I'm five years old, and I am very proud. My father has just built the best outhouse in our little village in Ukraine. Inside, it's a smelly, gaping hole in the ground, but outside, it's pearly white formica and it literally gleams in the sun. This makes me feel so proud, so important, that I appoint myself the leader of my little group of friends and I devise missions for us. So we prowl from house to house looking for flies captured in spider webs and we set them free. Four years earlier, when I was one, after the Chernobyl accident, the rain came down black, and my sister's hair fell out in clumps, and I spent nine months in the hospital. There were no visitors allowed, so my mother bribed a hospital worker. She acquired a nurse's uniform, and she snuck in every night to sit by my side. Five years later, an unexpected silver lining. Thanks to Chernobyl, we get asylum in the U.S. I am six years old, and I don't cry when we leave home and we come to America, because I expect it to be a place filled with rare and wonderful things like bananas and chocolate and Bazooka bubble gum, Bazooka bubble gum with the little cartoon wrappers inside, Bazooka that we'd get once a year in Ukraine and we'd have to chew one piece for an entire week. So the first day we get to New York, my grandmother and I find a penny in the floor of the homeless shelter that my family's staying in. Only, we don't know that it's a homeless shelter. We think that it's a hotel, a hotel with lots of rats. So we find this penny kind of fossilized in the floor, and we think that a very wealthy man must have left it there because regular people don't just lose money. And I hold this penny in the palm of my hand, and it's sticky and rusty, but it feels like I'm holding a fortune. I decide that I'm going to get my very own piece of Bazooka bubble gum. And in that moment, I feel like a millionaire. About a year later, I get to feel that way again when we find a bag full of stuffed animals in the trash, and suddenly I have more toys than I've ever had in my whole life. And again, I get that feeling when we get a knock on the door of our apartment in Brooklyn, and my sister and I find a deliveryman with a box of pizza that we didn't order. So we take the pizza, our very first pizza, and we devour slice after slice as the deliveryman stands there and stares at us from the doorway. And he tells us to pay, but we don't speak English. My mother comes out, and he asks her for money, but she doesn't have enough. She walks 50 blocks to and from work every day just to avoid spending money on bus fare. Then our neighbor pops her head in, and she turns red with rage when she realizes that those immigrants from downstairs have somehow gotten their hands on her pizza. Everyone's upset. But the pizza is delicious. It doesn't hit me until years later just how little we had. On our 10 year anniversary of being in the U.S., we decided to celebrate by reserving a room at the hotel that we first stayed in when we got to the U.S. The man at the front desk laughs, and he says, "You can't reserve