I was here four years ago, and I remember, at the time, that the talks weren't put online. I think they were given to TEDsters in a box, a box set of DVDs, which they put on their shelves, where they are now.
ميں یہاں چار سال پہلے آیا تها اور مجهے یاد ہے، اس وقت بات چیت آن لائن نہیں رکھی جاتیں تهیں. ميرے خيال ميں وه TEDsters کو ڈبے ميں دی جاتی تهيں، ڈی وی ڈی سیٹ کے ڈبے، جو وه اپنی الماری پر رکهتے تهے، جہاں وه آج بهی ہيں.
(Laughter)
(ہنسی)
And actually, Chris called me a week after I'd given my talk, and said, "We're going to start putting them online. Can we put yours online?" And I said, "Sure."
اور اصل ميں، Chris نے مجهے کال کی ميرے Talk دینے کے ہفتے بعد اور اس نے کہا، "ہم ان کو آن لائن کررہے ہيں. کيا ہم تہماري آئن لائن رکھ سکتے ہيں؟" ميں نے کہا، "ضرور".
And four years later, it's been downloaded four million times. So I suppose you could multiply that by 20 or something to get the number of people who've seen it. And, as Chris says, there is a hunger for videos of me.
اور چار سال بعد، جيسا ميں نے کہا، یہ ديکهی گئی ہے چار... بلکہ، چاليس لاکهہ مرتبہ ڈاؤن لوڈ کی گئی ہے. تو ميرا خيال ہے آپ اسے 20 یا کچھ اور سے ضرب ديں تاکہ تعداد مل جائے جتنے لوگوں نے اسے ديکها ہے. اور جيسے Chris کہتا ہے، ايک بھوک ہے
(Laughter)
ميرے ويڈيوز کے لئے.
(Applause)
(ہنسی)
(تالياں)
Don't you feel?
....آپ کو نہيں لگتا ؟
(Laughter)
(ہنسی)
So, this whole event has been an elaborate build-up to me doing another one for you, so here it is.
تو، يہ بہت بڑی تقريب منعقد کی گئی ہے کہ ميں ايک اور دفعہ آپ کے لئے پيش کروں، تو آئيے شروع کرتے ہيں.
(Laughter)
(ہنسی)
Al Gore spoke at the TED conference I spoke at four years ago and talked about the climate crisis. And I referenced that at the end of my last talk. So I want to pick up from there because I only had 18 minutes, frankly.
الگورنے تقرير کی تھی TED کانفرنس ميں چار سال پہلے جہاں ميں نے بھی کی تھی اور ماحولیاتی بحران کے بارے ميں بات کی تھی . اور ميں نے اس کا حوالہ ديا تها اپنی پچهلی تقرير کے اختتام پر. تو میں وہاں سے شروع کرنا چاہتا ہوں کيونکه ميرے پاس 18منٹ ہی تهے، واضح طور سے.
(Laughter)
تو، جيسے ميں کہہ رہا تها...
So, as I was saying --
(Laughter)
(ہنسی)
You see, he's right. I mean, there is a major climate crisis, obviously, and I think if people don't believe it, they should get out more.
ديکهيں نا، وه صحيح ہے. میرا مطلب ہے، واقعی، ايک بڑا ماحولياتی بحران ہے، اور اگر لوگ يقين نہيں کرتے، تو انہيں زیادہ باہر نکلنا چاہئے.
(Laughter)
(ہنسی)
But I believe there is a second climate crisis, which is as severe, which has the same origins, and that we have to deal with with the same urgency. And you may say, by the way, "Look, I'm good. I have one climate crisis, I don't really need the second one."
لیکن مجھے یقین ہے کہ ايک اور ماحولياتی بحران بھی ہے، جو اتنا ہی شديد ہے، اور اس کا ماخذ بهی وہی ہے، اور ہميں اس سے بھی فوری طور پر نپٹنا ہے. اور میرا اس سے یہ مطلب ہے-- اور آپ شايد کہيں. "دیکھو، میں ٹھیک ہوں. ميرے پاس ايک ماحولياتی بحران ہے؛
(Laughter)
مجهے واقعی دوسرے کی ضرورت نہيں."
But this is a crisis of, not natural resources -- though I believe that's true -- but a crisis of human resources.
مگر يہ بحران، قدرتی وسائل کا نهيں-- اگرچہ مجھے یقین ہے کہ یہ سچ ہے -- بلکہ انسانی وسائل کا بحران ہے.
I believe fundamentally, as many speakers have said during the past few days, that we make very poor use of our talents. Very many people go through their whole lives having no real sense of what their talents may be, or if they have any to speak of. I meet all kinds of people who don't think they're really good at anything.
