Namaskar.
نمسکار [سلام]
I'm a movie star, I'm 51 years of age, and I don't use Botox as yet.
میں ایک فلمی ستارہ ہوں، میری عمر51 سال ہے، اور اب تک بوٹوکس استعمال نہیں کرتا۔
(Laughter)
(قہقہے)
So I'm clean, but I do behave like you saw like a 21-year-old in my movies. Yeah, I do that. I sell dreams, and I peddle love to millions of people back home in India who assume that I'm the best lover in the world.
تو میں صاف ہوں، لیکن میں اپنی فلموں میں ایک 21 سالہ کا برتاو کرتا ہوں۔ ہاں، میں یہ کرتا ہوں۔ میں خواب بیچتا ہوں، اور اپنے گھر بھارت میں کروڑوں لوگوں کو محبت فروخت کرتا ہوں جو یہ سجمھتے ہیں کہ میں دنیا کا بہترین عاشق ہوں۔
(Laughter)
(قہقہے)
If you don't tell anyone, I'm going to tell you I'm not, but I never let that assumption go away.
اگر آپ کسی کو نہ بتائیں، تو میں آپ کو بتاوں کہ میں ایسا نہیں ہوں، لیکن میں کبھی ایسا محسوس نہیں ہونے دیتا۔
(Laughter)
(قہقہے)
I've also been made to understand there are lots of you here who haven't seen my work, and I feel really sad for you.
مجھے یہ بھی یقین دلایا گیا ہے کہ یہاں آپ میں سے بہت سے لوگوں نے میرا کام نہیں دیکھا، اور میں آپ کے لیے افسردہ ہوں۔
(Laughter)
(قہقہے)
(Applause)
(تالیاں)
That doesn't take away from the fact that I'm completely self-obsessed, as a movie star should be.
لیکن اس سے یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ میں مکمل طور پر خود پسند ہوں، جیسا ایک فلمی ستارے کو ہونا چاہیے۔
(Laughter)
(قہقہے)
That's when my friends, Chris and Juliet called me here to speak about the future "you." Naturally, it follows I'm going to speak about the present me.
تبھی میرے دوستوں کرس اور جولیٹ نے مجھے یہاں دعوت دی مستقبل کے "آپ" پر گفتگو کے لیے۔ قدرتی طور پر اس کا مطلب ہے کہ میں آج کے "میں" پر بات کروں گا۔
(Laughter)
(قہقہے)
Because I truly believe that humanity is a lot like me.
کیونکہ میرا پختہ یقین ہے کہ انسانیت کافی حد تک میرے جیسی ہے۔
(Laughter)
(قہقہے)
It is. It is. It's an aging movie star, grappling with all the newness around itself, wondering whether it got it right in the first place, and still trying to find a way to keep on shining regardless.
ہاں ہاں ۔ یہ ہے۔ یہ ڈھلتی عمر کے فلمی ستارے جیسی ہے، جو اپنے اردگرد کے نئے پن پر گرفت کرنے کی کوشش کر رہا ہے، سوچتا ہے کہ کیا اس نے شروع سے اسے صحیح سمجھا ہے، اور ابھی بھی راستے کی تلاش میں ہے تاکہ وہ اپنی چمک برقرار رکھ سکے۔
I was born in a refugee colony in the capital city of India, New Delhi. And my father was a freedom fighter. My mother was, well, just a fighter like mothers are. And much like the original homo sapiens, we struggled to survive. When I was in my early 20s, I lost both my parents, which I must admit seems a bit careless of me now, but --
میں انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کی ایک پناہ گزینوں کی آبادی میں پیدا ہوا۔ اور میرے والد آزادی کے ایک جنگجو تھے۔ جبکہ میری ماں صرف ایک جنگجو تھیں جیسا کہ مائیں ہوتی ہیں۔ اورکافی حد تک قدیم انسانوں کی طرح، ہم بقا کی جدوجہد کرتے تھے۔ جب میں 20 کی دہائی میں تھا، تو میں نے اپنے والدین کو کھو دیا، جو مجھے ماننا ہوگا بظاہر میری لاپرواہی تھئ، لیکن --
(Laughter)
(قہقہے)
I do remember the night my father died, and I remember the driver of a neighbor who was driving us to the hospital. He mumbled something about "dead people don't tip so well" and walked away into the dark. And I was only 14 then, and I put my father's dead body in the back seat of the car, and my mother besides me, I started driving back from the hospital to the house. And in the middle of her quiet crying, my mother looked at me and she said, "Son, when did you learn to drive?" And I thought about it and realized, and I said to my mom, "Just now, Mom."
