Well, that's kind of an obvious statement up there. I started with that sentence about 12 years ago, and I started in the context of developing countries, but you're sitting here from every corner of the world. So if you think of a map of your country, I think you'll realize that for every country on Earth, you could draw little circles to say, "These are places where good teachers won't go." On top of that, those are the places from where trouble comes. So we have an ironic problem -- good teachers don't want to go to just those places where they're needed the most.
یہ تو صاف ظاہر ہے۔ میں نے یہ کام بارہ سال پہلے اس جملے سے شروع کیا، میں نے کام جس پس منظر میں شروع کیا اس کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے، لیکن آج میرے حاضرین کا تعلق دنیا کے ہر کونے سے ہے۔ اگر اپ اپنے ملک کے نقشے پر غور کریں، تو آپ محسوس کریں گے کہ کہ کرہ ارض پر بسنے والے تمام ممالک کے درمیان، آپ ایک دائرہ کھینچ کر کہہ سکتے ہیں، "قابل اسا تذہ ان جگہوں پر جانا پسند نہیں کریں گے." اور اس سے بھی اہم ہے، کہ یہ جگہیں مسائل کی آماجگاہ ہیں۔ تو ہم ایک عجیب و غریب مسئلے سے دوچار ہیں -- قابل اسا تذہ وہاں جانا نہیں چاہتے ان جگہوں پر جہاں ان کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔
I started in 1999 to try and address this problem with an experiment, which was a very simple experiment in New Delhi. I basically embedded a computer into a wall of a slum in New Delhi. The children barely went to school, they didn't know any English -- they'd never seen a computer before, and they didn't know what the internet was. I connected high speed internet to it -- it's about three feet off the ground -- turned it on and left it there. After this, we noticed a couple of interesting things, which you'll see. But I repeated this all over India and then through a large part of the world and noticed that children will learn to do what they want to learn to do.
میں نے 1999میں کام شروع کیا کہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے ایک تجربہ کیا جائے یہ نئی دہلی میں کیا گیا ایک سادہ سا تجربہ تھا۔ میں نے سب سے پہلے ایک کمپیوٹر جوڑا نئی دہلی کی ایک جھونپڑ پٹی کی ایک دیوار میں۔ وہاں بہت کم بچے اسکول جاتے تھے، اور انگریزی زبان سے نا آشنا تھے -- انہوں نے اس سے پہلے کمپیوٹر کبھی نہیں دیکھا تھا، اور وہ نہیں جانتے تھے کہ انٹرنیٹ کیا چیز ہے۔ میں نے اس کمپیوٹر کے ساتھ تیز رفتار انٹرنیٹ جوڑ دیا -- یہ کمپیوٹر زمین سے تین فٹ اونچا ہے-- میں نے کمپیوٹر کو چالو کیا، اور اسے وہاں چلتا چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ہم نے چند دلچسپ باتوں کا مشاہدہ کیا جو ابھی آپ بھی دیکھیں گے۔ بعد ازآں میں نے یہ تجربہ ہندوستان کے باقی شہروں میں بھی کیا اور پھر دنیا کے بیشتر ممالک میں بھی ایسا کیا اور دیکھا کہ بچے کرنا سیکھ لیں گے جو وہ سیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
This is the first experiment that we did -- eight year-old boy on your right teaching his student, a six year-old girl, and he was teaching her how to browse. This boy here in the middle of central India -- this is in a Rajasthan village, where the children recorded their own music and then played it back to each other and in the process, they've enjoyed themselves thoroughly. They did all of this in four hours after seeing the computer for the first time. In another South Indian village, these boys here had assembled a video camera and were trying to take the photograph of a bumble bee. They downloaded it from Disney.com, or one of these websites, 14 days after putting the computer in their village. So at the end of it, we concluded that groups of children can learn to use computers and the internet on their own, irrespective of who or where they were.
