I'm talking to you about the worst form of human rights violation, the third-largest organized crime, a $10 billion industry. I'm talking to you about modern-day slavery.
میری آج کی گفتگو انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ہونے والے سب سے بھیانک جرم کے بارے میں ہے، دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اور منظم جرم، دس ارب ڈالر کی صنعت۔ میرا موضوع ہے جدید دور کی غلامی۔
I'd like to tell you the story of these three children, Pranitha, Shaheen and Anjali. Pranitha's mother was a woman in prostitution, a prostituted person. She got infected with HIV, and towards the end of her life, when she was in the final stages of AIDS, she could not prostitute, so she sold four-year-old Pranitha to a broker. By the time we got the information, we reached there, Pranitha was already raped by three men.
میں آپ کو کہانی سنانا چاہتی ہوں ان تین بچوں کی، پرانیتھا، شاہین اور انجلی۔ پرانیتھا کی ماں ایک طوائف تھی، ایک جسم فروش۔ وہ ایڈز HIV میں مبتلا ہوگئی، جس نے اسے زندگی کے خاتمے کی طرف دھکیل دیا، اور جب وہ اس بیماری کے آخری مرحلے میں داخل ہوگئی، تو وہ جسم فروشی کو جاری نہ رکھ سکی، تو اس نے اپنی چار سال کی بیٹی پرانیتھا کو ایک دلال کو بیچ ڈالا۔ جب ہمیں اس بات کی خبر ملی تو ہم وہاں پہنچے، مگر ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی تین افراد پرانیتھا کی عصمت دری کر چکے تھے۔
Shaheen's background I don't even know. We found her in a railway track, raped by many, many men, I don't know many. But the indications of that on her body was that her intestine was outside her body. And when we took her to the hospital she needed 32 stitches to put back her intestine into her body. We still don't know who her parents are, who she is. All that we know that hundreds of men had used her brutally.
شاہین کے ماضی کے بارے میں مجھے کچھ پتہ نہیں۔ یہ ہمیں ایک ریل کی پٹری کے پاس ملی تھی، اس وقت تک نہ جانے کتنے لوگ اس کی عصمت دری کرچکے تھے۔ مگر اس کے جسم پر آثار ایسے ہی تھے اس کی آنتیں جسم سے باہر آچکی تھیں۔ اور جب ہم اسے ہسپتال لے کر پہنچے تو ڈاکٹرز کو 32 ٹانکے لگانے پڑے تب کہیں جا کر اس کی آنتیں اندر جا سکیں۔ ہمیں اب بھی نہیں پتہ کہ اس کے والدین کون ہیں اور وہ خود کون ہے۔ ہم اتنا جانتے ہیں کہ شائد سینکڑوں لوگوں نے اس کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کیا۔
Anjali's father, a drunkard, sold his child for pornography. You're seeing here images of three years, four-year-olds, and five-year-old children who have been trafficked for commercial sexual exploitation. In this country, and across the globe, hundreds and thousands of children, as young as three, as young as four, are sold into sexual slavery. But that's not the only purpose that human beings are sold for. They are sold in the name of adoption. They are sold in the name of organ trade. They are sold in the name of forced labor, camel jockeying, anything, everything.
انجلی کا باپ ایک شرابی تھا، اس نے اپنی بچی فحاشی کے لئے بیچ ڈالی۔ آپ یہاں تصاویر دیکھ رہے ہیں تین، چار، اور پانچ سال کے بچوں کے جنھیں جنسیات کے مکروہ کاروبار کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اس ملک میں اور پوری دنیا میں، سینکڑوں اور ہزاروں بچے، جو کہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں جیسے تین سال کے یا چار سال کے، جنسی غلامی کے بازار میں فروخت کر دیئے جاتے ہیں۔ مگر صرف یہی ایک مقصد نہیں ہے جس کے لئے انسانوں کو بیچا جاتا ہے۔ وہ بکتے ہیں گود لینے کے نام پر۔ وہ بکتے ہیں اعضاء کی تجارت کے لئے۔ وہ بکتے ہیں جبری مزدوری کے لئے، اونٹوں کی دوڑ کے لئے، کسی بھی چیز کے لئے، ہر چیز کے لئے۔
I work on the issue of commercial sexual exploitation. And I tell you stories from there. My own journey to work with these children started as a teenager. I was 15 when I was gang-raped by eight men. I don't remember the rape part of it so much as much as the anger part of it. Yes, there were eight men who defiled me, raped me, but that didn't go into my consciousness. I never felt like a victim, then or now. But what lingered from then till now -- I am 40 today -- is this huge outrageous anger.
