As an Arab female photographer, I have always found ample inspiration for my projects in personal experiences. The passion I developed for knowledge, which allowed me to break barriers towards a better life was the motivation for my project I Read I Write.
ایک عرب خاتون فوٹوگرافر کے طور پر، مجھے اپنے منصوبوں کے لیے ذاتی تجربات سے ہمیشہ بہت ہمت ملی ہے۔ علم کے متعلق جو جذبہ مجھ میں پیدا ہوا، جس نے مجھے قابل بنایا ایک بہتر زندگی کی راہ میں حائل رکاوٹیں گرانے میں وہ ولولہ تھا میرے منصوبے 'میں پڑھوں میں لکھوں' کے پیچھے۔
Pushed by my own experience, as I was not allowed initially to pursue my higher education, I decided to explore and document stories of other women who changed their lives through education, while exposing and questioning the barriers they face. I covered a range of topics that concern women's education, keeping in mind the differences among Arab countries due to economic and social factors. These issues include female illiteracy, which is quite high in the region; educational reforms; programs for dropout students; and political activism among university students. As I started this work, it was not always easy to convince the women to participate. Only after explaining to them how their stories might influence other women's lives, how they would become role models for their own community, did some agree. Seeking a collaborative and reflexive approach, I asked them to write their own words and ideas on prints of their own images. Those images were then shared in some of the classrooms, and worked to inspire and motivate other women going through similar educations and situations. Aisha, a teacher from Yemen, wrote, "I sought education in order to be independent and to not count on men with everything."
ابتدا میرے اپنے تجربے سے ہوئی، جیسا کہ ابتدا میں مجھے اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ملی تھی، میں نے فیصلہ کیا دوسری خواتین کی کہانیاں کھوجنے اور لکھنے کا جنہوں نے تعلیم کے ذریعے اپنی زندگیاں بدلیں، ان رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے اور ان پر سوال اٹھاتے ہوئے، جن کا انہوں نے سامنا کیا۔ میں نے تعلیمِ نسواں سے متعلق بہت سے موضوعات کا احاطہ کیا، عرب ممالک میں موجود اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے بوجہ معاشی اور سماجی عوامل۔ ان مسائل میں شامل ہے خواتین کی ناخواندگی، جو کہ اس خطے میں کافی زیادہ ہے؛ تعلیمی اصلاحات؛ سکول چھوڑ جانے والے طلبہ کے لیے پروگرام؛ اور جامعات کے طالب علموں کی سیاسی سرگرمیاں۔ جب میں نے یہ کام شروع کیا، خواتین کو شمولیت کے لیے راضی کرنا ہمیشہ آسان نہ تھا۔ البتہ ان کو سمجھانے کے بعد کہ کیسے انکی کہانیاں دوسری خواتین کی زندگیوں پر اثر کر سکتی ہیں، کیسے وہ اپنی برادری کے لیے مثالی نمونہ بن جائیں گی، کچھ نے اتفاق کیا۔ ایک باہمی تعاون کا اور قابلِ انعکاس طریقہ اپناتے ہوئے، میں نے ان کو ان کے الفاظ اور خیالات لکھنے کو کہا ان کی اپنی تصاویر پر۔ وہ تصاویر پھر کچھ کلاسوں میں دکھائی گئیں، جنہوں نے دوسری خواتین کو متاثر کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کا کام کیا جو ملتی جلتی تعلیم اور حالات سے گزر رہی تھیں۔ یمن سے ایک استاد، عائشہ نے لکھا، ''میں نے تعلیم حاصل کی تاکہ میں خود مختار بنوں اور ہر چیز کے لیے مردوں پر انحصار نہ کروں۔''
One of my first subjects was Umm El-Saad from Egypt. When we first met, she was barely able to write her name. She was attending a nine-month literacy program run by a local NGO in the Cairo suburbs. Months later, she was joking that her husband had threatened to pull her out of the classes, as he found out that his now literate wife was going through his phone text messages. (Laughter) Naughty Umm El-Saad. Of course, that's not why Umm El-Saad joined the program. I saw how she was longing to gain control over her simple daily routines, small details that we take for granted, from counting money at the market to helping her kids in homework. Despite her poverty and her community's mindset, which belittles women's education, Umm El-Saad, along with her Egyptian classmates, was eager to learn how to read and write.
مصر سے امّ السعد میرے پہلے حصہ داروں میں سے ایک تھی۔ جب ہم پہلی بار ملے، وہ بمشکل اپنا نام لکھ سکتی تھی۔ وہ ایک نو- ماہی خواندگی پروگرام میں شریک تھی جو ایک مقامی غیرسرکاری تنظیم قاہرہ کے مضافات میں چلا رہی تھی۔ مہینوں بعد، وہ مذاق کر رہی تھی کہ اس کے شوہر نے اس کو کلاس سے اٹھانے کی دھمکی دی تھی، جب اس کو پتہ چلا کہ اس کی اب خواندہ بیوی اس کے فون کے پیغامات پڑھ رہی تھی۔ (قہقہے) شرارتی امّ السعد۔ ظاہر ہے، امّ السعد نے اس لیے پروگرام میں حصہ نہیں لیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ کیسے اپنے روزمرہ کاموں پر اختیار حاصل کرنے کے لیے ترس رہی تھی، چھوٹے امور جن کو ہم اہمیت نہیں دیتے، بازار میں پیسے گننے سے لے کر اپنے بچوں کی سکول کے تفویض کردہ کام میں مدد کرنے تک۔ اپنی غربت اور اپنی برادری کی ذہنیت کے باوجود، جو تعلیمِ نسواں کو اہمیت نہیں دیتی، امّ السعد، اپنی مصری ہم جماعتوں کے ساتھ، لکھنا پڑھنا سیکھنے کے لیے بے تاب تھی۔
In Tunisia, I met Asma, one of the four activist women I interviewed. The secular bioengineering student is quite active on social media. Regarding her country, which treasured what has been called the Arab Spring, she said, "I've always dreamt of discovering a new bacteria. Now, after the revolution, we have a new one every single day." Asma was referring to the rise of religious fundamentalism in the region, which is another obstacle to women in particular.