a room here. This is a homeless shelter." And we were shocked. My husband Brian was also homeless as a kid. His family lost everything, and at age 11, he had to live in motels with his dad, motels that would round up all of their food and keep it hostage until they were able to pay the bill. And one time, when he finally got his box of Frosted Flakes back, it was crawling with roaches. But he did have one thing. He had this shoebox that he carried with him everywhere containing nine comic books, two G.I. Joes painted to look like Spider-Man and five Gobots. And this was his treasure. This was his own assembly of heroes that kept him from drugs and gangs and from giving up on his dreams. I'm going to tell you about one more formerly homeless member of our family. This is Scarlett. Once upon a time, Scarlet was used as bait in dog fights. She was tied up and thrown into the ring for other dogs to attack so they'd get more aggressive before the fight. And now, these days, she eats organic food and she sleeps on an orthopedic bed with her name on it, but when we pour water for her in her bowl, she still looks up and she wags her tail in gratitude. Sometimes Brian and I walk through the park with Scarlett, and she rolls through the grass, and we just look at her and then we look at each other and we feel gratitude. We forget about all of our new middle-class frustrations and disappointments, and we feel like millionaires. Thank you. (Applause)
میری عمر پانچ سال ہے اور مجھے فخر ہے . میرے والد نے ایک چھوٹا سا ملحقہ گھر بنایا یو کرین میں ہمارے چھوٹے سے گاؤں میں . اندر سے بدبو دار اور گہرے شگاف والا لیکن باہر سے موتیوں جیسا سفید فارمیکا اور حقیقت میں سورج کی روشنی میں چمکتا ہوا . یہ میرے لئے بہت اہم ہے اور قابل فخر بھی ہے کہ میں اپنے دوستوں کے گروپ کی لیڈر بنوں اور سب کے لئے مقاصد تخلیق کروں . سو ہم گھر گھر گھومے مکڑی کے جالوں سے اٹی ہوئی فائلز کی تلاش میں اور ہم نے انھیں آزادی دی . چار سال پہلے جب میں ایک سال کی تھی , چر نو بل کے حادثے کے بعد , کالے رنگ کی بارش ہوئی , میری بہن کے بل گچھوں کی صورت میں جھڑ گئے , اور میں نے نو مہینے ہسپتال میں گزارے . وہاں کسی کو ملاقات کی اجازت نہیں تھی, میری ماں نے ہسپتال کے ایک کارکن کو رشوت دی . اور اس نے نرس کا یونیفارم حاصل کیا , میرے پاس بیٹھنے کے لئے وہ ہر رات چپکے سے میرے پاس آ جاتی . پانچ سال بعد ،ایک غیر متوقعہ امید کی کرن . چار نوبل کے حادثے کے بعد ہمیں امریکا میں پناہ مل گئی . میں چھے سال کی ھوں ، اور اب گھر سے رخصت ہوتےہوئے میں روتی نہیں اور پھر ہم افریقہ پہنچ جاتے ہیں , کیونکہ میرا خیال تھا کہ یہ نایاب اور عجیب و غریب جیسے چاکلیٹ اور کیلے اور بازوکا ببل گم , بازوکا ببل گم کارٹون والے رپیر کے ساتھ , بازوکا جو کہ Ukraine میں سال میں ایک دفعہ ہی ملتی تھی تھے اور ہم ایک ٹکڑا پورا ہفتہ چباتے رہتے . جب نیویارک میں میرا پہلا دن تھا , مجھے اور میری دادی کو ایک سکہ ملا بے گھر افراد کے گھر کے فرش پر ،جہاں میرا خاندان ٹھہرا ہوا تھا لگتا نہیں تھا کہ وہ بے گھر افراد کی پناہ گاہ ہے . یہ چوہوں سے بھرا کوئی ہوٹل لگتا تھا . یہ سکہ کوئی پرانی بے جان سی یاد گار لگ رہا تھا , اور ہمارا خیال تھا کہ کوئی امیر آدمی اسے یہاں چھوڑ گیا ہے کیونکہ کوئی عام آدمی یوں اپنی رقم گنوا نہیں سکتا . اور میں وہ سکہ اپنی ہتھیلی پر