I have a tough job to do. You know, when I looked at the profile of the audience here, with their connotations and design, in all its forms, and with so much and so many people working on collaborative and networks, and so on, that I wanted to tell you, I wanted to build an argument for primary education in a very specific context. In order to do that in 20 minutes, I have to bring out four ideas -- it's like four pieces of a puzzle. And if I succeed in doing that, maybe you would go back with the thought that you could build on, and perhaps help me do my work.
میں ایک مشکل کام کرنے جا رہا ہوں - آپ کو بتاؤں، جب میں نے یہاں موجود لوگوں کے بارے میں معلوم کیا ، انکی سوچ اور نظریے کے بارے میں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں ، اور اس میں اتنے زیادہ لوگ جو اتنے زیادہ کام کر رھے ہیں مختلف قسم کے اشتراک اور گروپ میں، تو میں نے چاہا کہ میں آپکو بتا سکوں ، کہ میں پرایمری تعلیم کی تعمیرنو کے لئے اپنا پلان ایک خاص مقصدیت کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں - یہ سب 20 منٹ میں مکمل کرنے کے لئے، -- مجھے آپ کے سامنے چار تصور پیش کرنے ہیں یہ ایک ایسی پہیلی کی طرح ہے جس کے چار حصے ہیں - اور اگر میں اسکو صحیح طرح سے پیش کر سکا تو ، شاید آپ اس احساس کے ساتھ واپس جائیں گے کہ ہاں! اس پر کام ہو سکتا ہے، اور یہ ایک طرح سے میری اس کام میں مدد ہو جاۓ گی -
The first piece of the puzzle is remoteness and the quality of education. Now, by remoteness, I mean two or three different kinds of things. Of course, remoteness in its normal sense, which means that as you go further and further away from an urban center, you get to remoter areas. What happens to education? The second, or a different kind of remoteness is that within the large metropolitan areas all over the world, you have pockets, like slums, or shantytowns, or poorer areas, which are socially and economically remote from the rest of the city, so it's us and them. What happens to education in that context? So keep both of those ideas of remoteness.
پہیلی کے پہلے حصے کا تعلق دوری (فاصلے) سے ہے اور اس سے تعلیمی معیار پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں - دوری سے میری مراد، دو یا تین مختلف قسم کی چیزیں ہیں - اور پہلی مراد، تو دوری کے عام معنی ہی ہیں، یعنی آپ جتنا دور سے دور ہوتے جاییں گے شہروں سے جتنا دور ہونگے، اسکو ہم اسی حساب سے دوری کہیں گے - تو اس دوری سے تعلیم پر کیا اثرات ہونگے؟ اس سے دوسری مراد، مختلف قسم کی دوری ہے کہ بڑے بڑے شہروں کے بیچ میں بھی دوریاں ہوتی ہیں، اور یہ پوری دنیا میں ہے ، انکو آپ کچی آبادیاں، جھونپڑیاں، یا سلمز کہتے ہیں ، جو کہ معاشی اور معاشرتی سطح پر شہروں کے اندر ہو کر بھی شہروں سے دور ہوتے ہیں، اور دونوں میں واضح فرق ہوتا ہے - تو یہاں پر تعلیم کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ تو جب ہم بات کو آگے چلائیںگے، تو آپ نے ان دونوں دوری کے نظریات کو یاد رکھنا ہے -
We made a guess. The guess was that schools in remote areas do not have good enough teachers. If they do have, they cannot retain those teachers. They do not have good enough infrastructure. And if they had some infrastructure, they have difficulty maintaining it. But I wanted to check if this is true. So what I did last year was we hired a car, looked up on Google, found a route into northern India from New Delhi which, you know, which did not cross any big cities or any big metropolitan centers. Drove out about 300 kilometers, and wherever we found a school, administered a set of standard tests, and then took those test results and plotted them on a graph. The graph was interesting, although you need to consider it carefully. I mean, this is a very small sample; you should not generalize from it. But it was quite obvious, quite clear, that for this particular route that I had taken, the remoter the school was, the worse its results seemed to be. That seemed a little damning, and I tried to correlate it with things like infrastructure, or with the availability of electricity, and things like that.
ہم نے ایک مفروضہ قائم کیا، اور مفروضہ یہ تھا کہ جو سکول دور ہیں وہاں پر اچھے ٹیچرز میسر نہیں ہیں - اور اگر انکے پاس اچھے ٹیچرز آ بھی جاییں تو وہ زیادہ عرصہ وہاں نہیں رہیں گے - پھر انکے پاس بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتی ہیں - اگر کسی طرح سے یہ ضروریات پوری کر دی جائیں تو پھر ، انکو قائم رکھنا ، سنبھالنا ایک مسئلہ ہے - اپنے اس مفروضے کو جانچنے کے لیے میں نے پچھلے سال یہ کیا کہ ہم نے ایک کار کرایہ پر لی، اور گوگل کے نقشہ کی مدد سے ، انڈیا کے شمال میں دہلی سے ایک راستے کو چنا آپکو شاید اندازہ ہو، کہ اس رستے کے بیچ کوئی بڑا شہر نہیں تھا نہ کوئی میٹروپولیٹن تھا, ہم نے 300 میل کا فاصلہ طے کیا ، اور ہمیں جہاں بھی سکول ملا ہم نے وہاں چند مخصوص ٹیسٹ کیے ، اور پھر ہم نے ان ٹیسٹوں کو جانچا اور انکا موازنہ کیا - اس سے چند دلچسپ نتایچ سامنے آے، اس کو ذرا غور سے دیکھنا پڑے گا - یہ چند مخصوص سکولوں سے حاصل کردہ نتایج ہیں ؛ انکو تمام سکولوں پر تعمیل نہیں کیا جانا چاہیے - لیکن نتائج کافی واضح، اور صاف تھے ، اور ہم نے جو طریقہ اختیار کیا تھا ، اس میں جو سکول جتنا دور تھا، اسکے نتایج اتنے ہی خراب تھے - یہ بہت برا شگون لگ رہا تھا - تو ہم نے اسکو چند چیزوں کے ساتھ جوڑنا شروع کیا، جیسے بنیادی ضروری چیزوں کی موجودگی ، یا بجلی کا ہونا یا نہ ہونا، اور اسی طرح کی چیزیں -
To my surprise, it did not correlate. It did not correlate with the size of classrooms. It did not correlate with the quality of the infrastructure. It did not correlate with the poverty levels. It did not correlate. But what happened was that when I administered a questionnaire to each of these schools, with one single question for the teachers -- which was, "Would you like to move to an urban, metropolitan area?" -- 69 percent of them said yes. And as you can see from that, they say yes just a little bit out of Delhi, and they say no when you hit the rich suburbs of Delhi -- because, you know, those are relatively better off areas -- and then from 200 kilometers out of Delhi, the answer is consistently yes. I would imagine that a teacher who comes or walks into class every day thinking that, I wish I was in some other school, probably has a deep impact on what happens to the results. So it looked as though teacher motivation and teacher migration was a powerfully correlated thing with what was happening in primary schools, as opposed to whether the children have enough to eat, and whether they are packed tightly into classrooms and that sort of thing. It appears that way.