تیونس میں، میری ملاقات اسماء سے ہوئی، ان چار سرگرم کارکن خواتین میں سے ایک جن سے میں نے گفتگو کی۔ بائیوانجینرئنگ کی یہ سیکولر طالب علم سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہے۔ اس کے ملک کے متعلق، جس نے اس قیمتی چیز کو کھوجا جسے عرب بہار کہا جاتا ہے، اس نے کہا، "میں نے ہمیشہ ایک نئے جراثیم کی دریافت کا خواب دیکھا ہے۔ اب، انقلاب کے بعد، ہر روز ہمارے پاس ایک نیا ہوتا ہے۔'' اسماء کا اشارہ خطے میں بڑھتی مذہبی بنیاد پرستی کی طرف تھا، جو ایک اور رکاوٹ ہے خاص طور پر خواتین کے لیے۔
Out of all the women I met, Fayza from Yemen affected me the most. Fayza was forced to drop out of school at the age of eight when she was married. That marriage lasted for a year. At 14, she became the third wife of a 60-year-old man, and by the time she was 18, she was a divorced mother of three. Despite her poverty, despite her social status as a divorcée in an ultra-conservative society, and despite the opposition of her parents to her going back to school, Fayza knew that her only way to control her life was through education. She is now 26. She received a grant from a local NGO to fund her business studies at the university. Her goal is to find a job, rent a place to live in, and bring her kids back with her.
سب خواتین جن سے میں ملی، ان میں سے یمن کی فائزہ نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ آٹھ سال کی عمر میں فائزہ کو زبردستی سکول چھوڑنا پڑا جب اس کی شادی ہوئی۔ وہ شادی ایک سال رہی۔ 14 سال کی عمر میں وہ ایک 60 سالہ شخص کی تیسری بیوی بنی، اور جب تک وہ 18 سال کی ہوئی، وہ تین بچوں کی طلاق یافتہ ماں تھی۔ اپنی غربت کے باوجود، ایک انتہائی تنگ نظر معاشرے میں طلاق یافتہ ہونے کے باوجود، اور واپس سکول جانے پر اپنے والدین کی مخالفت کے باوجود، فائزہ کو معلوم تھا کہ اس کا اپنی زندگی پر اختیار پانے کا واحد راستہ تعلیم تھا۔ اب وہ 26 سال کی ہے۔ ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم سے اس کو امداد ملی یونیورسٹی میں کاروبار کی پڑھائی کرنے کے لیے وظیفہ ۔ اس کا مقصد ہے نوکری تلاش کرنا، رہنے کے لیے جگہ کرائے پر لینا، اور اپنے بچوں کو اپنے پاس واپس لانا۔
The Arab states are going through tremendous change, and the struggles women face are overwhelming. Just like the women I photographed, I had to overcome many barriers to becoming the photographer I am today, many people along the way telling me what I can and cannot do. Umm El-Saad, Asma and Fayza, and many women across the Arab world, show that it is possible to overcome barriers to education, which they know is the best means to a better future. And here I would like to end with a quote by Yasmine, one of the four activist women I interviewed in Tunisia. Yasmine wrote, "Question your convictions. Be who you to want to be, not who they want you to be. Don't accept their enslavement, for your mother birthed you free."
عرب ریاستیں زبردست تبدیلی سے گزر رہی ہیں، اور مشکلات جن کا خواتین کو سامنا ہے وہ حد سے زیادہ ہیں۔ ان خواتین کی طرح جن کی میں نے تصاویر لیں، مجھے بہت سی رکاوٹوں کو زیر کرنا پڑا وہ فوٹوگرافر بننے کے لیے جو میں آج ہوں، بہت سے لوگ راستے میں مجھے بتاتے رہے کہ میں کیا کر سکتی ہوں اور کیا نہیں۔ امّ السعد، اسماء، اور فائزہ، اور عرب دنیا کی بہت میں سی خواتین، دکھاتی ہیں کہ تعلیم کے راستے میں رکاوٹوں پر قابو پانا ممکن ہے، جو ان کو معلوم ہے کہ بہتر مستقبل کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور یہاں میں یاسمین کے ایک قول کے ساتھ اختتام کروں گی، ان 4 سرگرم کارکن خواتین میں سے ایک جن سے میں نے تیونس میں گفتگو کی۔ یاسمین نے لکھا، ''اپنے عقائد پر سوال کرو۔ وہ بنو جو آپ بننا چاہتے ہو، نہ کہ وہ جو وہ آپ کو بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی غلامی مت قبول کرو کیونکہ تمہاری ماں نے تمہیں آزاد پیدا کیا تھا۔''
Thank you.
شکریہ۔
(Applause)
(تالیاں)