Well, this is such an honor. And it's wonderful to be in the presence of an organization that is really making a difference in the world. And I'm intensely grateful for the opportunity to speak to you today.
جی، یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ اور بڑی خوشی محسوس ہورہی ہے اس تنظیم کی موجودگی میں جو دنیا میں بڑی تبدیلی لا رہی ہے۔ اور میں شدت سے اس بات کی شکر گزار ہوں کہ آج آپ لوگوں سے بات کرنے کا موقعہ ملا۔
And I'm also rather surprised, because when I look back on my life the last thing I ever wanted to do was write, or be in any way involved in religion. After I left my convent, I'd finished with religion, frankly. I thought that was it. And for 13 years I kept clear of it. I wanted to be an English literature professor. And I certainly didn't even want to be a writer, particularly. But then I suffered a series of career catastrophes, one after the other, and finally found myself in television. (Laughter) I said that to Bill Moyers, and he said, "Oh, we take anybody." (Laughter)
اور ساتھ ہی مجھے حیرت بھی ہے، کہ جب میں پیچھےمڑ کراپنی زندگی پر نظر ڈالتی ہوں تو وہ آخری چیز جو میں کرنا چاہتی تھی وہ کسی مذہب میں شامل ہونا یا اس پر لکھنا سچی بات ہے کہ جب میں نے کانوینٹ چھوڑاتو مذہب کو بھی خیرباد کہا۔ اور میں نے سوچا کہ بس بہت ہوا اور 13 سال تک میں اس سے دور رہی۔ میں انگریزی ادب کی پروفیسر بننا چاہتی تھی۔ اور میں فوری طور پر ادیب بھی نہیں بننا چاہتی تھی، خاص طور پر۔ مگر اسکے بعد مجھےایک پیشہ ورانہ مشکلات کے تسلسل کا سامنا ہوا۔ ایک کے بعد ایک، اور آخر میں میں نے اپنے آپ کو ٹیلی وژن پر پایا(ہنسی) میں نے بل مایر سے کہا تو اس نے کہا"ارے ہم تو سب کو لے لیتے ہیں" (ہنسی)
And I was doing some rather controversial religious programs. This went down very well in the U.K., where religion is extremely unpopular. And so, for once, for the only time in my life, I was finally in the mainstream. But I got sent to Jerusalem to make a film about early Christianity. And there, for the first time, I encountered the other religious traditions: Judaism and Islam, the sister religions of Christianity. And while I found I knew nothing about these faiths at all -- despite my own intensely religious background, I'd seen Judaism only as a kind of prelude to Christianity, and I knew nothing about Islam at all.
اور میں شاید کچھ مختلف الراۓ مذہبی پروگرام کرتی رہی۔ .U.K میں یہ بہت اچھا چلاجہاں مذہب بہت زیادہ غیر معروف ہے۔ تو پھر۔ ایک دفعہ، زندگی میں صرف ایک مرتبہ، آخر کار میں مرکزی دھارے میں شامل ہوئی۔ مگر میں ابتدائی عیسائیت پر فلم بنانے کیلیے یروشلم بھیج دی گئی۔ اور وہاں، پہلی دفعہ، میرا سامنا دوسرے مذاہب کے طور طریقوں سے ہوا۔ یہودیت اور اسلام، عیسائیت کے جڑواں مذاہب۔ اور جب مجھے علم ہوا کہ میں ان عقائد کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی میرے اپنےسخت مذہبی پس منظر کے باوجود۔ میں نے یہودیت کو صرف عیسائیت کی ابتدائی حالت کی شکل میں ہی سمجھا تھا، اور اسلام کے بارے میں تومجھے کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔
But in that city, that tortured city, where you see the three faiths jostling so uneasily together, you also become aware of the profound connection between them. And it has been the study of other religious traditions that brought me back to a sense of what religion can be, and actually enabled me to look at my own faith in a different light.