میں جنسی استحصال کے اس کاروبار کے خلاف سرگرم عمل ہوں۔ میرے پاس اسی دنیا کے قصے ہیں۔ ان بچوں کے لئے کام کرنے کا میرا سفر اس وقت شروع ہوا جب میں خود نوعمر تھی۔ میری عمر اس وقت پندرہ برس تھی جب آٹھ مردوں نے میری اجتماعی عصمت دری کی۔ مجھے اس زیادتی کے مناظر اتنے یاد نہیں جتنا وہ غصہ یاد ہے۔ ہاں وہ آٹھ مرد تھے جنھوں نے مجھے گندا کیا، مجھے برباد کیا، مگروہ سب میرے لاشعور میں نہیں سما سکا۔ نہ تب نہ اب میں نے اپنے آپ کو کوئی شکار سمجھا۔ مگر آج تک جبکہ میں چالیس سال کی ہوچکی ہوں صرف ایک چیز میرے سر پر سوار ہے بے انتہا مشتعل کر دینے والا غصہ۔
Two years, I was ostracized, I was stigmatized, I was isolated, because I was a victim. And that's what we do to all traffic survivors. We, as a society, we have PhDs in victimizing a victim. Right from the age of 15, when I started looking around me, I started seeing hundreds and thousands of women and children who are left in sexual slavery-like practices, but have absolutely no respite, because we don't allow them to come in.
اگلے دو سال کرب اور تنہائی کے تھے، مجھے معاشرے سے الگ کردیا گیا، کیونکہ میری عصمت دری کی گئی تھی۔ ہم یہی تو کرتے ہیں ان سب متاثرین کے ساتھ جو بچ جاتے ہیں، ہم بحیثیت ایک تہذیب یافتہ معاشرے کے بے انتہا مہارت رکھتے ہیں، کہ کسی اذیت میں مبتلا شخص کو کس طرح مزید اذیت دی جاۓ۔ میں پندرہ سال کی عمر سے، جب میں نے اپنے ارد گر مشاہدہ کرنا شروع کیا میں نے سینکڑوں ہزاروں بچوں اور عورتوں کو دیکھا جن کو جنسی استحصال جیسی غلامی برداشت کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا، اس کرب میں کسی عارضی وقفہ کے بغیر، کیوں کہ ہم خود ہی انھیں معاشرے کا حصہ بننے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔
Where does their journey begin? Most of them come from very optionless families, not just poor. You have even the middle class sometimes getting trafficked. I had this I.S. officer's daughter, who is 14 years old, studying in ninth standard, who was raped chatting with one individual, and ran away from home because she wanted to become a heroine, who was trafficked. I have hundreds and thousands of stories of very very well-to-do families, and children from well-to-do families, who are getting trafficked.
ان کا یہ سفر شروع کہاں سے ہوتا ہے؟ ان میں سے اکثر ایسے خاندان سے آتے ہیں جن کے پاس کوئی دوسری راہ نہیں ہوتی، یہ چیز صرف غریب خاندانوں تک ہی محدود نہیں۔ اکثر متوسط طبقے کے لوگ بھی جنسی استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ میرے پاس ایک لڑکی آئی جو آئی ایس آفیسر کی بیٹی تھی، چودہ سال کی، وہ نویں جماعت کی طالبہ تھی، وہ کسی اجنبی سے انٹرنیٹ پرگفتگو کی وجہ سے اس کرب کا شکار ہوئی، اسے فلمی ہیروئین بننے کا شوق تھا جس کے لئے وہ گھر سے بھاگ گئی، اور اس کاروبار کی بھینٹ چڑھ گئی۔ میرے پاس متمول خاندانوں کے ایسے سینکڑوں ہزاروں قصے ہیں، اور ان خاندانوں کے بچوں کے قصے ہیں، جو جنسی استحصال کے اس کاروبار کا شکار ہوۓ۔
These people are deceived, forced. 99.9 percent of them resist being inducted into prostitution. Some pay the price for it. They're killed; we don't even hear about them. They are voiceless, [unclear], nameless people. But the rest, who succumb into it, go through everyday torture. Because the men who come to them are not men who want to make you your girlfriends, or who want to have a family with you. These are men who buy you for an hour, for a day, and use you, throw you.
