I want to help you re-perceive what philanthropy is, what it could be, and what your relationship to it is. And in doing that, I want to offer you a vision, an imagined future, if you will, of how, as the poet Seamus Heaney has put it, "Once in a lifetime the longed-for tidal wave of justice can rise up, and hope and history rhyme."
میں چاہتی ہوں کہ آپ دوبارہ غور کریں کہ انسان دوستی کیا ہے ، کیا ہوسکتی ہے، اور اس کے ساتھ آپ کا کیا تعلق ہے - اور اس طرح ، میں آپ کو ایک تصوّر پیش کرنا چاہتی ہوں ، ایک مستقبل کا خیال ، اگر آپ چاہیں ، کہ ، جیسے شاعر 'شیماس ہینی' نے کہا، " زندگی میں ایک دفعہ انصاف کی لہر ، جس کی خواہش کی گئی ، اونچی اٹھے گی ، اور امید اور تاریخ شاعری کی طرح ہونگی -"
I want to start with these word pairs here. We all know which side of these we'd like to be on. When philanthropy was reinvented a century ago, when the foundation form was actually invented, they didn't think of themselves on the wrong side of these either. In fact they would never have thought of themselves as closed and set in their ways, as slow to respond to new challenges, as small and risk-averse. And in fact they weren't. They were reinventing charity in those times, what Rockefeller called "the business of benevolence." But by the end of the 20th century, a new generation of critics and reformers had come to see philanthropy just this way.
میں ان الفاظ کے جوڑوں سے شروعات کرنا چاہتی ہوں - ہمیں معلوم ہے کہ ہم کس طرف رہنا چاہتے ہیں - جب ایک صدی پہلے انسان دوستی کو دوبارہ ایجاد کیا گیا تھا ، جب اداروں کی صورت کو واقعی ایجاد کیا گیا ، انہوں نے بھی اس کے غلط حصّے کی طرف اپنے اپ کو نہیں سوچا - دراصل وہ اس طرح اپنے بارے میں سوچ نہیں سکتے تھے کہ وہ تنگ نظر اور اپنے کام میں مصروف ہوں ، کہ وہ نئی مشکلات کا جواب سستی سے دیں ، کہ وہ چھوٹے ہوں اور خطرات سے بھاگتے ہوں- اور دراصل وہ یہ نہیں تھے - اس وقت خیراتی ادارے ایجاد کر رہے تھے ، جسے روکا فیلر نے " خیرات کے کاروبار " کا نام دیا - مگر بیسویں صدی کے آخر میں ، ناقدین اور اصلاح پسندوں کی ایک نئی نسل نے انسان دوستی کو بالکل اسی طرح دیکھا -
The thing to watch for as a global philanthropy industry comes about -- and that's exactly what is happening -- is how the aspiration is to flip these old assumptions, for philanthropy to become open and big and fast and connected, in service of the long term. This entrepreneurial energy is emerging from many quarters. And it's driven and propelled forward by new leaders, like many of the people here, by new tools, like the ones we've seen here, and by new pressures.
جو چیز دیکھنے کی ہے جب عالمی انسانی دوستی سامنے آئے گی -- اور وہ بالکل وہی ہو رہا ہے -- کہ وہ کیسی خواہش ہے کہ ان پرانے مفروضات کو پھینکا جاۓ ، تاکہ انسان دوستی طویل مدّتی بننے کے لئے کھلی اور بڑی اور تیز اور جڑی ہوئی بن جاۓ- یہ کاروباری قوّت بہت سی جگہوں سے ابھر رہی ہے - اور یہ ، یہاں موجود بہت سے لوگوں کی طرح کے ، نئے رہنماؤں کی وجہ سے ، چل رہی ہے اور آگے بڑھ رہی ہے ، نئے طریقوں سے ، جیسے کہ ہم نے یہاں دیکھے ہیں ، اور نئے زور سے -
I've been following this change for quite a while now, and participating in it. This report is our main public report. What it tells is the story of how today actually could be as historic as 100 years ago. What I want to do is share some of the coolest things that are going on with you. And as I do that, I'm not going to dwell much on the very large philanthropy that everybody already knows about -- the Gates or the Soros or the Google. Instead, what I want to do is talk about the philanthropy of all of us: the democratization of philanthropy. This is a moment in history when the average person has more power than at any time.