یہ پہلا تجربہ تھا جو ہم نے کیا -- آپکے دائیں ہاتھ پر یہ آٹھ سال کا بچہ اپنی ایک چھ سالہ شاگرد لڑکی کو سکھا رہا تھا کہ انٹرنیٹ پر کیسے براؤز کیا جاتا ہے۔ یہ بچہ وسطی ہندوستان کے -- صوبہ راجھستان کے ایک گاؤں سے ہے، یہاں بچے اپنی بنائی ہوئی کوئی دھن ریکارڈ کرتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کو سنانے کے لئے دوبارہ کمپیوٹر پر چلاتے ہیں اور اس عمل کے دوران انہوں نے خوب مزہ کیا۔ انہوں نے یہ سب کچھ صرف چار گھنٹوں میں کیا حالانکہ انہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ کمپیوٹر دیکھا تھا۔ جنوبی ہندوستان کے ایک اور گاؤں میں، لڑکوں نے پرزوں کو جوڑ کر ویڈیو کیمرہ بنا لیا اور وہ اس کیمرے کی مدد سے شہد کی مکھی کی تصویر اتارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھوں نے یہ ڈزنی .کام سے ڈاؤن لوڈ کر لی تھی یا شائد اسکی کسی ویب سائٹ سے، کمپیوٹر ان کے گاؤں میں رکھنے کے صرف چودہ دن بعد۔ اور آخر کار ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ بچوں کے گروہ خود سے کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کا استعمال سیکھ سکتے ہیں، اس سے بالا تر ہو کر کہ وہ کون ہیں یا کہاں رہتے ہیں۔
At that point, I became a little more ambitious and decided to see what else could children do with a computer. We started off with an experiment in Hyderabad, India, where I gave a group of children -- they spoke English with a very strong Telugu accent. I gave them a computer with a speech-to-text interface, which you now get free with Windows, and asked them to speak into it. So when they spoke into it, the computer typed out gibberish, so they said, "Well, it doesn't understand anything of what we are saying." So I said, "Yeah, I'll leave it here for two months. Make yourself understood to the computer." So the children said, "How do we do that." And I said, "I don't know, actually." (Laughter) And I left. (Laughter) Two months later -- and this is now documented in the Information Technology for International Development journal -- that accents had changed and were remarkably close to the neutral British accent in which I had trained the speech-to-text synthesizer. In other words, they were all speaking like James Tooley. (Laughter) So they could do that on their own. After that, I started to experiment with various other things that they might learn to do on their own.
یہ سب کچھ دیکھ کر میرا شوق اور بھی بڑھا تو میں نے فیصلہ کیا کہ چلو دیکھتے ہیں یہ بچے کمپیوٹر کی مدد سے اور کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں. ہم نے اس تجربے کا آغاز حیدرآباد، ہندوستان سے کیا، جہاں میں نے بچوں کے ایک گروہ کو دیا -- بچے، جو خاص تلگو لہجے میں انگریزی بول لیتے تھے۔ میں نے انہیں ایک کمپیوٹر مہیا کیا اس پر بول کر لفظ لکھے جا سکتے تھے، اب آپ اس کو ونڈوز کے ساتھ مفت حاصل کر سکتے ہیں، میں نے ان بچوں سے کہا کہ وہ اس میں کچھ بولیں۔ چنانچہ جب وہ اس میں بولے تو کمپیوٹر نے کچھ مہمل سا لکھ دیا، تو وہ کہنے لگے "اس (کمپیوٹر) کو ہماری کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی ہے ۔" تو میں نے جواب دیا ، "ہاں، میں اس کو دو مہینے کے لیے ادھر تمہارے پاس ہی چھوڑ دوں گا۔ اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرو کمپیوٹر کو۔" بچے کہنے لگے،" ایسا کیسے کر پائیں گے ہم۔" تو میں نے جواب میں کہا "داراصل یہ تو میں بھی نہیں جانتا۔" (ہنسی) اور میں چلا آیا۔ (ہنسی) دو ماہ بعد -- اور یہ لکھا جا چکا ہے آ ئی- ٹی کے بین الاقوامی ترقی کے رسالوں میں -- کہ لہجے بدل چکے ہیں اور وہ کافی حد تک برطانوی لہجے کے قریب ہو چکے ہیں میں نے اسی لہجے کی مطابقت سے اس پروگرام کو تیار کیا تھا۔ یعنی وہ سب جیمز ٹولے کی طرح بول رہے تھے۔ (ہنسی) لہٰذا وہ خود سے یہ سب کر پائے۔ اس کے بعد میں نے مختلف تجربوں کا آغاز کیا مختلف قسم کی چیزوں کے ساتھ تاکہ وہ اپنے طور پر کچھ سیکھ سکیں۔
I got an interesting phone call once from Columbo, from the late Arthur C. Clarke, who said, "I want to see what's going on." And he couldn't travel, so I went over there. He said two interesting things, "A teacher that can be replaced by a machine should be." (Laughter) The second thing he said was that, "If children have interest, then education happens." And I was doing that in the field, so every time I would watch it and think of him.