لیکن اس شہر میں، اس اذیت سے بھرے شہرمیں جہاں آپ تینوں عقائد کو بے آرامی کے ساتھ ایک دوسرےسے الجھتے ہوئے پائیں گے آپکو انکے درمیان گہرا تعلق بھی سمجھ میں آجائے گا۔ اور یہ دوسرے مذاہب کے طور طریقوں کا مطالعہ ہی تھا جو مجھے واپس لایا اس احساس کی طرف کہ مذہب کیا ہوسکتا ہے، اور اصل میں مجھے اس قابل کیا کہ میں اپنے عقیدے کو بھی ایک دوسری روشنی میں دیکھ سکوں۔
And I found some astonishing things in the course of my study that had never occurred to me. Frankly, in the days when I thought I'd had it with religion, I just found the whole thing absolutely incredible. These doctrines seemed unproven, abstract. And to my astonishment, when I began seriously studying other traditions, I began to realize that belief -- which we make such a fuss about today -- is only a very recent religious enthusiasm that surfaced only in the West, in about the 17th century. The word "belief" itself originally meant to love, to prize, to hold dear. In the 17th century, it narrowed its focus, for reasons that I'm exploring in a book I'm writing at the moment, to include -- to mean an intellectual assent to a set of propositions, a credo. "I believe:" it did not mean, "I accept certain creedal articles of faith." It meant: "I commit myself. I engage myself." Indeed, some of the world traditions think very little of religious orthodoxy. In the Quran, religious opinion -- religious orthodoxy -- is dismissed as "zanna:" self-indulgent guesswork about matters that nobody can be certain of one way or the other, but which makes people quarrelsome and stupidly sectarian. (Laughter)
اور مطالعہ کے دوران مجھے کچھ حیرت انگیز چیزیں ملیں جو پہلے کبھی میرے ساتھ نہیں ہوئیں تھیں۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ دن جو میں سمجھتی ہوں کہ مذہب کے ساتھ تھے مجھے وہ سب کچھ بہت شاندار معلوم ہوا۔ یہ نظریات بغیر ثابت ہوئے اور مجرد لگے۔ اور مجھے بڑی حیرت ہوئی جب میں نے سنجیدگی کے ساتھ دوسرے طریقوں کا مطالعہ شروع کیا مجھے یہ سمجھ میں آنے لگا کہ عقائد- جنکو آج ہم اتنا بڑا مسئلہ بناتے ہیں - صرف ایک تازہ ترین مذہبی جوش و خروش ہے جس نے صرف یورپ میں سر اٹھایا ہے،تقریباً 17 ویں صدی میں۔ یہ لفظ "عقیدہ" بذات خود ابتدائی طور پر محبت، انعام، اور محبوب رکھنےکے معنوں میں تھا۔ 17 ویں صدی میں اس نے اپنا مرکزمحدود کرلیا ان وجوہات کی بنا پر جنکو میں اس کتاب میں تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہوں جو میں اس وقت لکھ رہی ہوں، جیسے کہ- مطلب یہ کہ ایک خاص نظریات کی بنیاد پر دانشورانہ عروج "میں یقین رکھتا ہوں" اسکا یہ مطلب نہیں کہ " میں عقیدے کے کچھ بنیادی چیزوں کو مانتا ہوں" اس کا مطلب تھا "میں اختیار کرتا ہوں۔ میں اپنے آپکو سپرد کرتا ہوں"۔ بیشک، کچھ دنیاوی تہذیبوں نے مذہبی دقیانوسیت کی طرف توجہ نہیں کی۔ قرآن میں، مذہبی رائے - مذہبی دقیانوسیت - کو ظن کہہ کر ایک طرف کردیا گیا ہے: خود کی بنائی ہوئی رائے اس معاملے کے بارے میں جسکے بارے میں کسی کو بھی یقین نہ ہو اور جو لوگوں کو جھگڑالو اور بیوقوفی کی حد تک فرقہ وار بناتا ہے۔ (ہنسی)
So if religion is not about believing things, what is it about? What I've found, across the board, is that religion is about behaving differently. Instead of deciding whether or not you believe in God, first you do something. You behave in a committed way, and then you begin to understand the truths of religion. And religious doctrines are meant to be summons to action; you only understand them when you put them into practice.