تو میرے لئے حیران کن چیز یہ تھی کہ ان چیزوں سے انکا تعلق نہیں بن رہا تھا - کلاس روم کے سایز سے فرق نہیں پڑ رہا تھا - ضروری اشیاء کی موجودگی یا انکے معیار سے فرق نہیں پڑ رہا تھا - اور نہ اسکا تعلق غربت سے بن رہا تھا، جی ھاں غربت سے بھی نہیں - لیکن جب میں ان سکولوں میں ایک سوالنامہ بھیجا اس میں ٹیچرز سے ایک سوال پوچھا گیا تھا، اور وہ یہ تھا کہ، "کیا آپ شہروں میں جا کر پڑھانا پسند کریں گے " -- تو 69 فیصد کا جواب ہاں میں تھا، اور جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ھیں، انکا جواب تھا، دہلی سے تھوڑا باہر ، اور دہلی کے امیر حصوں سے ٹیچرز کا جواب نہیں میں تھا -- اور وجہ آپ جانتے ہیں، کیونکہ وہ نسبتا بہتر علاقے میں ہیں -- اور دہلی سے 200 کلومیٹر باہر والوں کا جواب مستقل طور پر ہاں میں ہی تھا - آپ ذرا ایسے ٹیچر کے بارے میں سوچیے جو روزانہ جب کلاس میں آۓ تو اسکی سوچ اور خواہش یہ ہو کہ کاش وہ کسی اور علاقے میں پڑھا رہا ہوتا ، تو ظاہر ہے اس سوچ کا اس کلاس کے نتائج پر بہت گہرا اثر ہوتا ہو گا - اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اساتذہ کی ترغیب اور نقل مکانی کی خواہشات کا ہمارے پرائمری سکول میں تعلیم کے معیار سے گہرا تعلق ہے ، بجاۓ اسکے کہ اس چیز سے تعلق ثابت کیا جائے کہ بچوں کو کھانے کےلیے کتنا مل رہا ہے ، یا کلاس روم میں بٹھاۓ گۓ بچوں کی تعداد سے یا اس طرح کی کوئی اور چیز- اور بظاہر یہ نتیجہ درست لگتا ہے -
When you take education and technology, then I find in the literature that, you know, things like websites, collaborative environments -- you've been listening to all that in the morning -- it's always piloted first in the best schools, the best urban schools, and, according to me, biases the result. The literature -- one part of it, the scientific literature -- consistently blames ET as being over-hyped and under-performing. The teachers always say, well, it's fine, but it's too expensive for what it does. Because it's being piloted in a school where the students are already getting, let's say, 80 percent of whatever they could do. You put in this new super-duper technology, and now they get 83 percent. So the principal looks at it and says, 3 percent for 300,000 dollars? Forget it. If you took the same technology and piloted it into one of those remote schools, where the score was 30 percent, and, let's say, took that up to 40 percent -- that will be a completely different thing. So the relative change that ET, Educational Technology, would make, would be far greater at the bottom of the pyramid than at the top, but we seem to be doing it the other way about.
