to look for alternatives, offering huge rewards. So in 1863 an American named John Wesley Hyatt took up the challenge. Over the next five years, he invented a new material called celluloid, made from cellulose, a compound found in wood and straw.
صدیوں سے، بلیرڈ کی گیندیں ہاتھی کے دانتوں سے بنتی تھیں۔ لیکن جب ضرورت سے زیادہ شکار کے سبب ہاتھیوں کی آبادی کم ہوئی انیسویں صدی میں، بلیرڈ بال بنانے والوں نے بھاری انعامات کی پیشکش کرتے ہوئے متبادل کی تلاش شروع کی۔ چنانچہ 1863 میں جان ویزلی ہائٹ نامی ایک امریکی نے اس چیلنج کو قبول کیا۔ اگلے پانچ سالوں میں، اس نے سیلولوئڈ نامی ایک نیا مادہ ایجاد کیا، سیلولوز کا بنا ہوا، ایک مرکب جو لکڑی اور بھوسے میں پایا جاتا ہے۔
Hyatt soon discovered celluloid couldn’t solve the billiard ball problem–– the material wasn’t heavy enough and didn’t bounce quite right. But it could be tinted and patterned to mimic more expensive materials like coral, tortoiseshell, amber, and mother-of-pearl. He had created what became known as the first plastic.
ہائٹ کو جلد ہی پتا چلا کہ سیلولوئڈ بلیرڈ بال کے مسئلے کو حل نہیں کرسکتا–– مادہ اتنا بھاری نہیں تھا اور ٹھیک سے نہیں اچھلتا تھا۔ لیکن اس کو رنگ اور نقش دیے جا سکتے تھے زیادہ مہنگے مواد کی نقل کے طور پر جیسے مرجان، کچھوے کا خول، عنبر اور سیپ کا موتی۔ اس نے وہ چیز بنائی جسے سب سے پہلا پلاسٹک کہا جاتا ہے۔
The word ‘plastic’ can describe any material made of polymers, which are just the large molecules consisting of the same repeating subunit. This includes all human-made plastics, as well as many of the materials found in living things. But in general, when people refer to plastics, they’re referring to synthetic materials. The unifying feature of these is that they start out soft and malleable and can be molded into a particular shape.
لفظ پلاسٹک کسی بھی مادے کی وضاحت کر سکتا ہے جو پولیمرز کا بنا ہو، جو کہ صرف بڑے مالیکیوز ہیں جو ایک ہی ذیلی جزو کے دہرانے سے بنتے ہیں۔ اس میں انسان کے بنائے ہوئے تمام پلاسٹکس شامل ہیں، اور جانداروں میں پائے جانے والے بہت سے مادے بھی۔ لیکن عام طور پر، جب لوگ پلاسٹکس کی بات کرتے ہیں، ان کا مطلب مصنوعی مادے ہوتے ہیں۔ ان سب کی یکساں خصوصیت یہ ہے کہ یہ شروع میں نرم اور لچک دار ہوتے ہیں اور کسی بھی خاص شکل میں ڈھالے جاسکتے ہیں۔
Despite taking the prize as the first official plastic, celluloid was highly flammable, which made production risky. So inventors began to hunt for alternatives. In 1907 a chemist combined phenol— a waste product of coal tar— and formaldehyde, creating a hardy new polymer called bakelite. Bakelite was much less flammable than celluloid and the raw materials used to make it were more readily available.
سب سے پہلا مستند پلاسٹک ہونے کے باوجود، سیلولوئڈ انتہائی آتش گیر تھا، جس کی پیداوار میں خطرہ تھا۔ لہذا موجدین نے متبادلات کی تلاش شروع کی۔ 1907 میں ایک کیمیا دان نے فینول کو ملایا— جو کہ تارکول کا فضلہ ہے— فارملڈہائڈ سے، جس سے ایک نیا مضبوط پولیمر بنا جسے بیکیلائٹ کہتے ہیں۔ بیکیلائٹ سیلولوئڈ سے کم آتش گیر تھا اور خام مال جو اسے بنانے کے لیے استعمال ہوتا تھا وہ زیادہ آسانی سے دستیاب تھا۔
Bakelite was only the beginning. In the 1920s, researchers first commercially developed polystyrene, a spongy plastic used in insulation. Soon after came polyvinyl chloride, or vinyl, which was flexible yet hardy. Acrylics created transparent, shatter-proof panels that mimicked glass. And in the 1930s nylon took centre stage— a polymer designed to mimic silk, but with many times its strength. Starting in 1933, polyethylene became one of the most versatile plastics, still used today to make everything from grocery bags, to shampoo bottles, to bulletproof vests.
بیکیلائٹ صرف شروعات تھی۔ 1920ء کی دہائی میں، محققین نے پہلی مرتبہ تجارتی طور پر پولی سٹائرین تیار کی، ایک نرم پلاسٹک جسے انسولیشن میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جلد ہی پولی وینائل کلورائڈ یا وینائل آیا، جو لچکدار تھا لیکن مضبوط بھی۔ ایکریلیکس نے بنائے شفاف، ناقابِل ریخت پینل جو شیشے سے متشابہت رکھتے تھے۔ اور 1930ء کی دہائی میں نائلن کو مرکزی حیثیت ملی— ایک پولیمر جو ریشم کی نقل کے طور پر بنا، لیکن اس کی طاقت اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ 1933 سے، پولی اتھائلین سب سے کثیرالاستعمال پلاسٹکس میں سے ایک بنا، ابھی تک ہر چیز بنانے میں استعمال ہوتا ہے سامان کے تھیلوں، شیمپو کی بوتلوں سے لے کر بلٹ پروف جیکٹ تک۔
New manufacturing technologies accompanied this explosion of materials. The invention of a technique called injection-moulding made it possible to insert melted plastics into molds of any shape, where they would rapidly harden. This created possibilities for products in new varieties and shapes— and a way to inexpensively and rapidly produce plastics at scale. Scientists hoped this economical new material would make items that once had been unaffordable accessible to more people.
