Loki the mischief-maker, was writhing uncomfortably in Thor’s iron grip. The previous night, while the rest of the gods slept, he’d snuck up on Thor’s wife Sif and shorn off her beautiful hair. It’d seemed like a funny prank at the time, but now Thor was about to break every bone in his body. Loki had to think of some way to fix what he’d done. Yet who could replace Sif’s matchless hair, golden like a field of summer wheat?
فتنہ انگیز لوکی، تھور کے آہنی پنجوں کی گرفت میں بے چینی سے تڑپ رہا تھا۔ گزشتہ شب جب باقی دیوتا سو رہے تھے، وہ چپکے سے تھور کی بیوی سف کے پیچھے گیا اور اس کے حسین بال کاٹ لیے۔ اس وقت تو یہ ایک مزاحیہ سی شرارت لگی، لیکن اب تھور اس کے جسم کی تمام ہڈیاں توڑنے والا تھا۔ لوکی کو اب اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے کچھ سوچنا تھا۔ لیکن سف کے گندمی بے مثل سنہری بالوں کا نعم البدل کون لا سکتا تھا؟
The dwarves! – their legendary smiths could make anything. So Loki rushed to their realm, deep within the mountains of the earth. Even before he arrived, the wily Loki was already scheming how he would get the dwarves to do his bidding. He decided that his best bet was to pit two families against each other. He first visited the masterful sons of Ivaldi. He told them that their rivals, a pair of brothers named Brokk and Eitri, had claimed that they were the best craftsmen in the world and were determined to prove it in a competition. The rules were that each family had to create three gifts for the gods, including, for the Ivaldis, golden hair.
بونے! – ان کے عظیم آہن گر کوئی بھی چیز بنا سکتے تھے۔ لہٰذا لوکی جلدی سے انکی سلطنت میں گیا، جو زمین کے پہاڑوں کی گہرائی میں واقع تھی۔ وہاں پہنچنے سے پہلے ہی، عیار لوکی منصوبے بنانے لگ گیا کہ وہ کس طرح بونوں سے اپنا کام نکلوا سکتا ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اس کی بہترین چال دو خاندانوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنا ہو گی۔ وہ سب سے پہلے ایوالڈی کے یکتائے فن بیٹوں سے ملنے گیا۔ اس نے انہیں بتایا کہ ان کے مخالف، دو بھائیوں کی جوڑی براک اور ایٹری، نے اس بات کا دعوی کیا ہے کہ وہ دنیا کے سب سے بہترین کاریگر ہیں اور اس بات کو ایک مقابلے میں ثابت کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ اصول یہ طے کیے گئے کہ ہر گھرانے کو دیوتاؤں کے لئے تین تحائف تیار کرنے ہوں گے، جن میں ایوالڈی کے سنہری بال بھی شامل تھے۔
Then Loki visited Brokk and Eitri, and told them the same thing, only now claiming that the sons of Ivaldi had issued the challenge. But Brokk and Eitri couldn’t be fooled so easily, and only agreed to participate if Loki put his own head on the line. Literally—if Brokk and Eitri won, Loki would forfeit his head to them.
پھر لوکی براک اور ایٹری کے پاس گیا اور انہیں یہی بات بتائی، اب اس بات کا دعوٰی کرتے ہوئے کہ ایوالڈی کے بیٹوں نے اس مقابلے کے لیے للکارا ہے۔ مگر براک اور ایٹری کو اتنی آسانی سے بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا تھا، اور وہ صرف تبھی حصہ لینے پر رضامند تھے اگر لوکی اپنے سر کی بازی لگا دے۔ اگر بروک اور ایٹری جیت جاتے ہیں، تو عملاً لوکی اپنا سر ان کے سامنے پیش کر دے گا۔
Loki had no choice but to agree, and to save himself had to find a way to make sure the sons of Ivaldi emerged victorious. Both sets of dwarves got to work. Eitri set Brokk to man the bellows and told him not to stop for any reason, or the treasures would be ruined. Soon a strange black fly flew into the room. As a piece of pigskin was placed in the forge, the fly stung Brokk’s hand, but he didn’t flinch. Next, while Eitri worked a block of gold, the fly bit Brokk on the neck. The dwarf carried on. Finally, Eitri placed a piece of iron in the furnace. This time the fly landed right on Brokk’s eyelid and bit as hard as it could. And for just a split second, Brokk’s hand left the bellows.
لوکی کے پاس متفق ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، اور اپنی جان بچانے کے لئے کوئی راہ ڈھونڈنی تھی تاکہ ایوالڈی کے بیٹے فتحیاب ٹھہریں۔ بونوں کے دونون جوڑے کام پر لگ گئے۔ ایٹری نے براک کو دھونکنی چلانے پر لگایا اور تنبیہ کی کہ کسی بھی صورت میں نہ رکے، ورنہ ان کا خزانہ تباہ ہو جائے گا۔ جلد ہی ایک سیاہ رنگ کی عجیب سی مکھی کمرے میں اڑتی ہوئی آئی۔ جب کہ سور کی کھال کا ایک ٹکڑا بھٹی پر پڑا تھا، مکھی نے براک کے ہاتھ پر کاٹ لیا، مگر وہ ذرا بھی نہ ہلا۔ اگلی بار جب ایٹری سونے کے ایک ٹکڑے پر کام کر رہا تھا، مکھی نے براک کی گردن پر کاٹا۔ بونا کام کرتا رہا۔ آخرکار، ایٹری نے بھٹی میں لوہے کا ایک ٹکڑا رکھا۔ اس مرتبہ مکھی براک کے پپوٹوں پر اتری اور اس نے اپنی پوری شدت سے اسے کاٹا۔ اور محض سیکنڈ کے دسویں حصے کے لئے، براک کا ہاتھ دھونکنی سے ہٹ گیا۔
That’s all it took; their final treasure hadn’t stayed in the fire long enough. Loki now reappeared in his normal form, overjoyed by their failure, and accompanied the dwarves to present their treasures to the gods.