بنيادی طور پر مجهے يقين ہے، جیسا کہ کئی مقررین نے گزشتہ چند دنوں کے دوران کہا ہے، کہ ہم بہت خراب استعمال کرتے ہیں اپنی صلاحيتوں کا. کئ لوگ اپنی پوری زندگی گزار ديتے هيں بغير اپنی صلاحيتوں کا حقیقی احساس کئے ہوئے، يا پهر ان کے پاس کوئی ہے بهی يا نهيں. ميں ہر طرح کے لوگوں سے ملتا هوں جو نہیں سمجهتے یيں کہ وہ کسی بھی چیز ميں بہت اچھے ہیں.
Actually, I kind of divide the world into two groups now. Jeremy Bentham, the great utilitarian philosopher, once spiked this argument. He said, "There are two types of people in this world: those who divide the world into two types and those who do not."
دراصل، ميں دنيا کو اب دو حصوں ميں تقسيم کرتا ہوں. Jeremy Bentham, عظیم عملی فلسفی نے ايک دفعہ یہ دلیل دی. اس نے کہا "دنيا ميں دو طرح کے لوگ ہيں: وه جو دنيا کو دو حصوں ميں تقسيم کرتے ہيں اور وه جو نهيں کرتے"۔
(Laughter)
(ہنسی)
Well, I do.
خير ميں کرتا ہوں
(Laughter)
(ہنسی)
I meet all kinds of people who don't enjoy what they do. They simply go through their lives getting on with it. They get no great pleasure from what they do. They endure it rather than enjoy it, and wait for the weekend. But I also meet people who love what they do and couldn't imagine doing anything else. If you said, "Don't do this anymore," they'd wonder what you're talking about. It isn't what they do, it's who they are. They say, "But this is me, you know. It would be foolish to abandon this, because it speaks to my most authentic self." And it's not true of enough people. In fact, on the contrary, I think it's still true of a minority of people. And I think there are many possible explanations for it.
ميں ہرطرح کے لوگوں سے ملتا ہوں جو لطف اندوز نہیں ہوتے اس سے جو وہ کرتے ہیں. وه صرف اپنی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں. بس گزار رہے ہوتے ہيں۔ وہ جو کر رہے ہوتے ہیں انهيں اس کام ميں مزه نهيں آتا. وہ اس سے لطف اندوز کی ہونے کے بجائے اسے برداشت کرتے ہیں اور اختتام ہفتہ کا انتظار کرتے ہیں. مگر میں ايسے لوگوں سے بھی ملتا ہوں جو اپنے کام سے عشق کرتے ہيں اور کچھ اور کرنے کا سوچ بهی نهيں سکتے. اگر آپ انہيں کہیں "یہ کام اب بس کر دو" تو وه حيران ہوجائيں گے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں. کیونکہ صرف یہ نہیں کہ وہ یہ کام کرتے ہیں بلکہ یہ ان کی شخصیت کا حصہ ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں، "یکن یہ میں ہوں، آپ جانتے ہیں. اسے چهوڑنا میرے لیے بيوقوفی ہوگی، کيونکہ یہ میری شخصیت کا بہترین اظہار کرتا ہے"۔ اور یہ کافی لوگوں کے لئے سچ نہیں ہے. اصل میں، اس کے برعکس، ميرے خيال ميں یہ صرف اقليت کے لیے سچ ہے۔ اور ميرے خيال ميں اس کی کافی
And high among them is education, because education, in a way, dislocates very many people from their natural talents. And human resources are like natural resources; they're often buried deep. You have to go looking for them, they're not just lying around on the surface. You have to create the circumstances where they show themselves. And you might imagine education would be the way that happens, but too often, it's not. Every education system in the world is being reformed at the moment and it's not enough. Reform is no use anymore, because that's simply improving a broken model. What we need -- and the word's been used many times in the past few days -- is not evolution, but a revolution in education. This has to be transformed into something else.
ممکنہ وجوهات ہيں۔ اور اِن میں نمایاں تعليم هے، کيونکه تعليم ايک طرح سے کافی لوگوں کو دور کرديتی هے اپنی اصل صلاحيتوں سے۔ اور انسانی وسائل بالکل قدرتی وسائل کی طرح ہوتے ہيں يه اکثر بہت گہرائی ميں دفن ہوتے هيں۔ آپ کو انہيں تلاش کرنا پڑتا ہے يه اوپری سطح پر پڑے ہوئے نہيں ہوتے۔ آپ کو ایسے حالات بنانے پڑتے ہيں جہاں یہ خود کو ظاہر کر دیں۔ اور آپ اکثر یہ سوچتے ہوں گے که تعليم یہ سب کچھ کرے گی، مگر زیادہ تر ايسا نهيں ہوتا۔ دنيا کے ہر نظام تعليم میں اس وقت اصلاحات کی جا رہی ہیں اور يه کافی نہیں ہے. اصلاح کرنا اب کافی نہيں، کيونکہ یہ صرف ايک تباہ شدہ نظام کی مرمت کرنا ہے ہميں کيا چاہیئے -- اور یہ لفظ گزشتہ دنوں میں کئی بار استعمال ہوچکا ہے -- کہ ارتقا نہیں بلکه تعليم ميں انقلاب۔ اس کو ڈھالنا ہوگا
(Applause)
کسی اور چيز ميں۔
(تالياں)
One of the real challenges is to innovate fundamentally in education. Innovation is hard, because it means doing something that people don't find very easy, for the most part. It means challenging what we take for granted, things that we think are obvious. The great problem for reform or transformation is the tyranny of common sense. Things that people think, "It can't be done differently, that's how it's done."