جب ہم تعلیم اور ٹیکنالوجی کی بات کرتے ہیں ، تو ہمارا ادب ہمیں یہ بتاتا ہےکہ چیزیں جو ہم عام طور پر جانتے ہیں، جیسے ویب ساتیٹس، اشتراکی ماحول وغیرہ -- آپ صبح سے اس طرح کی کافی باتیں سن چکے ہیں -- اس طرح کی تمام چیزوں کا آغاز بہتریں سکولوں سے کیا جاتا ہے ، اور میرے خیال میں جو رزلٹ دکھاۓ جاتے ہیں، انکے نتائج صحیح زاویہ سے نہیں بتاۓ جاتے - ہمارا ادب -- خاص طور پر ساتینسی ادب والا حصہ -- ہمیں ہمیشہ بتاتا ہے کہ تعلیمی ٹیکنالوجی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ اسکی کارکردگی کم ہوتی ہے - ٹیچرز کا خیال ہے کہ اس سے جو کام لیا جاتا ہے ، اس کے اخراجات اس کے حاصل کردہ نتائج سےکہیں زیادہ ہیں - کیونکہ اس کا تجربہ وہاں کیا جاتا ہے جہاں طلباء پہلے سے ہی ، بہتر نتائج حاصل کر رہے ہیں، مثلا ایسی جگہیں جہاں وہ جتنا کر سکتے ہیں اسکا 80 فیصد کر رہے ہیں - آپ ایسے سکول میں اس جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کریں تو یہ رزلٹ 80 سے 83 فیصد پر چلا جاۓ گا - تو ہیڈ ماسٹر رزلٹ دیکھ کر تو یہی کہے گا، 3 فیصد بہتری کےلیے 3 لاکھ ڈالر، چھوڑو بھائی - لیکن اگر آپ اسی تجربے کو ایک دور دراز کے سکول میں استعمال کریں ، جہاں آپ اگر 30 فیصد کے رزلٹ کو 40 فیصد تک لے جائیں -- تو نتیجہ بالکل مختلف ہوگا - تو تعلیمی ٹیکنالوجی جو فرق ڈال سکتی ہے ، تو یہ فرق پیرامڈ کے نیچے والے حصے میں کافی زیادہ ہو گا، اسکے کے اسکو اوپر والے حصے کے بجاۓ ، لیکن ھم اسکو ہمیشہ اوپر والے حصے میں (امیرعلاقے کے سکولوں) میں استعمال کرتے ہیں -
So I came to this conclusion that ET should reach the underprivileged first, not the other way about. And finally came the question of, how do you tackle teacher perception? Whenever you go to a teacher and show them some technology, the teacher's first reaction is, you cannot replace a teacher with a machine -- it's impossible. I don't know why it's impossible, but, even for a moment, if you did assume that it's impossible -- I have a quotation from Sir Arthur C. Clarke, the science fiction writer whom I met in Colombo, and he said something which completely solves this problem. He said a teacher than can be replaced by a machine, should be. So, you know, it puts the teacher into a tough bind, you have to think. Anyway, so I'm proposing that an alternative primary education, whatever alternative you want, is required where schools don't exist, where schools are not good enough, where teachers are not available or where teachers are not good enough, for whatever reason. If you happen to live in a part of the world where none of this applies, then you don't need an alternative education. So far I haven't come across such an area, except for one case. I won't name the area, but somewhere in the world people said, we don't have this problem, because we have perfect teachers and perfect schools. There are such areas, but -- anyway, I'd never heard that anywhere else.
تو تعلیمی ٹیکنالوجی کے بارے میں میری راے یہ ہے کہ یہ امیر کے بجاے غریب اور دور دراز کے علاقوں میں پہلے استعمال ہونی چاہیے - اور آخری سوال یہ ھے کہ آپ اساتذہ کی سوچ کا کیا کریں گے؟ جب بھی آپ کسی استاد کو جا کر نئی ٹیکنالوجی دکھائیں تو ، استاد کا پہلا ردعمل ہوتا ہے ، ایک مشین ٹیچر کا متبادل نہیں ہو سکتی ہے، یہ ناممکن ہے - یہ ناممکن کیوں ہے، اسکو تھوڑی دیر کے لیے سائیڈ پر کر دیں ، اگر آپ نے یہ فرض کر لیا کہ یہ ناممکن ہے تو میں آپکو سر آرتھر سی - کلارک کی ایک زریں قول سناتا ہوں ، ایک سائینس فکشن کے مصنف جن سے میری ملاقات کولمبو میں ہوئی ، انہوں نے جو کہا وہ اس مسئلے کو مکمل طور پر حل کر دینے کے لیے کافی ہے - انہوں نے کہا کہ ایسے ٹیچروں کو جنہیں مشین سے تبدیل کیا جاسکتا ہے ، انہیں کردینا چاہیے - تو یہ بیان ایک ٹیچرکو مشکل میں ڈال دیتا ہے، اور اسکو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے - تو میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہمیں ایک متبادل پرائمری تعلیم چاہیے ، کوئی بھی متبادل جو آپ کو پسند آئے، ان جگہوں پر جہاں پرائمری سکول نہیں ہیں ، جہاں سکولوں کی کارکردگی اچھی نہیں ہے، اور جہاں پر ٹیچر میسر نہیں ہیں یا جہاں کسی بھی وجہ سے ٹیچر کا معیار اچھا نہیں ہے - اور اگر آپ کسی ایسی جگہ پر ہیں جہاں اس طرح کے کوئی بھی مسائل نہیں ہیں تو ، تو پھر متبادل پرائمری نظام تعلیم آپکی ضرورت نہیں ہے - آج تک مجھے کسی ایسی جگہ کا علم نہیں جو ان پرابلم سے بالکل مبرا ہو، سواے ایک جگہ کے، میں اس جگہ کا نام نہیں لونگا ، لیکن اس دنیا میں ایک ایسی جگہ ہے، ہمیں اسطرح کا کویی پرابلم نہیں ہے ، کیونکہ انکے بقول انکے پاس بہترین ٹیچر اور بہترین سکول موجود ہیں - چلیں ایسے بھی کچھ علاقے ہیں، لیکن اسکے علاوہ میں نے یہ بات کہیں نہیں سنی -
I'm going to talk about children and self-organization, and a set of experiments which sort of led to this idea of what might an alternative education be like. They're called the hole-in-the-wall experiments. I'll have to really rush through this. They're a set of experiments. The first one was done in New Delhi in 1999. And what we did over there was pretty much simple. I had an office in those days which bordered a slum, an urban slum, so there was a dividing wall between our office and the urban slum. They cut a hole inside that wall -- which is how it has got the name hole-in-the-wall -- and put a pretty powerful PC into that hole, sort of embedded into the wall so that its monitor was sticking out at the other end, a touchpad similarly embedded into the wall, put it on high-speed Internet, put the Internet Explorer there, put it on Altavista.com -- in those days -- and just left it there.