تو اگر مذہب چیزوں کو ماننے کے بارے میں نہیں ہے تو پھر ہے کیا؟ جو مجھے سمجھ میں آیا ہے، یہاں سے وہاں تک، مذہب ایک مختلف طریقے سے پیش آنے کا نام ہے۔ بجائے اسکے کہ آپ یہ فیصلہ کریں کہ آپکو خدا پر ایمان ہے کہ نہیں، پہلے آپکو کچھ کرنا ہوگا۔ آپکو ایک وابستگی کی شکل میں پیش آنا ہوگا۔ اور پھر آپکو مذہب کی سچائی سمجھ میں آنا شروع ہو جائے گی۔ اور پھر مذہبی نظریات کا مطلب ہی عمل کیلیے آمادہ کرنا ہے؛ آپ انکو صرف اسی وقت سمجھتےہیں جب آپ ان پر عمل کرتے ہیں۔
Now, pride of place in this practice is given to compassion. And it is an arresting fact that right across the board, in every single one of the major world faiths, compassion -- the ability to feel with the other in the way we've been thinking about this evening -- is not only the test of any true religiosity, it is also what will bring us into the presence of what Jews, Christians and Muslims call "God" or the "Divine." It is compassion, says the Buddha, which brings you to Nirvana. Why? Because in compassion, when we feel with the other, we dethrone ourselves from the center of our world and we put another person there. And once we get rid of ego, then we're ready to see the Divine.
اور، یہاں دردمندی اس عمل میں فخر کا مقام پاتی ہے۔ اور یہ ہے وہ ایک جکڑنے والی حقیقت یہاں سے وہاں تک، ہر ایک دنیا کے بڑے مذاہب میں ، دردمندی دوسروں کے ساتھ ملکر اس بات کو محسوس کرنے کی صلاحیت جس طرح آج شام کے بارے میں ہم سوچ رہے ہیں- صرف حقیقی مذہبی ہونے کا امتحان ہی نہیں، یہ ہمیں لے جاتا ہے اس چیز کی موجودگی کی طرف جسے یہودی، عیسائی، اور مسلمان "خدا" یا "رب" کہتے ہیں۔ یہ دردمندی ہےجو تمہیں اطمینان کی طرف لیجاتا ہے، بدھا کا کہنا ہے۔ کیوں؟ اسلیے کہ دردمندی میں جب ہم دوسروں کے ساتھ محسوس کرتے ہیں، ہم اپنے آپکو اپنی دنیا کے مرکز سے ہٹا کر رکھتے ہیں اور ہم ایک اور شخص کو اس جگہ پررکھتے ہیں۔ اور جب ہم اپنی انا سے نجات پا لیتے ہیں، تو ہم تیار ہوجاتے ہیں الہیت کو دیکھنے کیلیے۔
And in particular, every single one of the major world traditions has highlighted -- has said -- and put at the core of their tradition what's become known as the Golden Rule. First propounded by Confucius five centuries before Christ: "Do not do to others what you would not like them to do to you." That, he said, was the central thread which ran through all his teaching and that his disciples should put into practice all day and every day. And it was -- the Golden Rule would bring them to the transcendent value that he called "ren," human-heartedness, which was a transcendent experience in itself.
اور خاص طور پر، دنیا کی ہر ایک بڑی تہذیب نے روشنی ڈالی ہے - کہا گیا ہے - اور رکھا ہے اپنی تہذیب کے مرکز میں اس چیز کو جو کہ پہچانا جاتا ہے اور بن چکا ہے سنہرا اصول۔ پہلی دفعہ مسیح سے پانچ صدی قبل کنفیوشس نے یہ کہا: "دوسروں کے ساتھ وہ مت کروجو تم چاہتے ہو کہ دوسرے تمہارے ساتھ نہ کریں" یہ،جو اس نے کہا، وہ مرکزی خیال تھا جو اسکی تمام تعلیمات میں جاری رہا۔ اور جو اسکے شاگردوں کوپورے دن اور ہر دن اپنے معمولات میں شامل کرنا پڑا۔ اور یہ وہ سنہرا اصول تھا جس نے ان سب کو اعلی ترین قدروں تک پہنچایا جس کو اس نے انسانیت کہا، انسانی ہمدردی، جو کہ بذات خود ایک اعلی ترین تجربہ تھا۔
And this is absolutely crucial to the monotheisms, too. There's a famous story about the great rabbi, Hillel, the older contemporary of Jesus. A pagan came to him and offered to convert to Judaism if the rabbi could recite the whole of Jewish teaching while he stood on one leg. Hillel stood on one leg and said, "That which is hateful to you, do not do to your neighbor. That is the Torah. The rest is commentary. Go and study it." (Laughter)
اور یہ وحدانیت کیلیے انتہائی لازم بھی تھا۔ یہاں عظیم ربی ہلًیل، جو کہ مسیح کا پرانا رفیق تھا، کے بارے میں ایک مشہور کہانی ہے۔ ایک دیہاتی اسکے پاس آیا اور کہا کہ وہ یہودیت قبول کرسکتا بشرطیکہ ربی ایک ٹانگ پر کھڑے رہ کر یہودیت کی پوری تعلیم زبانی سنادے۔ ہلًیل ایک ٹانگ پر کھڑا ہوا اور کہا" جو چیز تمہیں ناپسند ہو وہ اپنے پڑوسی سے بھی نہ کرو۔ یہ توریت ہے۔ باقی سب اسکی تفصیلات ہیں۔ جاؤاور جاکر اسے پڑھو" (ہنسی)
And "go and study it" was what he meant. He said, "In your exegesis, you must make it clear that every single verse of the Torah is a commentary, a gloss upon the Golden Rule." The great Rabbi Meir said that any interpretation of Scripture which led to hatred and disdain, or contempt of other people -- any people whatsoever -- was illegitimate.
