I'm here to tell you how change is happening at a local level in Pakistan, because women are finding their place in the political process.
میں آج آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ پاکستان میں مقامی سطح پر تبدیلی کیسے آ رہی ہے، کیونکہ خواتین سیاسی عمل میں اپنی جگہ پا رہی ہیں۔
I want to take you all on a journey to the place I was raised, northwest Pakistan, called Dir. Dir was founded in the 17th century. It was a princely state until its merger with Pakistan in 1969. Our prince, Nawab Shah Jahan, reserved the right to wear white, the color of honor, but only for himself. He didn't believe in educating his people. And at the time of my birth in 1979, only five percent of boys and one percent of girls received any schooling at all. I was one among that one percent.
میں آپ سب کو اس جگہ کے سفر پر لے کے جانا چاہتی ہوں جہاں میں پلی بڑھی شمال مغربی پاکستان، جو دیر کہلاتا ہے۔ دیر سترہویں صدی میں معرض وجود میں آیا 1969 میں پاکستان میں انضمام ہونے تک یہ ایک شاہی ریاست تھی۔ ہمارے راجہ، نواب شاہ جہان، سفیدرنگ پہننے کا حق محفوظ رکھتے تھے، اعزازی رنگ، مگر صرف ان کے اپنے لئے وہ اپنے لوگوں کو تعلیم دینے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ 1979 میں میری پیدائش کے وقت صرف 5 فیصد لڑکے اور1 فیصد لڑکیاں ہی تعلیم حاصل کر پاتے۔ میں ان ایک فیصد میں سے ایک تھی۔
Growing up, I was very close to my father. He is a pharmacy doctor, and he sent me to school. Every day, I would go to his clinic when my lessons finished. He's a wonderful man and a well-respected community leader. He was leading a welfare organization, and I would go with him to the social and political gatherings to listen and talk to the local men about our social and economic problems.
بڑے ہوتے ہوئے میں اپنے والد کے بہت قریب ہو گئی۔ وہ فارمیسی کے ڈاکٹر ہیں، اور انہوں نے مجھے سکول بھیجا، ہر روز جب میرا سبق ختم ہو جاتا میں ان کے کلینک چلی جاتی تھی. وہ ایک شاندار انسان اور برادری کے بہت باعزت رہنما ہیں۔ وہ ایک رفاہ عامہ کا ادارہ چلا رہے تھے۔ اور میں ان کے ساتھ سیاسی اور سماجی اجتماعات میں جاتی تھی مقامی مردوں سے ہمارے سماجی اور معاشی مسائل پر بات چیت کرنے کے لئے۔
However, when I was 16, my father asked me to stop coming with him to the public gatherings. Now, I was a young woman, and my place was in the home. I was very upset. But most of my family members, they were happy with this decision. It was very difficult for me to sit back in the home and not be involved.
تاہم، جب میں 16 سال کی تھی، میرے والد نے مجھے عوامی اجتماعات میں اپنے ساتھ آنے سے روک دیا۔ اب، میں ایک نوجوان خاتون تھی اور میری جگہ گھر میں تھی۔ میں بہت پریشان تھی۔ لیکن خاندان کے زیادہ تر لوگ، اس فیصلے سے بہت خوش تھے۔ یہ میرے لئے بہت مشکل تھا کہ گھر میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیکار بیٹھ جاؤں۔
It took two years that finally my family agreed that my father could reconnect me with women and girls, so they could share their problems and together we could resolve them. So, with his blessings, I started to reconnect with women and girls so we could resolve their problems together.
اس میں دو سال لگے کہ آخر کار میرا خاندان مان گیا کہ میرے والد میرا رابطہ بحال کر سکتے ہیں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ، تاکہ وہ اپنے مسائل مجھے بتا سکیں اور ہم مل کر ان کو حل کر سکیں۔ تو ان کی مہربانی سے، میں نے اپنا رابطہ خواتین اور لڑکیوں سے بحال کرنا شروع کیا تاکہ ہم ان کے مسائل مل کر حل کر سکیں۔
When women show up, they bring their realities and views with them. And yet, I have found all too often, women underestimate their own strength, their potential and their self-respect. However, while connecting with these women and girls, it became very clear to me that if there was to be any hope to create a better life for these women and girls and their families, we must stand up for our own rights -- and not wait for someone else to come and help us.