میں اس تبدیلی کو کافی عرصے سے دیکھ رہی ہوں اور اس میں حصّہ لے رہی ہوں - یہ رپورٹ ہماری بنیادی عام رپورٹ ہے - یہ ایک کہانی سناتی ہے کہ کس طرح آج کا دن ایک تاریخی دن ہوگا جس طرح 100 سال پہلے تھا - میں آج کل ہونے والی دلچسپ چیزوں کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں- اور یہ کرنے کے دوران ، میں انسان دوستی کے اس بڑے حصّے کے بارے میں زیادہ نہیں بولوں گی ، جس کے بارے میں سب کو معلوم ہے - جیسے 'گیٹس' یا 'سوروس' یا 'گوگل'- بلکہ میں چاہتی ہوں کہ میں ہم سب کی انسان دوستی کی بات کروں : انسان دوستی کی جمہوریت کے بارے میں - یہ تاریخ کا وہ وقت ہے کہ عام انسان کے پاس پہلے وقتوں سے زیادہ طاقت ہے -
What I'm going to do is look at five categories of experiments, each of which challenges an old assumption of philanthropy. The first is mass collaboration, represented here by Wikipedia. Now, this may surprise you. But remember, philanthropy is about giving of time and talent, not just money. Clay Shirky, that great chronicler of everything networked, has captured the assumption that this challenges in such a beautiful way. He said, "We have lived in this world where little things are done for love and big things for money. Now we have Wikipedia. Suddenly big things can be done for love."
میں پاچ اقسام کے تجربات کا جائزہ لوں گی ، جو ایک پرانے مفروضے کو چیلنج کرتے ہیں - پہلا ، بڑے پیمانے پر تعاون ہے ، جس کی نمائندہ یہاں وکی پیڈیا ہے - اب یہ آپ کو شاید حیران کردے - مگر یاد رکھیے ، انسان دوستی کا تعلق وقت اور ہنر دینے سے ہے ، صرف پیسے دینے سے نہیں - کلے شرکی ، جو کہ ہر جڑی ہوئی چیز کا بڑا مؤرخ ہے ، نے اس مفروضے کو محفوظ کرلیا ہے جو اس کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ چیلنج کرتا ہے - اس نے کہا ، " ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں چھوٹی چیزیں محبّت کے لئے کی جاتی ہیں اور بڑی چیزیں پیسے کے لئے کی جاتی ہیں - اب ہمارے پاس 'وکی پیڈیا' ہے - اچانک ہم بڑی چیزیں محبّت کے لئے کرسکتے ہیں -"
Watch, this spring, for Paul Hawken's new book -- Author and entrepreneur many of you may know about. The book is called "Blessed Unrest." And when it comes out, a series of wiki sites under the label WISER, are going to launch at the same time. WISER stands for World Index for Social and Environmental Responsibility. WISER sets out to document, link and empower what Paul calls the largest movement, and fastest-growing movement in human history: humanity's collective immune response to today's threats. Now, all of these big things for love -- experiments -- aren't going to take off. But the ones that do are going to be the biggest, the most open, the fastest, the most connected form of philanthropy in human history.