مجھے وہ رات یاد ہے جب میرے والد فوت ہوئے، اور مجھے ہمسائے کا وہ ڈرائیور یاد ہے جو ہمیں پسپتال لے جا رہا تھا۔ وہ کچھ یوں بڑبڑایا "مردے اچھی بخشش نہیں دیتے" اور اندھیرے میں گم ہو گیا۔ تب میں صرف 14 سال کا تھا، اور میں نے اپنے والد کے مردہ جسم کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈالا، ماں میرے ساتھ بیٹھیں، میں نے ہسپتال سے واپس گھر کی طرف گاڑی چلانی شروع کر دی۔ اور خاموشی سے سسکنے کے دوران، میری ماں نے میری طرف دیکھا اور انہوں نے کہا، "بیٹا، تم نے گاڑی چلانی کب سیکھی؟" میں نے اس کے بارے میں سوچا اور اندازہ ہوا، اور میں نے اپنی ماں سے کہا، "امی، ابھی ابھی۔"
(Laughter)
(قہقہے)
So from that night onwards, much akin to humanity in its adolescence, I learned the crude tools of survival. And the framework of life was very, very simple then, to be honest. You know, you just ate what you got and did whatever you were told to do. I thought celiac was a vegetable, and vegan, of course, was Mr. Spock's lost comrade in "Star Trek."
تو پھر اس رات کے بعد سے، کافی حد تک نوجوانی میں انسانیت کی طرح، میں نے بقا کے اصلی طریقے سیکھے۔ اور سچی بات ہے اس وقت زندگی کی حکمت عملی بہت زیادہ سادہ تھی۔ تو بس جو بھی ملا، کھا لیا اور جو بھی آپ کو کہا گیا وہ کر دیا۔ میں سوچتا تھا 'سیلییک' ایک سبزی تھی، اور 'وی گن' 'سٹار ٹریک' فلم کے کردار مسٹر سپاکس کا گمشدہ ساتھی تھا۔
(Laughter)
(قہقہے)
You married the first girl that you dated, and you were a techie if you could fix the carburetor in your car. I really thought that gay was a sophisticated English word for happy. And Lesbian, of course, was the capital of Portugal, as you all know.
آپ نے اس لڑکی سے شادی کی جس سے پہلی محبت بھری ملاقات ہوتی، اور آپ کو تکنیکی آدمی سمجھا جاتا اگر آپ اپنی گاڑی کا کاربوریٹر ٹھیک کرسکتے تھے۔ اور میں واقعی سمجھتا تھا کہ 'گے' انگریزی میں خوشی کے لیے ایک مہذب لفظ ہے۔ اور "لیزبین" تو جیسے آپ سب جانتے ہی ہیں پرتگال کا دارلخلافہ تھا۔
(Laughter)
(قہقہے)
Where was I? We relied on systems created through the toil and sacrifice of generations before to protect us, and we felt that governments actually worked for our betterment. Science was simple and logical, Apple was still then just a fruit owned by Eve first and then Newton, not by Steve Jobs, until then. And "Eureka!" was what you screamed when you wanted to run naked on the streets. You went wherever life took you for work, and people were mostly welcoming of you. Migration was a term then still reserved for Siberian cranes, not human beings. Most importantly, you were who you were and you said what you thought.
میں کہاں تھا؟ ہم نظاموں پر انحصار کرتے تھے جو نسلوں کی مشقت اور قربانیوں کے بعد بنائے گئے تھے ہماری حفاظت کے لیے، اور ہمیں لگتا تھا کہ حکومتیں حقیقت میں ہماری بہتری کے لیے کام کرتی ہیں۔ سائنس سادہ اور منطقی تھی، 'سیب' ابھی تک صرف ایک پھل تھا جو پہلے حوا اور پھر نیوٹن کی ملکیت تھا، تب تک سٹیو جابز کے قابو میں نہیں آیا تھا۔ اور "یوریکا!" کی صدا آپ بلند کرتے تھے جب آپ گلیوں میں ننگے بھاگنا چاہتے تھے۔ زندگی جہاں آپ کو کام کے لیے لے جاتی آپ چلے جاتے، اور زیادہ تر لوگ آپ کو خوش آمدید کہتے۔ ہجرت کی اصطلاح تب سائیبیریا سے آئے پرندوں کے لیے تھی، انسانوں کے لیے نہیں۔ سب سے اہم، آپ جو تھے وہ تھے اور جو سوچتے وہ کہہ دیتے تھے۔
Then in my late 20s, I shifted to the sprawling metropolis of Mumbai, and my framework, like the newly industrialized aspirational humanity, began to alter. In the urban rush for a new, more embellished survival, things started to look a little different. I met people who had descended from all over the world, faces, races, genders, money-lenders. Definitions became more and more fluid. Work began to define you at that time in an overwhelmingly equalizing manner, and all the systems started to feel less reliable to me, almost too thick to hold on to the diversity of mankind and the human need to progress and grow. Ideas were flowing with more freedom and speed. And I experienced the miracle of human innovation and cooperation, and my own creativity, when supported by the resourcefulness of this collective endeavor, catapulted me into superstardom.
