Today, I want to tell you about a pressing social issue. Now, it's not nuclear arms, it's not immigration, and it's not malaria. I'm here to talk about movies.
آج میں آپ کی توجہ ایک بہت اہم معاشرتی مسئلے کی طرف کروانا چاہتی ہوں۔ مگر، یہ ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں، نہ ہجرت ہے، نہ ہی ملیریا۔ میں بات کرنا چاہتی ہوں فلموں کے بارے میں۔
Now, in all seriousness, movies are actually really important. In film, we can be wildly entertained, and we can also be transported through storytelling. Storytelling is so important. Stories tell us what societies value, they offer us lessons, and they share and preserve our history. Stories are amazing.
انتہائی سنجیدہ حقیقیت ہے کہ فلمیں بہت ہی اہم حیثیت رکھتی ہیں۔ فلموں سے، ہم بے انتہا محظوظ ہوسکتے ہیں، اور کہانیوں کے ذریعے ہم کسی اور دنیا میں جا سکتے ہیں۔ کہانیاں سننا سنانا بہت اہم ہے۔ کہانیاں ہمیں بتاتی ہیں، معاشرتی اقدار کیا ہیں، ان سے سبق ملتے ہیں، یہ ہماری تاریخ کی حفاظت کرتی ہیں اور اسے ہم تک پہنچاتی ہیں۔ کہانیاں حیران کن ہوتی ہیں۔
But stories don't give everyone the same opportunity to appear within them, particularly not stories compartmentalized in the form of American movies. In film, interestingly enough, females are still erased and marginalized in a lot of our stories. And I learned this for the first time about 10 years ago when I did my first study on gender role in G-rated films. Since then, we've conducted more than 30 investigations. My team is tired. And I've committed my life as researcher and activist to fighting the inclusion crisis in Hollywood.
مگر یہ کہانیاں اپنے ذریعے سب کو سامنے آنے کا ایک سا موقع نہیں دیتیں، خصوصاً وہ کہانیاں جو امریکی فلموں کی صورت اختیار کر گئی ہوں۔ فلم اور بہت سی کہانیوں میں، حیرت انگیز حد تک خواتین کو کنارے سے لگایا گیا ہے یا مکمل غائب کیا گیا ہے۔ اور اس چیز کا احساس مجھے 10 برس قبل ہوا جب میں نے پہلی بار عام ناضرین کے لئے بنائی گئی فلموں میں کرداروں کی جنس پر اپنی تحقیق کی۔ تب سے اب تک ہم 30 سے زائد تحقیقات کرچکے ہیں۔ میری ٹیم تھک گئی ہے۔ اور میں اپنی زندگی مختص کرچکی ہوں ایک محقق اورمتحرک کارکن کی حیثیت سے تاکہ لڑ سکوں ہالی وڈ میں موجود شمولیت کے اس بحران سے۔
So today, what I'd like to do is tell you about that crisis. I want to talk about gender inequality in film. I want to tell you how it is perpetuated, and then I'm going to tell you how we're going to fix it.
تو آج، میں آپ کو اس بحران کے بارے میں بتانا چاہوں گی۔ میں بولنا چاہتی ہوں فلموں میں غیرمساوی جنسی تقسیم پر۔ میں بتانا چاہتی ہوں کہ یہ اب تک کیسے باقی ہے، اور پھر میں بتاوں گی کہ ہمیں اسے کیسے ختم کرنا ہے۔
However, one caveat before I begin: my data are really depressing. So I want to apologize in advance, because I'm going to put you all in a really bad mood. But I'm going to bring it up at the end, and I'm going to present a silver lining to fix this mess that we've been in for a very, very long time.
بہرحال، اس سے پہلے کچھ کہوں ایک تنبیہ کرنا چاہوں گی: میری معلومات بہت ہی دلبرداشتہ کر دینے والی ہیں۔ تو میری پیشگی معذرت قبول کیجئے، کیوں کہ میں آپ سب کا مزاج بہت خراب کرنے والی ہوں۔ لیکن آخر میں اسے صحیح بھی کردوں گی، کیوںکہ میں اس امید کی کرن کے بارے میں بھی بتاوں گی کہ اس مسئلے کو کیسے ٹھیک کیا جائے جس کا شکار ہم بہت عرصے سے ہیں۔
So, let's start with the gravity of the situation. Each year, my research team examines the top 100 grossing films in the United States. What we do is we look at every speaking or named character on-screen. Now, to count in one of my investigations, all a character has to do is say one word. This is a very low bar.