ان کو دھوکہ دیا گیا، ان کو مجبور کیا گیا۔ ان میں سے 99.9 فی صد لوگ جسم فروشی کے کاروبار میں شامل ہونے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ کچھ کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ انھیں قتل کردیا جاتا ہے، ہمارے پاس ان کی کوئی خبر تک نہیں پہنچتی۔ ان کی کوئی آواز نہیں ہے، وہ بے نام و نشان لوگ ہیں۔ مگر جو بچ جاتے ہیں، اس کاروبار کا شکار ہوجاتے ہیں، وہ روزانہ ایک نئی اذیت سے گزرتے ہیں۔ کیونکہ جو خریدار آتے ہیں وہ انکو اپنی محبوبہ نہیں بنانا چاہتے، یا ان کے ساتھ گھر بسانا نہیں چاہتے۔ یہ وہ مرد ہیں جو تمہیں ایک گھنٹے، یا ایک دن کے لئے خریدتے ہیں، استعمال کرتے ہیں، اور پھینک دیتے ہیں۔
Each of the girls that I have rescued -- I have rescued more than 3,200 girls -- each of them tell me one story in common ... (Applause) one story about one man, at least, putting chili powder in her vagina, one man taking a cigarette and burning her, one man whipping her. We are living among those men: they're our brothers, fathers, uncles, cousins, all around us. And we are silent about them.
ہر وہ لڑکی جسے میں نے بچایا -- میں نے 3200 سے زائد لڑکیوں کو بچایا ہے -- ان سب کی کہانیوں میں ایک چیز مشترک تھی -- (تالیاں) ایک کہانی جس میں کم سے کم ایک مرد ملوث تھا ایک مرد جس نے ایک لڑکی کی اندام نہانی میں مرچیں ڈال دیں، ایک مرد جس نے ایک سگریٹ لی اور ایک لڑکی کو اس سے جلاتا رہا، ایک مرد جو کوڑے برساتا رہا۔ ہم ایسے مردوں کے بیچ میں رہ رہے ہیں یہ ہمارے بھائی ہیں، باپ ہیں، ماموں، چچا، رشتے کے بھائی ہیں، یہ ہمارے چاروں طرف ہیں۔ اور ہم ان کے متعلق خاموش ہیں۔
We think it is easy money. We think it is shortcut. We think the person likes to do what she's doing. But the extra bonuses that she gets is various infections, sexually transmitted infections, HIV, AIDS, syphilis, gonorrhea, you name it, substance abuse, drugs, everything under the sun. And one day she gives up on you and me, because we have no options for her. And therefore she starts normalizing this exploitation. She believes, "Yes, this is it, this is what my destiny is about." And this is normal, to get raped by 100 men a day. And it's abnormal to live in a shelter. It's abnormal to get rehabilitated.