اس موسم بہار دیکھیے ، پال ہاکنس کی نئی کتاب -- ایک ادیب اور کاروباری شخص جسے آپ بہت سارے لوگ شاید جانتے ہوں -- کتاب کا نام ' بلے سیڈ ان ریسٹ ' ہے - اور جب یہ منظرعام پر آۓ گی ، تو 'وائزر' کے نام سے سلسلہ وار وکی سائٹس کا افتتاح ہوگا- 'وائزر' سمجی اور ماحولیاتی ذمہ داری کے عالمی انڈکس کا مخفف ہے 'وائزر' کا مقصد دستاویز بنانا ، جوڑنا اور طاقت دینا ہے - اس چیز کو جسے پال انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور سب سے تیز پھیلنے والی تحریک کہتے ہیں : آج کی مشکلات کے لئے انسانیت کا مجموعی دفاعی جواب - اب ، یہ تمام چیزیں جو محبّت کے لئے ہیں -- تجربات -- کامیابی سے ہمکنار نہیں ہونگی - مگر جو ہوں گی وہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ، سب سے کھلی ، سب سے تیز ، سب سے جڑی ہوئی انسانی دوستی کی صورت میں ہوں گی
Second category is online philanthropy marketplaces. This is, of course, to philanthropy what eBay and Amazon are to commerce. Think of it as peer-to-peer philanthropy. And this challenges yet another assumption, which is that organized philanthropy is only for the very wealthy. Take a look, if you haven't, at DonorsChoose. Omidyar Network has made a big investment in DonorsChoose. It's one of the best known of these new marketplaces where a donor can go straight into a classroom and connect with what a teacher says they need. Take a look at Changing the Present, started by a TEDster, next time you need a wedding present or a holiday present. GiveIndia is for a whole country. And it goes on and on.
دوسری قسم آن لائن انسان دوستی کے کاروباری مراکز ہیں - یہ انسان دوستی کے لئے بالکل اسی طرح ہیں جو 'ای بے' اور 'ایما زان' کامرس کے لئے ہیں - اس کو ہم مرتبہ سے ہم مرتبہ انسسان دوستی سمجھیے - اور یہ ایک اور مفروضے کو چیلنج کرتا ہے ، جو یہ ہے کہ منظم انسان دوستی صرف بہت امیر لوگوں کے لئے ہے - ڈونرز چوز کو دیکھئے ، اگر آپ نے نہیں دیکھا ہو تو ، 'امیدیار نیٹورک' نے 'ڈونرزچوز' میں بڑا سرمایہ لگایا ہے - یہ ان کاروباری مراکز میں ایک مشہور مرکز ہے جہاں مددگار سیدھے کلاس روم میں جاکر استاد کی ضروریات کے لئے ان سے جڑ سکتا ہے- 'چینجنگ دا پریزنٹ' کو ذرا دیکھئے ، جسے ایک ٹیڈ کے شخص نے شروع کیا ، اگلی بار جب آپ کو شادی یا چھٹی کا تحفہ چاہیے ہو - ' گیو انڈیا ' ایک پورے ملک کے لئے ہے - اور یہ سلسلہ چلتا جاتا ہے -
The third category is represented by Warren Buffet, which I call aggregated giving. It's not just that Warren Buffet was so amazingly generous in that historic act last summer. It's that he challenged another assumption, that every giver should have his or her own fund or foundation. There are now, today, so many new funds that are aggregating giving and investing, bringing together people around a common goal, to think bigger. One of the best known is Acumen Fund, led by Jacqueline Novogratz, a TEDster who got a big boost here at TED. But there are many others: New Profit in Cambridge, New School's Venture Fund in Silicon Valley, Venture Philanthropy Partners in Washington, Global Fund for Women in San Francisco. Take a look at these. These funds are to philanthropy what venture capital, private equity, and eventually mutual funds are to investing, but with a twist -- because often a community forms around these funds, as it has at Acumen and other places.