پھر20 کی دہائی کے آخر میں، میں ممبئی جیسے وسیع و عریض شہر میں آ گیا، اور میری ساخت، نئی آرزوئیں لیتی صنعتی انسانیت کی طرح، بدلنا شروع ہوگئی۔ اس نئی شہری اور پر کشش بقا کے پیچھے بھاگتے ہوئے، چیزیں ذرا مختلف نظر آنے لگیں۔ میں دنیا بھر سے آئے لوگوں سے ملا، چہرے، نسلیں، اصناف، ساہو کار۔ کسی کی واضح تعریف کرنا مشکل ہو گیا۔ اس وقت کام آپ کی وضاحت کرتا تھا ایک زبردست برابری سے، اور سارے نظام مجھے کم قابلِ اعتبار محسوس ہونے لگے، اتنے مشکل کہ نا قابلِ بھروسہ انسانیت کے تنوع کی طرح اور انسان کی ترقی اور آگے بڑھنے کی ضرورت کی طرح۔ خیالات زیادہ آزادی اور تیزی کے ساتھ پھیل رہے تھے۔ اور میں انسانی ایجاد اور تعاون کےمعجزاتی تجربوں سے گزرا، اور اپنی تخلیق کے، جب اس مشترکہ کوشش کے پیچھے وسائل ہوں، جس نے مجھے شہرت کی بلندی پر لا کھڑا کیا۔
I started to feel that I had arrived, and generally, by the time I was 40, I was really, really flying. I was all over the place. You know? I'd done 50 films by then and 200 songs, and I'd been knighted by the Malaysians. I had been given the highest civil honor by the French government, the title of which for the life of me I can't pronounce even until now.
مجھے محسوس ہونا شروع ہوا کہ میں پہنچ گیا ہوں، اور ویسے، جب میں 40 سال کا ہوا، تو میں واقعی ہواوں میں اڑ رہا تھا۔ میں ہر جگہ تھا۔ آپ کو معلوم ہے؟ میں نے تب تک 50 فلمیں کیں اور 200 گانے، اور مجھے ملائيشيا کے لوگوں کی طرف سے خطاب ملا۔ مجھے فرانسیسی حکومت کی طرف سے اعلی ترین شہری اعزاز دیا گیا، جس کا نام ابھی تک میں بھرپور کوشش کے باوجود ادا نہیں کر سکتا۔
(Laughter)
(قہقہے)
I'm sorry, France, and thank you, France, for doing that. But much bigger than that, I got to meet Angelina Jolie --
میں معافی چاہتا ہوں فرانس اور اس کے لیے آپ کا شکریہ فرانس۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر مجھے اینجلینا جولی سے ملنے کا موقعہ ملا --
(Laughter)
(قہقہے)
for two and a half seconds.
تقریباً ڈھائی سیکنڈ کے لیے۔
(Laughter)
(قہقہے)
And I'm sure she also remembers that encounter somewhere. OK, maybe not. And I sat next to Hannah Montana on a round dinner table with her back towards me most of the time. Like I said, I was flying, from Miley to Jolie, and humanity was soaring with me. We were both pretty much flying off the handle, actually.
اور پکی بات ہے کہ اس کو بھی یہ ملاقات یاد ہو گی۔ اچھا، ہو سکتا ہے نہ ہو۔ اور ایک گول میز عشائیے پر میں ھینا مونٹانا کے ساتھ بیٹھا جو زیادہ وقت میری طرف پیٹھ کیے بیٹھی رہی۔ جیسے کہ میں نے کہا کہ میں اڑ رہا تھا، ملی سے جولی تک، اور انسانیت میرے ساتھ پرواز کر رہی تھی۔ ہم دونوں دراصل کافی حد تک تندی و تیزی سے اڑ رہے تھے۔
And then you all know what happened. The internet happened. I was in my late 40s, and I started tweeting like a canary in a birdcage and assuming that, you know, people who peered into my world would admire it for the miracle I believed it to be. But something else awaited me and humanity. You know, we had expected an expansion of ideas and dreams with the enhanced connectivity of the world. We had not bargained for the village-like enclosure of thought, of judgment, of definition that flowed from the same place that freedom and revolution was taking place in. Everything I said took a new meaning. Everything I did -- good, bad, ugly -- was there for the world to comment upon and judge. As a matter of fact, everything I didn't say or do also met with the same fate.