تو چلئے، آغاز کرتے ہیں، اس معاملے کی شدت سے۔ ہر سال، میری تحقیقاتی ٹیم امریکہ کی 100 کامیاب فلموں کا تجزیہ کرتی ہے۔ ہم اسکرین پر آنے والے ہر بولتے یا نام رکھنے والے کردار پر نظر ڈالتے ہیں۔ تو میری تحقیق کا حصہ بننے کے لئے، کسی بھی کردار کو کم سے کم ایک لفظ بولنا ہوتا ہے۔ یہ تو ایک بہت ہی چھوٹا پیمانہ ہے۔
(Laughter)
(قہقہہ)
Thus far, we've looked at 800 movies, from 2007 to 2015, cataloguing every speaking character on-screen for gender, race, ethnicity, LGBT and characters with a disability.
تو اب تک، ہم 800 فلمیں دیکھ چکے ہیں، سال 2007 سے سال 2015 تک، اسکرین پر ہر بولتے ہوئے کردار کو فہرست میں ڈالتے ہوئے ان کی جنس، نسل، طبقے کے مطابق، جنسیاتی ترجیح اور معذوری کے حساب سے۔
Let's take a look at really some problematic trends. First, females are still noticeably absent on-screen in film. Across 800 movies and 35,205 speaking characters, less than a third of all roles go to girls and women. Less than a third! There's been no change from 2007 to 2015, and if you compare our results to a small sample of films from 1946 to 1955, there's been no change in over a half of a century. Over half of a century! But we're half of the population.
دیکھتے ہیں کچھ بہت ہی پریشان کن رجحانات۔ سب سے پہلے، خواتین اب بھی واضح حد تک فلموں سے غائب ہیں۔ 800 فلموں اور 35,205 بولتے کرداروں میں، ایک تہائی سے بھی کم کردار لڑکیوں اورعورتوں کو ملے ہیں۔ ایک تہائی سے بھی کم ! اور اس طرز عمل میں 2007 سے 2015 تک کوئی تبدیلی نہیں، اور اگر آپ نتائج کا تقابل کریں 1946 سے 1955 تک کی فلموں کے ایک چھوٹے نمونے سے، تو پتا چلے گا کہ آدھی صدی سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ آدھی صدی ! مگر کہا جائے تو ہم آبادی کا آدھا ہیں۔
Now, if we look at this data intersectionally, which has been a focus of today, the picture becomes even more problematic. Across the top 100 films of just last year, 48 films didn't feature one black or African-American speaking character, not one. 70 films were devoid of Asian or Asian-American speaking characters that were girls or women. None. Eighty-four films didn't feature one female character that had a disability. And 93 were devoid of lesbian, bisexual or transgender female speaking characters. This is not underrepresentation. This is erasure, and I call this the epidemic of invisibility.
اگر ہم معلومات کا باریک بینی سےجائزہ لیں، جو آج کا بنیادی مقصد ہے، تو تصویر اور بھی پریشان کن نظر آئے گی۔ صرف پچھلے سال کی 100 بڑی فلموں میں سے، 48 فلموں نے ایک بھی بولتے ہوئے سیاہ فام افریقی-امریکی کو جگہ نہیں دی، ایک نے بھی نہیں۔ 70 فلمیں کسی بولنے والے ایشیائی، یا ایشیائی امریکی سے مبرا تھیں جو کہ عورت یا لڑکیاں ہوں۔ ایک بھی نہیں۔ 84 فلموں میں ایک بھی ایسا خاتون کردار نہیں تھا جسے کوئی معذوری ہو۔ اور 93 مبرا تھیں کسی بھی بولتے ہوئے ہم جنس پرست یا مخنث کردار سے۔ یہ کم کر کے دکھانا نہیں ہے۔ یہ مکمل غائب کر دینا ہے، اور میں اسے کہتی ہوں کسی کو نظرسے اوجھل کر دینے کی وبا۔
Now, when we move from prevalence to protagonist, the story is still problematic. Out of a hundred films last year, only 32 featured a female lead or colead driving the action. Only three out of a hundred films featured an underrepresented female driving the story, and only one diverse woman that was 45 years of age or older at the time of theatrical release.