ايک حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ کہ بنيادی جدت لائی جائے تعليم ميں۔ جدت لانا مشکل هے اِس کا مطلب ہے کچھ ايسا کرنا جو عام طور پر لوگوں کے لئے آسان نہيں۔ مطلب ايسی چيزوں کو للکارنا جو پہلے سے تسلیم شدہ ہيں، چيزيں جنہيں ہم یقینی سمجهتے هيں۔ اصلاح کا بڑا مسئلہ يا سدھارنے کا عام فہی کا جبر ہے؛ لوگ جو سوچتے ہیں، "دیکھیں, يہ کام صرف ايک ہی طرح سے کيا جاسکتا هے."
I came across a great quote recently from Abraham Lincoln, who I thought you'd be pleased to have quoted at this point.
پچهلے دنوں, میں نے ابراہیم لنکن کا ایک شاندار قول پڑھا جو ميرے خيال ميں آپ کو اچها لگے گا اس موقع پر ۔
(Laughter)
(ہنسی)
He said this in December 1862 to the second annual meeting of Congress. I ought to explain that I have no idea what was happening at the time. We don't teach American history in Britain.
اس نے يہ دسمبر 1862 ميں کہا تها کانگرس کے دوسرے سالانہ اجلاس ميں۔ ميں بتانا چاہوں گا کہ مجهے کچھ پتہ نہيں اس وقت کيا ہورہا تها ہم برطانيہ ميں امريکی تاريخ نہيں پڑهاتے۔
(Laughter)
(ہنسی)
We suppress it. You know, this is our policy.
ہم اسے دبا ديتے ہيں۔ یہ ہمارا اصول ہے۔
(Laughter)
(ہنسی)
No doubt, something fascinating was happening then, which the Americans among us will be aware of.
تو 1862 میں يققينا کچھ زبردست ہورہا ہوگا، ہم ميں جو امريکی ہیں جانتے ہوں گے۔
But he said this: "The dogmas of the quiet past are inadequate to the stormy present. The occasion is piled high with difficulty, and we must rise with the occasion." I love that. Not rise to it, rise with it. "As our case is new, so we must think anew and act anew. We must disenthrall ourselves, and then we shall save our country."
لیکن اس نے کہا "خاموش ماضی کا عقيده حال کے طوفان کے آگے نا کافی ہے۔" حالات مشکلات سے بھرپور ہیں، اور ہميں حالات کے ساتھ ابهرنا ہے۔" مجهے بڑا پسند ہے يہ۔ ....کہ مقابل نہيں بلکہ ساتھ ساتھ "جيسا کہ ہمارا معاملہ نيا ہے تو ہماری سوچ بهی نئی ہونی چاہئے اور عمل بهی۔ ہميں اپنے آپ کو آزاد کرنا ہو گا
I love that word, "disenthrall."
اور پھرہم اپنے ملک کو بچاسکيں گے۔"
You know what it means? That there are ideas that all of us are enthralled to, which we simply take for granted as the natural order of things, the way things are. And many of our ideas have been formed, not to meet the circumstances of this century, but to cope with the circumstances of previous centuries. But our minds are still hypnotized by them, and we have to disenthrall ourselves of some of them. Now, doing this is easier said than done. It's very hard to know, by the way, what it is you take for granted. And the reason is that you take it for granted.
کمال کا لفظ ہے "آزاد " پتہ ہے کيا مطلب ہے اس کا؟ کہ ايسی سوچ جس ميں ہم جکڑے ہوئے ہیں، جسے ہم بس عام سی بات سمجهتے ہیں جيسے قدرتی سلسلہ ہو، بس ايسے ہی ہے۔ اور ہمارے بہت سے خیالات اس صدی کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں، بلکہ پچھلی صدی کے حالات کے مطابق ہیں۔ مگر ہمارے ذہن ابھی تک اس ميں محصور ہيں، اور ہمیں اِن میں سے کچھ سے اپنے آپ کو آزاد کروانا ہوگا۔ اب ایسا کرنے سے زیادہ آسان کہنا ہے. ويسے يہ جاننا کافی مشکل ہے کہ آپ کسے اہمیت نہیں دیتے۔ (ہنسی) اور اس کی وجہ يہ ہے کہ آپ اسے اہمیت نہیں دیتے۔
(Laughter)
تو چليں ميں آپ سے کچھ پوچهتا ہوں جسے آپ اہمیت نہیں دیتے۔
Let me ask you something you may take for granted. How many of you here are over the age of 25? That's not what you take for granted, I'm sure you're familiar with that. Are there any people here under the age of 25? Great. Now, those over 25, could you put your hands up if you're wearing your wristwatch? Now that's a great deal of us, isn't it? Ask a room full of teenagers the same thing. Teenagers do not wear wristwatches. I don't mean they can't, they just often choose not to. And the reason is we were brought up in a pre-digital culture, those of us over 25. And so for us, if you want to know the time, you have to wear something to tell it. Kids now live in a world which is digitized, and the time, for them, is everywhere. They see no reason to do this. And by the way, you don't need either; it's just that you've always done it and you carry on doing it. My daughter never wears a watch, my daughter Kate, who's 20. She doesn't see the point. As she says, "It's a single-function device."