اب میں بچوں اور انکی خود انتظامی کے بارے میں بات کرونگا ، اور چند ایسے تجربات کا ذکر ہو گا، جن سے میں اس آئیڈیا تک پہنچا کہ یہ متبادل تعلیم ہوگی کیسی - ہم انکو دیوار میں سوراخ والے تجربات کہتے ہیں - مجھے ان تجربات کے بیان کو جلدی جلدی بتانا ہو گا، یہ تجربات کا مکمل سیٹ ہے - پہلا تجربہ 1999 میں دہلی میں کیا گیا تھا - اور جو ہم نے وہاں پہ کیا وہ بہت سادہ سی چیز تھی - اس وقت میرا آفس ایک کچی آبادی کے ساتھ تھا، تو ہمارے آفس اور کچی آبادی کے درمیان صرف ایک دیوار تھی - تو دیوار میں ایک سوراخ کیا گیا -- اسی وجہ سے اس تجربے کا نام “دیوار میں سوراخ“ پڑگیا -- تو اس سوراخ میں ایک اچھے والا کمپیوٹر رکھ دیا گیا، ایسے جیسے وہ کمپیوٹر وہی اگا ہو اس طرح سے کہ کمپیوٹر کا مانیٹر دیوار کے دوسری طرف باھر کو نکلا ہوا تھا، اسی طرح ایک حساسیت کا آلہ (ٹچ پیڈ) بھی استعمال کے لیے رکھا گیا، اسکو ہائی اسپیڈ انٹر نیٹ دیا اور ایک انٹر نیٹ ایکسپلورر رکھ دیا ، اور ان دنوں کے مشہور -- الٹا وسٹا ڈاٹ کام -- پررکھ کر، اور اسکو وہاں پر چھوڑ دیا -
And this is what we saw. So that was my office in IIT. Here's the hole-in-the-wall. About eight hours later, we found this kid. To the right is this eight-year-old child who -- and to his left is a six-year-old girl, who is not very tall. And what he was doing was, he was teaching her to browse. So it sort of raised more questions than it answered. Is this real? Does the language matter, because he's not supposed to know English? Will the computer last, or will they break it and steal it -- and did anyone teach them? The last question is what everybody said, but you know, I mean, they must have poked their head over the wall and asked the people in your office, can you show me how to do it, and then somebody taught him.
اور یہ ہے وہ ، جو ہم نے وہاں دیکھا - تو یہ میرا آئی-آئی-ٹی کا آفس تھا - یہ دیوار میں سوراخ ہے - تقریبا آٹھ گھنٹے کے بعد ہمیں یہ بچہ ملا - دائیں طرف ایک آٹھ سالہ بچہ ہے -- اور بائیں طرف چھ سالہ بچی ہے جو کہ قد میں چھوٹی ہے - اور یہ لڑکا کر کیا رھا تھا، یہ اسکو براؤزنگ سکھا رہا تھا - اس تجربے نے مزید سوالات پیدا کردیے - کیا یہ حقیقت ہے ؟ کیا زبان سے فرق پڑتا ہے ، کیونکہ اس لڑکے کو انگریزی نہیں آتی تھی ؟ کیا کمپیوٹر رہے گا ، یا یہ اس کو توڑ دینگے ، یا چوری کر لینگے؟ -- اور کیا کسی نے انکو سکھایا ہے؟ اور آخری سوال جو سب نے پوچھا، شاید آپ کے ذہن میں ہو گا، کہ کیا انہوں نے کبھی اس دیوار کے اوپر جھانکا اور آپ کے آفس کے لوگوں سے کوئی رہنمائی لی ، جیسے کیا آپ مجھے سکھا سکتے ہیں ، اور پھر کسی نے انکو سکھا دیا -
So I took the experiment out of Delhi and repeated it, this time in a city called Shivpuri in the center of India, where I was assured that nobody had ever taught anybody anything. (Laughter) So it was a warm day, and the hole in the wall was on that decrepit old building. This is the first kid who came there; he later on turned out to be a 13-year-old school dropout. He came there and he started to fiddle around with the touchpad. Very quickly, he noticed that when he moves his finger on the touchpad something moves on the screen -- and later on he told me, "I have never seen a television where you can do something." So he figured that out. It took him over two minutes to figure out that he was doing things to the television. And then, as he was doing that, he made an accidental click by hitting the touchpad -- you'll see him do that. He did that, and the Internet Explorer changed page. Eight minutes later, he looked from his hand to the screen, and he was browsing: he was going back and forth. When that happened, he started calling all the neighborhood children, like, children would come and see what's happening over here. And by the evening of that day, 70 children were all browsing. So eight minutes and an embedded computer seemed to be all that we needed there.
تو پھر میں اس تجربے کو دہلی سے باہر لے گیا اور اسکو مختلف جگہ پر دہرایا ، اس دفعہ یہ تجربہ ہم نے وسطی انڈیا کے ایک شہر شیوپوری میں کیا ، جہاں پر مجھے یقین دلایا گیا تھا کہ کسی نے کبھی بھی کسی کو کچھ نہیں سکھایا - ( ہنسی ) تو یہ ایک گرم دن تھا، اور دیوار میں سوراخ والی دیوار ایک شکستہ عمارت میں تھا ، اور یہ پہلا بچہ تھا جو وہاں پر آیا تھا ؛ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک 13 سالہ لڑکا تھا، جس نے اسکول چھوڑ دیا تھا - وہ وہاں پر آیا اور اس نے ٹچ پیڈ سے کھیلنا شروع کر دیا تھا - اور جلد ہی اسکو احساس ہوا کہ جب وہ ٹچ پیڈ پر انگلی پھیرتا ہے تو کمپیوٹر اسکرین پر بھی حرکت ہوتی ہے -- بعد میں اس نے مجھے بتایا کہ " میں نے کبھی ٹیلیویژن نہیں دیکھا تھا جس پر کچھ کیا جاسکتا ہو -" تو اس نے یہ اپنے آپ ہی سیکھا تھا - اس کام میں اسکو دو منٹ لگے تھے یہ جاننے میں کہ وہ اسکرین پر ٹچ پیڈ کی مدد سے حرکت کنٹرول کر سکتا ہے - اور پھر یہی کرتے ہوے، حادثاتی طور پر اس نے کلک کر دیا کلک جو ٹچ پیڈ کو چھونے سے ہوئی- اسکو آپ ابھی دیکھو گے - اس نے یہ کیا تو انٹر نیٹ ایکسپلورر پرصفحہ تبدیل ہوگیا - اور آٹھ منٹ بعد وہ اپنے ہاتھ کی مدد سے ، براؤزنگ کر رہا تھا : آگے اور پیچھے جا رہا تھا - اور جب یہ ہو گیا تو اس نے ارد گرد سے بچوں کو اکٹھا کرنا شروع کردیا ، اور بچے اکٹھے ہوگئے، یہ دیکھنے کے لیے کہ وہاں کیا ہورہا تھا - اور اسی شام 70 بچے وہاں براؤزنگ کر رہے تھے - تو آٹھ منٹ اور ایک دیوار میں لگے ہوۓ ایک کمپیوٹر کام کے لیے بظاہر یہی دو چیزیں ہیں جو ہمیں چاہیے -