تو جب ہم کسی عام کردار سے مرکزی کردار کی طرف جاتے ہیں تو، کہانی اب بھی مسائل کا شکار ہے۔ پچھلے سال سو فلموں میں سے، صرف 32 میں کسی خاتون کو مرکزی یا معاون کردار دیا گیا تھا۔ سو میں سے صرف تین فلمیں ایسی تھیں جن میں کوئی ظاہراً کم اہمیت کی حامل خاتون کہانی کا محور تھی، اور صرف ایک متنوع خاتون جو فلم کے ریلیز ہونے کے وقت 45 سال یا اس سے زیادہ عمر کی تھیں۔
Now let's look at portrayal. In addition to the numbers you just saw, females are far more likely to be sexualized in film than their male counterparts. Matter of fact, they're about three times as likely to be shown in sexually revealing clothing, partially naked, and they're far more likely to be thin. Now, sometimes, in animation, females are so thin that their waist size approximates the circumference of their upper arm.
اب ذرا اس تناظر پر نظر کیجئے۔ جو اعداد آپ نے دیکھے ان کے علاوہ فلم میں موجود مرد حضرات کے مقابلے میں زیادہ خواتین کو جنسی کشش کو ابھارنے کے ذریعے کے طور پر پیش کیا گیا۔ حقیقت میں، وہ مردوں سے تین گنا زیادہ جنسی کشش ابھارتے لباسوں، یا ادھ ننگی حالت میں پیش کی جاتی ہیں، اور کوشش ہوتی ہے کہ دبلی پتلی دکھیں۔ چند بار اینیمیٹڈ فلموں میں تو خواتین اتنی دبلی ہوتی ہیں کہ ان کی کمر کا سائز ان کے بازو جتنا دکھا دیا جاتا ہے۔
(Laughter)
(قہقہہ)
We like to say that these gals have no room for a womb or any other internal organ.
کہنا پڑتا ہے کہ ان لڑکیوں کی کمر میں رحم یا کسی بھی دوسرے عضو کی جگہ تک نہیں ہوتی۔
(Laughter)
(قہقہہ)
Now, all joking aside, theories suggest, research confirms, exposure to thin ideals and objectifying content can lead to body dissatisfaction, internalization of the thin ideal and self-objectification among some female viewers. Obviously, what we see on-screen and what we see in the world, they do not match. They do not match! Matter of fact, if we lived in the screen world, we would have a population crisis on our hands.
تو، مذاق سے قطع نظر، نظریات کی تائید، اور تحقیق سے ثابت ہے کہ، دبلے بدن کو خوبصورتی کے ایک عنصر کے طور پر دکھانا کچھ خواتین میں اپنے جسم سے متعلق غیر تسلی بخش خیالات، اور اپنے بدن سے متعلق احساس کمتری جیسے خیالات کی وجہ بن سکتا ہے۔ یقیناً، ہم جو کچھ اسکرین پر دیکھتے ہیں اور جو کچھ حقیقی دنیا میں نظر آتا ہے، وہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ وہ ہرگز ایک سا نہیں ہوتا! سچ میں، اگر ہم پردہ سیمیں کی دنیا میں جیتے ہوتے، تو اب تک آبادی کے بد ترین مسائل سے دوچار ہوچکے ہوتے۔
So, as soon as I recognized these patterns, I wanted to find out why, and it turns out that there are two drivers to inequality on-screen: content creator gender and misperceptions of the audience. Let's unpack them really quick.