آپ ميں سے کون پچيس سال سے بڑے ہيں؟ میرے خیال میں یہ ایسی چیز نہیں جسے آپ اہمیت نہ دیتے ہوں، يقينا آپ کو اس بارے میں پتہ ہوگا۔ یہاں کوئي ہے جو پچيس سے کم ہو؟ ذبردست۔ چلیں وه جو اب پچيس سے زياده ہیں، اگر آپ نے گهڑي پہنی ہوئي ہے تو ہاتھ بلند کريں؟ ہم جيسے کافی ہيں، ہیں نا؟ يہی سوال نئی نسل کے بهرے مجمع سے کريں نئی نسل گهڑي نہيں پہنتی۔ يہ نہيں کہ وہ پہن نہيں سکتے یا انہیں اجازت نہیں، وه بس پہننا نہيں چاہتے۔ وجہ يہ ہے کہ ہم ڈيجٹل دور سے پہلے کے ہيں ہم پچيس سال سے زياده والے۔ اور اگر ہم نے وقت معلوم کرنا ہو تو ہمیں جاننے کے لیے کچھ پہننا ہو گا۔ بچے اب اس ڈيجٹل دور ميں رہتے ہيں، ان کے لئے وقت ہر جگہ ہے۔ ان کے پاس کوئی وجہ نہيں گهڑي پہننے کی۔ اور ويسے آپ کو بھی ضرورت نہيں؛ بس يہ اس لئے ہے کہ آپ اسے ہميشہ استعمال کرتے آئے ہيں اور کرتے رہيں گے۔ ميری بيٹی کبھی گهڑی نہیں پہنتی، کيٹ، وه بيس کی ہے۔ اس کے خیال میں اس کو پہننے کی کوئی وجہ نہیں۔ وه کہتی ہے "يہ صرف ايک ہی کام کرتی ہے." (ہنسی)
(Laughter)
"يعنی یہ کيسی بے کار بات ہے؟"
"Like, how lame is that?" And I say, "No, no, it tells the date as well."
اور ميں کہتا ہوں "نہيں نہيں يہ تاريخ بھی بتاتی ہے۔"
(Laughter)
(ہنسی)
"It has multiple functions."
".يہ کئی کام کرتی ہے"۔
(Laughter)
But, you see, there are things we're enthralled to in education. A couple of examples. One of them is the idea of linearity: that it starts here and you go through a track and if you do everything right, you will end up set for the rest of your life. Everybody who's spoken at TED has told us implicitly, or sometimes explicitly, a different story: that life is not linear; it's organic. We create our lives symbiotically as we explore our talents in relation to the circumstances they help to create for us. But, you know, we have become obsessed with this linear narrative. And probably the pinnacle for education is getting you to college. I think we are obsessed with getting people to college. Certain sorts of college. I don't mean you shouldn't go, but not everybody needs to go, or go now. Maybe they go later, not right away.
مگر ہم تعليم ميں بهی کئی چیزوں سے جکڑے گئے ہيں.۔ میں آپ کے سامنے کچھ مثالیں رکھتا ہوں۔ ان ميں سے ايک ہے لکيرکے فقير کی سوچ: یہ ایسا ہے کہ يہاں سے شروع کرو اور اس راستے پر چلو اور اگر سب صحيح کروگے تو اختتام صحيح ہوگا آئنده زندگی کے لیے۔ تمام لوگ جنہوں نے TED میں گفتگو کی انہوں نے بھی ڈھکے چھپے انداز میں کہا، يا کچھ نے کھل کر بتائی، ایک فرق کہانی: زندگی لکير کی طرح نہيں بلکه عضوي ہے۔ ہم اپنی زند گي ايک دوسرے کے ساتھ گزارتے ہيں اور اپنی صلاحيتوں کو کهوجتے ہيں حالات و واقعات کے ساتھ جو وہ ہمارے لئے پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں. مگر پتہ ہے کہ ہم اثر ميں ہيں اس روايت کے۔ اور شايد تعليم کا اصل ہميں کالج ميں داخل کروانا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم لوگوں کو کالج بھیجنے کے لیے پاگل ہو چکے ہيں۔ خاص قسم کے کالجوں میں۔ میرا مطلب يہ نہيں کہ آپ کو کالج نہيں جانا چاہیے، لیکن شايد ہر کسی کا جانا ضروری نہيں اور شايد سب کا ابھی جانا ضروری نہيں۔ شايد وہ بعد ميں جائیں، پرابهی نہيں.