اور "جاؤ اور جاکر اسے پڑھو" ہی اسکا مقصد تھا۔ اس نے کہا،"تمہارے لیے ضروری ہے کہ اپنی بات کا مطلب واضح کردو کہ توریت کی ہر ایک آیت ایک تفصیل ہے ایک ملمع ہے "سنہرے اصول" پر۔ عظیم ربی مایر نے کہاکہ صحیفے کی کوئی بھی تاویل جو نفرت، ذلت، یادوسرے لوگوں کی توہین کی طرف لے جاتی ہو- کوئی بھی لوگ - ناجائز ہے۔
Saint Augustine made exactly the same point. Scripture, he says, "teaches nothing but charity, and we must not leave an interpretation of Scripture until we have found a compassionate interpretation of it." And this struggle to find compassion in some of these rather rebarbative texts is a good dress rehearsal for doing the same in ordinary life. (Applause)
پادری آگسٹین کا بھِی بعینہ یہی کہنا تھا۔ صحیفہ، وہ کہتا ہے، "کچھ نہیں سکھاتا سوائے خیر کے عمل کے اور ہمیں لازمی طور پر نہیں رکنا چاہیے صحیفے کی تاویل پر جب تک ہم اسکی ہمدردی پر مبنی تاویل نہ پالیں" اور ان کچھ مشکل تر مضامین میں دردمندی پانے کی یہ جدوجہد عام زندگی میں بھی ایسا ہی کچھ کرنے کی ایک اچھی مشق ہے۔(تالیاں)
But now look at our world. And we are living in a world that is -- where religion has been hijacked. Where terrorists cite Quranic verses to justify their atrocities. Where instead of taking Jesus' words, "Love your enemies. Don't judge others," we have the spectacle of Christians endlessly judging other people, endlessly using Scripture as a way of arguing with other people, putting other people down. Throughout the ages, religion has been used to oppress others, and this is because of human ego, human greed. We have a talent as a species for messing up wonderful things.
لیکن اب اس دنیا پر نظر ڈالیے، جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں- جہاں مذہب اغوا ہوچکا ہے۔ جہاں دہشتگرد اپنی زیادتیوں کو جائز ثابت کرنے کیلیے قرآنی آیات کا استعمال کرتے ہیں۔ جہاں بجائے مسیح کے الفاظ کے استعمال کرنے کے کہ"اپنے دشمن سے پیار کرو۔ دوسروں کے بارے میں فیصلہ مت کرو،" ہم نے عیسائیت کا چشمہ چڑھا لیا ہے لا منتہائی طور پر دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کیلیے، صحیفے کا لامحدود استعمال دوسرے لوگوں سے بحث کرنے کیلیے، دوسروں کو نیچا دکھانے کیلیے۔ صدیوں سے دوسروں کو دبانے کیلیے مذہب کا استعمال ہو رہا ہے، اور اسکی وجہ صرف انسانی انا اور انسان کی لالچ ہے۔ ہماری نسل میں شاندار چیزوں کو برباد کرنے کی صلاحیت ہے۔
So the traditions also insisted -- and this is an important point, I think -- that you could not and must not confine your compassion to your own group: your own nation, your own co-religionists, your own fellow countrymen. You must have what one of the Chinese sages called "jian ai": concern for everybody. Love your enemies. Honor the stranger. We formed you, says the Quran, into tribes and nations so that you may know one another.