جب بھی خواتین میرے پاس آتی تھیں، تو وہ اپنے حقائق اور نظریات بتاتی تھیں، اور پھر، بارہا مجھے یہ پتہ چلا، کہ خواتین اپنی طاقت کو کم سمجھتی ہیں، اور اپنی صلاحیت اور عزت نفس کو بھی۔ تاہم، خواتین اور لڑکیوں سے رابطہ بحالی کے دوران یہ مجھ پر بہت واضح ہو گیا کہ اگراچھی زندگی بنانے کی کوئی بھی امید ہے ان خواتین، لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کے لیے، تو ہمیں اپنے حقوق کے لئے کھڑا ہونا پڑے گا -- کسی اور کی مدد کا انتظار کیئے بغیر۔
So I took a huge leap of faith and founded my own organization in '94 to create our very own platform for women empowerment. I engaged many women and girls to work with me. It was hard. Many of the women working with me had to leave once they got married, because their husbands wouldn't let them work. One colleague of mine was given away by her family to make amends for a crime her brother had committed. I couldn't help her. And I felt so helpless at that time. But it made me more determined to continue my struggle. I saw many practices like these, where these women suffered silently, bearing this brutality. But when I see a woman struggling to change her situation instead of giving up, it motivates me.
تو میں نے بہت بڑا جوا کھیلا اور میں نے 1994 میں اپنا ادارہ بنایا خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے ایک اپنا پلیٹ فارم۔ میں نے بہت سی خواتین اور لڑکیوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ یہ مشکل تھا۔ بہت سی خواتین جو میرے ساتھ کام کر رہی تھیں ان کو اپنی شادی کے بعد جانا پڑتا تھا، کیوں کہ ان کے شوہر ٗان کو کام نہیں کرنے دیتے تھے۔ میری ایک دوست کو ٗاس کے خاندان نے کسی اور کو سونپ دیا اس کے بھائی کے کیے گئے جرم کے معاوضے کے طور پر۔ میں اس کی مدد نہ کر سکی۔ اٗس وقت میں نے خود کو بہت زیادہ بے یار و مدد گار محسوس کیا۔ لیکن اس واقعہ نے میری جدوجہد کو جاری رکھنے کے میرے ارادے کو اور زیادہ پختہ کر دیا۔ میں نے ایسے بہت سے واقعات دیکھے ہیں۔ کہ جہاں خواتین خاموشی سے سہتی ہیں اور ظلم برداشت کرتی ہیں لیکن جب میں ایک عورت کو دیکھتی ہوں جو ہار ماننے کے بجائے اپنی حالت کو بدلنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہو، یہ میری حوصلہ افزائی کرتا ہے
So I ran for a public office as an independent candidate in Lower Dir in the local elections in 2001. Despite all the challenges and hurdles I faced throughout this process, I won.
تو میں نے عوامی نمائندگی کیلئے انتخاب لڑا لوئر دیر سے ایک آزاد امیدوار کے طور پر 2001 کے مقامی انتخابات میں۔ تمام اعتراضات اور مشکلات کے باوجود جن کا اس عمل میں میں نے سامنا کیا، میں جیت گئی۔
(Applause)
(تالیاں)
And I served in the public office for six years. But unfortunately, we women, elected women, we were not allowed to sit in the council together with all the members and to take part in the proceedings. We had to sit in a separate, ladies-only room, not even aware what was happening in the council. Men told me that, "You women, elected women members, should buy sewing machines for women." When I knew what they needed the most was access to clean drinking water. So I did everything I could do to prioritize the real challenges these women faced. I set up five hand pumps in the two dried up wells in my locality. Well, we got them working again. Before long, we made water accessible for over 5,000 families. We proved that anything the men could do, so could we women. I built alliances with other elected women members, and last year, we women were allowed to sit together with all the members in the council.