ہم سمجھتے ہیں یہ آسان کمائی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ چھوٹا راستہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ وہی کر رہی ہے جو وہ کرنا چاہتی ہے۔ مگر حقیقت میں جو انعام عورت کو ملتا ہے وہ امراض کی صورت میں ہوتا ہے جوجنسی تعلقات سے پھیلتے ہیں، HIV، ایڈز، آتشک، سوزاک اور دیگر جس کا بھی نام لیں، شراب ، نشہ آور ادویات، اور جو کچھ بھی خرافات اس روئے زمین پر ہیں۔ اور ایک دن وہ سب سے نا امید ہو جاتی ہے، کیونکہ ہمارے پاس تو اس کے لئے کوئی اور راہ ہے ہی نہیں۔ بالآخر وہ اس استحصال کو اپنی زندگی کا حصّہ مان لیتی ہے۔ اسے یقین ہو جاتا ہے ”ہاں یہی ہے، یہی ہے جو میرا مقصد حیات ہے“۔ اور یہ تو عام سی بات ہے کہ سو مرد ایک دن میں ایک عورت کی عصمت دری کریں۔ اور کسی پناہ گاہ میں رہنا بھی عجیب ہے۔ عجیب بات تو یہ بھی ہے کہ اس کی کھوئی ہوئی زندگی بحال ہو سکے۔
It's in that context that I work. It's in that context that I rescue children. I've rescued children as young as three years, and I've rescued women as old as 40 years. When I rescued them, one of the biggest challenges I had was where do I begin. Because I had lots of them who were already HIV infected. One third of the people I rescue are HIV positive. And therefore my challenge was to understand how can I get out the power from this pain. And for me, I was my greatest experience. Understanding my own self, understanding my own pain, my own isolation, was my greatest teacher. Because what we did with these girls is to understand their potential.
یہ بات میں اپنے کام سے متعلق کہہ رہی ہوں۔ اس تناظر میں، میں بچوں کو بچاتی ہوں۔ میں نے تین سالہ بچوں کو بھی بچایا ہے، اور میں نے ایسی عورتوں کو بھی بچایا ہے جو چالیس سال کی ہو چکی تھیں۔ جب میں انھیں بچاتی ہوں تو سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ میں شروع کہاں سے کروں۔ کیوں کہ ان میں سے بہت سے پہلے ہی ایڈز میں مبتلا ہوچکے تھے۔ بچائے جانے والے لوگوں میں سے ایک تہائی لوگ ایڈز کے مریض ہوتے ہیں۔ اور پھر اصل معرکہ یہ ہوتا ہے کہ میں یہ سمجھ سکوں میں وہ طاقت کہاں سے لاؤں جو اس کرب کی کیفیت سے نکلنے میں مدد دے۔ میرے لئے میری اپنی ذات ہی سب سے بڑا تجربہ ہے۔ اپنی ذات کو سمجھنا، میرے اپنے درد کو سمجھنا، میری اپنی تنہائی کا احساس یہی میرا سب سے بڑا استاد ہے۔ کیوںکہ جو کچھ ہم نے ان لڑکیوں کے لئے کیا وہ ان کی صلاحیتوں اور قابلیت کی شناخت ہے۔
You see a girl here who is trained as a welder. She works for a very big company, a workshop in Hyderabad, making furnitures. She earns around 12,000 rupees. She is an illiterate girl, trained, skilled as a welder. Why welding and why not computers? We felt, one of the things that these girls had is immense amount of courage. They did not have any pardas inside their body, hijabs inside themselves; they've crossed the barrier of it. And therefore they could fight in a male-dominated world, very easily, and not feel very shy about it.
آپ یہاں ایک لڑکی دیکھ رہے ہیں جو تربیت یافتہ ویلڈر ہے۔ یہ ایک بہت بڑی کمپنی میں کام کرتی ہے، جس کی ورکشاپ حیدرآباد میں ہے، اور یہ کمپنی فرنیچر سازی کا کام کرتی ہے۔ یہ تقریباً بارہ ہزار روپے کماتی ہے۔ یہ ایک ان پڑھ لڑکی ہے، مگر تربیت یافتہ با صلاحیت ویلڈر ہے۔ بھلا ویلڈنگ ہی کیوں؟ کمپیوٹرز کیوں نہیں؟ ہم نے محسوس کیا کہ ان لڑکیوں میں بے پناہ ہمت ہے۔ ان کے جسم پردوں سے عاری ہیں، ان کے اندر کے حجاب اٹھ چکے ہیں، وہ ان تمام حدود کو پار کرچکی ہیں۔ اب وہ بآسانی مردوں کی اجارہ داری والے اس معاشرے کا مقابلہ کرسکتی ہیں، اور وہ اس میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتیں۔
We have trained girls as carpenters, as masons, as security guards, as cab drivers. And each one of them are excelling in their chosen field, gaining confidence, restoring dignity, and building hopes in their own lives. These girls are also working in big construction companies like Ram-ki construction, as masons, full-time masons.