مجھے کولمبو سے ایک دفعہ ایک دلچسپ ٹیلی فون کال موصول ہوئی، مرحوم آرتھر - سی - کلارک کی طرف سے، انہوں نے کہا "میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے ۔" وہ سفر نہیں کر سکتے تھے لہٰذا میں ان کے پاس گیا۔ انہوں نے دو دلچسپ باتیں کیں، "اایک استاد جس کی جگہ مشین لے سکتی ہے، اس کو مشین سے بدل دینا چا ہیے۔" (ہنسی) اور دوسری بات جو انہوں نے کہی وہ یہ کہ، "اگر بچے دلچسپی لیں تو تعلیم کا حصول ممکن ہے۔" اور میں اس کو عملی میدان میں کر رہا تھا، چنانچہ ہر بار دیکھنے پر یہ ویڈیو مجھے ان کی یاد دلاتی ہے۔
(Video) Arthur C. Clarke: And they can definitely help people, because children quickly learn to navigate the web and find things which interest them. And when you've got interest, then you have education.
(ویڈیو) آرتھر -سی-کلارک : وہ ضرور کر سکتے ہیں لوگوں کی مدد، کیونکہ بچے بہت جلد چلانا سیکھ لیتے ہیں ویب کو اور ان چیزوں کو جو ان کے لئے دلچسپی کا با عث ہوتی ہیں۔ اور جب آپ دلچسپی رکھتے ہوں تو تعلیم کا حصول آپ کے لئے ممکن ہو جاتا ہے۔
Sugata Mitra: I took the experiment to South Africa. This is a 15 year-old boy.
سگاتا مترا: میں نے یہی تجربہ جنوبی افریقہ میں بھی کیا۔ اس لڑکے کی عمر 15 سال ہے۔
(Video) Boy: ... just mention, I play games like animals, and I listen to music.
(ویڈیو) لڑکا : صرف بتائو کہ میں کھیل کھیلتا ہوں جانوروں کی طر ح، اور موسیقی سنتا ہوں۔
SM: And I asked him, "Do you send emails?" And he said, "Yes, and they hop across the ocean." This is in Cambodia, rural Cambodia -- a fairly silly arithmetic game, which no child would play inside the classroom or at home. They would, you know, throw it back at you. They'd say, "This is very boring." If you leave it on the pavement and if all the adults go away, then they will show off with each other about what they can do. This is what these children are doing. They are trying to multiply, I think. And all over India, at the end of about two years, children were beginning to Google their homework. As a result, the teachers reported tremendous improvements in their English -- (Laughter) rapid improvement and all sorts of things. They said, "They have become really deep thinkers and so on and so forth. (Laughter) And indeed they had. I mean, if there's stuff on Google, why would you need to stuff it into your head? So at the end of the next four years, I decided that groups of children can navigate the internet to achieve educational objectives on their own.
ایس - ایم: اور میں نے اس سے پوچھا " تم ای میل بھیج لیتے ہو؟" اور اس نے کہا، "ہاں اور وہ سمندر میں چھلانگیں لگاتی پھرتی ہیں ۔" یہ کمبوڈیا میں ہے، کمبوڈیا کا دیہی علاقہ -- ریاضی کا ایک کافی احمقانہ سا کھیل، کوئی بچہ اسے کمرہ جماعت یا گھر میں تو نہیں کھیل سکتا۔ آپ جانتے ہیں وہ اس کو آپ کے منہ پر ماریں گے۔ وہ کہیں گے "یہ بکواس ہے۔" اگر آپ اس کو گلی میں پھینک دیں اور سب بالغ افراد کہیں چلے جائیں، تو پھر وہ ایک دوسرے پر رعب جمانے کی غرض سے بتانے کی کوشش کریں گے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں۔ یہ بچے بھی یہی کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ ضرب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور پورے ہندوستان میں، تقریباً 2 سال بعد بچوں نے اپنا گھر کا کام گوگل پر تلاش کرنا شروع کر دیا۔ اساتذہ نے بتایا کہ اس کے نتیجے میں بچوں کی انگریزی میں بہت بہتری آئی ہے -- (ہنسی) بہت تیزی سے اور بہت سی چیزوں میں تبدیلی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے یہ مفکر بن گئے ہیں اور اسی طرح کی اور باتیں۔ (ہنسی) اور بلا شبہ وہ ایسا بن گئے ہیں۔ اگر گوگل پر مواد موجود ہے، تو آپکو اسے دماغ میں ٹھونسنے کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ اگلے چار سالوں کے اختتام تک، میں نے تہیہ کیا کہ بچوں کے گروہ انٹرنیٹ پر تلاش کرنا سیکھ جائیں گے تا کہ اپنے تعلیمی اہداف حاصل کر سکیں۔
At that time, a large amount of money had come into Newcastle University to improve schooling in India. So Newcastle gave me a call. I said, "I'll do it from Delhi." They said, "There's no way you're going to handle a million pounds-worth of University money sitting in Delhi." So in 2006, I bought myself a heavy overcoat and moved to Newcastle. I wanted to test the limits of the system. The first experiment I did out of Newcastle was actually done in India. And I set myself and impossible target: can Tamil speaking 12-year-old children in a South Indian village teach themselves biotechnology in English on their own? And I thought, I'll test them, they'll get a zero -- I'll give the materials, I'll come back and test them -- they get another zero, I'll go back and say, "Yes, we need teachers for certain things."