اور میں نے عوامی نمائندہ کے طور پر چھ سال تک فرائض انجام دئیے، لیکن بد قسمتی سے، ہم خواتین کو اور وہ بھی منتخب خواتین کو، کونسل میں باقی تمام اراکین کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی کاروائی میں حصہ لینے کی اجازت تھی۔ ہمیں علیحدہ سے صرف خواتین کے لیے بنائے گئے کمرے میں بیٹھنا پڑتا، بالکل بے خبر کہ کونسل میں کیا ہو رہا ہے۔ مردوں نے مجھے بتایا کہ ‘‘تم خواتین منتخب اراکین، کو خواتین کے لیے سلائی مشینیں خریدنی چاہیں‘‘۔ جب کہ میں جانتی تھی کہ ان کی سب سے بڑی ضرورت صاف پانی تک رسائی تھی۔ تو مجھ سے جو بن پڑا میں نے کیا خواتین کے اصل مسائل کو ترجیحات میں شامل کرنے کے لئے. میں نے اپنے علاقے میں دو خشک کنووؑں پر پانچ ہینڈ پمپس لگوائے ہم نےانہیں دوبارہ قابل استعمال بنایا. جلد ہی، ہم نے پانچ ہزار خاندانوں تک پانی کی فراہمی یقینی بنا دی. ہم نے ثابت کیا کہ جو کچھ مرد کر سکتے ہیں، ہم خواتین بھی کر سکتی ہیں. میں نے دوسری منتخب خواتین اراکین کے ساتھ اتحاد بنایا، اور پچھلے سال، ہم خواتین کو تمام اراکین کے ساتھ کونسل میں بیٹھنے کی اجازت مل گئی.
(Applause)
(تالیاں)
And to take part in the legislation and planning and budgeting, in all the decisions. I saw there is strength in numbers. You know yourselves. Lack of representation means no one is fighting for you. Pakistan is -- We're 8,000 miles away from where I'm here with you today. But I hope what I'm about to tell you will resonate with you, though we have this big distance in miles and in our cultures.
اور قانون سازی، منصوبہ بندی اور بجٹ میں حصہ لینے کی بھی، تمام فیصلوں میں. میں نے دیکھا کہ تعداد میں ایک طاقت ہے۔ آپ اپنے آپ کو جانتے ہیں۔ کم نمائندگی کا مطلب ہے کوئی بھی تمہارے لئے نہیں لڑے گا۔ پاکستان ہے-- 8000 میل دورجہاں آج میں آپ کے ساتھ موجود ہوں۔ مجھے امید ہے جو میں آپ کو اب بتانے والی ہوں بہت دیر تک آپ کو یاد رہے گا، اگرچہ ہمارے درمیان بہت زیادہ زمینی اور ثقافتی فرق موجود ہے۔
When women show up, they bring the realities and hopes of half a population with them. In 2007, we saw the rise of the Taliban in Swat, Dir and nearby districts. It was horrifying. The Taliban killed innocent people. Almost every day, people collected the dead bodies of their loved ones from the streets. Most of the social and political leaders struggling and working for the betterment of their communities were threatened and targeted. Even I had to leave, leaving my children behind with my in-laws. I closed my office in Dir and relocated to Peshawar, the capital of my province. I was in trauma, kept thinking what to do next. And most of the family members and friends were suggesting, "Shad, stop working. The threat is very serious." But I persisted.
جب خواتین میرے پاس آتی ہیں، تو اپنے ساتھ آدھی آبادی کی حقیقتیں اور امیدیں لے کر آتی ہیں۔ 2007 میں، ہم نے طالبان کا عروج دیکھا سوات، دیر اور قریب کے اضلاع میں یہ بہت خوفناک تھا. طالبان معصوم لوگوں کو قتل کرتے تھے. تقریبا ہر روز، لوگ اپنے پیاروں کے مردہ جسم گلیوں سے اٹھا تے تھے. زیادہ تر سماجی اور سیاسی رہنماوؑں کو جو سماج کی بہتری کے لئے کام اور جدوجہد کر رہے تھے دھمکیاں دی گئی اور نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ مجھے بھی نکلنا پڑا، اپنے بچوں کو اپنے سسرالیوں کے پاس چھوڑ کر. میں نے دیر میں دفتر بند کیا اور پشاور منتقل ہو گئی، جو کہ صوبائی دارالحکومت ہے. میں شدید اذیت کا شکار تھی اور مسلسل سوچتی تھی کہ آگے کیا کرنا ہے. اور زیادہ تر خاندان کے لوگ اور دوست مشورہ دے رہے تھے کہ ‘‘شاد کام کرنا چھوڑ دو۔ کیونکہ خطرہ بہت ہی سنگین ہے۔" لیکن میں ڈٹی رہی۔
In 2009, we experienced a historic influx of internally displaced persons, from Swat, Dir and other nearby districts. I started visiting the camps almost every day, until the internally displaced persons started to go back to their place of origin. I established four mother-child health care units, especially to take care of over 10,000 women and children nearby the camps. But you know, during all these visits, I observed that there was very little attention towards women's needs. And I was looking for what is the reason behind it. And I found it was because of the underrepresentation of women in both social and political platforms, in our society as a whole. And that was the time when I realized that I need to narrow down my focus on building and strengthening women's political leadership to increase their political representation, so they would have their own voice in their future.