اور پھر آپ سب جانتے ہیں کہ کیا ہوا۔ پھر انٹرنیٹ آ گیا۔ میں 40 کی دہائی کے آخر میں تھا، اور میں نے 'چہچہانا' شروع کیا پنجرے میں قید کینری کی طرح اس تصور کے ساتھ کے لوگ جو میری دنیا میں جھانک رہے ہیں اس کی تعریف کریں گے ایک معجزے کے جس کے ہونے کا مجھے یقین ہے۔ مگر کچھ اور تھا جومیرا اور انسانیت کا منتظرتھا ہم توقع کر رہے تھے کہ خواب اور خیالات وسیع ہو جائیں گے دنیا میں رابطوں میں بہتری کے ساتھ ۔ ہم نے ناتراشیدہ سوچوں کے حصار کے لیے جستجو نہیں کی تھی، فیصلوں کے لیے، وضاحت کے لیے جو اسی جگہ سے پھوٹتی ہے جہاں سے آزادی اور انقلاب جنم لے رہے تھے۔ سب کچھ جو میں نے کہا اس نے ایک نیا معنی لے لیا۔ جو بھی میں نے کیا -- اچھا، برا، بھونڈا -- وہ دنیا کے لیے تھا کہ وہ اس پر تبصرے کرے اور اس کا مواخذہ کرے۔ درحقیقت، جو بھی میں نے نہیں کہا یا کیا اس کا بھی یہی حشر ہوا۔
Four years ago, my lovely wife Gauri and me decided to have a third child. It was claimed on the net that he was the love child of our first child who was 15 years old. Apparently, he had sown his wild oats with a girl while driving her car in Romania. And yeah, there was a fake video to go with it. And we were so disturbed as a family. My son, who is 19 now, even now when you say "hello" to him, he just turns around and says, "But bro, I didn't even have a European driving license."
چار سال پہلے میری پیاری بیوی گوری اور میں نے فیصلہ کیا کہ ہمارا تیسرا بچہ ہونا چاہیے۔ اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر دعویٰ کیا گیا کہ وہ ناجائز بچہ تھا ہمارے پہلے بچے کا جو خود 15 سال کا تھا۔ بظاہر، وہ اس کی نوجوانی کی ایک حماقت کا نتیجہ تھا جو اس نے ایک لڑکی سے کی تھی رومانیہ میں گاڑی چلاتے ہوئے۔ اور ہاں، اس کے ساتھ اس واقعے کی ایک جعلی ویڈیو بھی تھی۔ اور ہم ایک خاندان کی حثیت سے سخت پریشان تھے۔ میرا بیٹا جو اب 19 سال کا ہے، اب بھی جب آپ اسے "ہیلو" کہتے ہیں، وہ مڑتا ہے اور کہتا ہے، "لیکن بھائی، میرے پاس تو یورپی ڈرائیونگ لائسنس ہی نہیں ہے۔"
(Laughter)
(قہقہے)
Yeah. In this new world, slowly, reality became virtual and virtual became real, and I started to feel that I could not be who I wanted to be or say what I actually thought, and humanity at this time completely identified with me. I think both of us were going through our midlife crisis, and humanity, like me, was becoming an overexposed prima donna. I started to sell everything, from hair oil to diesel generators. Humanity was buying everything from crude oil to nuclear reactors. You know, I even tried to get into a skintight superhero suit to reinvent myself. I must admit I failed miserably. And just an aside I want to say on behalf of all the Batmen, Spider-Men and Supermen of the world, you have to commend them, because it really hurts in the crotch, that superhero suit.
ہاں۔ اس نئی دنیا میں، آہستہ سے، حقیقت مجازی بن گئی اور مجازی حقیقت بن گیا، اور مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں وہ نہیں جو میں بننا چاہتا تھا یا یوں کہیے جو میں نے سوچا تھا، اور اس وقت انسانیت بالکل میرے جیسی تھی۔ میرا خیال ہے کہ ہم دونوں ادھیڑ عمری کے بحران کا سامنا کر رہے تھے، اور انسانیت میری طرح ایک بے قابو شتر بے مہار بن رہی تھی۔ میں نے سب کچھ بیچنا شروع کر دیا، بالوں کے تیل سے لے کر ڈیزل جنریٹر تک۔ انسانیت سب کچھ خرید رہی تھی خام تیل سے لے کر نیوکلیائی ری ایکٹر تک۔ آپ جانتے ہیں میں نے جسم سے چپکے ہوئے کپڑے پہنا ہوا سپر ہیرو بننے کی بھی کوشش کی اپنے آپ کو نئے سرے سے دریافت کرنے کے لیے۔ مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ میں بری طرح ناکام ہوا۔ اور چپکے چپکے سے کہنا چاہوں گا تمام سپائیڈر مین، بیٹ مین کی طرف سے اور سپر مین جو اس دنیا میں ہیں، آپ کو ان کی تعریف کرنی چاہیے، کیونکہ اس سپر ہیرو کے کپڑوں میں زیرِ ناف بہت درد ہوتی ہے۔
(Laughter)
(قہقہے)
Yeah, I'm being honest. I need to tell you this here. Really. And accidentally, I happened to even invent a new dance form which I didn't realize, and it became a rage. So if it's all right, and you've seen a bit of me, so I'm quite shameless, I'll show you. It was called the Lungi dance. So if it's all right, I'll just show you. I'm talented otherwise.