ان لڑکیوں میں ہمارے پاس تربیت یافتہ بڑھئی ہیں، راج مستری ہیں، محافظ ہیں اور ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ وہ سب بے انتہا ماہر ہیں اپنے منتخب کئے ہوئے شعبے میں، ان کا اعتماد بڑھ رہا ہے کھویا ہوا وقار بحال ہورہا ہے، اپنی زندگی سے ان کی امیدیں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہ لڑکیاں ”رام کی“ جیسی بڑی تعمیراتی کمپنیوں میں بحیثیت کل وقتی مستری کام کررہی ہیں۔
What has been my challenge? My challenge has not been the traffickers who beat me up. I've been beaten up more than 14 times in my life. I can't hear from my right ear. I've lost a staff of mine who was murdered while on a rescue. My biggest challenge is society. It's you and me. My biggest challenge is your blocks to accept these victims as our own.
اس سفر میں میری مشکل کیا رہی؟ میری مشکل وہ اسمگلر نہیں تھے جنہوں نے مجھے مارا پیٹا۔ میں اپنی زندگی میں چودہ سے زیادہ بار پیٹی جاچکی ہوں۔ میں اپنے دائیں کان سے سن نہیں سکتی۔ میرے ساتھ کام کرنے والا میرا ایک ساتھی کسی کو بچاتے ہوئے مارا جا چکا ہے۔ میرے لئے سب سے بڑی مشکل یہ معاشرہ ہے۔ یہ میں اور آپ ہیں۔ میرے لئے سب سے بڑی مشکل آپ کی وہ رکاوٹیں ہیں جو ان متاثرہ لوگوں کو اپنانے کی راہ میں حائل ہیں۔
A very supportive friend of mine, a well-wisher of mine, used to give me every month, 2,000 rupees for vegetables. When her mother fell sick she said, "Sunitha, you have so much of contacts. Can you get somebody in my house to work, so that she can look after my mother?" And there is a long pause. And then she says, "Not one of our girls."
میری ایک بہت ہی مددگار، اور خیرخواہ دوست، ہر ماہ مجھے سبزیاں خریدنے کے لیے دو ہزار روپئے دیا کرتی تھی۔ جب ان کی والدہ بیمار پڑیں وہ مجھ سے بولیں، "سنیتا تمہارے تو بہت سے جاننے والے ہیں۔ کیا تم کسی کو میرے گھر کام کرنے کے لئے بھیج سکتی ہو، تاکہ وہ میری ماں کی دیکھ بھال کرسکے؟" پھر ایک لمبی خاموشی کے بعد وہ بولیں۔ "مگر وہ ہماری لڑکیوں میں سے نہ ہو“۔
It's very fashionable to talk about human trafficking, in this fantastic A-C hall. It's very nice for discussion, discourse, making films and everything. But it is not nice to bring them to our homes. It's not nice to give them employment in our factories, our companies. It's not nice for our children to study with their children. There it ends. That's my biggest challenge.
انسانی تجارت کے بارے میں بات کرنا اب ایک عام رواج بن گیا ہے، ایسے ہی ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر۔ یہ باتیں کرنے لئے بہت اچھا موضوع ہے، فلم بنانے کے لئے اور بہت کچھ ۔ مگر ان متاثرین کو اپنے گھر میں لانا اچھی بات نہیں ہے۔ ان لوگوں کو اپنے اداروں میں نوکریاں دینا اچھی بات نہیں ہے۔ یہ اچھی بات نہیں ہے کہ ہمارے بچے ان کے بچوں کے ساتھ پڑھیں۔ بس - یہ یہی رک جاتا ہے۔ یہ ہے میرے لئے سب سے بڑی مشکل۔
If I'm here today, I'm here not only as Sunitha Krishnan. I'm here as a voice of the victims and survivors of human trafficking. They need your compassion. They need your empathy. They need, much more than anything else, your acceptance.
