So I thought, "I will talk about death." Seemed to be the passion today. Actually, it's not about death. It's inevitable, terrible, but really what I want to talk about is, I'm just fascinated by the legacy people leave when they die. That's what I want to talk about.
تو میں نے سوچا، "میں موت کے بارے میں بات کروں گی." آج یہی موضوع زوروں پر تھا۔ دراصل موت اس کا موضوع نہیں ہے. یہ ناگزیر ہے، ہولناک ہے ، مگر درحقیقت میں جو کہنا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ، میرے لیے لوگوں کی موت کے بعد ان کی چھوڑی ہوئی میراث بہت دلچسپی کی حامل ہے۔ میں اسی بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔
So Art Buchwald left his legacy of humor with a video that appeared soon after he died, saying, "Hi! I'm Art Buchwald, and I just died." And Mike, who I met at Galapagos, a trip which I won at TED, is leaving notes on cyberspace where he is chronicling his journey through cancer. And my father left me a legacy of his handwriting through letters and a notebook. In the last two years of his life, when he was sick, he filled a notebook with his thoughts about me. He wrote about my strengths, weaknesses, and gentle suggestions for improvement, quoting specific incidents, and held a mirror to my life.
تو آرٹ بچوالڈ نے اپنا مزاح کا ورثہ ایک ویڈیو میں چھوڑا جو ان کی وفات کے کچھ دیر بعد ہی منظرِعام پر آئی، اور اس میں کہا گیا تھا، "ھائے! میں آرٹ بچوالڈ ہوں اور میں ابھی ابھی مرا ہوں۔" اور مائک، جس سے میں گالاپاگوز کے اس سفر میں ملی تھی جو میں نے TED میں جیتا تھا، سائبرسپیس میں تحریریں چھوڑ رہا ہے جہاں وہ سرگرشت لکھ رہا ہے اپنے کینسر کے سفر کی۔ اور میرے والد نے میرے لیے اپنے تحریروں کا ورثہ چھوڑا خطوط اور ایک نوٹ بک کی شکل میں۔ اپنی زندگی کے آخری دو سال میں، جب وہ بیمار تھے، انہوں نے میرے بارے میں اپنے خیالات سے ایک نوٹ بک بھر دی. انہوں نے میری صلاحیتوں اور کمزوریوں کے بارے میں لکھا، اور بہتری کی شائستہ تجاویز دیں، خاص واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے، اور میری زندگی کو آئینہ دکھایا۔
After he died, I realized that no one writes to me anymore. Handwriting is a disappearing art. I'm all for email and thinking while typing, but why give up old habits for new? Why can't we have letter writing and email exchange in our lives? There are times when I want to trade all those years that I was too busy to sit with my dad and chat with him, and trade all those years for one hug. But too late. But that's when I take out his letters and I read them, and the paper that touched his hand is in mine, and I feel connected to him.
ان کی وفات کے بعد مجھے ادراک ہوا کی مجھے اب کوئی بھی نہیں لکھتا۔ ہاتھ سے لکھی تحریر ایک زوال پذیر فن ہے۔ میں ای-میل کے حق میں ہوں، اور ٹائپ کرتے ہوئے سوچنے کے بھی، مگر نئی کے لیے پرانی عادتیں کیوں چھوڑیں؟ ہماری زندگیوں میں خطوط نویسی اور ای-میل کا تبادلہ کیوں نہِیں آ سکتا ؟ کبھی کبھی میں ایسے تمام سالوں کا سودا کرنا چاہتی ہوں جب مجھے مصروفیت اتنی تھی کہ میں اپنے والد کے ساتھ بیٹھ کر ان سے بات چیت نہیں کرتی تھی، اور ان تمام سالوں کے بدلے ایک بار ان کے گلے لگ سکوں۔ مگر بہت دیر ہو چکی ہے۔ لیکن اس وقت میں ان کے خطوط نکالتی ہوں اور انہیں پڑھتی ہوں، اور وہ کاغذ جو ان کے ہاتھ سے مَس ہوا تھا، میرے ہاتھ میں ہوتا ہے، اور مجھے لگتا ہے کہ میں ان سے منسلک ہوں۔
So maybe we all need to leave our children with a value legacy, and not a financial one. A value for things with a personal touch -- an autographed book, a soul-searching letter. If a fraction of this powerful TED audience could be inspired to buy a beautiful paper -- John, it'll be a recycled one -- and write a beautiful letter to someone they love, we actually may start a revolution where our children may go to penmanship classes.
