Here's a question we should all be asking: What went wrong? Not just with the pandemic but with our civic life. What brought us to this polarized, rancorous political moment?
ہم سب کو یہ ایک سوال پوچھنا چاہے۔ کیا غلط ہوا؟ نہ صرف وبا کے کے حوالے سے بلکہ ہماری شہری زندگی کے حوالے سے بھی۔ کس چیز نے ہمیں اس نا اتفاقی، بغض بھرے سایسی لمحے تک پہنچا دیا؟
In recent decades, the divide between winners and losers has been deepening, poisoning our politics, setting us apart. This divide is partly about inequality. But it's also about the attitudes toward winning and losing that have come with it. Those who landed on top came to believe that their success was their own doing, a measure of their merit, and that those who lost out had no one to blame but themselves.
حالیہ دہائیوں میں، جیتنے والوں اور ہارنے والوں میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے، جو ہماری سیاست کو زہر آلود، اور ہم میں تفریق پیدا کر رہی ہے۔ یہ تقسیم جزواً عدم مساوات سے متعلق ہے۔ مگر اِسکا تعلق ہارنے اور جیتنے کے رویوں سے بھی ہے جوکہ اِس کے ساتھ آتے ہیں۔ جو لوگ سرِفہرست رہتے ہیں وہ گمان کرتے ہیں کہ اُن کی کامیابی اُن کے اپنے کام کا نتیجہ ہے، جو کہ ان کے میرٹ کی پیمائش ہے، اور جو ہارتے ہیں سوائے اپنی ذات کے کسی کو الزام نہیں دیتے۔
This way of thinking about success arises from a seemingly attractive principle. If everyone has an equal chance, the winners deserve their winnings. This is the heart of the meritocratic ideal. In practice, of course, we fall far short. Not everybody has an equal chance to rise. Children born to poor families tend to stay poor when they grow up. Affluent parents are able to pass their advantages onto their kids. At Ivy League universities, for example, there are more students from the top one percent than from the entire bottom half of the country combined.
کامیابی کے بارے میں سوچ کا یہ انداز بظاہر پرکشش لگنے والے اصولوں سے اجاگر ہوتا ہے۔ اگر سب کے پاس برابر موقع ہے، تو جیتنے والے فتح یاب ہونے کے مستحق ہیں۔ یہ میرٹ پرمبنی نظام کا مرکزی اصول ہے۔ عملی طور پر ہم یقیناً کافی پیچھے ہیں۔ ہر کسی کے پاس آگے بڑھنے کا ایک سا موقع نہیں ہوتا۔ غریب خاندانوں میں پیدا ہونے والے بچے اکثر بڑے ہونے پر بھی غریب ہی رہتے ہیں۔ امیر والدین اپنے وسائل اپنے بچوں تک منتقل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ مثلاً آیوی لیگ یونیورسٹیوں میں، ایک فیصد اوپری طبقہ سے منسلک طلباء کی تعداد زیادہ ہے مجموعی طور پر ملکی نچلے طبقے کی آدھی تعداد سے۔
But the problem isn't only that we fail to live up to the meritocratic principles we proclaim. The ideal itself is flawed. It has a dark side. Meritocracy is corrosive of the common good. It leads to hubris among the winners and humiliation among those who lose out. It encourages the successful to inhale too deeply of their success, to forget the luck and good fortune that helped them on their way. And it leads them to look down on those less fortunate, less credentialed than themselves. This matters for politics. One of the most potent sources of the populous backlash is the sense among many working people that elites look down on them. It's a legitimate complaint.
لیکن مسئلہ صرف یہ نہیں کہ ہم پورا نہیں اترے میرٹ پر مبنی نظام کے مشتہراصولوں پر۔ یہ اصول ہی عیب دار ہے۔ اس کا ایک تاریک پہلو ہے۔ میرٹ پر مبنی نظام اجتماعی بھلائی کے لئے تباہ کن ہے۔ یہ جیتنے والوں میں غرور اور ہارنے والوں میں احساسِ شرمندگی پیدا کرتا ہے۔ یہ کامیاب لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنی کامرانی کا گہرا دم بھریں، تاکہ وہ قسمت اور خوش نصیبی کو بھلا دیں جس نے راستے میں ان کی مدد کی۔ اور اِس سے وہ خود سے کم خوش قسمت لوگوں کو حقیر سمجھتے ہیں، اپنے سے کم تربیت یافتہ۔ یہ سیاست کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ زیادہ تر آبادی کے ردِعمل کا ایک اہم سبب یہ احساس ہے کہ بہت سارے کام کرنے والوں میں اشرافیہ انہیں حقیر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک جائز شکایت ہے۔
Even as globalization brought deepening inequality and stagnant wages, its proponents offered workers some bracing advice. "If you want to compete and win in the global economy, go to college." "What you earn depends on what you learn." "You can make it if you try." These elites miss the insult implicit in this advice. If you don't go to college, if you don't flourish in the new economy, your failure is your fault. That's the implication. It's no wonder many working people turned against meritocratic elites.
