Imagine waking up to a stranger -- sometimes multiple strangers -- questioning your right to existence for something that you wrote online, waking up to an angry message, scared and worried for your safety. Welcome to the world of cyberharassment.
تصور کیجیے آپ کے دن کا آغاز ہو اور ایک اجنبی ۔۔ کبھی ایک سے زیادہ اجنبی ۔۔ آپ کے وجود کے حق پہ سوال اٹھارہے ہوں آپ کے کچھ آن لائن لکھنے پر، دن کا آغاز ہو اور ایک غضبناک پیغام کا سامنا کرنا پڑے، اپنی سلامتی کے لئے خوفزدہ اور پریشان رہنا۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ہراساں ہونے کی دنیا میں خوش آمدید.
The kind of harassment that women face in Pakistan is very serious and leads to sometimes deadly outcomes. This kind of harassment keeps women from accessing the internet -- essentially, knowledge. It's a form of oppression.
پاکستان میں جس قسم کی ہراسگی کا سامنا خواتین کرتی ہیں وہ بہت سنگین ہے جس کے نتائج بعض اوقات جان لیوا ہوتے ہیں۔ اس قسم کی اذیت کی وجہ سے خواتین انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتیں ۔۔ بنیادی طور پر، علم ۔ یہ جبر کی ایک قسم ہے۔
Pakistan is the sixth most populous country in the world, with 140 million people having access to mobile technologies, and 15 percent internet penetration. And this number doesn't seem to go down with the rise of new technologies. Pakistan is also the birthplace of the youngest Nobel Peace Prize winner, Malala Yousafzai. But that's just one aspect of Pakistan. Another aspect is where the twisted concept of honor is linked to women and their bodies; where men are allowed to disrespect women and even kill them sometimes in the name of so-called "family honor"; where women are left to die right outside their houses for speaking to a man on a mobile phone, in the name of "family honor." Let me say this very clearly: it's not honor; it's a cold-blooded murder.
پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر ہے۔ جس میں سے چودہ کروڑ لوگوں کی رسائی موبائل ٹیکنالوجیز تک ہو چکی ہے۔ اور پندرہ فیصد کے پاس انٹرنیٹ ہے۔ یہ نمبر کم نہیں ہوتا نئی ٹیکنالوجیز کے آنے کے ساتھ ۔ پاکستان جائے پیدائش بھی ہے سب سے کم عمر نوبل انعام کی فاتح ملالہ یوسفزئی کی. لیکن یہ پاکستان کا صرف ایک رخ ہے۔ ایک اور رخ وہ ہے جس میں عزت کے بگڑے ہوئے تصور کو عورتوں اور ان کے جسم سے جوڑا جاتا ہے؛ جہاں مردوں کوعورتوں کی توہین کرنے کی اجازت ہے۔ اور کبھی کبھی تو قتل کی بھی خاندان کی عزت کے نام پر؛ جہاں عورتوں کو ان کے اپنے گھروں کے باہر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کسی مرد سے فون پر بات کرنے کی وجہ سے, خاندان کی عزت کے نام پر۔ مجھے یہ بہت واضح طور پر کہنے دیں: یہ عزت نہیں ہے، یہ ایک بے رحمانہ قتل ہے.
I come from a very small village in Punjab, Pakistan, where women are not allowed to pursue their higher education. The elders of my extended family didn't allow their women to pursue their higher education or their professional careers. However, unlike the other male guardians of my family, my father was one who really supported my ambitions. To get my law degree, of course, it was really difficult, and [there were] frowns of disapproval. But in the end, I knew it's either me or them, and I chose myself.
میرا تعلق پنجاب، پاکستان کے ایک چھوٹے گاوں سے ہے، جہاں خواتین کو اعلیٰ تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ میرے خاندان کے بزرگوں نے خواتین کو اجازت نہیں دی کہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم جاری رکھ سکیں یا پیشہ ورانہ زندگی۔ تاہم، میرے خاندان کے دوسرے مرد سرپرستوں کے برعکس میرے والد تھے جو واقعی میرے عزائم کی حمایت کرتے تھے۔ میرے لیے قانون کی ڈگری حاصل کرنا، بلاشبہ، بہت مشکل تھا، اور نا پسندیدگی کا اظہار ہوتا رہتا تھا۔ لیکن آخر میں، میں یہ جانتی تھی، یا میں ہوں یا وہ ہیں اور میں نے اپنا انتخاب کیا۔
(Applause)
(تالیاں)
My family's traditions and expectations for a woman wouldn't allow me to own a mobile phone until I was married. And even when I was married, this tool became a tool for my own surveillance. When I resisted this idea of being surveilled by my ex-husband, he really didn't approve of this and threw me out of his house, along with my six-month-old son, Abdullah. And that was the time when I first asked myself, "Why? Why are women not allowed to enjoy the same equal rights enshrined in our Constitution? While the law states that a woman has the same equal access to the information, why is it always men -- brothers, fathers and husbands -- who are granting these rights to us, effectively making the law irrelevant?"