And I was up in San Francisco a while ago doing a book signing. There was this guy buying a book, he was in his 30s. I said, "What do you do?" And he said, "I'm a fireman." I asked, "How long have you been a fireman?" "Always. I've always been a fireman." "Well, when did you decide?" He said, "As a kid. Actually, it was a problem for me at school, because at school, everybody wanted to be a fireman."
کچھ عرصہ پہلے ميں سان فرانسسکو ميں تها ایک کتاب کی تعارفی تقريب ميں۔ ايک شخص جو تيس کے لگ بھگ تھا کتاب خرید رہا تھا۔ ميں نے پوچها "کيا کرتے ہو؟" وہ بولا فائر مين ہوں، آگ بجهانے والا. میں نے پوچھا کتنے عرصے سے یہ کام کر رہے ہو؟. اس نے کہا "میں ہميشہ سے فائر مين بننا چاہتا تھا۔" ميں نے پوچها "تم نے کب اس کا فيصلہ کيا؟" وہ بولا "جب میں بچہ تھا"، "اصل ميں اسکول ميں یہ میرے لیے مسلہَ تها، کيونکہ اسکول ميں ہر کوئی فائرمين بننا چاہتا تها۔"
(Laughter)
"ليکن ميں اصل میں فائرمين بننا چاہتا تها۔"
He said, "But I wanted to be a fireman." And he said, "When I got to the senior year of school, my teachers didn't take it seriously. This one teacher didn't take it seriously. He said I was throwing my life away if that's all I chose to do with it; that I should go to college, I should become a professional person, that I had great potential and I was wasting my talent to do that." He said, "It was humiliating. It was in front of the whole class and I felt dreadful. But it's what I wanted, and as soon as I left school, I applied to the fire service and I was accepted. You know, I was thinking about that guy recently, just a few minutes ago when you were speaking, about this teacher, because six months ago, I saved his life."
اور اس نے کہا "جب ميں سينئر اسکول ميں پہنچا، ميرے استاد اس کو سنجيدگی سے نہيں ليتے تهے۔ خاص طور سے ايک استاد۔ وہ کہتا تها ميں اپنی زندگی ضائع کررہا ہوں اگر میں يہی کرنا چاہتا ہوں؛ کہ مجهے کالج جانا چاہئے، پروفيشنل آدمی بننا چاہئے، کہ مجھ ميں بڑي صلاحيتيں ہيں اور ميں ایسا کر کے اپنی صلاحيتيں ضائع کررہا ہوں۔" اور اس نے کہا "يہ کافی تکليف ده تها کیونکہ اس نے یہ ساری کلاس کے سامنے کہا تها اور مجهے بڑا دکھ ہوا تها۔ مگر يہ ميری خواہش تهی اور جیسے ہی ميں نے اسکول ختم کیا، میں نے فائرمين بننے کے لئے درخواست دی اور بهرتی ہو گيا۔" اور اس نے کہا "آپ جانتے ہیں ميں اسی شخص کے بارے ميں سوچ رہا تها، اسی استاد کے بارے میں، کچھ لمحہ پہلے جب آپ بات کررہے تهے،" اس نے کہا "کيونکہ چھ مہينے پہلے،
(Laughter)
ميں نے اس کی جان بچائی تھی." (ہنسی)
He said, "He was in a car wreck, and I pulled him out, gave him CPR, and I saved his wife's life as well." He said, "I think he thinks better of me now."
اس نے کہا "وه ايک کار کے حادثے ميں تها، ميں نے اس کو باہر نکالا، طبی امداد دی، اور اس کی بيوی کی جان بهی بچائی۔" اس نے کہا "ميرے خيال ميں وه اب تو ميرے بارے ميں اچها سوچتا ہو گا۔"
(Laughter)
(ہنسی)
(Applause)
(تالياں)
You know, to me, human communities depend upon a diversity of talent, not a singular conception of ability. And at the heart of our challenges --
پتہ ہے ميرے لئے انسانی معاشره جداگانہ صلاحيتيوں پر منحصر ہے، نہ کہ ايک ہی طرح کی قابليت کی سوچ
(Applause)
اور ہمارے مسئلے کی جڑ -- (تالياں)
At the heart of the challenge is to reconstitute our sense of ability and of intelligence. This linearity thing is a problem.