So we thought that this is what was happening: that children in groups can self-instruct themselves to use a computer and the Internet. But under what circumstances? At this time there was a -- the main question was about English. People said, you know, you really ought to have this in Indian languages. So I said, have what, shall I translate the Internet into some Indian language? That's not possible. So, it has to be the other way about. But let's see, how do the children tackle the English language? I took the experiment out to northeastern India, to a village called Madantusi, where, for some reason, there was no English teacher, so the children had not learned English at all. And I built a similar hole-in-the-wall. One big difference in the villages, as opposed to the urban slums: there were more girls than boys who came to the kiosk. In the urban slums, the girls tend to stay away. I left the computer there with lots of CDs -- I didn't have any Internet -- and came back three months later. So when I came back there, I found these two kids, eight- and 12-year-olds, who were playing a game on the computer. And as soon as they saw me they said, "We need a faster processor and a better mouse." (Laughter) I was real surprised. You know, how on earth did they know all this? And they said, "Well, we've picked it up from the CDs." So I said, "But how did you understand what's going on over there?" So they said, "Well, you've left this machine which talks only in English, so we had to learn English." So then I measured, and they were using 200 English words with each other -- mispronounced, but correct usage -- words like exit, stop, find, save, that kind of thing, not only to do with the computer but in their day-to-day conversations. So, Madantusi seemed to show that language is not a barrier; in fact they may be able to teach themselves the language if they really wanted to.
تو ہم نے سوچا اچھا تو یہ ہو سکتا ہے : کہ بچے جو گروپ میں ہوں وہ اپنے آپ کو سکھا سکتے ہیں کمپیوٹر اور انٹر نیٹ استعمال کرنا - لیکن کن حالات میں ؟ اس وقت بڑا سوال انگلش سے متعلق تھا -- لوگ ہمیں یہ مشورہ دے رہے تھے، ٹھیک ہے، لیکن زبان تو ہندی (مقامی) ہی ہونی چاہیے - تو میرا جواب تھا کہ، تو کیا اب میں انٹر نیٹ کا ترجمہ کرواؤں کسی بھارتی زبان میں؟ یہ تو ناممکن ہے - تو اسکا مطلب تھا کہ اس کا کوئی اور حل ڈھونڈنا ہوگا - لیکن اب دیکھنا یہ تھا کہ بچے انگلش زبان کو کیسے سیکھیں اور استعمال کریں گے ؟ میں اس تجربے کو شمال مشرقی انڈیا میں لے گیا ، ایک گاؤں جس کا نام "مدن تسی" تھا ، جہاں پر کسی وجہ سے کوئی انگلش ٹیچر تھا ہی نہیں تھا ، اس وجہ سے بچوں نے انگریزی کبھی نہیں سیکھی تھی - اور یہاں بھی وہی دیوار میں سوراخ والا تجربہ دہرایا گیا - تو گاؤں اور شہروں کی کچی آبادیوں میں کیے جانے والے تجربے کا فرق یہ تھا کہ : یہاں پر صرف لڑکے نہیں، بلکہ اس کیاسک پر لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ تھی - شہروں کی کچی آبادیوں میں لڑکیاں عام طور پر کم آرہی تھیں - وہاں میں نے کمپیوٹر کو بہت ساری سی ڈیز کے ساتھ چھوڑا، کیونکہ انٹر نیٹ نہیں تھا -- اور میں تین ماہ کے بعد واپس آیا - تو جب میں واپس آیا ، تو میں نے ان دو بچوں کو وہاں پر دیکھا ، جنکی عمریں 8 اور 12 سال تھیں، اور وہ کمپیوٹر پر گیمز کھیل رہے تھے - اور جونہی انہوں نے مجھے دیکھا تو بولے ، " ہمیں ایک بہتر ماؤس اور تیز پروسیسر چاہیے -" ( ہنسی ) میں واقعی حیران رہ گیا تھا - ان کو یہ باتیں آخر کہاں سے معلوم ہوئیں ؟ " تو انہوں نے کہا، ہمیں یہ معلومات سی-ڈی سے ملی ہیں -" تو میں نے کہا، " لیکن تمہیں یہ کس نے بتایا کہ اس کے اندر کیا ہوتا ہے؟ " انہوں نے کہا، " آپ نے یہ جو مشین یہاں پر چھوڑی تھی یہ تو صرف انگلش میں ہی بات کرتی ہے، تو ہمیں مجبوراً انگلش سیکھنا پڑی -" پھر میں نے اس چیز کو جانچا، اور وہ لوگ انگلش کے 200 الفاظ آپس میں بول رہے تھے -- بولنے کا طریقہ غلط تھا ، مگر استعمال درست -- انکے الفاظ میں نکلو، رکو، ڈھونڈو، محفوظ کرو، وغیرہ ، یہ الفاظ وہ نہ صرف کمپیوٹر کے حوالے سے، بلکہ روزمرہ کی گفتگو میں بھی استعمال کر رہے تھے - تو مدن-تسی کا تجربہ ظاھر کر رہا تھا، کہ انگلش زبان سکھلائی میں رکاوٹ نہیں ہے ؛ حقیقت تو یہ تھی، کہ وہ اپنے آپ کو انگلش سکھانے کے قابل تھے اگر وہ ایسا کرنا چاہتے تو -
Finally, I got some funding to try this experiment out to see if these results are replicable, if they happen everywhere else. India is a good place to do such an experiment in, because we have all the ethnic diversities, all the -- you know, the genetic diversity, all the racial diversities, and also all the socio-economic diversities. So, I could actually choose samples to cover a cross section that would cover practically the whole world. So I did this for almost five years, and this experiment really took us all the way across the length and breadth of India. This is the Himalayas. Up in the north, very cold. I also had to check or invent an engineering design which would survive outdoors, and I was using regular, normal PCs, so I needed different climates, for which India is also great, because we have very cold, very hot, and so on. This is the desert to the west. Near the Pakistan border. And you see here a little clip of -- one of these villages -- the first thing that these children did was to find a website to teach themselves the English alphabet.