تو، جیسے ہی مجھے ان اطوار کا پتہ چلا، تو میں نے وجہ جاننا چاہی، پتہ یہ چلا کہ اسکرین پر اس ناانصافی کی دو وجوہات ہیں: کہانی نویسوں کی اپنی جنس اور ناظرین کے غلط تصورات۔ جلدی سے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
If you want to change any of the patterns I just talked about, all you have to do is hire female directors. Turns out, the female directors are associated with, in terms of short films and indie films, more girls and women on-screen, more stories with women in the center, more stories with women 40 years of age or older on-screen, which I think is good news for this crowd. More underrepresented --
اگر میرے نشاندہی کئے ہوئے کسی انداز کو آپ بدلنا چاہیں، تو صرف آپ کو خاتون ڈائریکٹرز رکھنا ہوں گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ خاتون ڈائریکٹرز کو جوڑا جاتا ہے مختصرفلموں اور آزاد فلموں سے، اسکرین پرزیادہ لڑکیوں اور خواتین سے، اور ان کے گرد گھومتی مزید کہانیوں سے، 40 سال یا اس سے زیادہ عمر کی خواتین کی کہانیوں سے، جو میرے خیال سے سامعین کے لئے اچھی خبر ہے۔ زیادہ نظرانداز کئے گئے ۔۔
(Laughter)
(قہقہہ)
Sorry.
معذرت چاہتی ہوں۔
(Laughter)
(قہقہہ)
Sorry but not sorry. More underrepresented characters in terms of race and ethnicity, and most importantly, more women working behind the camera in key production roles. Easy answer to the problems that we just talked about. Or is it? It's actually not. 800 films, 2007-2015, 886 directors. Only 4.1 percent are women. Only three are African-American or black, and only one woman was Asian.
معذرت، جس کی ضرورت نہیں۔ مزید نظرانداز شدہ کردار رنگ ونسل کی بنیاد پر، اور سب سے ضروری، پس کیمرا کام کرنے والی مزید خواتین فلمسازی کے اہم عہدوں پر۔ یہ ہے زیر نظر مسئلے کا آسان حل۔ واقعی ہے؟ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ 800 فلمیں، 2007-2015، 886 ڈائریکٹرز۔ صرف 4.1 فیصد خواتین ہیں۔ جن میں صرف تین افریقی-امریکی یا سیاہ فام ہیں، اور فقط ایک خاتون ایشیائی تھی۔
So why is it so difficult to have female directors if they're part of the solution? Well, to answer this question, we conducted a study. We interviewed dozens of industry insiders and asked them about directors. Turns out, both male and female executives, when they think director, they think male. They perceive the traits of leadership to be masculine in nature. So when they're going to hire a director to command a crew, lead a ship, be a visionary or be General Patton, all the things that we've heard -- their thoughts and ideations pull male. The perception of director or a leader is inconsistent with the perception of a woman. The roles are incongruous, which is consistent with a lot of research in the psychological arena.
آخر خواتین ڈائریکٹرز کو لینے میں ایسی کیا مشکل ہے جب کہ اگر وہ اس مسئلے کے حل کا ایک حصہ ہیں؟ تو، اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے، ہم نے ایک تجزیہ کیا۔ ہم نے فلم انڈسٹری کے درجن بھر لوگوں سے انٹرویو کئے اور ان سے ڈائرکٹرز کے متعلق پوچھا۔ پتہ چلا کہ عورتیں ہوں یا مرد، وہ جب بھی ڈائرکٹر کا تصور کرتے ہیں، تو ذہن میں ایک مرد ہی آتا ہے۔ ان کے خیال میں رہنمائی کی صلاحیت صرف مردوں کی فطرت سے جڑی ہے۔ تو جب وہ ایک ڈائرکٹر بھرتی کرنے کا سوچتے ہیں جو عملے پر حکم چلا سکے، جہاز کی رہنمائی کرسکے، ایک صاحب بصیرت یا مدبّر کے طور پر، اور وہ سب جو ہم سن چکے ہیں -- تو ان کی سوچ اور پسند ایک مرد کو ہی سامنے لے کر آتی ہے۔ ایک ڈائرکٹر یا ایک رہنما کا تصور ایک عورت سے جوڑتے ہوئے نامناسب سا لگتا ہے۔ یہ کردار ملتے جلتے نہیں لگتے، یہی بات نفسیاتی بنیادوں پر کی گئی تحقیق سے بھی ثابت ہے۔
Second factor contributing to inequality on-screen is misperceptions of the audience. I don't need to tell this crowd: 50 percent of the people that go to the box office and buy tickets are girls and women in this country. Right? But we're not perceived to be a viable or financially lucrative target audience. Further, there's some misperceptions about whether females can open a film. Open a film means that if you place a female at the center, it doesn't have the return on investment that if you place a male at the center of a story does.