ان دنوں ایک خطیر رقم نیو کاسل یونیورسٹی کو ملی تا کہ ہندوستانی سکولوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ مجھے نیو کاسل والوں نے کام کرنے کو کہا .میں نے بتایا "کہ میں دہلی میں کام کروں گا۔" انہوں نے کہا "ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے آپ لاکھوں پونڈ کی خطیر رقم جو یونیورسٹی کی ہے دہلی میں بیٹھ کر خرچ کریں۔" سو 2006 میں، میں نے ایک بھری بھرکم اوور کوٹ خریدا اور نیو کاسل چلا گیا۔ میں متعین کردہ حدود آزمانا چاہتا تھا نظام کی۔ پہلا تجربہ جو میں نے نیو کاسل سے کیا وہ دراصل میں ہندوستان میں کر چکا تھا۔ اور میں نے اپنے لئے ایک نا ممکن ہدف مقرر کیا: کیا تامل بولنے والے بارہ سال تک کی عمر کے بچے جنوبی ہندوستان کے گاوں میں خود کو حیاتی طرزیات کی تعلیم دے سکتے ہیں انگریزی زبان میں، خود سے؟ میں نے سوچا, میں ان کا امتحان لوں گا, وہ ناکام ہو جائیں گے -- میں انھیں کچھ مواد مہیا کروں گا اور پھر واپس آ کر ان کا امتحان لوں گا -- وہ پھر ناکام ہو جائیں گے، تو میں واپس آ کر کہوں گا، "ہاں چند چیزوں کی تعلیم کے لئے ہمیں اسا تذہ کی ضرورت ہوتی ہے۔"
I called in 26 children. They all came in there, and I told them that there's some really difficult stuff on this computer. I wouldn't be surprised if you didn't understand anything. It's all in English, and I'm going. (Laughter) So I left them with it. I came back after two months, and the 26 children marched in looking very, very quiet. I said, "Well, did you look at any of the stuff?" They said, "Yes, we did." "Did you understand anything?" "No, nothing." So I said, "Well, how long did you practice on it before you decided you understood nothing?" They said, "We look at it every day." So I said, "For two months, you were looking at stuff you didn't understand?" So a 12 year-old girl raises her hand and says, literally, "Apart from the fact that improper replication of the DNA molecule causes genetic disease, we've understood nothing else."
میں نے 26 بچوں کو چنا۔ ان سب کو میں نے اکھٹا کیا اور بتایا کہ اس کمپیوٹر میں خاصا مشکل مواد ہے۔ اگر تمہاری سمجھ میں کچھ نہ آیا تو مجھے حیرانی نہیں ہو گی۔ یہ سب انگریزی زبان میں ہے، اچھا میں چلتا ہوں۔ (ہنسی) تو میں انہیں اس کے سہارے چھوڑ آیا۔ میں دو ماہ بعد لوٹا، اور وہ 26 بچے چپ چاپ میری طرف بڑھے۔ میں نے کہا، "آپ نے اس مواد میں سے کچھ دیکھا؟" انھوں نے کہا، "ہاں ہم نے دیکھا۔" "کچھ سمجھ میں آیا؟ " نہیں، کچھ نہیں۔ " تو میں نے کہا، "اچھا تم نے اس پر کتنی مشق کی یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کہ تمہاری سمجھ میں کچھ نہیں آیا؟" انہوں نے کہا، "ہم روز اس کو دیکھتے تھے۔" تو میں نے کہا، "تو تم دو ماہ تک ایسا مواد دیکھتے رہے جو تمہاری سمجھ سے با لا تر تھا؟ " 12 سال کی ایک بچی نے ہاتھ اٹھایا اور کہنے لگی حقیقت یہ ہے "اس بات کے علاوہ کہ ڈی. این . اے سالموں کی بے قاعدہ تخلی موروثی بيماريوں کا مؤجب ہو سکتی ہے، اس سے زيادہ ہماری سمجھ ميں کچھ نيہں آيا۔"
(Laughter)
(ہنسی)
(Applause)
(تالیاں)
(Laughter)
(ہنسی)
It took me three years to publish that. It's just been published in the British Journal of Educational Technology. One of the referees who refereed the paper said, "It's too good to be true," which was not very nice. Well, one of the girls had taught herself to become the teacher. And then that's her over there. Remember, they don't study English. I edited out the last bit when I asked, "Where is the neuron?" and she says, "The neuron? The neuron," and then she looked and did this. Whatever the expression, it was not very nice.