میں سچ کہہ رہا ہوں۔ یہاں یہ بات آپ کو بتانی ضروری تھی۔ سچ میں۔ اور حادثاتی طور پر میں نے ایک نیا ناچ ایجاد کیا جو مجھے پتہ نہیں چلا اور یہ بہت مقبول ہو گیا۔ تو اگر یہ مناسب ہے، اور آپ نے مجھے کچھ دیکھا ہے میں کافی بے شرم ہوں تو میں آپ کو دکھاتا ہوں اسے لنگی ناچ کہا جاتا تھا۔ تو اگر یہ مناسب ہے تو میں آپ کو دکھاتا ہوں۔ ویسے میں باصلاحیت ہوں۔
(Cheers)
(تحسین کی آوازیں)
So it went something like this.
تو یہ کچھ اس طرح ہوتا ہے۔
Lungi dance. Lungi dance. Lungi dance. Lungi dance. Lungi dance. Lungi dance. Lungi dance. Lungi dance. Lungi dance. Lungi dance. Lungi dance. Lungi.
لنگی ناچ۔ لنگی ناچ۔ لنگی ناچ۔ لنگی ناچ۔ لنگی ناچ۔ لنگی ناچ۔ لنگی ناچ۔ لنگی ناچ۔ لنگی ناچ۔ لنگی ناچ۔ لنگی ناچ۔ لنگی۔
That's it. It became a rage.
بس یہی ہے۔ یہ خاصا مقبول ہو گیا تھا۔
(Cheers)
(تحسین کی آوازیں)
It really did. Like you notice, nobody could make any sense of what was happening except me, and I didn't give a damn, really, because the whole world, and whole humanity, seemed as confused and lost as I was. I didn't give up then. I even tried to reconstruct my identity on the social media like everyone else does. I thought if I put on philosophical tweets out there people will think I'm with it, but some of the responses I got from those tweets were extremely confusing acronyms which I didn't understand. You know? ROFL, LOL. "Adidas," somebody wrote back to one of my more thought-provoking tweets and I was wondering why would you name a sneaker, I mean, why would you write back the name of a sneaker to me? And I asked my 16-year-old daughter, and she enlightened me. "Adidas" now means "All day I dream about sex."
یہ واقعی ہوا۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہے سوائے میرے اور واقعی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ ساری دنیا، اور ساری انسانیت، میری طرح الجھن میں اور کھوئی ہوئی تھی۔ میں نے تب ہار نہیں مانی۔ میں نے سماجی میڈیا ہر اپنی شناخت دوبارہ بنانے کی کوشش کی جیسے ہر شخص کرتا ہے۔ میں نے سوچا اگر میں فلسفیانہ ٹویٹ کروں لوگ سوچیں گے کہ میں زبردست ہوں، لیکن کچھ جوابات جو مجھے ٹویٹس کے ملے ان میں کچھ انتہائی الجھا دینے والے مخففات تھے۔ آپ جانتے ہیں؟ آر او یف ایل، ایل او ایل۔ "ایڈیڈاس"، کسی نے میری ایک سوچ و بچار پر مائل کرنے والی ایک ٹویٹ کے جواب میں لکھا اور میں حیران تھا کہ آپ ایک جوتے کا نام کیوں لکھیں گے، میرا مطلب ہے کہ آپ ایک جوتے کا نام مجھے کیوں لکھ بھیجیں گے؟ میں نے اپنی سولہ سالہ بیٹی سے پوچھا اور اس نے مجھے بتایا۔ "ایڈیڈاس" کا اب مطلب ہے "آل ڈے آئی ڈریم اباوٹ سیکس۔"
(Laughter)
(قہقہے)
Really. I didn't know if you know that. So I wrote back, "WTF" in bold to Mr. Adidas, thanking secretly that some acronyms and things won't change at all. WTF.