تیسری قسم کے نمائندہ 'وارین بففیٹ' ہیں ، جسے میں مجموعی امداد کہتی ہوں - یہ بات نہیں ہے کہ وارین بففیٹ بہت زیادہ سخی تھا اس تاریخی کام کی وجہ سے جو اس نے پچھلے موسم گرما میں کیا تھا - اصل میں اس نے ایک اور مفروضے کو چیلنج کیا تھا ، کہ ہر شخص کے پاس اس کا اپنا فنڈ یا ادارہ ہونا چاہیے - آج یہاں ، بہت سارے نتے فنڈ ہیں جو مجموعی امداد کر رہے ہیں ، تعاون دے رہے ہیں اور سرمایا کاری کر رہے ہیں ، اور لوگوں کو ، ایک متفقہ مقصد کے گرد، ساتھ ملا رہے ہیں ، اور وہ ہے بڑا سوچنا - ان میں سے ایک بہترین ، آکیومن فنڈ ہے ، جسے جاکلین نوووگراٹز چلا رہی ہیں ، ایک ایسی ٹیڈ کی نمائندہ جن کو ٹیڈ سے بہت مدد ملی ہے - مگر اور بھی بہت سارے ہیں: 'نیو پرافٹ ان کیمبرج'، 'نیو اسکولز وینچر فنڈ' جو سیلیکون ویلی میں ہے ، 'وینچر فلانتھروپی پارٹنرز' جو واشنگٹن میں ہے ، 'خواتین کا عالمی فنڈ' جو سان فرانسسکو میں ہے - ان کو دیکھئے - یہ فنڈ انسان دوستی کے لئے ایسے ہی ہیں ، جیسے وینچر کیپٹل ، پرائیویٹ ایکوئٹی ، اور میوچل فنڈ سرمایہ کاری کے لئے ہیں ، مگر ایک دلچسپ تبدیلی کے ساتھ -- کیونکہ بہت بار ایک برادری ان فنڈ کے گرد بنتی ہے ، جیسے کہ آکیومن اور دوسرے ادارے -
Now, imagine for a second these first three types of experiments: mass collaboration, online marketplaces, aggregated giving. And understand how they help us re-perceive what organized philanthropy is. It's not about foundations necessarily; it's about the rest of us. And imagine the mash-up, if you will, of these things, in the future, when these things come together in the experiments of the future -- imagine that somebody puts up, say, 100 million dollars for an inspiring goal -- there were 21 gifts of 100 million dollars or more in the US last year, not out of the question -- but only puts it up if it's matched by millions of small gifts from around the globe, thereby engaging lots of people, and building visibility and engaging people in the goal that's stated.
اب ایک لمحے کے لئے فرض کریں ان تین قسم کے تجربات کو : بڑے پیمانے پر تعاون ، آن لائن کاروباری مراکز ، اور اجتماعی امداد - اور غور کریں کہ یہ کس طرح منظّم انسان دوستی کے بارے میں ہمیں دوبارہ سوچنے میں مدد کرتے ہیں - ضروری نہیں کہ اس کا تعلق اداروں سے ہو ؛ اس کا تعلق ہم سب سے ہے - اور فرض کیجیے مستقبل میں ان چیزوں کے جوڑ توڑ کو ، جب یہ مستقبل کے تجربات کے ذریعے مل جائینگی -- فرض کیجیے کہ کوئی شخص 100 ملین ڈالر ایک حوصلہ افزأ مقصد کے لئے مختص کردیتا ہے -- پچھلے سال ، امریکا میں ، 100 ملین ڈالر کے 21 یا اس سے زیادہ ، تحفے دیے گۓ تھے ، یہ ناممکن نہیں ہے -- مگر وہ شخص اس شرط پر مختص کرتا ہے کہ دنیا بھر سے ، لاکھوں اور چھوٹے تحفے بھی ساتھ دیے جائیں ، اور اس طرح بہت سارے لوگ اس میں شامل کرے ، اور اس کے مقصد کے مطابق اس کے پھیلاؤ پر کام کرنا ہو -
I'm going to look quickly at the fourth and fifth categories, which are innovation, competitions and social investing. They're betting a visible competition, a prize, can attract talent and money to some of the most difficult issues, and thereby speed the solution. This tackles yet another assumption, that the giver and the organization is at the center, as opposed to putting the problem at the center. You can look to these innovators to help us especially with things that require technological or scientific solution.