پردہ سیمیں پر ناانصافی کی دوسری وجہ ناضرین کے غلط تصورات ہیں۔ مجھےاس مجمع کو بتانے کی ضرورت نہیں: اس ملک کے 50 فیصد وہ لوگ جو فلم کے ٹکٹ خریدتے ہیں لڑکیاں اور خواتین ہیں۔ صحیح؟ مگرپھر بھی ہمیں قابل قدر و منافع بخش ناظر کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ مزید، کچھ اور غلط تصورات بھی ہیں کہ کیا ایک عورت فلم کا آغاز کر سکتی ہے۔ فلم کا آغاز کرنے کا مطلب ہے اگر عورت مرکزی کردار ہے، لگایا ہوا سرمایہ اس طرح واپس نہیں آسکتا جیسا کہ ایک مرد کو مرکزی کردار دینے پر آتا ہے۔
This misperception is actually costly. Right? Especially in the wake of franchise successes like "The Hunger Games," "Pitch Perfect" or that small little indie film, "Star Wars: The Force Awakens." Our own economic analyses show that gender of the lead character doesn't play a role in economic success in the United States. But what does? Production costs alone or in conjunction with how widely a film is distributed in this country. It's not the gender of the lead character.
یہ خام خیالی دراصل کافی مہنگی ہے۔ صحیح؟ خصوصاً فرنچائزوں کی کامیابی کے اس دور میں جیسے "ہنگر گیمز"، "پچ پرفیکٹ" یا وہ چھوٹے بجٹ کی آزاد فلم، ": سٹار وارز: دی فورس اویکنز". ہمارے اپنے معاشی تجزیئے کے مطابق مرکزی کردار میں جنسی تفریق سے امریکہ کی حد تک معاشی کامیابی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تو پھر کس کا پڑتا ہے؟ صرف تخلیق پر لگایا گیا سرمایہ یا اس کے ساتھ ساتھ فلم کی ملکی سطح پر تقیسیم کاری کتنی زیادہ ہے۔ یہ مرکزی کردار کی جنس نہیں ہے۔
So at this point, we should all be sufficiently depressed. No change in 50 years, few female directors working behind the camera and the entertainment industry does not trust us as an audience. Well, I told you there would be a silver lining, and there is. There are actually simple and tangible solutions to fixing this problem that involve content creators, executives and consumers like the individuals in this room. Let's talk about a few of them.
تو اس مقام پر تو ہم سب کو ہی ٹھیک ٹھاک اداس ہوجانا چاہئے۔ پچاس سال میں کوئی تبدیلی نہیں، محض چند خواتین ڈائرکٹرز کیمرے کے پیچھے مصروف عمل ہیں اور تفریحی شعبہ ہمیں ایک ناظر کی حیثیت سے بھی قابل بھروسہ نہیں سمجھتا۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ امید کی ایک کرن موجود ہے، اور وہ یقیناً ہے۔ اصل میں اس مسئلے کے حل کے لئے کچھ سادے مگر ٹھوس طریقے ہیں جن میں کہانی نویسوں سے لے کر، اعلٰی عہدیدار اور صارفین کی شمولیت ہو جیسے اس کمرے میں موجود افراد ۔ ان میں سے چند پر بات کرتے ہیں۔
The first is what I call "just add five." Did you know if we looked at the top 100 films next year and simply added five female speaking characters on-screen to each of those films, it would create a new norm. If we were to do this for three contiguous years, we would be at gender parity for the first time in over a half of a century. Now, this approach is advantageous for a variety of reasons. One? It doesn't take away jobs for male actors. Heaven forbid.