ہمارے مسئلے کی جڑ ہے صلاحيت اور قابليت کے شعور کو بدلنا۔ يه لکير کی فقير کی سوچ ايک مسئلہ ہے۔
When I arrived in L.A. about nine years ago, I came across a policy statement -- very well-intentioned -- which said, "College begins in kindergarten." No, it doesn't.
جب ميں L.A آيا تقريبا 9 سال پہلے، مجهے ايک نظم ونسق کا جملہ ملا -- کمال ارادے کے ساتھ تها -- یہ تھا "کالج شروع ہوتا ہے کے۔جی سے" نہيں, یہ نہيں ہوتا۔
(Laughter)
(ہنسی)
It doesn't. If we had time, I could go into this, but we don't.
یہ نہيں ہوتا۔ اگر ہمارے پاس وقت ہوتا تو ميں تفصیلی بحث کرتا، لیکن وقت نہیں۔
(Laughter)
(ہنسی)
Kindergarten begins in kindergarten.
کے۔ جی شروع ہوتی ہے کے۔ جی سے.۔
(Laughter)
(ہنسی)
A friend of mine once said, "A three year-old is not half a six year-old."
ميرے ايک دوست نے ایک مرتبہ کہا تها، "تمہیں پتہ ہے ایک تين سال کا بچہ چھ سال والے کا آدها نہيں ہوتا۔"
(Laughter)
(ہنسی)
(Applause)
(تالياں)
They're three.
وه تين کا ہوتا ہے.
But as we just heard in this last session, there's such competition now to get into kindergarten -- to get to the right kindergarten -- that people are being interviewed for it at three. Kids sitting in front of unimpressed panels, you know, with their resumes --
ليکن جيسا ابھی ہم نے آخری سیشن میں سنا، کے۔ جی ميں داخلے کے لیے اتنا سخت مقابلہ ہے -- کے۔ جی ميں داخلے کے لیے -- کہ تین سال کی عمر میں ان کا انٹرويو ہورہا ہے۔ بچے سخت چہروں والے پینل کے سامنے بيٹهے ہيں، اپنی درخواست کے ساتھ،
(Laughter)
(ہنسی)
Flicking through and saying, "What, this is it?"
صفحے پلٹتے ہوئے "بس یہی ہے؟"
(Laughter)
(ہنسی)
(Applause)
(تالياں)
"You've been around for 36 months, and this is it?"
"آپ چهتيس مہينوں سے ہو اور بس یہی ہے؟"
(Laughter)
(ہنسی)
"You've achieved nothing -- commit.
"آپ نے کچھ بهی حاصل نهيں کيا -- بےکار۔
(Laughter)
جیسا نظر آ رہا ہے شروع کے چھ مہينے بس دودھ پيتے گزاردئيے۔"
Spent the first six months breastfeeding, I can see."
(ہنسی)
(Laughter)
See, it's outrageous as a conception.
ديکهيں سوچ کے لحاظ سے کتنا بکواس ہے، مگر پهر بهی [واضح نہیں]۔
The other big issue is conformity. We have built our education systems on the model of fast food. This is something Jamie Oliver talked about the other day. There are two models of quality assurance in catering. One is fast food, where everything is standardized. The other is like Zagat and Michelin restaurants, where everything is not standardized, they're customized to local circumstances. And we have sold ourselves into a fast-food model of education, and it's impoverishing our spirit and our energies as much as fast food is depleting our physical bodies.
دوسرا بڑا مسئلہ ہم آہنگی کا ہے۔ ہم نے اپنے تعليمی نظاموں کو فاسٹ فوڈ کے نظام پر بنايا ہے۔ اس کے بارے ميں جیمی اوليور نے اس دن بات کی۔ کيڑنگ کے کام ميں معيار کے دو نظام ہوتے ہيں۔ ايک ہے فاسٹ فوڈ، جہاں سب کچھ ايک خاص معيار اور طريقہ پر ہوتا ہے۔ اور دوسرے ہيں زگٹ اور مچلن ريسٹورنٹ کی طرح، جہاں سب کچھ ايک خاص نظام اور طریقہ پر نہيں ہوتا۔ يہاں اسے ماحول اور ضرورت کے مطابق بنايا جاتا ہے۔ اور ہم نے اپنے آپ کو تعلیم کے فاسٹ فوڈ نظام کے ہاتهوں بيچ ديا ہے، اور یہ کهوکهلا کر رہا ہے ہماری روح اور توانائيوں کو جیسے فاسٹ فوڈ ہماری صحتوں کو تباہ کر رہا ہے.
(Applause)
(تالياں)
We have to recognize a couple of things here. One is that human talent is tremendously diverse. People have very different aptitudes. I worked out recently that I was given a guitar as a kid at about the same time that Eric Clapton got his first guitar.
