When I was 11, I remember waking up one morning to the sound of joy in my house. My father was listening to BBC News on his small, gray radio. There was a big smile on his face which was unusual then, because the news mostly depressed him.
مجھے یاد ھے وہ دن جب میں گیارہ سال کی تھی اور ایک صبح گھر میں کسی خوشی کے مناے جانے کی آواز سے میری آنکھ کھلی۔ میرے والد اپنے سلیٹی رنگ کے چھوٹے سے ریڈیو پر۔ بی بی سی کی خبریں سن رہے تھے وہ بہت مسکرا رہے تھے جو کہ بہت غیر معمولی تھا۔ کیونکہ خبرین انہیں ہمیشہ پریشان کر دیا کرتی تھیں
"The Taliban are gone!" my father shouted.
"طالبان چلے گؑے ہیں" میرے والد چلاےؑ ۔
I didn't know what it meant, but I could see that my father was very, very happy.
مجھے انکی بات کا مطلب معلوم نہیں تھا ۔ مگر میں دیکھ سکتی تھی کہ میرے والد بہت ہی زیادہ خوش تھے
"You can go to a real school now," he said.
"تم اب ایک با قاعدہ سکول جا سکتی ہو"، انہوں نے بتایا۔
A morning that I will never forget. A real school. You see, I was six when the Taliban took over Afghanistan and made it illegal for girls to go to school. So for the next five years, I dressed as a boy to escort my older sister, who was no longer allowed to be outside alone, to a secret school. It was the only way we both could be educated. Each day, we took a different route so that no one would suspect where we were going. We would cover our books in grocery bags so it would seem we were just out shopping. The school was in a house, more than 100 of us packed in one small living room. It was cozy in winter but extremely hot in summer. We all knew we were risking our lives -- the teacher, the students and our parents. From time to time, the school would suddenly be canceled for a week because Taliban were suspicious. We always wondered what they knew about us. Were we being followed? Do they know where we live? We were scared, but still, school was where we wanted to be.
وہ صبح میں کبھی نہیں بھول سکتی- ایک باقاعدہ سکول۔ آپ دیکھیے کہ میں چھ سال کی تھی جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ۔ اور لڑکیوں کا سکول جانا غیر قانونی قرار دے دیا اس لیے، اگلے پانچ سالوں تک، مجھے لڑکوں کا لباس پہن کر اپنی بڑی بہن کو ایک خفیا اسکول تک لے کر جانا پڑتا، کیونکہ اس کا اکیلے گھر سے باہر رہنا منع کر دیا گیا تھا۔ بس اسی ایک طریقے سے ہم تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔ ہر روز، ہم مختلف راستے سے جایا کرتے تا کہ کسی کو یہ شک نا گزرے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ہم اپنی کتابوں کو سبزی والے تھیلوں میں چھپاتے تاکہ ایسا لگے کہ ہم خریداری کے لیے باہر نکلے ہیں سکول ایک مکان میں تھا جس کے ایک کمرے میں ہم سو سے زیادہ لوگ اپنی جگہ بنا تے تھے سردیوں میں وہ جگہ بہت گرم اور آرام دہ ہوا کرتی تھی مگر گرمیوں میں بہت زیادہ گرمی ہوتی تھی ستاد، طلبہ اور ہمارے والدین؛ ہم سب کو معلوم تھا کہ ہم اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ بعض اوقات، طالبان کو شک ہو جانے کی وجہ سے، سکول کو ایک ہفتے کے لیےؑ بند کرنا پڑتا۔ ہم اکثر سوچا کرتے تھے کہ وہ ہمارے بارے میں کیا جان گیےؑ ہیں۔ کیا ہمارا پیچھا کیا جا رہا ہے؟ کیا انہیں ہماری رہایؑش کا معلوم ہے؟ ہم خوفزدہ تھے، لیکن پھر بھی، ہم سکول جانا چاہتے تھے۔
I was very lucky to grow up in a family where education was prized and daughters were treasured. My grandfather was an extraordinary man for his time. A total maverick from a remote province of Afghanistan, he insisted that his daughter, my mom, go to school, and for that he was disowned by his father. But my educated mother became a teacher. There she is. She retired two years ago, only to turn our house into a school for girls and women in our neighborhood. And my father -- that's him -- he was the first ever in his family to receive an education. There was no question that his children would receive an education, including his daughters, despite the Taliban, despite the risks. To him, there was greater risk in not educating his children. During Taliban years, I remember there were times I would get so frustrated by our life and always being scared and not seeing a future. I would want to quit, but my father, he would say, "Listen, my daughter, you can lose everything you own in your life. Your money can be stolen. You can be forced to leave your home during a war. But the one thing that will always remain with you is what is here, and if we have to sell our blood to pay your school fees, we will. So do you still not want to continue?"