میں آج یہاں آپ کے سامنے صرف سنیتا کرشنن کی حیثیت سے نہیں ہوں۔ میں یہاں ہوں ان لوگوں کی آواز بن کر جو انسانی تجارت کے ستائے ہوئے ہیں۔ انھیں آپ کی ہمدردی کی ضرورت ہے۔ انھیں آپ کے اچھے سلوک کی ضرورت ہے۔ اور جو چیز انھیں سب سے زیادہ درکار ہے، وہ ہے آپ کا انھیں قبول کرلینا۔
Many times when I talk to people, I keep telling them one thing: don't tell me hundred ways how you cannot respond to this problem. Can you ply your mind for that one way that you can respond to the problem? And that's what I'm here for, asking for your support, demanding for your support, requesting for your support. Can you break your culture of silence? Can you speak to at least two persons about this story? Tell them this story. Convince them to tell the story to another two persons.
میں اکثرجب لوگوں سے گفتگو کرتی ہوں، تو میں ان سے سے ایک بات کہتی ہوں: مجھے وہ سینکڑوں وجوہات نہ بتائیں جن کی وجہ سے آپ اس مسئلے میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکتے۔ کیا آپ اپنے ذہن کو اس ایک عمل کی جانب مرکوز کرسکتے ہیں جس سے آپ اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ اسی لئے آج میں یہاں آپ کے سامنے ہوں، آپ کی مدد لینے، آ پ سے مدد کی طلب کرنے، آپ سے مددکی درخواست کرنے۔ کیا آپ اپنی اس خاموش رہنے کی سماجی روایت کو توڑ سکتے ہیں؟ کیا آپ کم سے کم دو افراد کو یہ کہانی سنا سکتے ہیں؟ انھیں یہ کہانی سنائیے۔ انھیں راضی کیجئے کہ وہ یہ کہانی دو اور لوگوں کو سنائیں۔
I'm not asking you all to become Mahatma Gandhis or Martin Luther Kings, or Medha Patkars, or something like that. I'm asking you, in your limited world, can you open your minds? Can you open your hearts? Can you just encompass these people too? Because they are also a part of us. They are also part of this world. I'm asking you, for these children, whose faces you see, they're no more. They died of AIDS last year. I'm asking you to help them, accept as human beings -- not as philanthropy, not as charity, but as human beings who deserve all our support. I'm asking you this because no child, no human being, deserves what these children have gone through. Thank you. (Applause)
میں نہیں کہتی کہ آپ مہاتما گاندھی بن جائیں یا مارٹن لوتھر کنگ یا میدھا پٹکر، یا ان جیسا کوئی اور بن جائیں۔ میں آپ سے کہتی ہوں کہ اپنی اسی محدود دنیا میں رہتے ہوئے، کیا اپنے ذہنوں کو کھول سکتے ہیں؟ اپنے دلوں کو کشادہ کرسکتے ہیں؟ کیا آپ ان لوگوں کو اپنے حلقوں میں لے سکتے ہیں؟ کیونکہ وہ بھی ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ وہ بھی اس دنیا کے باسی ہیں۔ میں آپ سے ان بچوں کے لئے سوال کرتی ہوں، جو چہرے آپ نے دیکھے وہ اب ہم میں نہیں رہے۔ یہ بچے پچھلے سال ایڈز کی وجہ سے مر گئے۔ میں آپ سے ان ہی کی مدد کا سوال کر رہی ہوں، انھیں انسانوں کی حیثیت سے قبول کریں -- ترس کھا کر نہیں، امداد کے طور پر نہیں، بلکہ انسان ہونے کی حیثیت سے ہر قسم کی امداد ان کا حق ہے۔ میں آپ سے یہ سوال اس لئے کر رہی ہوں، کیوں کہ کسی بچے، کسی بھی انسان کے ساتھ ، یہ سلوک نہیں ہونا چاہئے جو ان کے ساتھ ہوا۔ شکریہ۔ (تالیاں)