واقعی۔ میں نہیں جانتا اگر آپ کو پتہ ہے۔ تو میں نے واپس جواب میں مسٹر ایڈیڈاس کو بڑے الفاظ میں لکھا، "ڈبلیو ٹی ایف", دل میں شکر کرتے ہوئے کہ کچھ چیزیں اور مخففات کبھی نہیں بدلیں گے۔ ڈبلیو ٹی ایف۔
But here we are. I am 51 years old, like I told you, and mind-numbing acronyms notwithstanding, I just want to tell you if there has been a momentous time for humanity to exist, it is now, because the present you is brave. The present you is hopeful. The present you is innovative and resourceful, and of course, the present you is annoyingly indefinable. And in this spell-binding, imperfect moment of existence, feeling a little brave just before I came here, I decided to take a good, hard look at my face. And I realized that I'm beginning to look more and more like the wax statue of me at Madame Tussaud's.
لیکن یم یہاں ہیں۔ میں 51 سال کا ہوں، جیسے میں نے آپ کو بتایا ہے، ذہن کو ماؤُف کرنے والے مخففات کے باوجود، میں آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں اگر انسانیت کے وجود کے لیے کوئی اہم وقت ہے، تو وہ اب ہے، کیونکہ آج کے آپ بہادر ہیں۔ آج کے آپ پر امید ہیں۔ آج کے آپ اختراع پسند اور باوسائل ہیں، اور یقیناً آج کے آپ غصہ دلانے کی حد تک نہ سمجھ میں آنے والے ہیں۔ اور اس مسحور کن، وُجُودیت کے نا مکمل لمحے میں، کچھ بہادری محسوس کرتے ہوئے یہاں آنے سے بالکل پہلے، میں نے اپنے چہرے پر ایک مکمل نظر ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ اور مجھے احساس ہوا کہ میں اور زیادہ ملنے لگا ہوں مادام تساؤ کے عجائب گھر میں رکھے اپنے مومی مجسمے سے۔
(Laughter)
(قہقہے)
Yeah, and in that moment of realization, I asked the most central and pertinent question to humanity and me: Do I need to fix my face? Really. I'm an actor, like I told you, a modern expression of human creativity. The land I come from is the source of inexplicable but very simple spirituality. In its immense generosity, India decided somehow that I, the Muslim son of a broke freedom fighter who accidentally ventured into the business of selling dreams, should become its king of romance, the "Badhshah of Bollywood," the greatest lover the country has ever seen ... with this face. Yeah.
اور ہاں، احساس کے اس لمحے میں، میں نے اپنے آپ سے اور انسانیت سے سب سے موزوں سوال پوچھا: کیا مجھے اپنی شکل درست کرنے کی ضرورت ہے؟ سچ میں۔ میں ایک اداکار ہوں، جیسا میں نے آپ کو بتایا، انسانی تخلیق کا ایک جدید اظہار۔ جس سرزمین سے میں آیا ہوں وہ ناقابلِ بیان لیکن بہت سادہ روحانیت کا سر چشمہ ہے۔ اپنی حد سے زیادہ فیاضی میں، انڈیا نے کسی طرح فیصلہ کیا کہ میں، ایک قلاش آزادی کے سپاہی کا مسلمان بیٹا جس نے حادثاتی طور پر خواب بیچنے کے کاروبار میں قسمت آزمائی کی، وہ اس کا رومانی بادشاہ بن جائے گا، "بالی وڈ کا بادشاہ"، سب سے بڑا عاشق جو اس ملک میں کبھی بھی آیا ... اس شکل کے ساتھ ۔ جی ہاں۔
(Laughter)
(قہقہے)
Which has alternately been described as ugly, unconventional, and strangely, not chocolatey enough.
جس کو متبادل طور پر بد صورت، غیر روایتی کہا گیا اور حیران کن طور پر زیادہ چاکلیٹی نہیں۔
(Laughter)
(قہقہے)
The people of this ancient land embraced me in their limitless love, and I've learned from these people that neither power nor poverty can make your life more magical or less tortuous. I've learned from the people of my country that the dignity of a life, a human being, a culture, a religion, a country actually resides in its ability for grace and compassion. I've learned that whatever moves you, whatever urges you to create, to build, whatever keeps you from failing, whatever helps you survive, is perhaps the oldest and the simplest emotion known to mankind, and that is love. A mystic poet from my land famously wrote,
اس قدیم سرزمین کے لوگوں نے اپنے بے پناہ پیار میں مجھے سمو لیا، اور میں نے ان لوگوں سے سیکھا کہ نہ طاقت اور نہ غربت آپ کی زندگی کو مزید سحر انگیز بنا سکتی ہے یا کم پیچیدہ۔ میں نے اپنے ملک کے لوگوں سے سیکھا ہے کہ ایک زندگی کا وقار، ایک انسان، ایک ثقافت، ایک مذہب، ایک ملک اصل میں بستا ہے اس کی نفاست اور غم گساری میں۔ میں نے سیکھا ہے جو چیز بھی آپ میں جوش پیدا کرے، جو بھی آپ کو تخلیق کرنے یا تعمیر پر ابھارے، جو بھی آپ کو ناکام ہونے سے روکے، جو بھی آپ کی بقا میں آپ کی مدد کرے، وہ شاید انسانیت کا سب سے پرانا اور سادہ جذبہ ہے، اور وہ ہے پیار۔ میری سرزمین کے ایک صوفی شاعر کا مشہور کلام،
(Recites poem in Hindi)
(ہندی میں نظم سناتے ہیں)
(Poem ends)
(نظم ختم ہوتی ہے)
Which loosely translates into that whatever -- yeah, if you know Hindi, please clap, yeah.
اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ جو بھی -- ضرور، اگر آپ ہندی جانتے ہیں تو تالیاں بجائیں۔
(Applause)
(تالیاں)
It's very difficult to remember. Which loosely translates into actually saying that all the books of knowledge that you might read and then go ahead and impart your knowledge through innovation, through creativity, through technology, but mankind will never be the wiser about its future unless it is coupled with a sense of love and compassion for their fellow beings. The two and a half alphabets which form the word "प्रेम," which means "love," if you are able to understand that and practice it, that itself is enough to enlighten mankind. So I truly believe the future "you" has to be a you that loves. Otherwise it will cease to flourish. It will perish in its own self-absorption.
یہ یاد رکھنا کافی مشکل ہے۔ اس کا ترجمہ کچھ اس طرح بنتا ہے کہ علم کی وہ تمام کتابیں جو شاید آپ پڑھیں اور پھر جائیں اور اپنا علم پھیلائیں ایجادات سے، تخلیق سے، ٹیکنالوجی سے، لیکن انسانیت اپنے مستقبل کے متعلق کبھی بھی سمجھدار نہیں ہو گی جب تک یہ اپنے اندر دوسرے انسانوں کے لیے پیار اور غم گساری نہ پیدا کرے۔ ڈھائی حرفوں سے بنا یہ لفظ، "پریم،" جس کا مطلب ہے "محبت،" اگر آپ اس کو سمجھ جاتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں، یہ بذاتِ خود انسانیت کی روشن خیالی کے لیے کافی ہے۔ تو مجھے مکمل یقین ہے کہ مستقبل کے "آپ" کو ایسا ہونا چاہیے جو پیار کرے۔ ورنہ اس کا پھلنا پھولنا رک جائے گا۔ یہ اپنی ذات میں محو ہو کر فنا ہو جائے گا۔
So you may use your power to build walls and keep people outside, or you may use it to break barriers and welcome them in. You may use your faith to make people afraid and terrify them into submission, or you can use it to give courage to people so they rise to the greatest heights of enlightenment. You can use your energy to build nuclear bombs and spread the darkness of destruction, or you can use it to spread the joy of light to millions. You may filthy up the oceans callously and cut down all the forests. You can destroy the ecology, or turn to them with love and regenerate life from the waters and trees. You may land on Mars and build armed citadels, or you may look for life-forms and species to learn from and respect. And you can use all the moneys we all have earned to wage futile wars and give guns in the hands of little children to kill each other with, or you can use it to make more food to fill their stomachs with.
تو آپ چاہے طاقت استعمال کریں دیواریں بنانے کے لیے اور لوگوں کو باہر رکھنے کے لیے، یا آپ اسے رکاوٹیں توڑنے کے لیے استعمال کریں اور انہیں اندر خوش آمدید کہیں۔ آپ چاہیں تو اپنے عقیدے کو استعمال کریں لوگوں کو ڈرانے کے لیے اور ان کو خوفزدہ کر کے اطاعت پر مجبور کریں، یا آپ اسے استعمال کر سکتے ہیں لوگوں کو ہمت دلانے کے لیے تاکہ وہ انسانی روشن خیالی کی اعلی ترین سطح تک پہنچ سکیں۔ آپ اپنی توانائی کو استعمال کر سکتے ہیں نیوکلیائی بم بنانے کے لیے اور اندھیرا اور تباہی پھیلانے کے لیے، یا آپ اسے استعمال کر سکتے ہیں کروڑوں لوگوں تک خوشی کی روشنی پھیلانے کے لیے۔ آپ چاہیں تو سمندروں کو لاپرواہی سے گندا کر دیں اور سارے جنگل کاٹ دیں۔ آپ ماحولیات کو تباہ کر سکتے ہیں، یا پھر پیار سے توجہ دے کر پانیوں سے اوردرختوں سے نئی زندگی پیدا کر سکتے ہیں۔ آپ مریخ پر اتر سکتے ہیں اور مسلح قلعے تعمیر کر سکتے ہیں، یا پھر آپ زندگی کی انواع و اقسام تلاش کر سکتے ہیں تاکہ سیکھیں اور تعظیم کریں۔ اور آپ وہ سارے پیسے جو ہم سب نے مل کر کمائے ہیں وہ استعمال کر سکتے ہیں لا حاصل جنگیں شروع کرنے میں اور چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھمانے میں تاکہ وہ ایک دوسرے کو مار سکیں، یا پھر اسے استعمال کر سکتے ہیں مزید خوراک اگانے میں تاکہ ان کے پیٹ بھر سکیں۔
My country has taught me the capacity for a human being to love is akin to godliness. It shines forth in a world which civilization, I think, already has tampered too much with. In the last few days, the talks here, the wonderful people coming and showing their talent, talking about individual achievements, the innovation, the technology, the sciences, the knowledge we are gaining by being here in the presence of TED Talks and all of you are reasons enough for us to celebrate the future "us." But within that celebration the quest to cultivate our capacity for love and compassion has to assert itself, has to assert itself, just as equally.