ميرے خيال ميں ہمیں کچھ چیزوں کا جاننا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ انسانی صلاحيتيں بڑی الگ الگ ہوتی ہيں۔ لوگوں کا بڑا الگ الگ رجحان ہوتا ہے۔ مجهے حال ہی ميں پتہ چلا کہ مجهے بچپن ميں گٹاردیا گیا تها
(Laughter)
تقريبا اسی عمر ميں جس ميں ايرک کلپٹن کو ملا تھا۔
It worked out for Eric, that's all I'm saying.
آپ کو پتہ ہے وه ايريک کے لئے کام کرگیا، يہی ميں کہہ رہا ہوں.
(Laughter)
(ہنسی)
In a way -- it did not for me. I could not get this thing to work no matter how often or how hard I blew into it. It just wouldn't work.
ايک طرح سے ميرے لئے نہيں۔ ميں اس سے کام نہيں لے پا رہا تها چاہے جتنے بهی زور سے ميں نے اس ميں پهونکيں ماريں بس وه کام کرتا ہی نهيں تها (ہنسی)
(Laughter)
But it's not only about that. It's about passion. Often, people are good at things they don't really care for. It's about passion, and what excites our spirit and our energy. And if you're doing the thing that you love to do, that you're good at, time takes a different course entirely. My wife's just finished writing a novel, and I think it's a great book, but she disappears for hours on end. You know this, if you're doing something you love, an hour feels like five minutes. If you're doing something that doesn't resonate with your spirit, five minutes feels like an hour. And the reason so many people are opting out of education is because it doesn't feed their spirit, it doesn't feed their energy or their passion.
ليکن بات صرف يہ نہيں ہے۔ بات ہے جذبے کی۔ اکثر لوگ ماہر ہیں ان چیزوں کے بارے میں، جن کی انہيں کوئی پروا نہيں ہوتی۔ بات ہے جذبے کی، اور ہماری روح کو کيا چيز جوش اور توانائی ديتی ہے۔ اور اگر آپ وه کرتے جس سے آپ کو عشق ہے اور اس ميں آپ ماہر بهی ہيں، وقت بالکل الگ طريقے سے چلتا ہے۔ ميری بيوی نے ابھی ناول لکهنا ختم کيا ہے، اور ميرے خيال ميں یہ ایک اچهی کتاب ہے، مگر وه گهنٹوں غائب ہوجاتی ہے۔ پتا ہے اگر آپ وه کر رہے ہيں جس سے آپکو عشق ہے، گهنٹہ لگتا ہے منٹ ميں بدل گیا ہو۔ اور اگر کام آپ کے جذبے سے مطابقت نہیں رکھتا تو پانچ منٹ گهنٹہ کی طرح لگتے ہیں۔ اور آج کل جو اتنے لوگ تعليم سے بهاگ رہے ہيں اس لئے کہ ان کی روح کو کچھ نہيں مل رہا، وه ان کے جذبے اور ان کے اندر کو کچھ نہيں دے رہا۔
So I think we have to change metaphors. We have to go from what is essentially an industrial model of education, a manufacturing model, which is based on linearity and conformity and batching people. We have to move to a model that is based more on principles of agriculture. We have to recognize that human flourishing is not a mechanical process; it's an organic process. And you cannot predict the outcome of human development. All you can do, like a farmer, is create the conditions under which they will begin to flourish.
تو شايد ہميں استعارے بدلنے ہوں گے۔ ہميں ايک صنعتی تعليمي نظام سے، جو صرف پيداوار کا نظام ہے، اور جو بلکل سيدهے خط ميں ہے اور جتھے میں اور ہم آہنگی ميں ہے۔ ہميں ايک ايسے نظام کی طرف جانا ہے جس کی بنياد زیادہ زرعی اصولوں پر ہو۔ ہميں معلوم ہونا چاہئے کہ انسان کا پنپنا میکانکی عمل نہيں؛ بلکہ عضوی عمل ہے۔ نیز آپ انسانی ترقی کے نتيجے کا اندازہ نہيں لگا سکتے۔ ہم زیادہ سے زیادہ، ايک کسان کی طرح، ايسے حالات بنا ديں جن میں يه پهل پهول سکيں۔
So when we look at reforming education and transforming it, it isn't like cloning a system. There are great ones, like KIPP's; it's a great system. There are many great models. It's about customizing to your circumstances and personalizing education to the people you're actually teaching. And doing that, I think, is the answer to the future because it's not about scaling a new solution; it's about creating a movement in education in which people develop their own solutions, but with external support based on a personalized curriculum.