نئی صنعتی ٹیکنالوجیز مواد کے اس بڑھاؤ کے ہمراہ رہیں۔ ٹیکنالوجی کی ایک ایجاد نے جسے انجکشن سانچہ سازی کہا جاتا ہے یہ ممکن بنایا کہ پگھلے ہوئے پلاسٹکس کو کسی بھی شکل کے سانچوں میں ڈھالا جائے، جہاں وہ تیزی سے سخت ہوجائیں. اس سے نئی اقسام اور شکلوں کی مصنوعات بنانا ممکن ہوا— اور طریقہ ملا کم قیمت میں اور تیزی سے پلاسٹکس تھوک میں تیار کرنے کا۔ سائنسدانوں کو امید تھی کہ یہ کم خرچ مادہ ان اشیاء کو لوگوں کے لیے دستیاب کرے گا جن کو خریدنے کی وہ پہلے طاقت نہیں رکھتے تھے۔
Instead, plastics were pushed into service in World War Two. During the war, plastic production in the United States quadrupled. Soldiers wore new plastic helmet liners and water-resistant vinyl raincoats. Pilots sat in cockpits made of plexiglass, a shatterproof plastic, and relied on parachutes made of resilient nylon.
اس کے بجائے، پلاسٹکس سے دوسری جنگ عظیم میں کام لیا گیا۔ جنگ کے دوران، امریکہ میں پلاسٹکس کی پیداوار چار گنا بڑھ گئی۔ فوجیوں نے نئے پلاسٹک ہیلمیٹ لائنرز اور آب روک ونائل کی برساتیاں پہنیں۔ پائلٹ پلیگزی گلاس کے بنے کاک پٹس میں بیٹھے، جو ایک ناقابِل ریخت پلاسٹک ہے، اور انحصار کیا مضبوط نائلن کے بنے پیراشوٹوں پر۔
Afterwards, plastic manufacturing companies that had sprung up during wartime turned their attention to consumer products. Plastics began to replace other materials like wood, glass, and fabric in furniture, clothing, shoes, televisions, and radios. Versatile plastics opened up possibilities for packaging— mainly designed to keep food and other products fresh for longer. Suddenly, there were plastic garbage bags, stretchy plastic wrap, squeezable plastic bottles, takeaway cartons, and plastic containers for fruit, vegetables, and meat.
اس کے بعد، پلاسٹک بنانے والے ادارے جو جنگ کے دوران بنی تھیں، انھوں نے اپنی توجہ اشیاء صرف کی طرف پھیری۔ پلاسٹکس نے دوسری چیزوں کی جگہ لینی شروع کی جیسے کہ لکڑی، شیشہ اور کپڑا فرنیچر، لباس، جوتوں، ٹیلیوژنز اور ریڈیوز میں۔ کثیرالاستعمال پلاسٹکس نے ممکنات پیدا کیں پیکنگ کے لیے— جو خاص کر خوراک اور دیگر مصنوعات کو زیادہ دیر تک تازہ رکھنے کے لئے بنائے گئے تھے۔ یکایک، کچرے کے لیے پلاسٹک کے تھیلے، لچکدار پلاسٹک کے غلاف، نچوڑنے کے قابل پلاسٹک کی بوتلیں، لے جانے والے ڈبے، اور پھل، سبزیوں اور گوشت کے لیے پلاسٹک کے ڈبے تھے۔
Within just a few decades, this multifaceted material ushered in what became known as the “plastics century.” While the plastics century brought convenience and cost-effectiveness, it also created staggering environmental problems. Many plastics are made of nonrenewable resources. And plastic packaging was designed to be single-use, but some plastics take centuries to decompose, creating a huge build up of waste.
صرف چند دہائیوں میں، مختلف خصوصیات کے اس مادے نے اسے شروع کیا جسے "پلاسٹکس کی صدی" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب کہ پلاسٹکس کی صدی سہولت اور بچت لے کر آئی، ساتھ ہی اس نے بھاری ماحولیاتی مسائل بھی پیدا کئے۔ بہت سارے پلاسٹکس ناقابل تجدید وسائل سے بنے ہوتے ہیں۔ اور پلاسٹک پیکنگ کو ایک دفعہ استعمال کے لئے بنایا گیا تھا، لیکن کچھ پلاسٹکس کو بوسیدہ ہونے میں صدیاں لگتی ہیں، جس سے بہت زیادہ فضلہ جمع ہوتا ہے۔
This century we’ll have to concentrate our innovations on addressing those problems— by reducing plastic use, developing biodegradable plastics, and finding new ways to recycle existing plastic.
اس صدی میں ہمیں اپنی ایجادات کو ان مسائل کے حل پر مرکوز کرنا پڑے گا— پلاسٹک کے استعمال کو کم کر کے، قدرتی طور پر گل سڑ جانے والے پلاسٹکس تیار کر کے، اور موجودہ پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کرنے کے نئے طریقے تلاش کر کے۔