میں خوش قسمت ہوں کہ ایسے گھر میں پیدا ہوی جہاں تعلیم کی قدر کی جاتی تھی اور بیٹیوں کو انعام سمجھا جاتا تھا۔ میرے نانا اپنے زمانے کے بہت غیر معمولی آدمی تھے۔ افغانستان کے ایک دور دراز صوبے کا ایک روایت شکن آدمی مگر اپنی بیٹی، میری ماں، کو سکول بھیجنے پر اصرار کرنے کی وجہ سے ان کے والد نے انہیں آق کر دیا۔ لیکن میری پڑھی لکھی ماں استانی بن گیؑں۔ وہ ھے میری ماں وہ دو سال پہلے ہی نوکری سے ریٹایؑر ہویں اور اپنے گھر میں ہی ہمارے محلے کی بچیوں اور خواتین کے لیے سکول کھول لیا۔ اور میرے والد--جو کہ یہ ہیں-- اپنے خاندان کے سب سے پہلے فرد تھے جس نے تعلیم حاصل کی۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ان کے بچے، حتٰی کہ بیٹیاں بھی، طالبان اور ان کے دھمکیوں کے باوجود، تعلیم نا حاصل کرتے۔ ان کے نزدیک، اپنے بچوں کو تعلیم نا دینا، اس سے بڑا خطرہ تھا۔ طالبان کی حکومت کے دنوں میں، مجھے یاد ہے، کچھ ایسے لمحات بھی آے میری زندگی میں جب میں ہماری زندگیوں اور ہمیشہ کے ڈر، اور غیر واضع مستقبل سے عاجز آ جاتی۔ ، میں ہار ماننا چاہتی لیکن میرے والد صاحب مجھ سے کہتے تھے بیٹی میری بات غور سے سنو" تم اپنی زندگی کا سارا سرمایا کھو سکتی ہو، تمہارے پیسے چوری ہو سکتے ہیں، تمہیں جنگ کے دوران اپنا گھر چھوڑے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایک چیز جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی وہ یہ(تعلیم) ہے، ، اور اگر ہمیں اپنا خون بیچ کر بھی تمہاری فیس اد کرنی پڑی تو ھم یہ بھی کریں گے تو، اب بھی تم پڑہایؑی چھوڑنا چاہتی ہو؟"
Today I am 22. I was raised in a country that has been destroyed by decades of war. Fewer than six percent of women my age have made it beyond high school, and had my family not been so committed to my education, I would be one of them. Instead, I stand here a proud graduate of Middlebury College.
آج جب کہ میں باییس برس کی ھو چکی ھوں میں نے ایک ایسے ملک میں پرورش پایؑی جسے دہایوں پر محیط جنگ نے تباہ کر دیا۔ میری ہم عمر لڑکیوں میں سے صرف چھ فیصد نے ہایی سکول کے بعد تک تعلیم حاصل کی اور اگر میرےخاندان میں تعلیم حاصل کرنے کا عزم نا ہوتا، تو میں بھی باقی ۹۴ فیصد کا حصہ ہوتی۔ اس سارے کی جگہ، آج میں آپکے سامنے مڈلبری کالج کی گریجویٹ کی حیثیت سے کھڑی ھوں
(Applause)
(تالیاں )
When I returned to Afghanistan, my grandfather, the one exiled from his home for daring to educate his daughters, was among the first to congratulate me. He not only brags about my college degree, but also that I was the first woman, and that I am the first woman to drive him through the streets of Kabul.
جب میں افغانستان واپس پہنچی تو میرے نانا، جنہیں اپنی بچیوں کو پڑہانے کی وجہ سے آق کر دیا گیا تھا، مجھے مبارک باد دینے والوں میں سرفہرست تھے۔ وہ نہ صرف میری کالج کی تعلیم کے بارے میں بہت فخر سے بتاتے ھیں بلکہ یہ بھی کہ میں وہ پہلی عورت ہوں، اور یہ بھی کہ میں ایک پہلی خاتون ھوں جس نے انہیں، کابل کی گلیوں کی سیر کروائی۔
(Applause)
(تالیاں )
My family believes in me. I dream big, but my family dreams even bigger for me. That's why I am a global ambassador for 10x10, a global campaign to educate women. That's why I cofounded SOLA, the first and perhaps only boarding school for girls in Afghanistan, a country where it's still risky for girls to go to school. The exciting thing is that I see students at my school with ambition grabbing at opportunity. And I see their parents and their fathers who, like my own, advocate for them, despite and even in the face of daunting opposition.