2009 میں ملک میں اندرونی مہاجرین کا ایک تاریخی المیہ دیکھا، سوات، دیر اور قریبی اضلاع سے میں نے تقریبا ہر روز خیمہ بستیوں کا دورہ کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ اندرونی طور پر بے گھر افراد اپنے آبائی علاقوں میں واپس جانے لگے میں نے زچہ بچہ کی صحت کا خیال رکھنے والے چار یونٹ قائم کئے خصوصی طور پر10,000 سے زیادہ خواتین اور بچوں کا خیال رکھنے کیلئے خیمہ بستیوں کے قریب۔ لیکن، ان تمام دوروں کے دوران، میں نے مشاہدہ کیا کہ خواتین کی ضروریات کی طرف بہت ہی کم توجہ دی گئی۔ اور میں اس کی وجہ تلاش کر رہی تھی۔ اور مجھے پتہ چلا کہ اس کی وجہ خواتین کی بہت ہی کم نمائندگی ہے ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر، نہ صرف سماجی بلکہ سیاسی پلیٹ فارم پہ بھی۔ اور یہ وہ وقت تھا جب مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنی توجہ مرکوز کرنی ہے خواتین میں سیاسی قیادت کی تعمیر اور اس کی مضبوطی پر ان کی سیاسی نمائندگی بڑھانے کے لیے، تاکہ وہ اپنے مستقبل کے لیے اپنی آواز کو اٹھا سکیں۔
So we started training around 300 potential women and youth for the upcoming local elections in 2015. And you know what? Fifty percent of them won.
تو ہم نے تقریبا 300 باصلاحیت نوجوان خواتین کو تربیت دینا شروع کی 2015 میں ہونے والے مقامی انتخابات کے لیے۔ اورپھر پتا ہے کیا ہوا؟ کہ ان میں سے 50 فیصد جیت گئیں۔
(Applause)
(تالیاں)
And they are now sitting in the councils, taking part actively in the legislation, planning and budgeting. Most of them are now investing their funds on women's health, education, skill development and safe drinking water. All these elected women now share, discuss and resolve their problems together.
اور اب وہ کونسلز میں بیٹھ رہی ہیں، اور قانون سازی، منصوبہ بندی اور بجٹ میں ایک متحرک کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان میں سے زیادہ اپنے بجٹ کو لگا رہی ہیں خواتین کی صحت، تعلیم، ہنرمندی بڑھانے اور صاف پانی پر۔ اب یہ تمام منتخب خواتین اپنے تمام مسائل پر مل کر گفتگو کرتی ہیں اور حل کرتی ہیں۔
Let me tell you about two of the women I have been working with: Saira Shams. You can see, this young lady, age 26, she ran for a public office in 2015 in Lower Dir, and she won. She completed two of the community infrastructure schemes. You know, women, community infrastructure schemes ... Some people think this is men's job. But no, this is women's job, too, we can do it. And she also fixed two of the roads leading towards girls schools, knowing that without access to these schools, they are useless to the girls of Dir.