میرے ملک نے مجھے سکھایا ہے کہ ایک انسان کی پیار کرنے کی صلاحیت جڑی ہوئی ہے خدا ترسی سے۔ یہ ایسی دنیا میں روشنی پھیلاتی ہے جہاں تہذیب کے ساتھ، میرے خیال میں، پہلے ہی بہت ردوبدل ہو چکی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں میں، یہاں جو گفتگو ہوئی، شاندار لوگ جو آئے اور اپنے ہنر دکھائے، اپنی انفرادی کامیابیوں کے بارے میں بات کی، ایجادات، ٹیکنالوجی، سائنس، علم جو یہاں ہونے کی وجہ سے ہم حاصل کر رہے ہیں ٹیڈ گفتگو کی موجودگی اور آپ سب کافی وجوہات ہیں کہ ہم مستقبل کے "ہم" کا جشن منائیں۔ لیکن اس جشن میں ہمارے پیار اور غم گساری کی صلاحیت کے بڑھاوا دینے کی جستجو کو اپنے آپ کو منوانا ہو گا، اپنے آپ کو منوانا ہو گا، اس کے ساتھ ساتھ۔
So I believe the future "you" is an infinite you. It's called a chakra in India, like a circle. It ends where it begins from to complete itself. A you that perceives time and space differently understands both your unimaginable and fantastic importance and your complete unimportance in the larger context of the universe. A you that returns back to the original innocence of humanity, which loves from the purity of heart, which sees from the eyes of truth, which dreams from the clarity of an untampered mind.
تو مجھے یقین ہے کہ مستقبل کے "آپ" لا محدود ہیں۔ اسے انڈیا میں چکرا کہتے ہیں، دائرے جیسا۔ یہ اپنے آپ کو مکمل کرنے کے لیے وہاں ختم ہوتا ہے جہاں سے شروع ہوتا ہے۔ آپ جو وقت اور خلا کو مختلف انداز سے سمجھتے ہیں دونوں کو سمجھتے ہیں آپ کی ناقابلِ تصور اور شاندار اہمیت اور کائنات کے اس بڑے تناظر میں آپ کا مطلق غیر اہم ہونا. آپ جو واپس لوٹتے ہیں انسانیت کی اصل معصومیت کی طرف، جو دل کی گہرائیوں سے پیار کرتی ہے، جو سچائی کی آنکھ سے دیکھتی ہے، جو ایک خالص دماغ کی روشنی میں خواب دیکھتی ہے۔
The future "you" has to be like an aging movie star who has been made to believe that there is a possibility of a world which is completely, wholly, self-obsessively in love with itself. A world -- really, it has to be a you to create a world which is its own best lover. That I believe, ladies and gentlemen, should be the future "you."
مستقبل کے "آپ" کو ایک ڈھلتی عمر کے فلمی ستارے کی طرح ہونا چاہیے جسے یہ یقین دلایا گیا ہے کہ یہ امکان ہے کہ ایسی دنیا جو مکمل طور پر، پوری، اپنی ذات میں محو ہو کر اپنے آپ سے پیار کرتی ہو۔ ایک دنیا -- حقیقت میں، یہ آپ پر ہے کہ ایسی دنیا بنائیں جو اپنی سب سے بڑی عاشق ہو۔ خواتین و حضرات، میرا یقین ہے کہ مستقبل کے "آپ" کو ایسا ہونا چاہیے۔
Thank you very much. Shukriya.
آپ کا بہت شکریہ۔ شکریہ۔
(Applause)
(تالیاں)
Thank you.
شکریہ۔
(Applause)
(تالیاں)
Thank you.
شکریہ۔
(Applause)
(تالیاں)