مجھے تین سال کا عرصہ لگا اس کی اشاعت میں۔ یہ ابھی برطانوی جریدے براِئے تعلیمی ٹیکنالوجی میں شائع ہوا ہے۔ ایک حوالہ دینے والے نے کہا "بہت اچھی بات ہے کہ سچ بولا جائے،" جو کہ ذیادہ اچھا نہیں تھا۔ ان میں سے ایک لڑکی نے خود سے سیکھا تا کہ دوسروں کو سکھا سکے. پھر یہ وہ ہے وہاں پر۔ یاد رہے، وہ انگریزی زبان نہیں پڑھتے۔ ابھی تو میں نے آخری حصہ حذف کردیا تھا جہاں میں نے پوچھا، " نیورون کہاں ہے؟" اور اس نے کہا، "نیورون، یعنی نیورون،" اور پھر اس نے دیکھا ور یہ کیا۔ جو بھی تاثر تھا، بہت اچھا نہیں تھا۔
So their scores had gone up from zero to 30 percent, which is an educational impossibility under the circumstances. But 30 percent is not a pass. So I found that they had a friend, a local accountant, a young girl, and they played football with her. I asked that girl, "Would you teach them enough biotechnology to pass?" And she said, "How would I do that? I don't know the subject." I said, "No, use the method of the grandmother." She said, "What's that?" I said, "Well, what you've got to do is stand behind them and admire them all the time. Just say to them, 'That's cool. That's fantastic. What is that? Can you do that again? Can you show me some more?'" She did that for two months. The scores went up to 50, which is what the posh schools of New Delhi, with a trained biotechnology teacher were getting.
تو ان کے نتائج صفر سے تیس فیصد پر جا پہنچے، جو ان حالالت میں غیر معمولی تعلیمی کامیابی ہے۔ لیکن تیس فیصد کامیابی کا میعار نہیں۔ پھر مجھے پتا چلا کہ ان کا کوئی دوست تھا، ایک نوجوان لڑکی، مقامی اکاؤنٹنٹ، وہ اس کے ساتھ فٹ بال کھیلتے تھے۔ میں نے اس لڑکی سے پوچھا " کیا تم ان کو پڑھانا چاہو گی اتنی حیاتی طرزیات کہ یہ پاس ہو جائیں؟ اور اس نے کہا، "میں کیسے پڑھاؤں گی؟ میں اس مضمون کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔" میں نے کہا، "نہیں دادی ماں کا طریقہ اپناؤ۔" وہ پوچھنے لگی، "وہ کیا ہے؟" میں نے کہا، " تمہیں یہ کرنا ہو گا کہ ان کے پیچھے کھڑی رہنا اور ہر وقت ان کی حوصلہ افزائی کرتی رہنا۔ صرف کہتی رہنا، 'بہت اچھا، یہ زبردست ہے۔ وہ کیا ہے؟ کیا تم اسے دوبارہ کر سکتے ہو؟ کیا تم مجھے کچھ اور دکھا سکتے ہو؟"' اس نے دو ماہ تک یہ کیا۔ تائج پچاس فیصد تک پہنچ گئے، دہلی کے کسی بھی بڑھیا سکول کی طرح، جہاں حیاتی طرزیات کے ماہر استاد موجود تھے۔
So I came back to Newcastle with these results and decided that there was something happening here that definitely was getting very serious. So, having experimented in all sorts of remote places, I came to the most remote place that I could think of. (Laughter) Approximately 5,000 miles from Delhi is the little town of Gateshead. In Gateshead, I took 32 children and I started to fine-tune the method. I made them into groups of four. I said, "You make your own groups of four. Each group of four can use one computer and not four computers." Remember, from the Hole in the Wall. "You can exchange groups. You can walk across to another group, if you don't like your group, etc. You can go to another group, peer over their shoulders, see what they're doing, come back to you own group and claim it as your own work." And I explained to them that, you know, a lot of scientific research is done using that method.