تو پھر تہذیبوں نے یہ بھی اصرار کیا - اور میں سمجھتی ہوں یہ ایک اہم نکتہ ہے - کہ آپ دردمندی کو نہ تو محدود کرسکتے ہیں اور لازماً آپکو کرنا بھی نہیں چاہیے اپنے گروہ: آپکی اپنی قوم، آپکے اپنے ہم-مذہب، آپکے اپنے ملک کے لوگوں میں۔ آپکے پاس ہونا چاہیےوہ چیز جو چینی جڑی بوٹیوں میں سے ایک کہلاتی ہے " جیان آئی"۔ ہر ایک کیلیے خیال۔ اپنے دشمنوں کو پیار کرو۔ اجنبی کو عزت دو۔ ہم نے تمھیں بانٹا ہے قرآن کہتا ہے، قبیلوں اور قوموں میں تاکہ تم ایک دوسرے کو جان سکوـ
And this, again -- this universal outreach -- is getting subdued in the strident use of religion -- abuse of religion -- for nefarious gains. Now, I've lost count of the number of taxi drivers who, when I say to them what I do for a living, inform me that religion has been the cause of all the major world wars in history. Wrong. The causes of our present woes are political.
اور یہ، پھر - ایک آفاقی پہنچ - مذہب کے استعمال میں غلو سے دب رہی ہے - مذہب کا بیجا استعمال- غلط فائدوں کیلیے۔ اب تو مجھےان ٹیکسی ڈرائیوروں کی تعداد بھی یاد نہیں جو، جب میں انکو اپنے پیشے کے بارے میں بتاتی ہوں، مجھے بتاتے ہیں کہ مذہب وجہ رہا ہے تاریخ کی تمام بڑی عظیم جنگوں میں۔ غلط۔ ہمارے موجودہ مسائل کے تمام اسباب سیاسی ہیں۔
But, make no mistake about it, religion is a kind of fault line, and when a conflict gets ingrained in a region, religion can get sucked in and become part of the problem. Our modernity has been exceedingly violent. Between 1914 and 1945, 70 million people died in Europe alone as a result of armed conflict. And so many of our institutions, even football, which used to be a pleasant pastime, now causes riots where people even die. And it's not surprising that religion, too, has been affected by this violent ethos.
مگر اسکو غلط مت سمجھیے گا، مذہب ایک قسم کی دراڑ ہے، کہ جب کوئی تناذعہ کسی علاقے میں جڑ پکڑتا ہے، مذہب اس میں کھنچ سکتا ہے اور مسئلے کا حصہ بن جاتا ہے۔ ہماری جدیدیت انتہائی شرربار ہے۔ 1914 اور 1945 کے درمیان، 70 ملین لوگ صرف یورپ میں ہتھیاروں کی لڑائی میں مارے گئے۔ اور ہمارے بہت سارے ادارے، یہاں تک کہ فٹبال جو کہ ایک اچھی تفریح ہوتا تھا اب ہنگامے کروادیتا ہےجس میں یہاں تک کہ لوگ مارے جاتے ہیں۔ اور یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ مذہب بھی ان پرتشدد عقائد سے متاثر رہا ہے۔
There's also a great deal, I think, of religious illiteracy around. People seem to think, now equate religious faith with believing things. As though that -- we call religious people often believers, as though that were the main thing that they do. And very often, secondary goals get pushed into the first place, in place of compassion and the Golden Rule. Because the Golden Rule is difficult. I sometimes -- when I'm speaking to congregations about compassion, I sometimes see a mutinous expression crossing some of their faces because a lot of religious people prefer to be right, rather than compassionate. (Laughter)
اور ہمارے اطراف میں بھی، میں سمجھتی ہوں، مذہبی جہالت بہت زیادہ ہے۔ لوگ اب مذہبی عقائد اور ایمان کو برابر ماننے لگے ہیں گویا کہ - ہم مذہبی لوگوں کو ایمان والے کہہ کر بلاتے ہیں، گویا کہ اصل چیز وہی ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ اور اکثر اوقات، ضمنی مقاصد بنیادی چیزوں کی طرف دھکیل دیے جاتے ہیں، دردمندی اور سنہرے اصول کی جگہ۔ کیونکہ سنہرا اصول مشکل ہے۔ میں کبھی کبھی، جب بات کر رہی ہوتی ہوں مجمعوں میں دردمندی کے بارے میں، میں کبھی دیکھتی ہوں کچھ لوگوں کے چہروں پر بکھرے باغیانہ تاثرات کیونکہ مذہب کو بہت سارے مذہبی لوگ دردمندی کے مقابل زیادہ صحیح سمجھتے ہیں۔ (ہنسی)
Now -- but that's not the whole story. Since September the 11th, when my work on Islam suddenly propelled me into public life, in a way that I'd never imagined, I've been able to sort of go all over the world, and finding, everywhere I go, a yearning for change. I've just come back from Pakistan, where literally thousands of people came to my lectures, because they were yearning, first of all, to hear a friendly Western voice. And especially the young people were coming. And were asking me -- the young people were saying, "What can we do? What can we do to change things?" And my hosts in Pakistan said, "Look, don't be too polite to us. Tell us where we're going wrong. Let's talk together about where religion is failing."