حتہ کہ جب عالمگیریت اپنے ساتھ شدید عدم مساوات لائی اور جامد اجرت، اس کے حمایتیوں نے کام کرنے والوں کو تقویت بخش تلقین کی۔ "اگر آپ عالمی معیشت میں مقابلہ کرنا اور جیتنا چاہتے ہیں، تو کالج جائیں۔" "آپ کی کمائی کا انحصار اس پر ہوتا ہے جو آپ سیکھتے ہیں۔" "آپ کوشش کریں تو کامیاب ہو سکتے ہیں۔" اشرافیہ اس تلقین میں پوشیدہ توہین کا خیال نہیں کرتے۔ اگر آپ کالج نہیں جاتے ہیں، اگر آپ نئی معیشت میں نہیں پنپتے ہیں، تو یہ ناکامی آپ کی اپنی کوتاہی ہے۔ یہی اسکا مفہوم ہے۔ اس میں تعجب نہیں کہ کئ محنت کش، میرٹ کے نظام کے قائل اشرافیہ کے خلاف ہو جاتے ہیں۔
So what should we do? We need to rethink three aspects of our civic life. The role of college, the dignity of work and the meaning of success.
تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمیں اپنی شہری زندگی کے تین پہلؤں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کالج کا کردار، کام کی عظمت اور کامیابی کے معنی۔
We should begin by rethinking the role of universities as arbiters of opportunity. For those of us who spend our days in the company of the credentialed, it's easy to forget a simple fact: Most people don't have a four-year college degree. In fact, nearly two-thirds of Americans don't. So it is folly to create an economy that makes a university diploma a necessary condition of dignified work and a decent life.
ہمیں یونیورسٹیوں کے کردار کا دوبارہ سے تعین کرنے سے شروع کرنا ہو گا مواقع پیدا کرنے والے ثالث کی حثیت میں۔ ہم میں سے وہ لوگ جن کے دن اعلیٰ اسناد رکھنے والے لوگوں کی صحبت میں گزرتے ہیں، ان کے لئے ایک سادہ حقیقت کو فراموش کرنا آسان ہوتا ہے بہت سے لوگ چار سالہ کالج کی سند نہیں رکھتے ہیں۔ حقیقت میں دو تہائی امریکی باشندے اسناد نہیں رکھتے۔ تو ایسی معیشت کی تخلیق ایک حماقت ہے جو یونیورسٹی کی سند کو ضروری شرط بناتی ہے باوقار کام اور مہذب زندگی کی ۔
Encouraging people to go to college is a good thing. Broadening access for those who can't afford it is even better. But this is not a solution to inequality. We should focus less on arming people for meritocratic combat, and focus more on making life better for people who lack a diploma but who make essential contributions to our society.
لوگوں کو کالج جانے کے لئے بڑھاوا دینا ایک اچھی بات ہے۔ جو اِس کی استطاعت نہیں رکھتے اُن کے لئے قابلِ رسائی بنانا اس سے بھی بہتر ہے۔ لیکن یہ عدم مساوات کا کوئی حل نہیں ہے۔ ہمیں لوگوں کو میرٹ کے نظام کے مقابلے کےلئے مسلح کرنے پر کم اور ذندگی کو بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے ان لوگوں کے لئے جو کوئی سند نہیں رکھتے لیکن ہمارے معاشرے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
We should renew the dignity of work and place it at the center of our politics. We should remember that work is not only about making a living, it's also about contributing to the common good and winning recognition for doing so.
ہمیں کام کی عظمت کی تجدید کرنی چاہے اور اسے اپنی سیاست میں مرکزی جگہ دینی چاہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کام صرف روزی کمانے کے لئے نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مقصد اجتماعی بھلائی میں حصہ ڈالنا بھی ہوتا ہے اور ایسا کرنے پر شناخت حاصل کرنا ہے۔
Robert F. Kennedy put it well half a century ago. Fellowship, community, shared patriotism. These essential values do not come from just buying and consuming goods together. They come from dignified employment, at decent pay. The kind of employment that enables us to say, "I helped to build this country. I am a participant in its great public ventures." This civic sentiment is largely missing from our public life today.