تو میں نیو کاسل واپس آیا ان نتائج کے ساتھ اور میں نے فیصلہ کیا کہ یہاں کچھ ہو رہا ہے جو یقیناً سنجیدہ نوعیت کا حامل تھا۔ چنانچہ ہر قسم کی دور دراز جگہوں پر تجربات کرنے کے بعد، میں اپنی سوچ کے مطابق سب سے دور جگہ پر آ گیا۔ (ہنسی) دہلی سے تقريباً 5,000 ميل دور گيٹس ہيڈ کا چھوٹا سا قصبہ ہے۔ گیٹس ہیڈ سے میں نے 32 بچے لیے ميں طريقہ کار ميں بہتری لایا۔ ميں نے انہيں چار چار کے گروہ ميں تقسيم کيا۔ میں نے کہا، "اپنی مرضی سے چار بچے اکھٹے ہو جائیں۔ چار بچوں کا گروپ ایک کمپیوٹر استعمال کرے گا نہ کہ چار کمپیوٹر۔" یاد ہے، دیوار کے سوراخ میں سے . "آپ اپنا گروہ بدل سکتے ہیں. آپ کسی بھی دوسرے گروہ میں جا سکتے ہیں، اگر آپ کو اپنا گروپ پسند نا آئے تو، وغیرہ وغیرہ۔ آپ دوسرے گروہ میں جا سکتے ہیں، ان کے کندھوں پر سے جھانکیں کہ وہ کیا کررہے ہیں، اپنے گروہ میں واپس آئیں اور ان پر ظاہر کریں کہ جیسے یہ آپ کا علم ہے۔" اور میں نے انہیں یہ وضاحت سے سمجھایا کہ آپ جانتے ہیں کہ بیشتر سائنسی تحقیقات انہی طریقوں کی مدد سے کی جاتی ہیں۔
(Laughter)
(ہنسی)
(Applause)
(تالیاں)
The children enthusiastically got after me and said, "Now, what do you want us to do?" I gave them six GCSE questions. The first group -- the best one -- solved everything in 20 minutes. The worst, in 45. They used everything that they knew -- news groups, Google, Wikipedia, Ask Jeeves, etc. The teachers said, "Is this deep learning?" I said, "Well, let's try it. I'll come back after two months. We'll give them a paper test -- no computers, no talking to each other, etc." The average score when I'd done it with the computers and the groups was 76 percent. When I did the experiment, when I did the test, after two months, the score was 76 percent. There was photographic recall inside the children, I suspect because they're discussing with each other. A single child in front of a single computer will not do that. I have further results, which are almost unbelievable, of scores which go up with time. Because their teachers say that after the session is over, the children continue to Google further.
بچے جوش و خروش سے میرے پیچھے پڑ گئےاور کہا، "اب ہمیں کیا کرنا ہو گا" میں نے انھیں کیمرج کی سطح کے چھ سوالات دیے۔ پہلا گروہ -- جو سب سے بہتر تھا -- انہوں نے بیس منٹ میں سب حل کر ڈالا۔ سب سے بروں نے پینتالیس منٹ میں۔ جو کچھ وہ جانتے تھے انھوں نے سب کا استعمال کر ڈالا -- خبریں، گوگل ، وکی پیڈیا، Ask Jeeves وغیرہ وغیرہ ۔ استادوں نے کہا، " کیا یہ حقیقی علم ہے؟" میں نے کہا، " چلئے اس کو آزماتے ہیں۔ میں دو ماہ بعد واپس آئوں گا۔ ہم انھیں تحریری امتحان دیں گے -- نہ کوئی کمپیوٹر ہو گا، نہ آپس میں بات چیت، وغیرہ وغیرہ۔" جب میں نے کمپیوٹر اور گروہوں کے ساتھ کیا تھا تو اوسط نتیجہ 76 فیصد تھا۔ جب میں نے تجربہ کیا، تحریری امتحان لیا تو دو ماہ بعد نتیجہ، 76 فیصد تھا۔ وہاں ہوبہو عکس اتارا گیا اس کا جو بچوں کے اندر تھا، میرا خیال ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے سے اس بارے میں بات کر رہے تھے۔ اکیلا بچہ ایک کمپیوٹر کے سامنے ایسا نہیں کرے گا۔ میرے پاس اور نتائج بھی ہیں، جو کہ تقریباً نا قابل یقین ہیں، نتائج جو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہو رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے اساتذہ کہتے ہیں سیشن ختم ہونے کے بعد، بچے گوگل پر کام جاری رکھتے ہیں۔
Here in Britain, I put out a call for British grandmothers, after my Kuppam experiment. Well, you know, they're very vigorous people, British grandmothers. 200 of them volunteered immediately. (Laughter) The deal was that they would give me one hour of broadband time, sitting in their homes, one day in a week. So they did that, and over the last two years, over 600 hours of instruction has happened over Skype, using what my students call the granny cloud. The granny cloud sits over there. I can beam them to whichever school I want to.