تو شاید ہم سب کو ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے ایک اقداری ورثہ چھوڑیں، نہ کہ ایک مالیاتی۔ ایسی اشیاء کی قدر جو ایک ذاتی پہلو رکھتی ہیں - ایک آٹوگراف بک - ایک خودنظر خط - اگر اس پروقار محفل کے کچھ حصے کو بھی یہ ترغیب دی جا سکے کہ وہ ایک خوبصورت صفحہ خریدیں -- جان ، یہ ریسائکلڈ ہو گا -- اور ایک خوبصورت خط لکھیں اپنے کسی پیارے کو، ہم شاید ایک ایسے انقلاب کا آغاز کر سکتے ہیں جس میں ہمارے بچے خوش نویسی کے سبق لیے جایا کریں ۔
So what do I plan to leave for my son? I collect autographed books, and those of you authors in the audience know I hound you for them -- and CDs too, Tracy. I plan to publish my own notebook. As I witnessed my father's body being swallowed by fire, I sat by his funeral pyre and wrote. I have no idea how I'm going to do it, but I am committed to compiling his thoughts and mine into a book, and leave that published book for my son.
سو میں اپنے بیٹے کے کیا چھوڑ کر جانا چاہتی ہوں؟ میں آٹوگراف بکس جمع کرتی ہوں، اور آپ میں سے وہ مصنفین جو حاضرین میں موجود ہیں، جانتے ہیں کہ میں ان کے لیے آپ کے پیچھے پڑ جاتی ہوں -- اور سی-ڈیز بھی، ٹریسی۔ میرا اپنی تحریریں شائع کرنے کا بھی ارادہ ہے جب میں اپنے والد کے جسم کو شعلوں کی نذر ہوتے دیکھ رہی تھی، میں ان کی چتا کے قریب بیٹھی لکھ رہی تھی - مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ میں یہ کیسے کروں گی ، مگر میں پُرعزم سے پُر ہوں کہ میں ان کے اور اپنے خیالات کی تدوین کروں ایک کتاب کی شکل میں، اور یہ شائع شدہ کتاب اپنے بیٹے کو چھوڑ کر جاوَں -
I'd like to end with a few verses of what I wrote at my father's cremation. And those linguists, please pardon the grammar, because I've not looked at it in the last 10 years. I took it out for the first time to come here. "Picture in a frame, ashes in a bottle, boundless energy confined in the bottle, forcing me to deal with reality, forcing me to deal with being grown up. I hear you and I know that you would want me to be strong, but right now, I am being sucked down, surrounded and suffocated by these raging emotional waters, craving to cleanse my soul, trying to emerge on a firm footing one more time, to keep on fighting and flourishing just as you taught me. Your encouraging whispers in my whirlpool of despair, holding me and heaving me to shores of sanity, to live again and to love again." Thank you.
میں چند ایسی سطروں پر بات ختم کرنا چاہتی ہوں جو کہ میں نے اپنے والد کی چتا پر لکھی تھیں - ماہرِلسانیات مجھے گرائمر کی غلطیوں پر معاف کیجیے ، کیونکہ میں نے اسے گزشتہ دس سال سے نہیں دیکھا - میں نے اسے یہاں لانے کے لیے پہلی بار نکالا ہے - " چوکھٹے میں تصویر، مرتبان میں راکھ ، مرتبان میں قید بےانتہا توانائی ، مجھے حقیقت کا سامنا کرنے پر مجبور کرتے ہوئے ، مجھے بلاغت کا سامنا کرنے پر مجبور کرتے ہوئے - میں آپ کو سنتی ہوں اور جانتی ہوں کہ آپ چاہتے ہوں گے کہ میں ثابت قدم رہوں ، مگر فالحال، میں گرداب میں ہوں، گھری ہوئی ہوں، اور گھُٹی ہوئی ہوں، جذبات کے اِس پُرجوش سمندر میں، تشنگیِ تزکیہِ نفس لیے ، ابھرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک بار پھر ثابت قدمی کے ساتھ ، لڑائی جاری رکھتے ہوئے اور آگے بڑھتے ہوئے ویسے ہی جیسے آپ نے مجھے سکھایا تھا ۔ میری مایوسی کے بھنور میں آپ کی حوصلہ افزاء سرگوشیاں مجھے تھامے ہوئے اور ہوش کے کناروں کی جانب اٹھاتے ہوئے، پھر سے جینے اور محبت کرنے کے لیے ۔" شکریہ ۔