تو جب ہم ديکهتے ہيں کہ تعليم کو بدلنا ہے يا بہتر بنانا ہے، تو ايسا نہيں کہ نظام تو پودي قلم کی طرح لگاتے جائيں۔ کئی بہت اچهے ہیں، جیسے KIPP's بہت اچها نظام ہے۔ کئی زبردست ماڈل ہيں۔ اصل ميں بات ہے اپنے حالات کے مطابق بنانے کي اور تعليم کو اپنے مطابق ڈھالنے کی جن لوگوں کو اصل میں ہم يہ پڑھا رہے ہيں ۔ اور ايسا کرنا ميرے خيال ميں، مستقبل کا حل ہے کيونکہ يه ايک نئے حل کو وسعت دينا نہيں؛ بکله ايسی تبديلي لانا ہے جس ميں لوگ حل خود ڈھونڈیں، لیکن بيرونی مدد کےساتھ جس کی بنياد ذاتی نصاب ہو۔
Now in this room, there are people who represent extraordinary resources in business, in multimedia, in the Internet. These technologies, combined with the extraordinary talents of teachers, provide an opportunity to revolutionize education. And I urge you to get involved in it because it's vital, not just to ourselves, but to the future of our children. But we have to change from the industrial model to an agricultural model, where each school can be flourishing tomorrow. That's where children experience life. Or at home, if that's what they choose, to be educated with their families or friends.
اب اس کمرے ميں، ايسے لوگ ہيں جو کمال تجارتی وسائل رکهتے ہيں، ملٹي ميڈيا اور انٹرنيٹ ميں۔ يه ٹيکنالوجیز، استادوں کی عظيم صلاحيتوں کے ساتھ مل کر، تعليم میں انقلابی تبدیلی کا موقع فراہم کر رہی ہیں۔ اور ميں زور ديتا ہوں کہ آپ اس ميں حصہ ڈاليں کيونکہ يہ صرف ہمارے لئے ہی قیمتی نہيں، بلکہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے لئے بهی ہے۔ مگر ہميں ايک صعنت کاری نظام سے بدلنا ہے ايک زرعي نظام کی طرف، جہاں ہر اسکول پهولے اور پهلے اپنے کل کيلئے۔ يه ہے وه جگہ جہاں بچے زندگی کے تجربے حاصل کرتے ہيں۔ يا اپنے گهروں پر اگروہ چاہیں اپنے خاندان کےساتھ يا دوستوں کے ساتھ۔
There's been a lot of talk about dreams over the course of these few days. And I wanted to just very quickly -- I was very struck by Natalie Merchant's songs last night, recovering old poems. I wanted to read you a quick, very short poem from W. B. Yeats, who some of you may know. He wrote this to his love, Maud Gonne, and he was bewailing the fact that he couldn't really give her what he thought she wanted from him. And he says, "I've got something else, but it may not be for you."
يهاں کافی باتيں خوابوں کے بارے ميں ہوئی ہيں. پچهلے چند دنوں ميں۔ اور میں ذرا جلدي سے عرض کرتا ہوں -- ميں کل رات بڑا متاثر ہوا نتاليا مرچنٹ کے گانے سے پراني نظميں تلاش کرتے ہوئے۔ آپ کے سامنے جلدی سے ایک چهوٹي سي نظم پيش کرتا ہوں W.B. Yeats کی ،جس کو آپ جانتے ہوں گے اس نے يہ اپنے پيار کو لکها تها، Muad Gonne کہ وه بڑا رنجيده تها اس خيال سے کہ وه اسے وہ کچھ نہ دے سکا جو وه چاہتی تھی اس سے۔ اور وہ کہتا ہے "ميرے پاس کچھ اور ہے مگر يہ تمہارے لئے شايد نہ ہو۔"
He says this: "Had I the heavens' embroidered cloths, Enwrought with gold and silver light, The blue and the dim and the dark cloths Of night and light and the half-light, I would spread the cloths under your feet: But I, being poor, have only my dreams; I have spread my dreams under your feet; Tread softly because you tread on my dreams." And every day, everywhere, our children spread their dreams beneath our feet. And we should tread softly.
وه یہ کہتا ہے: "ميرے پاس جنت کی کشيدہ کاری کیے کپڑے ہوں سونے کے ساتھ بنے ہوے اور چاندی کي روشنيوں کے ساتھ، نيلي اور مدہم اور گہرے رنگ کے لباس اندھيری، روشني اور ہلکی روشنيوں کے ساتھ، ميں ان لباسوں کو بچھا دوں تہمارے قدموں ميں: ليکن ميں غريب هوں، ميرے پاس تو صرف خواب ہی ہيں؛ اور ميں ان خوابوں کو بچھاتا ہوں تہمارے قدموں ميں؛ تو ذرا دهيرے سے قدم رکهنا کيونکہ تم ميرے خوابوں پر چلتے ہو." اور ہر روز ہر جگہ، ہمارے پهول جيسے بچے خواب ہمارے قدموں کے نيچے بچھاتے ہيں۔ ہميں سنبھل کر قدم رکهنا ہو گا۔
Thank you.
شکريہ۔
(Applause)
(تالياں)
Thank you very much.
(Applause)
Thank you.
(Applause)