اور آخرکار، مزید تجربات کے لیے مزید پیسوں کا انتظام ہو گیا کہ دیکھ سکوں کہ کیا، یہ نتائج مزید کسی جگہ بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں - انڈیا ایسے تجربوں کے لیے سازگار جگہ ہے ، کیونکہ یہاں پر بہت زیادہ نسلی تنوع پائی جاتی ہے، جتنی آپ سوچ سکتے ہو ، عام طور پر پائی جانے والی تنوع کے علاوہ یہاں نسلی تنوع بھی ہے ، اسی طرح معاشی اور معاشرتی تنوع بھی ہے - اس لیے میں تجربات کے لیے نمونے لے سکتا تھا جو پوری دنیا کا احاطہ کرسکتے تھے - یوں ہم نے یہ تجربات تقریباً پاتچ سال تک کیے، اور یہ تجربہ ہمیں انڈیا کے کونےکونے میں لے کرگیا - یہ انڈیا کے شمال میں ہمالیہ کے پہاڑ ہیں، یہاں بہت ٹھنڈ ہوتی ہے - مجھے دیکھ بھال اور نیا ڈیزائن ایجاد کرنا پڑا جو کہ باہر کے اثرات برداشت کرسکے ، میں عام ، سادہ کمپیوٹر استعمال کر رہا تھا ، مجھے مختلف موسموں کے خیال رکھنا تھا ، جو انڈیا کو بڑا بناتے ہیں ، کیونکہ ہمارے پاس سخت گرم اور سخت سرد موسوم ہیں- یہ مغرب کی طرف صحرا ھے- پاکستان کی سرحد کے قریب - اور یہ جو کلپ آپ دیکھ رھے ھیں -- یہ انہیں گاؤں میں سے ایک کا ھے -- پہلا کام جو ان بچوں نے کیا وہ ویب سائٹ ڈھونڈنا تھا تاکہ وہ اپنے آپ کو انگلش کے حروف سکھا سکیں -
Then to central India -- very warm, moist, fishing villages, where humidity is a very big killer of electronics. So we had to solve all the problems we had without air conditioning and with very poor power, so most of the solutions that came out used little blasts of air put at the right places to keep the machines running. I want to just cut this short. We did this over and over again. This sequence is also nice. This is a small child, a six-year-old, telling his eldest sister what to do. And this happens very often with these computers, that the younger children are found teaching the older ones.
پھر وسطی انڈیا، بہت گرم، مرطوب، مچھیروں کے گاؤں ، جہاں نمی الیکٹرانک کی چیزوں کی سب سے بڑی دشمن ہے - اور ہمیں ان تمام مسئلوں کو حل کرنا تھا وہ بھی بغیر ایرکنڈیشنر اور بہت ہی کم بجلی کے ساتھ ، تو ہمارا حل یہ تھا کہ ہم ہوا کے چھوٹے جھونکے پیدا کریں جنکے ذریعے سے ہم اپنی مشینوں کو چلتی ہوئی حالت میں رکھیں - بات کو مختصر کرتا ہوں - ہم نے اس تجربے کو بار بار دہرایا - یہ بھی اچھی ویڈیو ہے - یہ ایک چھ سالہ بچہ ہے ، جو اپنی بڑی بہن کو بتا رہا ہے کہ کیا کرنا ہے - اور یہ ان کمپیوٹرز کے ساتھ اکثر ہوا ، کہ چھوٹے بچے بڑے بچوں کو سکھاتے ہوئے ملے -
What did we find? We found that six- to 13-year-olds can self-instruct in a connected environment, irrespective of anything that we could measure. So if they have access to the computer, they will teach themselves, including intelligence. I couldn't find a single correlation with anything, but it had to be in groups. And that may be of great, you know, interest to this group, because all of you are talking about groups. So here was the power of what a group of children can do, if you lift the adult intervention.
ہم نے کیا نتیجہ اخذ کیا؟ ہمیں معلوم ہوا کہ 6 سے 13 سال کے بچے اپنے آپ کو پڑھا سکتے ھیں ایک منسلک ماحول میں ، ہمارے کسی بھی چیز کو جانچنے سے قطع نظر - تو اگر انکو کمپیوٹر مل جاۓ تو وہ اپنے آپ کو، بشمول ذہانت، سکھا سکتے ہیں - مجھے اس کا کسی اور چیز کے ساتھ تعلق نظر نہیں آیا، مگر یہ سارا کام گروپ میں ہونا ضروری ہے - یہ اچھا ہے لیکن گروپ کی اس میں دلچسپی ہونا ضروری ہے ، کیونکہ آپ سب گروپ کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں - تو یہ ایک بچوں کے گروپ کی طاقت تھی، کہ وہ کیا کیا کر سکتے ھیں ، اگر آپ بالغوں کی نگرانی ہٹا دیں -
Just a quick idea of the measurements. We took standard statistical techniques, so I'm going to not talk about that. But we got a clean learning curve, almost exactly the same as what you would get in a school. I'll leave it at that, because, I mean, it sort of says it all, doesn't it? What could they learn to do? Basic Windows functions, browsing, painting, chatting and email, games and educational material, music downloads, playing video. In short, what all of us do. And over 300 children will become computer literate and be able to do all of these things in six months with one computer.