رکھے ہوے ہوں , زنگ آلود ،چپ چپا سکہ , مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے تقدیر میرے ہاتھ میں ہے . میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی ،خود کی بازوکا ببل گم خریدوں . اور اس لمحے میں خود کو ایک کروڑ پتی محسوس کر رہی تھی . تقریباً ایک سال بعد ،مجھے ویسے ہی محسوس ہوا جب جب ہمیں کوڑے دان میں سے کھلونوں کا تھیلا ملا تھا , اور اچانک میرے پاس کھلونوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا کہ اتنے تو میرے پاس زندگی میں پہلے کبھی نہیں تھے . جب دروازے پر دستک ہوئی تو مجھے ویسا ہی احساس پھر سے ہوا جیسا کہ ایک دفعہ بروک لین میں ،ہمارے گھر کے دروازے پر , میں نے اور میری بہن نے ڈاکیے کو دیکھا اس کے پاس پیزا تھا جو ہم نے نہیں منگوایا تھا . ہم نے پیزا لے لیا ،ہماری زندگی کا پہلا پیزا , ہم نے سارےکا سارا ہڑپ کر لیا ڈاکیا وہاں کھڑا تھا اور دہلیز سے ہمیں گھور رہا تھا . وہ ہم سے قیمت ادا کرنے کو کہہ رہا تھا،مگر ہم انگریزی زبان نہیں سمجھتے ، میری والدہ باہر آئی تو اس نے ان سے پیسے مانگے , لیکن ان کے پاس اتنی رقم نہیں تھی . وہ روزانہ پچاس گلیاں دور پیدل آتی اور جاتی تھی تا کہ بس کے کرایہ پر خرچ ہونے والی رقم بچا سکے . تب ہماری پڑوسن نے جھانکا , وہ غصے سے سرخ ہو گئی ،جب اسے پتا چلا کہ نیچے کی منزل پر رہنے والے وہ مہاجر کسی طرح اس کے پیزا پر ہاتھ صاف کر چکے ہیں . سب بہت پریشان ہوے . لیکن پیزا تھا بہت مزیدار . کئی سال تک مجھے یہ خیال ستاتا رہا کہ ہمیں بہت تھوڑا سا ملا . امریکا میں ہماری رہائش کی دسویں سالگرہ پر ہم نے ہوٹل میں ایک کمرہ بک کروا کے خوشی منانے کی ٹھانی اس ہوٹل میں جہاں امریکا آنے کے بعد ہم پہلی دفعہ ٹھہرے تھے . سامنے بیٹھا ہوا شخص ہنستا ہوئے کہتا ہے , آپ یہاں کمرہ مختص نہیں کروا سکتے ، یہ بے گھر لوگوں کے لئے پناہ گاہ ہے , ہمیں ایک دھچکا لگا . میرے شوہر برائن بھی بچپن میں بے گھر تھے . ان کے خاندان نے سب کچھ کھو دیا تھا ،اور گیارہ سال کی عمر سے ، وہ اپنے والد کے ہمراہ موٹل میں رہا , موٹل جہاں کھانے کے بدلے میں اس وقت تک کام کرنا پڑتا جب تک کے بل کی رقم پوری نہ ہو جائے . اور آخر کار اس کو اس کا ڈبہ واپس مل گیا, کاکروچ سے بھرا نم آلود دلیے کا ڈبہ. لیکن ایک چیز اس کے پاس تھی . جوتوں کا ڈبہ جسے وہ ہر وقت اپنے پاس رکھتا تھا اس میں نو مزاحیہ کتابیں تھیں, دو کتابیں جن میں G.I. Joes کو سپائیڈر مین کی طرح پینٹ کیا گیا تھا اور پانچ گوبوٹس .اور یہ اس کا تھا خزانہ. اور یہی تھے اس کے ہیرو جنھوں نے ان کو نشے اور جرائم پیشہ گروہوں سے دور رکھا اور اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے میں مدد کی . میں آپکو ایک اوربات بھی بتانا چاہتی ہوں ہمارے خاندان کے ایک پرانے بےگھر فرد کی . یہ ہیں سکارلٹ . پہلے سکارلٹ کو کتوں کی لڑائی میں پھندے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا . اس کو باندھ کر رنگ میں پھینک دیا جاتا تا کہ دوسرے کتے اس پر حملہ کریں اور لڑائی سے پہلے خونخوار ہو جائیں . اور آجکل تو وہ نامیاتی خوراک کھاتی ہے اور ارتھوپیڈک پلنگ پر سوتی ہے جس پر اس کا نام کندہ ہے , جب ہم اس کے پیالے میں پانی ڈالتے ہیں , تو وہ ہماری طرف دیکھ کر دم ہلا کر شکریہ کا اظھار کرتی ہے . کبھی کبھی میں اور برائن پارک میں اس کے ساتھ واک کرتے ہیں , وہ گھاس پر لوٹنے لگتی ہے اور ہم اسے دیکھتے رہتے ہیں پھر ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور ہمیں تشکر کا احساس ہوتا ہے . ہم اپنی متوسط طبقے کی ساری مایوسی بھول جاتے ہیں اور مایوسی, اور ہم کروڑپتی کی طرح محسوس کرنے لگتے ہیں . شکریہ (تالیاں)