بس اتنا ہی کافی تھا، ان کا خزانہ آگ میں مطلوبہ معیاد تک نہ رہا، لوکی اب اپنی معمول کی حالت میں آ گیا، وہ اُن کی ناکامی پر بہت مسرور تھا، اور بونوں کو ساتھ لیے دیوتاؤں کو ان کے تحائف دینے گیا۔
First, Loki presented the treasures from the sons of Ivaldi. Their golden hair bound to Sif’s head and continued to grow, leaving her even more radiant than before. Next, for Odin the all-father, a magnificent spear that could pierce through anything. And finally a small cloth that unfolded into a mighty ship built for Freyr, god of the harvest.
پہلے لوکی نے ایوالڈی کے بیٹوں کی جانب سے تحائف پیش کیے۔ ان کے سنہری بال سف کے سر پر جمے اور اگنا بھی شروع ہو گئے، اور وہ پہلے سے بھی زیادہ چمکدار ہو گئے۔ اگلا تحفہ، سب کے باپ اوڈن کے لئے، ایک عظیم نیزہ تھا جو کسی بھی چیز میں سے گزر سکتا تھا۔ اور آخر میں ایک چھوٹا کپڑا جو بچھانے پر ایک بہت بڑی کشتی میں تبدیل ہو جاتا، کھیتی کے دیوتا فرائیر کے لئے تھا۔
Then Brokk presented the treasures made by him and his brother. For Freyr they’d forged a golden-bristled boar who’d pull Freyr’s chariot across the sky faster than any mount. For Odin, a golden arm ring which would make eight more identical rings on every ninth night. And for Thor, a hammer called Mjolnir. Its handle was too short, and Loki smirked at the obvious defect. But then Brokk revealed its abilities. Mjolnir would never shatter, never miss its mark and always return to Thor’s hand when thrown. Despite the short handle, the gods all agreed this was the finest gift of all.
پھر براک نے اپنے اور اپنے بھائی کے بنائے ہوئے تحائف پیش کیے۔ فرائیر کے لئے انھوں نے سنہری بالوں والا ایک سور تیار کیا تھا جو فرائیر کے رتھ کو سب سے زیادہ تیزی سے آسمانوں کے پار لے جا سکتا تھا۔ آڈن کے لئے، ایک سونے کا کڑا تیار کیا تھا جو اپنے جیسے آٹھ مزید کڑے بنا دیتا تھا ہر نویں رات کو۔ اور تھور کے لئے میال نیر نامی ایک ہتھوڑا۔ اس کا دستہ بہت چھوٹا تھا،اور لوکی اس ظاہری نقص پر دل شکن انداز میں مسکرایا۔ مگر پھر براک نے اس کی خصوصیات کو ظاہر کیا۔ میال نیر نہ کبھی ٹوٹے گا اور نہ ہی کبھی اس کا نشانہ خطا ہو گا اور یہ ہمیشہ تھور کے ہاتھوں میں واپس لوٹے گا پھینکنے کے بعد۔ اپنے مختصر دستے کے باوجود دیوتا متفق ہوئے کہ یہ سب سے بہترین تحفہ تھا۔
Remembering what was at stake, Loki tried to flee, but Thor reached him first. But before the dwarves could have their due, clever Loki pointed out that they had won the rights to his head, but not his neck, and thus had no right to cut it. All begrudgingly admitted the truth in that, but Brokk would have the last laugh. Taking his brother’s awl, he pierced it through Loki’s lips and sewed his mouth shut, so the trickster god could no longer spread his malicious deceit. Yet the irony was not lost on the gods. For it was Loki’s deceit that had brought them these fine treasures and given Thor the hammer for which he’s still known today.
خطرے کو بھانپتے ہوئے لوکی نے بھاگنے کی کوشش کی مگر تھور نے اسے پہلے جا لیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ بونوں کو ان کا حق ملتا، چالاک لوکی نے کہا کہ ان کا حق صرف اس کے سر پر ہے، اس کی گردن پر نہیں، لہٰذا اسے کاٹنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ان سب نے ہچکچاتے ہوئے اس سچ کو تسلیم کیا، مگر آخری جیت براک ہی کی ہونی تھی۔ اپنے بھائی کی آر لے کر اس نے لوکی کے ہونٹوں میں گھسیڑ دی اور اس کے منہ کو سی کر بند کر دیا، تاکہ چالباز دیوتا پھر کبھی اپنا مکر و فریب نہ پھیلا سکے۔ تاہم دیوتاؤں پر کیا جانے والا یہ استہزا خالی خولی نہیں تھا، کیونکہ لوکی کے اس فریب نے ان کو بہترین خزانوں سے سرفرازا، اور تھور کو اس کا ہتھوڑا ملا جس کی وجہ سے وہ آج بھی مشہور ہے۔