میں جلدی جلدی چوتھی اور پانچوی قسم کا ذکر کرتی ہوں ، جو کہ جدّت ، مقابلہ ، اور سماجی سرمایہ کاری ہیں - وہ سوچ رہے ہیں کہ ایک نظر آنے والا مقابلہ ، ایک انعام ، ہنر اور پیسے کو کچھ مشکل ترین مسائل کی جانب کھنہ سکتے ہے ، اور اس طرح حل جلدی مل جاتے گا - یہ ایک اور مفروضے کو چیلنج کرتا ہیں ، کہ خیرات دینے والا اور خیراتی ادارہ ، مرکزی کردار ہوتے ہیں - بجاتے اس کے کہ مسئلہ مرکزی کردار ہو - آپ ان جدّت پسندوں کی جانب دیکھ سکتے ہیں کہ وہ مدد کریں ، خاص طور پر ، ان چیزوں کے ساتھ جنہیں سائینسی اور ٹیکنالوجی والے حل چاہیے ہوں -
That leaves the final category, social investing, which is really, anyway, the biggest of them all, represented here by Xigi.net. And this, of course, tackles the biggest assumption of all, that business is business, and philanthropy is the vehicle of people who want to create change in the world. Xigi is a new community site that's built by the community, linking and mapping this new social capital market. It lists already 1,000 entities that are offering debt and equity for social enterprise. So we can look to these innovators to help us remember that if we can leverage even a small amount of the capital that seeks a return, the good that can be driven could be astonishing.
آخری قسم سماجی سرمایہ کاری ہے - جو واقعی ان سب سے بڑی ہے ، جس کی نمائندگی Xigi.net کر رہی ہے- اور یہ بلاشبہ سب سے بڑے مفروضے کو چیلنج کرتی ہے ، وہ مفروضہ یہ ہے کہ، کاروبار -- بلآخر کاروبار ہوتا ہے ، اور انسان دوستی ان لوگوں سے بنتی ہے جو دنیا میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں - 'زیگی' ایک نئی برادری سائٹ ہے جو کہ برادری کے ذریعے بنی ہے ، اور جو اس سماجی سرماۓ کی مارکیٹ کو جوڑتی ہے اور دستاویزی شکل دیتی ہے - یہ ابھی سے 1000 اداروں کی فہرست فراہم کرتی ہے جو سماجی انٹرپرائز کو قرضہ اور سرمایہ دے رہے ہیں - تو ہم ان جدّت پسندوں کی جانب دیکھ سکتے ہیں تاکہ وہ ہمیں یاد دلائیں کہ اگر ہم تھوڑے سے سرماۓ سے بیعانہ لے سکتے ہیں جو ہمیں واپس چاہیے تو نتیجتاً جو اچھائی کام میں آسکتی ہے ، وہ حیران کن ہوگی -
Now, what's really interesting here is that we're not thinking our way into a new way of acting; we're acting our way into a new way of thinking. Philanthropy is reorganizing itself before our very eyes. And even though all of the experiments and all of the big givers don't yet fulfill this aspiration, I think this is the new zeitgeist: open, big, fast, connected, and, let us also hope, long. We have got to realize that it is going to take a long time to do these things. If we don't develop the stamina to stick with things -- whatever it is you pick, stick with it -- all of this stuff is just going to be, you know, a fad.