میرا خاندان مجھ پر اعتماد رکھتا ہے۔ میں بڑے بڑے خواب دیکھتی ہوں، مگر میرا خاندان میرے لیے اس سے بھی بڑے خواب دیکھتا ہے۔ اسی لیے میں 10x10 کی عالمی سفیر ہوں، جو کہ خواتین کو تعلیم یافتہ کرنے کی عالمی مہم ہے۔ اسی لیے میں نے SOLA کی بنیاد رکھی، جو کہ افغانستان میں لڑکیوں کے لیے پہلا، اور غالباََ اکیلا بورڈنگ سکول ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں لڑکیوں کا سکول جانا، ابھی تک خطرے سے خالی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے اپنے اسکول میں طالب علموں کو کامیابی کے جنون کے ساتھ مواقع تلاش کرتے دیکھا ہے اور میں ان کے والدین کو دیکھتی ہوں جو، میرے والدین کی طرح، ، خطرناک مخالفت کے باوجود ان کی ہمایت کرتے ہیں۔
Like Ahmed. That's not his real name, and I cannot show you his face, but Ahmed is the father of one of my students. Less than a month ago, he and his daughter were on their way from SOLA to their village, and they literally missed being killed by a roadside bomb by minutes. As he arrived home, the phone rang, a voice warning him that if he sent his daughter back to school, they would try again.
احمد کی طرح، یہ اسکا اصلی نام نہیں ھے اور میں آپکو اسکی تصویر بھی نہیں دکھا سکتی مگر وہ میری ایک شاگرد کا والد ہے۔ ایک ماہ پہلے، وہ اور انکی بیٹی سولا - (ہمارے بورڈنگ سکول) سے واپس اپنے گاوں جا رہے تھے دو منٹ کی تاخیر کے باعث،سڑک پر پھٹنے والے بم کی وجہ سے ہلاک ہونے سے بچے۔ جب وہ گھر پہنچے تو انکا فون بجا ایک آواز نے انکو دھمکی دی کہ اگر اپنی بچی کو سکول بحیجا تو وہ انکو دوبارہ قنل کرنے کی کوشش کریں گے
"Kill me now, if you wish," he said, "but I will not ruin my daughter's future because of your old and backward ideas."
"اگر تم یہی چاہتے ہو تو مجھے ابھی قتل کر دو" اس نے کہا۔ "لیکن میں اپنی بیٹے کا مستقبل تمہارے ۔ پرانے اور دقیانوسی خیالات کی وجہ سے تباہ نہیں کرونگا"
What I've come to realize about Afghanistan, and this is something that is often dismissed in the West, that behind most of us who succeed is a father who recognizes the value in his daughter and who sees that her success is his success. It's not to say that our mothers aren't key in our success. In fact, they're often the initial and convincing negotiators of a bright future for their daughters, but in the context of a society like in Afghanistan, we must have the support of men. Under the Taliban, girls who went to school numbered in the hundreds -- remember, it was illegal. But today, more than three million girls are in school in Afghanistan.
افغانستا ن کے متعلق میری راے یہ ھے کہ عام طور پر اس کو مغرب میں اہمیت نہیں دی جاتی ھم لڑکیوں میں سے جو اکثر کامیاب ہوتی ھیں انکے پیچھے ایسے باپ کا ہاتھ ہے جو اپنی بیٹیوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کی کامیابی میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہماری ماوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں، بلکہ وہ تو اکثر اپنی بیٹیوں کے روشن مستقبل کیلیے قایؑل کرنے میں پہل کرتی ہی، لیکن افغانستان جیسے معاشرے کے تناظر میں، ہمارے پاس مردوں کی ہمایت ہونا لازمی ہے۔ طالبان کی حکومت میں، سکول جانے والی لڑکیوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی-- یاد رہے کہ اس وقت یہ غیر قانونی تھا۔ لیکن آج، افغانستان میں تیس لاکھ سے زیادہ لڑکیاں سکول جاتی ہیں۔
(Applause)
(تالیاں )
Afghanistan looks so different from here in America. I find that Americans see the fragility in changes. I fear that these changes will not last much beyond the U.S. troops' withdrawal. But when I am back in Afghanistan, when I see the students in my school and their parents who advocate for them, who encourage them, I see a promising future and lasting change. To me, Afghanistan is a country of hope and boundless possibilities, and every single day the girls of SOLA remind me of that. Like me, they are dreaming big.
امریکہ سے افغانستان بہت مختلف نظر آتا ھے میں دیکھتی ہوں کہ امریکی ان تبدیلیوں کو بہت نازک سمجھتے ہیں. مجھے ڈر ہے کہ امریکی فوج کی واپسی کے بعد یہ تبدیلیاں باقی نہیں رہینگی۔ لیکن جب میں افغانستان واپس جاتی ہوں، اور جب میں وہاں طالبات کو دیکھتی ھوں اور ان کے والدین کو جو انکی حمایت کرتے ہیں، ان کا حصلہ بڑہاتے ہیں، تو مجھے ایک روشن مستقبل اورپایؑدار تبدیلی نظر آتی ہے۔ میرے لیے افغانستان امید اور با حد ممکنات سے بھرا ہوا ملک ہے۔ اور SOLA کی لڑکیاں مجھے ہر روز اس بات کی یاددہانی کرواتی ہیں۔ میری طرح یہ لڑکیاں بھی بڑے بڑے خواب دیکھتی ھیں
Thank you.
آپکا بہت بہت شکریہ
(Applause)
(تالیاں )