اس کو جانچنے کا نتیجہ پیش ہے - ہم نے معیاری اعداد و شمار کے طریقے اپناۓ ، تو میں اس کے بارے میں بات نہیں کروں گا - البتہ ہمیں ایک صاف ' لرننگ کروْ ' نظر آئی ، تقریبا ویسے ہی تھی، جیسے آپ ایک سکول میں حاصل کرتے ہیں - میں اس بات کو یہاں چھوڑتا ہوں ، کیونکہ یہ سب کچھ واضح طور پر بتا دیتی ہے ، ہے ناں؟ اس سے بچے کیا کیا کرنا سیکھ سکتے تھے؟ ونڈوز کے بنیادی کام، براؤزنگ، پینٹنگ، چیٹنگ اور ای-میل ، گیمز، تعلیمی مواد، موسیقی کا ڈاون لوڈ، اور وڈیو گمیز کھیلنا - مختصرطور پر، جو کچھ ھم سارے کرتے ہیں - اور 300 سے زائد بچے کمپیوٹر کو استعمال کرنا جان جاییں گے اور یہ سارا کچھ کرنا جان جائیں گے چھ ماہ میں ایک کمپیوٹر سے -
So, how do they do that? If you calculated the actual time of access, it would work out to minutes per day, so that's not how it's happening. What you have, actually, is there is one child operating the computer. And surrounding him are usually three other children, who are advising him on what they should do. If you test them, all four will get the same scores in whatever you ask them. Around these four are usually a group of about 16 children, who are also advising, usually wrongly, about everything that's going on on the computer. And all of them also will clear a test given on that subject. So they are learning as much by watching as they learn by doing. It seems counter-intuitive to adult learning, but remember, eight-year-olds live in a society where most of the time they are told, don't do this, you know, don't touch the whiskey bottle. So what does the eight-year-old do? He observes very carefully how a whiskey bottle should be touched. And if you tested him, he would answer every question correctly on that topic. So, they seem to be able to acquire very quickly.
تو وہ یہ کیسے کرتے ھیں ؟ اگر آپ انکے استعمال کا حساب لگائیں ، یہ ایک دن کے چند منٹ بنتے ہیں ، تو یہ اس طرح نہیں ہورہا - اصل میں ، ایک بچہ ہے جو کہ کمپیوٹر چلا رہا ہے - اور عام طور پر اس کے گرد 3 بچے ہوتے ہیں ، جو اس کو بتاتے ہیں کہ اس کو کیا کرنا ہے - اگر آپ ان کا امتحان لیں تو سب کے نتائج برابر ہوں گے ، چاہے جو آپ پوچھیں - اور ان چار بچوں کے گرد، 16 بچے ہوتے ہیں ، جو مشورے دے رہے ہوتے ہیں ، جو عام طور پر غلط ہوتے ہیں ، اس ہر چیز کے بارے میں جو کمپیوٹر پر ہورہی ہوتی ہے - اور یہ سب، اس موضوع پر، امتحان پاس کرلینگے - تو یہ جتنا دیکھ کر سیکھ رہے ہیں ، اتنا ہی وہ کرکے سیکھ رہے ہیں - ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بالغوں کے سیکھنے کے عمل سے مختلف ہے ، لیکن یاد رکھیے ، آٹھ سالہ بچے ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ان کو کہا جاتا ہے، ایسا مت کرو ، جیسے ، وسکی کی بوتل کو نہ چھوؤ - پھر آٹھ سالہ بچہ کیا کرتا ھے؟ وہ بڑے غور سے دیکھتا ہے کہ وسکی کی بوتل کو کس طرح چھونا چاہیے - اور اگر آپ اس کا امتحان لیں ، وہ اس موضوع پر ، ہر سوال کا درست جواب دیگا - تو لگتا یہ ہے کہ وہ بڑی جلدی سیکھ لیتے ہیں -
So what was the conclusion over the six years of work? It was that primary education can happen on its own, or parts of it can happen on its own. It does not have to be imposed from the top downwards. It could perhaps be a self-organizing system, so that was the second bit that I wanted to tell you, that children can self-organize and attain an educational objective.
تو 6 سال کے کام کا کیا نتیجہ حاصل ہوا؟ یہ کہ پرایمری سطح کی تعلیم اپنے آپ ہو سکتی ہے ، یا کم از کم اس کے کچھ حصّے اپنے آپ ہو سکتے ہیں - اس کو اوپر سے نافذ نہیں کیا جا سکتا - یہ شاید ایک خود منظّم سسٹم ہو سکتا ہے ، اور یہ وہ دوسری بات تھی جو میں آپ کو بتانا چاہتا تھا ، کہ بچے اپنے آپ کو خود منظّم کرسکتے ہیں اور ایک تعلیمی مقصد حاصل کرسکتے ہیں -
The third piece was on values, and again, to put it very briefly, I conducted a test over 500 children spread across all over India, and asked them -- I gave them about 68 different values-oriented questions and simply asked them their opinions. We got all sorts of opinions. Yes, no or I don't know. I simply took those questions where I got 50 percent yeses and 50 percent noes -- so I was able to get a collection of 16 such statements. These were areas where the children were clearly confused, because half said yes and half said no. A typical example being, "Sometimes it is necessary to tell lies." They don't have a way to determine which way to answer this question; perhaps none of us do. So I leave you with this third question. Can technology alter the acquisition of values? Finally, self-organizing systems, about which, again, I won't say too much because you've been hearing all about it. Natural systems are all self-organizing: galaxies, molecules, cells, organisms, societies -- except for the debate about an intelligent designer. But at this point in time, as far as science goes, it's self-organization. But other examples are traffic jams, stock market, society and disaster recovery, terrorism and insurgency. And you know about the Internet-based self-organizing systems.