اب جو دلچسپ بات ہے وہ یہ ہے کہ ہم کام کو نۓ طریقے سے نہیں سوچ رہے ہیں ؛ بلکہ ہم کام کرکے نئی سوچ پیدا کر رہے ہیں - انسان دوستی اپنے آپ کو ہماری آنکھوں کے سامنے دوبارہ منظّم کر رہی ہے - اور اگرچہ تمام تجربات اور تمام بڑے مخیر لوگ اس خواہش کوابھی پورا نہیں کرتے ، میرے خیال میں یہ نیا زیٹگایست ہے : کھلا ، بڑا ، تیز ، جڑا ہوا ، اور ، ہم امید کرتے ہیں ، کہ دیرپا بھی ہو - ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ان کاموں کو کرنے میں ایک بڑا عرصہ لگے گا - اگر ہم اپنے اندر مستقل مزاجی کی طاقت پیدا نہیں کرتے -- جس کام کو آپ چنیں ، اس کے ساتھ جڑے رہیں -- تو پھر یہ سب کچھ ایک عارضی شوق ہوگا -
But I'm really hopeful. And I'm hopeful because it's not only philanthropy that's reorganizing itself, it's also whole other portions of the social sector, and of business, that are busy challenging "business as usual." And everywhere I go, including here at TED, I feel that there is a new moral hunger that is growing. What we're seeing is people really wrestling to describe what is this new thing that's happening. Words like "philanthrocapitalism," and "natural capitalism," and "philanthroentrepreneur," and "venture philanthropy." We don't have a language for it yet. Whatever we call it, it's new, it's beginning, and I think it's gong to quite significant.
مگر میں پرامید ہوں - اور میں پر امید ہوں کیونکہ نہ صرف انسان دوستی منظّم ہورہی ہے ، بلکہ ان میں شامل ہیں سماجی اور کاروباری سیکٹر کے وہ حصّے ، جو کاروباری مفروضوں کو چیلنج کر رہے ہیں - کہ "کاروبار تو چلتا رہتا ہے"- اور میں جہاں بھی جاتی ہوں ، بشمول ٹیڈ کے ، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ایک اخلاقی بھوک ہے جو بڑھ رہی ہے - ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ دقت محسوس کر رہے ہیں کہ یہ جو نئی چیز ہے اس کو کیسے بیان کریں - زیر استعمال الفاظ ہیں جیسے ، "فلانتھرو کیپیٹلزم " اور "نیچرل کیپیٹلزم" اور "فلانتھرو اینٹرپرنور" اور "وینچر فلانتھروپی"- ہمارے پاس اس کے لئے ابھی زبان نہیں ہے- ہم اسے جو چاہے کہیں ، یہ نئی ہے ، یہ شروعات ہے ، اور مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت اہم ثابت ہوگی -
And that's where my imagined future comes in, which I am going to call the social singularity. Many of you will realize that I'm ripping a bit off of the science fiction writer Vernor Vinge's notion of a technological singularity, where a number of trends accelerate and converge and come together to create, really, a shockingly new reality. It may be that the social singularity ahead is the one that we fear the most: a convergence of catastrophes, of environmental degradation, of weapons of mass destruction, of pandemics, of poverty. That's because our ability to confront the problems that we face has not kept pace with our ability to create them. And as we've heard here, it is no exaggeration to say that we hold the future of our civilization in our hands as never before.
اور یہاں میرا تصوّراتی مستقبل سامنے آتا ہے ، جسے میں 'سماجی امتیاز' کہتی ہوں - آپ میں سے بہت سے لوگوں کو لگے گا کہ میں سائنس فکشن کے ادیب 'ورنر وینگیز' کے ٹیکنالوجی امتیاز سے مواد چرا رہی ہوں ، جہاں کچھ رجحانات بڑھتے اور ملتے ہیں اور آپس میں میں تعاون سے ایک خوفناک نئی حقیقت تخلیق کرتے ہیں - یہ ممکن ہے کہ آنے والا 'سماجی امتیاز' ایک ایسی چیز ہے جس کا ہمیں بہت خوف ہے : جیسے حادثات کا ملاپ ، ماحولیاتی خرابی ، بڑے پیمانے پر تباہی کرنے والے ہتھیاروں کا پھیلاؤ ، وبائی بیماریوں کا پھیلنا ، غربت کا بڑھنا - یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ ہماری مسائل کا سامنا کرنے کی صلاحیت اس حساب سے نہیں بڑھی جس حساب سے ہم مسائل پیدا کرتے ہیں - اور جس طرح ہم نے یہاں سنا ہے ، اور یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ ہماری تہذیب کا مستقبل پہلے سے کہیں زیادہ ہمارے ہاتھ میں ہے-
The question is, is there a positive social singularity? Is there a frontier for us of how we live together? Our future doesn't have to be imagined. We can create a future where hope and history rhyme. But we have a problem. Our experience to date, both individually and collectively, hasn't prepared us for what we're going to need to do, or who we're going to need to be. We are going to need a new generation of citizen leaders willing to commit ourselves to growing and changing and learning as rapidly as possible. That's why I have one last thing I want to show you.