ادھر برطانیہ میں، میں نے کام کا آغاز کیا برطانوی دادیوں کے ساتھ، کپام میں تجربے کے بعد ۔۔ آپ جانتے ہیں، وہ بہت زبردست لوگ ہیں، برطانوی دادیاں۔ ان میں سے 200 نے فوراً رضا کارانہ طور پر حامی بھر لی۔ (ہنسی) طے یہ پایا کہ وہ مجھے دیں گی انٹرنیٹ پر ملاقات کا ایک گھنٹہ، اپنے گھر بیٹھے بیٹھے، ہفتے میں ایک دن۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، اور گزشتہ دو سال سے 600 گھنٹوں سے زیادہ کی تدریس سکا ئیپ پر ہوئی ہے، اس کے استعمال سے جسے میرے شاگرد " گرینی کلاؤڈ " کہتے ہیں۔ گرینی کلاؤڈ وہاں بیٹھتا ہے۔ میں کسی بھی اسکول کے ساتھ ان کا رابطہ کروا سکتا ہوں۔
(Video) Teacher: You can't catch me. You say it. You can't catch me.
(ویڈیو) استاد : تم مجھے نہیں پکڑ سکتے تم بولو۔ تم مجھے نہیں پکڑ سکتے۔
Children: You can't catch me.
بچے: تم مجھے نہیں پکڑ سکتے۔
Teacher: I'm the gingerbread man.
استاد: میں جنجر بریڈ مین ہوں۔
Children: I'm the gingerbread man.
بچے: میں جنجر بریڈ مین ہوں۔
Teacher: Well done. Very good ...
استاد: بہت اچھے۔ شاباش --
SM: Back at Gateshead, a 10-year-old girl gets into the heart of Hinduism in 15 minutes. You know, stuff which I don't know anything about. Two children watch a TEDTalk. They wanted to be footballers before. After watching eight TEDTalks, he wants to become Leonardo da Vinci.
ایس ایم: واپس گیٹس ہیڈ میں، دس سالہ بچی ہندومت کے مرکز میں پہنچ سکتی ہے صرف پندرہ منٹ میں۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک ایسی بات جس کا مجھے بلکل علم نہیں۔ دو بچے ٹیڈ ٹاک دیکھتے ہیں۔ پہلے وہ فٹ بالر بننا چاہتے تھے۔ آٹھ عدد ٹیڈ ٹاک دیکھنے کے بعد، وہ لیو نارڈو د ونچی بننا چا ہتا ہے۔
(Laughter)
(ہنسی)
(Applause)
(تالیاں)
It's pretty simple stuff.
یہ بہت سادہ سی چیز ہے۔
This is what I'm building now -- they're called SOLEs: Self Organized Learning Environments. The furniture is designed so that children can sit in front of big, powerful screens, big broadband connections, but in groups. If they want, they can call the granny cloud. This is a SOLE in Newcastle. The mediator is from Pune, India.
اب میں اسکو بنا رہا ہوں -- ان کو کہتےہیں، سولز, سیلف آرگنايزڈ لرننگ انوايرمنٹ۔ فرنیچر تیار کیا جاتا ہے تا کہ بچے ایک بہت بڑی طاقتور سکرین کے سامنے بیٹھ سکیں، بڑے بروڈ بینڈ کنیکشن، لیکن گروہوں کی شکل میں۔ اگر وہ چاہیں تو گرينی کلاؤڈ کہہ سکتے ہیں۔ یہ نیو کا سیل کا 'سول' ہے۔ معاون کا تعلق پونے، ہندوستان سے ہے۔
So how far can we go? One last little bit and I'll stop. I went to Turin in May. I sent all the teachers away from my group of 10 year-old students. I speak only English, they speak only Italian, so we had no way to communicate. I started writing English questions on the blackboard. The children looked at it and said, "What?" I said, "Well, do it." They typed it into Google, translated it into Italian, went back into Italian Google. Fifteen minutes later -- next question: where is Calcutta? This one, they took only 10 minutes. I tried a really hard one then. Who was Pythagoras, and what did he do? There was silence for a while, then they said, "You've spelled it wrong. It's Pitagora." And then, in 20 minutes, the right-angled triangles began to appear on the screens. This sent shivers up my spine. These are 10 year-olds. Text: In another 30 minutes they would reach the Theory of Relativity. And then?