رابرٹ ایف کینیڈی نے نصف صدی پہلے یہ بات بخوبی بیان کی- رفاقت، برادری، مشترکہ حب الوطنی۔ یہ اہم اقدار نہیں آتیں محض اکھٹے چیزیں خریدنے اور صَرف کرنے سے۔ یہ باوقار ملازمت سے آتیں ہیں، جس کی مناسب تنخواہ ہو۔ اس قسم کی ملازمت جو یہ ہمیں کہنے کے قابل بناتی ہے کہ، "میں نے اِس ملک کی تعمیر میں معاونت کی۔ میں اس کے عظیم عوامی منصوبوں میں شریک ہوں۔" یہ شہری جذبہ، آج ہماری عوامی زندگی سے بڑے پیمانے پر غائب ہے۔
We often assume that the money people make is the measure of their contribution to the common good. But this is a mistake. Martin Luther King Jr. explained why. Reflecting on a strike by sanitation workers in Memphis, Tennessee, shortly before he was assassinated, King said, "The person who picks up our garbage is, in the final analysis, as significant as the physician, for if he doesn't do his job, diseases are rampant. All labor has dignity."
ہم اکثر یہ فرض کرتے ہیں کہ لوگ جو پیسا کماتے ہیں وہ مشترکہ بھلائی میں ان کے حصےکی پیمائش ہے۔ مگر یہ ایک غلطی ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے اِس کی وجہ بیان کی۔ صفائی کرنے والوں کے احتجاج پر غور کرتے ہوئے ٹینیسی کے شہر میمفس میں، قتل ہونے سے کچھ عرصہ پہلے۔ کنگ نے کہا، "جو شخص ہمارا کوڑا اٹھاتا ہے وہ حتمی تجزیے میں، اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ طبیب، کیونکہ اگر وہ اپنا کام نہ کرے تو، بیماریاں بے قابو ہو جاتی ہیں- ہر مشقت قابلِ عزت ہے۔"
Today's pandemic makes this clear. It reveals how deeply we rely on workers we often overlook. Delivery workers, maintenance workers, grocery store clerks, warehouse workers, truckers, nurse assistants, childcare workers, home health care providers. These are not the best-paid or most honored workers. But now, we see them as essential workers. This is a moment for a public debate about how to bring their pay and recognition into better alignment with the importance of their work.
آج کی وبا یہ واضح کرتی ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں ان کارکنوں پر جنہیں ہم اکثر نظرانداز کرتے ہے۔ ترسیل کرنے والے، دیکھ بھال کرنے والے، کریانے کی دکان میں کام کرنے والے، گودام میں کام کرنے والے، ٹرک چلانے والے، نرس معاونین، بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے، گھر میں صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے۔ انہیں نہ تو اچھی تنخواہ ملتی ہے اور نہ ہی بہت قابلِ عزت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب ہم انہیں ضروری کارکنان کے طور ہر دیکھتے ہیں۔ یہ عوامی سطح پر بحث کرنے کا موقع ہے کہ کیسے ان کی پہچان اور اجرت کو ان کے کام کی اہمیت کے مطابق بہتر توازن میں لایا جائے۔
It is also time for a moral, even spiritual, turning, questioning our meritocratic hubris. Do I morally deserve the talents that enable me to flourish? Is it my doing that I live in a society that prizes the talents I happen to have? Or is that my good luck? Insisting that my success is my due makes it hard to see myself in other people's shoes. Appreciating the role of luck in life can prompt a certain humility. There but for the accident of birth, or the grace of God, or the mystery of fate, go I.
یہ وقت اخلاقی یہاں تک کہ روحانی تبدیلی کا بھی ہے میرٹ پر مبنی نظام کے پیدا کردہ غرور پر سوال اٹھانے کا۔ کیا میں اخلاقی طور پر ان صلاحیتوں کا مستحق ہوں جو مجھے آگے لے جاتی ہیں؟ کیا یہ میں نے خود کیا ہے کہ میں ایسے معاشرے میں رہتا ہوں جو ان صلاحیتوں کو قیمتی سمجھتا ہے جو مجھ میں موجود ہیں؟ یا یہ میری خوش قسمتی ہے؟ اس پر اصرار کہ میری کامیابی میرا حق ہے مجھے خود کو دوسروں کی جگہ پر رکھ کر دیکھنے کو مشکل بناتا ہے۔ ذندگی میں قسمت کے کردار کو سراہنا ایک خاص عاجزی کو بڑھا سکتا ہے۔ لیکن یہاں پر صرف حادثہؑ پیدائش، خدا کی عنایت، یا قسمت کے اسرار، مجھے آگے لے جاتے ہیں۔
This spirit of humility is the civic virtue we need now. It's the beginning of a way back from the harsh ethic of success that drives us apart. It points us beyond the tyranny of merit to a less rancorous, more generous public life.
یہی عاجزی کا جذبہ وہ شہری خوبی ہے جو ہمیں اب درکار ہے۔ یہ پیچھے ہٹنے کا آغاز ہے کامیابی کے ان سخت اصولوں سے جو ہم میں تفریق پیدا کرتے ہیں۔ یہ میرٹ کے نظام کے جبر و استبداد سے دور ایک کم تلخ اور بیش ترخوشحالی والی شہری ذندگی کی جانب لے جاتی ہے۔