اور تیسری چیز اقدار تھے، اور پھر مختصر بیان کروں تو ، میں نے پورے انڈیا میں 500 بچوں کا ایک ٹیسٹ لیا ، اور ان سے پوچھا -- ان کو 68 مختلف قسم کے اقدار سے متعلق سوالات دیے اور ان سے ان کا نقطہء نظر پوچھا تھا - ہمیں مختلف آراء ملیں - ہاں ، نہیں یا معلوم نہیں - تو میں نے ان سوالوں کو لیا جن میں سے 50 فیصد کا جواب ہاں میں تھا اور 50 فیصد کا نہیں میں -- تو میں نے اس طرح کے 16 بیانات اکٹھے کیے - یہ وہ چیزیں تھیں، جن پر بچے واضح طور پر الجھن میں تھے ، کیونکہ ان میں سے آدھے بچوں نے ہاں میں اور آدھے بچوں نے نہیں میں جواب دیا - اور اسکی ایک مثال یہ ہے، " کبھی کبھی جھوٹ بولنا ضروری ہوتا ہے -" ان کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے کہ معلوم کریں کہ اس کا جواب کس طرح دینا ہے؛ شاید ہم سب کے پاس نہیں ہے - تو میں آپ کو اس تیسرے سوال کے ساتھ چھوڑتا ہوں - کیا ٹیکنالوجی ہماری اقدار کےحصول کے معاملے کو تبدیل کر سکتی ہے؟ اور آخر میں، خود انتظامی سسٹم ، جس کے بارے میں میں پھر مزید کچھ نہیں کہونگا کیونکہ آپ نے اس کے بارے میں سب سنتے ہونگے - تمام قدرتی نظام خود انتظامی ہوتے ہیں : کہکشاییں، مالیکیول، سیل، مخلوقات، اور معاشرے -- سواۓ اس کے جس میں ایک ذہین ڈیزاینر پر بحث ہے - لیکن اب تک، جہاں تک سائنس کا تعلق ھے ، خود انتظامی ہے - لیکن دوسری مثالیں ٹریفک جام، اسٹاک مارکیٹ، معاشرے حادثات کے بعد کے انتظامات، دہشت گردی اور ریاستوں کے اندر کے خلفشار ہیں - اور انٹر نیٹ کے خود انتظامی سسٹمز کا تو آپ کو معلوم ہوگا -
So here are my four sentences then. Remoteness affects the quality of education. Educational technology should be introduced into remote areas first, and other areas later. Values are acquired; doctrine and dogma are imposed -- the two opposing mechanisms. And learning is most likely a self-organizing system. If you put all the four together, then it gives -- according to me -- it gives us a goal, a vision, for educational technology. An educational technology and pedagogy that is digital, automatic, fault-tolerant, minimally invasive, connected and self-organized. As educationists, we have never asked for technology; we keep borrowing it. PowerPoint is supposed to be considered a great educational technology, but it was not meant for education, it was meant for making boardroom presentations. We borrowed it. Video conferencing. The personal computer itself. I think it's time that the educationists made their own specs, and I have such a set of specs. This is a brief look at that. And such a set of specs should produce the technology to address remoteness, values and violence. So I thought I'd give it a name -- why don't we call it "outdoctrination." And could this be a goal for educational technology in the future? So I want to leave that as a thought with you.
تو پھر یہ میرے چار جملے ہیں - دوری سے تعلیم کا معیار متاثر ہوتا ہے - تعلیمی ٹیکنالوجی کو پہلے دور دراز علاقوں میں متعارف کیا جانا چاہیے ، اور باقی کے علاقوں کو بعد میں - اقدار اختیار کیے جاتے ہیں، نظریے اور اصول نافذ کیے جاتے ہیں -- یہ دو ایک دوسرے کے الٹ طریقہ کار ہیں - اور سیکھنا ، بہت ممکن ہے کہ ، ایک خود انتظامی سسٹم ہے - اور اگر آپ ان چاروں کو اکٹھا کردیں، تو میرے نظریہ کے مطابق -- یہ ، تعلیمی ٹیکنالوجی کا ایک مقصد دیتا ہے، ایک تصوّر دیتا ہے - ایک ایسی تعلیمی اور درسی ٹیکنالوجی جو ڈیجیٹل ہو، خودکار ہو، جو غلطی کو برداشت کرے، کم سے کم مداخلت کرے، منسلک ہو، اور خودانتظامی ہو - تعلیمی ماہرین کے طور پر ہم نے کبھی ٹیکنالوجی کو مانگا نہیں، ہم نے ہمیشہ اسکو ادھار لیتے ہیں - پاور پواینٹ کو ایک بہت اہم تعلیمی ٹیکنالوجی مانا جاتا ہے ، لیکن اسکا مقصد تعلیمی نہیں تھا، بلکہ یہ تو بورڈروم پریزنٹیشنز بنانے کے لیے تھا - ہم نے اسکو ادھار لیا - وڈیو کانفرنسنگ - کمپیوٹر بھی - میں سوچتا ہوں اب وقت آ چکا ہے کہ تعلیمی ماہر اپنی ضروریات کی وضاحت کریں ، اور اسطرح کی ضروریات کی وضاحتوں کا ایک سیٹ میرے پاس ہے - اسکا یہ مختصر بیان ہے - اور اسطرح کی ضروریات کی وضاحتوں کے سیٹ کو وہ ٹیکنالوجی پیدا کرنی چاہیے جو دوری، اقدار اور تشدد کو حل کرے - تو میں نے سوچا کہ میں اس کو ایک نام دوں -- تو کیوں نہ ہم اس کو " آؤٹ ڈاکٹرینیشن " کہیں - اور کیا یہ مستقبل میں تعلیمی ٹیکنالوجی کا مقصد ہوسکتا ہے؟ اور میں آپ کو اسی سوچ کے ساتھ چھوڑ کر جانا چاہتا ہوں -
Thank you.
شکریہ -
(Applause)
(تالیاں)