بتانے کو بہت کچھ ہے، لیکن اس چھوٹی سی بات کے ساتھ میں ختم کروں گا۔ مئی کے مہینے میں، میں ترین گیا۔ میں نے اپنے دس سال کی عمر کے بچوں کے گروہ کو، اساتذہ سے الگ کر دیا۔ میں صرف انگریزی بولتا ہوں اور وہ صرف اطالوی، تو ہمارے پاس ابلاغ کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا۔ میں نے تختہ سیاه پر انگریزی میں سوال لکھنا شروع کِیے۔ بچوں نے دیکھا اور کہا، " یہ کیا ہے؟" میں نے کہا، " اسے حل کرو۔" انھوں نے اسے گوگل میں لکھا اور اس کا ترجمہ اطالوی زبان میں کر لیا، پھر واپس اطالوی گوگل پر چلے گئے۔ پندرہ منٹ کے بعد -- اگلا سوال، کلکتہ کہاں ہے؟ اس دفعہ انہیں صرف دس منٹ لگے۔ پھر میں نے نہایت مشکل سوال پوچھا۔ فيثا غورث کون تھا اور اس نے کيا کيا؟ کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی، پھر انہوں نے کہا، "آپ نے غلط ہیجے بتائے ہیں۔ یہ ہے پیتا گورا۔" اور پھر، 20 منٹ میں مختلف زاویے سکرین پر ابھرنا شروع ہو گئے۔ اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یہ دس سال کے بچے ہیں۔ اگلے دس منٹ ميں وہ ريلیٹيويٹی تھيوری پر پہنچ جا ٔيیں گے۔ اور پھر؟
(Laughter)
(ہنسی)
(Applause)
(تالیاں)
SM: So you know what's happened? I think we've just stumbled across a self-organizing system. A self-organizing system is one where a structure appears without explicit intervention from the outside. Self-organizing systems also always show emergence, which is that the system starts to do things, which it was never designed for. Which is why you react the way you do, because it looks impossible. I think I can make a guess now -- education is self-organizing system, where learning is an emergent phenomenon. It'll take a few years to prove it, experimentally, but I'm going to try. But in the meanwhile, there is a method available. One billion children, we need 100 million mediators -- there are many more than that on the planet -- 10 million SOLEs, 180 billion dollars and 10 years. We could change everything.
ایس ایم: آپ جانتے ہیں کہ ہوا کیا؟ میرا خیال ہے کہ ہم اچانک پہنچ گئے ہیں ایک خود ساختہ منظم نظام کے پاس۔ ایک خود ساختہ منظم نظام وہ ہے جہاں پر ایک ایسا ڈھانچہ ابھرتا ہے جس میں کوئی بیرونی مداخلت نہیں ہوتی۔ خود ساختہ منظم نظام ہمیشہ کچھ ایسے ابھرتے ہیں، کہ نظام خود بخود وہ کام کرنا شروع ہو جاتا ہے، جس کے لئے وہ بنا ہی نہیں تھا۔ اسی لئے آپ کا ردعمل وہی ہے جو ہونا چاہیے، کیونکہ یہ نا ممکن نظر آتا ہے۔ میرا خیال ہے اب میں اندازہ کر سکتا ہوں -- تعلیم خود سے منظم کیا ہوا ایک نظام ہے، جہاں سیکھنا ايک ابھرتا ہوا رجحان ہے۔ مجھے اس تجربے کو ثابت کرنے میں کچھ سال لگیں گے، لیکن میں کوشش کروں گا۔ اس دوران ایک طریقہ کار موجود ہے۔ ایک ارب بچوں کے لئے دس کروڑ معاون چاہیں -- اس زمین پر اس سے بھی زیادہ موجود ہیں -- دس لاکھ 'سولز'، ایک سو اسی کھرب ڈالر اور دس سال۔ ہم سب کچھ بدل سکتے ہیں۔
Thanks.
شکریہ۔
(Applause)
(تالياں)