ایک عورت کے لیے میرے خاندان کی روایات اور توقعات مجھے اجازت نہیں دیتی موبائل فون لینے کے لیے شادی سے پہلے۔ اور جب میری شادی ہو گئی، یہ آلہ میری ہی نگرانی کا آلہ بن گیا۔ جب میں نے اپنے سابقہ شوہر سے اس نگرانی کی مخالفت کی اس نے یہ بات قبول نہیں کی، اور مجھے گھر سے باہر نکال دیا، میرے چھ ماہ کے بیٹے عبد اللہ کے ساتھ ۔ اور یہ وہ وقت تھا جب میں نے خود سے پوچھا، 'کیوں؟' کیوں عورتوں کو یکساں حقوق نہیں دیئے جاتے جو ہمارے آئین میں شامل ہیں؟ جب قانون یہ کہتا ہے کہ عورت کو یکساں رسائی حاصل ہے معلومات کے لئے، کیوں ہمیشہ مرد ہی -- بھائی، باپ اور شوہر -- ہی ہمیں یہ حقوق کیوں فراہم کرتے ہیں، قانون کو بیکار بناتے ہوئے؟
So I decided to take a step, instead of keep questioning these patriarchal structures and societal norms. And I founded the Digital Rights Foundation in 2012 to address all the issues and women's experiences in online spaces and cyberharassment. From lobbying for free and safe internet to convincing young women that access to the safe internet is their fundamental, basic, human right, I'm trying to play my part in igniting the spark to address the questions that have bothered me all these years.
تو میں نے ایک قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا، بجائے پدرانہ نظام پر سوال اٹھانے کے اور معاشرتی اقدارپر۔ اور میں نے 2012 میں ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی تمام مسائل سے نمٹنے کے لئے اور خواتین کے آن لائن تجربات بتانے کے لئے، اور انٹرنیٹ پر ہراساں کرنے پر۔ مفت اور محفوظ انٹرنیٹ کی سفارش سے لے کر لڑکیوں کو اس بات پر قائل کرنے تک کہ انٹرنیٹ تک رسائی ان کا بنیادی انسانی حق ہے۔ میں انہیں قائل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہوں ان تمام سوالوں سے نمٹنے کے لئے جنھوں نے مجھے اتنے سال پریشان کیا ہے۔
With a hope in my heart, and to offer a solution to this menace, I started Pakistan's and the region's first cyberharassment help line in December 2016 --
اپنے دل میں ایک امید لئے، اور اس خطرے کے لئے ایک حل پیش کرنے کے لئے، میں نے پاکستان اور اس خطے کی پہلی سائبر ہراسمنیٹ ہیلپ لائن شروع کی دسمبر 2016 میں۔
(Applause)
(تالیاں)
to extend my support to the women who do not know who to turn to when they face serious threats online. I think of the women who do not have the necessary support to deal with the mental trauma when they feel unsafe in online spaces, and they go about their daily activities, thinking that there is a rape threat in their in-box.
ان خواتین کی مدد کے لئے جو نہیں جانتیں کہ کس کے پاس جانا چاہیے جب انھیں آن لائن سنگین دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں ان عورتوں کے بارے میں سوچتی ہوں جن کے پاس ضروری مدد نہیں ہوتی ذہنی دباؤ کے ساتھ نمٹنے کے لئے جب وہ آن لائن جگہوں پر غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں اور اسی کے ساتھ وہ اپنے روزمرہ کے کام کرتی رہتی ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ ان کے ان باکس میں عصمت دری کی دھمکی ہے۔
Safe access to the internet is an access to knowledge, and knowledge is freedom. When I fight for women's digital rights, I'm fighting for equality.
انٹرنیٹ تک محفوظ رسائی، علم تک رسائی ہے، اور علم آزادی ہے۔ جب میں خواتین کے ڈیجیٹل حقوق کے لئے لڑتی ہوں میں آزادی کے لئے لڑتی ہوں۔
Thank you.
شکریہ
(Applause)
(تالیاں)