میں آپ کو دو خواتین کے بارے میں بتاتی ہوں جن کے ساتھ میں کام کر رہی ہوں: سائرہ شمس. آپ اس 26 سالہ نوجوان خاتون کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس نے 2015 میں لوئر دیر سے مقامی انتخاب لڑا اور جیت گئی۔ انہوں نے سماجی ڈھانچا کے لئے دو منصوبے مکمل کئے ہیں، آپ جانتے ہیں، خواتین، اور سماجی ڈھانچے کے منصوبے ۔۔۔ بعض لوگوں کے خیال میں یہ مردوں کے کام ہیں۔ لیکن نہیں یہ خواتین کے کام بھی ہیں اور ہم یہ کر سکتی ہیں۔ تو اس نے بچیوں کے اسکول کو جانے والی دو سڑکیں بھی صحیح کروائیں، جانتے ہوئے کہ آسان رسائی کے بغیر یہ اسکول، دیر کی لڑکیوں کے لئے بیکار ہیں۔
And another young woman is Asma Gul. She is a very active member of the young leaders forum we established. She was unable to run for the public office, so she has become the first female journalist of our region. She speaks and writes for women's and girls' issues and their rights. Saira and Asma, they are the living examples of the importance of inclusion and representation.
اور ایک اور نوجوان خاتون عاصمہ گل ہیں۔ وہ نوجوان قائدین کے فورم کی ایک بہت ہی متحرک رکن ہیں جو کہ ہم نے بنایا ہے۔ وہ عوامی انتخاب نہیں لڑ سکیں وہ ہمارے علاقے کی پہلی خاتون صحافی بن گئیں ہیں۔ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق اور معاملات پر بولتی بھی ہیں اور لکھتی بھی ہیں۔ سائرہ اور عاصمہ زندہ مثالیں ہیں نمائندگی اور شمولیت کی اہمیت کی۔
Let me tell you this, too. In the 2013 general elections in Pakistan and the local elections in 2015, there were less than 100 women voters in Dir. But you know what? I'm proud to tell you that this year, during the general elections, there were 93,000 women voters in Dir.
مجھے یہ بھی بتانے دیجئے۔ 2013 کے پاکستان کے عوامی انتخابات میں اور 2015 کے مقامی انتخابات میں، دیر میں 100 سے بھی کم خواتین ووٹرز تھیں، لیکن پتہ ہے کیا ہوا؟ میں آپ کو بہت فخر سے بتانا چاہتی ہوں کہ اس سال عوامی انتخابات میں، دیر میں 93 ہزار خواتین نے اپنا ووٹ کا حق استعمال کیا۔
(Applause)
(تالیاں)
So our struggle is far from over. But this shift is historic. And a sign that women are standing up, showing up and making it absolutely clear that we all must invest in building women's leadership. In Pakistan and here in the United States, and everywhere in the world, this means women in politics, women in business and women in positions of power making important decisions.
تو ہماری جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ مگر یہ تاریخی تبدیلی ہے۔ ایک نشانی ہے کہ خواتین کھڑی ہو رہی ہیں، سامنے آرہی ہیں اور یہ بات عیاں کر رہی ہیں کہ ہم سب کو خواتین قیادت کی تشکیل کے لئے اپنا کردا ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان میں اور یہاں امریکہ میں، اور دنیا میں ہر جگہ، اس کا مطلب ہے خواتین سیاست میں، خواتین کاروبار میں اور خواتین با اثر عہدوں پر، اہم فیصلے کرتے ہوئے۔
It took me 23 years to get here. But I don't want any girl or any woman to take 23 years of her life to make herself heard. I have had some dark days. But I have spent every waking moment of my life working for the right of every woman to live her full potential.
یہاں تک پہنچنے میں مجھے 23 سال لگے۔ لیکن میں نہیں چاہتی کہ کسی بھی لڑکی یا خاتون کو زندگی کے 23 سال لگیں اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے میں۔ مجھ پر کچھ بہت ہی تاریک دن آ ئے۔ لیکن میں نے اپنی زندگی کا ہر جاگتا لمحہ خرچ کیا ہے ہر عورت کے حقوق کے لئے تاکہ وہ وہ اپنی زندگی بھرپور طریقے سے گزار سکے۔
Imagine with me a world where thousands of us stand up and they support other young women together, creating opportunities and choices that benefit all. And that, my friends, can change the world.
میرے ساتھ ایک ایسی دنیا کا تصورکیجئے جہاں ہم میں سے ہزاروں لوگ اٹھ کھڑے ہوں اور وہ دوسری نوجوان خواتین کی مل کر مدد کریں، مواقع پیدا کریں اور چننے کا حق دیں جو سب کو فائدہ دے۔ اور یہی چیز میرے دوستو اس دنیا کو تبدیل کر سکتی ہے۔
Thank you.
آپ کا شکریہ.
(Applause)
(تالیاں)