پہلا، جسے میں کہتی ہوں، "پانچ کا اضافہ کیجئے۔" کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر ہم اگلے سال کی 100 کامیاب فلمیں لیں اور ان میں محض پانچ خواتین کے بولتے کردار بڑھا دیں ان میں سے ہرفلم میں، تو یہ ایک نئی رسم ہو گی۔ اگر ہم یہ کام تین متواتر سالوں تک کرتے رہیں، تو ہم تقریباً نصف صدی میں پہلی بار جنسیت کی بنیاد پر تقسیم میں برابری کی سطح پر آ سکیں گے۔ اس طریقہ کار میں بہت سے فائدے ہیں۔ پہلا، اس سے مرد اداکاروں کی نوکری پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ خدانخواستہ۔
(Laughter)
(قہقہہ)
Two, it's actually cost-effective. It doesn't cost that much. Three, it builds a pipeline for talent. And four, it humanizes the production process. Why? Because it makes sure that there's women on set.
دوسرے، یہ اصل میں کافی کم خرچ ہے۔ اس میں کوئی خاص خرچ بڑھنے والا نہیں ہے۔ تیسرا، باصلاحیت لوگوں کے لئے راستہ کھلے گا۔ اور چوتھا، یہ تخلیق کے عمل کو انسانی بنیادوں پر رکھے گا۔ کیوں؟ کیونکہ اس سے یقینی ہو گا کہ عورتیں بھی سیٹ پر موجود ہیں۔
Second solution is for A-list talent. A-listers, as we all know, can make demands in their contracts, particularly the ones that work on the biggest Hollywood films. What if those A-listers simply added an equity clause or an inclusion rider into their contract? Now, what does that mean? Well, you probably don't know but the typical feature film has about 40 to 45 speaking characters in it. I would argue that only 8 to 10 of those characters are actually relevant to the story. Except maybe "Avengers." Right? A few more in "Avengers." The remaining 30 or so roles, there's no reason why those minor roles can't match or reflect the demography of where the story is taking place. An equity rider by an A-lister in their contract can stipulate that those roles reflect the world in which we actually live. Now, there's no reason why a network, a studio or a production company cannot adopt the same contractual language in their negotiation processes.
دوسرا حل، صف اول کے باصلاحیت لوگوں کے لئے۔ ہم جانتے ہیں کہ صف اول کے اداکار اپنے معاہدوں میں شرائط رکھ سکتے ہیں، خصوصاً وہ جو ہالی وڈ کی بہترین فلموں کا حصہ ہوتے ہیں۔ کیا ہو اگر وہ صف اول کے فنکار اپنے معاہدوں یا شمولیت کی دستاویز میں صرف ایک شق کا اضافہ کردیں؟ اب، اس بات کا کیا مطلب ہے؟ شائد آپ یہ نہ جانتے ہوں، ایک عام فیچر فلم میں تقریباً 40 سے 45 بولتے ہوئے کردار ہوتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ان میں سے صرف 8 سے 10 کردار دراصل کہانی سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ "ایونیجر" کے علاوہ، ہیں نا؟ "ایونیجر" میں کچھ زیادہ ہیں۔ باقی 30 یا جتنے بھی کردار ہوتے ہیں، تو کوئی وجہ نہیں ہوتی کہ وہ چھوٹے کردار کسی طرح ماحول اور منظر سے یا پھر کہانی کے مقام سے مطابقت نہ رکھ رہے ہوں۔ صف اول کے فنکاروں کی اپنے معاہدوں میں مسابقت کی ایک چھوٹی سی شق یہ باور کرا سکتی ہے کہ وہ کردار اس دنیا سے مطابقت رکھتے ہوں جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ تو پھر کوئی وجہ نہیں ہوگی جب کوئی ادارہ، کوئی اسٹوڈیو یا تخلیق کار کمپنی معاہدوں کی اسی زبان کو اپنا نہیں سکے اپنے معاملات کو طے کرنے کے دوران۔
Third solution: this would be for the entertainment industry, Hollywood in particular, to adopt the Rooney Rule when it comes to hiring practices around directors. Now, in the NFL, the Rooney Rule stipulates that if a team wants to hire a coach from outside the organization, what they have to do is interview an underrepresented candidate. The exact same principle can apply to Hollywood films. How? Well, on these top films, executives and agents can make sure that women and people of color are not only on the consideration list, but they're actually interviewed for the job. Now, one might say, why is this important? Because it exposes or introduces executives to female directors who otherwise fall prey to exclusionary hiring practices.