سوال یہ ہے کہ ، کیا کوئی مثبت سماجی امتیاز بھی ہے؟ کیا ہمارے لئے کوئی حد ہے کہ ہمیں کس طرح ایک ساتھ رہنا چاہیے ؟ ضروری نہیں کہ ہمارا مستقبل تصوّراتی ہو - ہم ایک مستقبل بنا سکتے ہیں جہاں امید اور ماضی ہم وزن ہوں- مگر ایک مسئلہ ہے - اب تک ہمارے تجربے نے ، انفرادی اور مجموعی ، دونوں طور پر ، ہمیں تیار نہیں کیا کہ ہم کو کیا کرنا چاہیے ، یا ہمیں کیا بننا چاہیے - ہمیں نئی نسل کے شہری رہنماؤں کی ضرورت پڑیگی جو تیار ہوں ، جتنا جلدی ہوسکے ، اپنے آپ کو بڑھانے، تبدیل کرنے اور سیکھنے کے لیے - اسی وجہ سے ایک آخری چیز ہے جو میں آپ کو دکھانا چاہتی ہوں -
This is a photograph taken about 100 years ago of my grandfather and great-grandfather. This is a newspaper publisher and a banker. And they were great community leaders. And, yes, they were great philanthropists. I keep this photograph close by to me -- it's in my office -- because I've always felt a mystical connection to these two men, both of whom I never knew. And so, in their honor, I want to offer you this blank slide. And I want you to imagine that this a photograph of you. And I want you to think about the community that you want to be part of creating. Whatever that means to you. And I want you to imagine that it's 100 years from now, and your grandchild, or great-grandchild, or niece or nephew or god-child, is looking at this photograph of you. What is the story you most want for them to tell? Thank you very much. (Applause)
یہ میرے دادا اور پر دادا کی 100 سال پہلے اتاری گئی تصویر ہے - یہ اخبار کے ناشر اور ایک بینکار ہیں - اور یہ برادری کے بہت بڑے لیڈر تھے - اور ہاں ، یہ انسان دوست بھی تھے - میں اس تصویر کو اپنے پاس رکھتی ہوں -- یہ میرے آفس میں رہتی ہے -- کیونکہ میں نے ہمیشہ سے ، ان دونوں آدمیوں سے ، ایک روحانی تعلق محسوس کیا ہے ، جب کہ میں دونوں سے کبھی نہیں ملی - اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے میں آپ کو یہ خالی سلائڈ پیش کرتی ہوں - اور میں چاہتی ہوں کہ آپ تصوّر کریں کہ یہ تصویر آپ کی ہے - اور میں چاہتی ہوں کہ آپ سوچیں اس برادری کا جس کے بنانے میں آپ حصّہ دار بننا چاہتے ہیں - اس کے جو بھی معنی ہیں آپ کی نظروں میں - اور میں چاہتی ہوں کہ آپ تصوّر کریں کہ ابھی اس وقت 100 سال ہوچکے ہیں ، اور آپ کے پوتے یا پرپوتے ، یا بھتیجے یا بھتیجیاں یا منہ بولے بچے ، آپ کی تصویر کو دیکھ رہے ہیں - وہ کونسی کہانی ہے جو آپ، سب سے زیادہ، ان سے سننا چاہتے ہیں؟ بہت بہت شکریہ - ( تالیاں )