تیسرا حل: یہ تفریح کی صنعت کے لئے ہے, خصوصاً ہالی وڈ کے لئے، کہ وہ ڈائرکٹرز کی بھرتی کے وقت 'رونی اصول' کو اختیار کریں۔ جیسے کہ اب این ایف ایل کے لئے 'رونی اصول' مقرر ہے تو جب ایک ٹیم ادارے سے باہر کا کوچ بھرتی کرنا چاہے، تو انھیں ایک اقلیتی پس منظر رکھنے والے امیدوار کا انٹرویو کرنا ہوتا ہے۔ یہی اصول ہالی وڈ کی فلموں پر نافذ کیا جاسکتا ہے۔ کیسے؟ ان صف اول کی فلموں کے لئے، نمائندے اور اعلیٰ عہدیدار یہ یقین کر لیں کہ خواتین اور رنگدار نسلوں کے لوگ نہ صرف انتخاب کی فہرست کا حصہ ہوں، بلکہ اس نوکری کے لئے ان کا انٹرویو بھی ضرور ہو۔ اب، ہوسکتا ہے کوئی کہے، بھئی یہ کیوں ضروری ہے؟ کیوںکہ اس سے بھرتی کرنے والے خواتین ڈائرکٹرز سے متعارف ہوسکیں گے جو کہ دوسری صورت میں معاندانہ بھرتیوں کا شکار ہوجایا کرتی ہیں۔
The fourth solution is for consumers like me and you. If we want to see more films by, for and about women, we have to support them. It may mean going to the independent theater chain instead of the multiplex. Or it might mean scrolling down a little further online to find a film by a female director. Or it may be writing a check and funding a film, particularly by a female director from an underrepresented background. Right? We need to write, call and email companies that are making and distributing films, and we need to post on our social media accounts when we want to see inclusive representation, women on-screen, and most importantly, women behind the camera. We need to make our voices heard and our dollars count.
چوتھا حل میرے اور آپ جیسے صارفین سے متعلق ہے۔ اگرہم خواتین پر یا ان کی بنائی ہوئی مزید فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں ان کا ساتھ دینا ہوگا۔ یعنی آزاد تھیٹرز کا رخ بھی کرنا ہوسکتا ہے بجائے ملٹی پلیکس سنیما گھروں کے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمیں گہرائی میں جا کر آن لائن تلاش کا سہارا لینا پڑے تاکہ خواتین ڈائرکٹرز کی فلمیں تلاش کرسکیں۔ یا پھرایک چیک لکھ کر کسی ایسی فلم کی مالی مدد بھی کی جائے، جو خصوصاً کسی ایسی خاتون ڈائرکٹر کی ہو جو اقلیتی طبقے سے ہو۔ ٹھیک ہے؟ ہمیں ان کمپنیوں کو لکھنا ہوگا، فون کرنا ہوں گے۔ جو فلمیں بناتی ہیں یا تقسیم کرتی ہیں، اور ہمیں اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر پوسٹ کرنا ہوگا جب ہم خواتین کی ایک نمایاں شمولیت دیکھنا چاہیں گے پردہ سیمیں پر، اور سب سے ضروری، کیمرہ کے پیچھے موجود خواتین۔ ہمیں اپنی آوازوں کو قابل سماعت بنانا ہو گا اور اپنے پیسوں کا بدل حاصل کرنا ہو گا۔
Now, we actually have the ability to change the world on this one. The US and its content, films in particular, have captured the imaginations of audiences worldwide. Worldwide. So that means that the film industry has unprecedented access to be able to distribute stories about equality all around the world. Imagine what would happen if the film industry aligned its values with what it shows on-screen. It could foster inclusion and acceptance for girls and women, people of color, the LGBT community, individuals with disabilities, and so many more around the world. The only thing that the film industry has to do is unleash its secret weapon, and that's storytelling.
اب حقیقتاً، ہم میں یہ صلاحیت ہے کہ اس موضوع پر دنیا کو بدل سکیں۔ امریکہ اور اس کے موضوعات، خصوصاً اس کی فلمیں، پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا چکی ہیں۔ عالمی سطح پر۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کی فلمی صنعت بے مثال صلاحیت رکھتی ہے اس دنیا کو برابری کی تعلیم دینے والی کہانیوں سے متعارف کرانے کی۔ سوچئے کیا ہو، اگر فلم انڈسٹری اپنی اقدار کو ویسا ہی بنا لے جیسا کہ پردے پردکھایا جاتا ہے۔ اسی کی وجہ سے پروان چڑھ سکتی ہیں شمولیت اورقبولیت لڑکیوں اور عورتوں کے لئے، مختلف رنگ و نسل کے لئے، مختلف جنسیاتی ترجیح رکھنے والوں کے لئے، معذور افراد کے لئے، اور دنیا کے بہت سے دوسرے افراد کے لئے۔ اس سب کے لئے فلم انڈسٹری کو صرف اپنے پوشیدہ ہتھیار کو استعمال کرنا ہوگا، اور وہ ہے کہانیوں کا پیش کرنا۔
Now, at the beginning of this talk, I said that films -- that they can actually transport us, but I would like to argue that films, they can transform us. None of us in this room have grown up or experienced a storytelling landscape with fully realized female characters, none of us, because the numbers haven't changed. What would happen if the next generation of audiences grew up with a whole different screen reality? What would happen? Well I'm here to tell you today that it's not only possible to change what we see on-screen but I am impatient for it to get here.
جیسا کہ اپنی گفتگو کے شروع میں، میں نے کہا تھا کہ فلمیں -- ہمیں دوسری دنیا میں لے جا سکتی ہیں، مگر اب میں یہ کہنا چاہوں گی، کہ فلمیں ہمیں تبدیل کرسکتی ہیں۔ اس کمرے میں موجود ہم میں سے کسی نے بھی کبھی تجربہ یا تصور نہیں کیا کہ کسی کہانی کا منظر نامہ خواتین کرداروں سے مکمل مزئین ہو، ہم میں سے کسی نے بھی نہیں، کیوں کہ اعداد ابھی بدلے نہیں ہیں۔ کیا ہو گا اگر سامعین اور ناظرین کی اگلی نسلیں فلموں کے ایک بالکل الگ تصور کے ساتھ بڑی ہوں؟ تب کیا ہوگا؟ میں آج یہاں آپ کو بتانے آئی ہوں کہ فلم میں ہم جو دیکھتے ہیں وہ نہ صرف بدل دینا ممکن ہے بلکہ میں اسے بدل دینے کے لئے بیتاب ہوں۔
So let's agree to take action today to eradicate the epidemic of invisibility. And let's agree to take action today to agree that US audiences and global viewers demand and deserve more. And let's agree today that the next generation of viewers and audiences, that they deserve to see the stories we were never able to see.
تو آئیں اس بات پر متفق ہوں کہ آج سے ہی اس پرعمل کریں اس غائب کر دینے کے روئیے کو ختم کرنے کے لئے۔ اور اس بارے میں آج عملی قدم اٹھانے پر متفق ہوجائیں کہ امریکہ اور دنیا بھر کے ناظرین و سامعین مزید بہتری کا حق رکھتے اور چاہتے ہیں۔ اور آج مان لیجئے کہ ناظرین و سامعین کی اگلی نسل، ان کہانیوں کو دیکھنے کا حق رکھتی ہے جو ہم کبھی نہ دیکھ سکے۔
Thank you.
شکریہ
(Applause)
(تالیاں)