اب - مگر بات ساری یہ نہیں ہے۔ ستمبر 11 سے، جب اسلام پر میرے کام نے مجھے اچانک عوامی زندگی میں اس طرح اتارا جیسا میں نے سوچا بھی نہیں تھا، میں اس قابل ہوئی کہ پوری دنیا میں جا سکوں اور پائی، ہر اس جگہ جہاں میں گئی، ایک تبدیلی کی خواہش۔ میں ابھی ابھی پاکستان سے آئی ہوں جہاں حقیقتاً ہزاروں لوگ میرے لیکچرز میں آئے، کیونکہ انکی خواہش تھی، سب سے پہلے تو یہ کہ ایک دوستانہ مغربی آواز کو سنیں۔ اور خاص طور پر نوجوان لوگ آرہے تھے۔ اور مجھ سے پوچھ رہے تھے- یہ نوجوان لوگ کہہ رہے تھے، " ہم کیا کر سکتے ہیں؟ہم تبدیلی لانے کیلیے کیا کرسکتے ہیں؟" اور پاکستان میں میرے میزبان نے کہا، " دیکھیے، ہم سے بہت زیادہ نرمی مت دکھائیے۔ ہمیں بتائیے کہ ہم کہاں غلط جارہے ہیں۔ آئیے ہم سب ملکر دیکھیں کہ مذہب کہاں ناکام ہو رہا ہے۔"
Because it seems to me that with -- our current situation is so serious at the moment that any ideology that doesn't promote a sense of global understanding and global appreciation of each other is failing the test of the time. And religion, with its wide following ... Here in the United States, people may be being religious in a different way, as a report has just shown -- but they still want to be religious. It's only Western Europe that has retained its secularism, which is now beginning to look rather endearingly old-fashioned.
کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اسکے ساتھ - ہماری موجودہ صورتحال اسقدر تشویشناک ہے اس وقت کہ کوئی نظریہ جو آفاقی افہام کے احساس کو نہ پھیلائے اور باہمی آفاقی قدر شناسی کو، وہ وقت کی ضرورت پر ناکام ہو رہا ہے۔ اور مذہب، امریکہ میں اسکی وسیع تقلید کے ساتھ - لوگ مختلف طریقوں سے مذہبی ہوسکتے ہیں، جیسا کہ ایک رپورٹ میں دکھایا گیا ہے - مگر بہرحال وہ مذہبی رہنا چاہتے ہیں۔ یہ صرف مغربی یورپ ہی ہے جس نے سیکولرزم کو قائم رکھا ہوا ہے، جو کہ اب شاید بڑی حد تک فرسودہ نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔
But people want to be religious, and religion should be made to be a force for harmony in the world, which it can and should be -- because of the Golden Rule. "Do not do to others what you would not have them do to you": an ethos that should now be applied globally. We should not treat other nations as we would not wish to be treated ourselves.
مگر لوگ مذہبی ہونا چاہتے ہیں، اور مذہب کو بنانا چاہئیے دنیا میں ہم آہنگی پیدا کرنے کیلیے ایک قوت، جو کہ یہ ہوسکتی ہے اور ہونا بھی چاہئیے - سنہرے اصول کی وجہ سے۔ "دوسروں کے ساتھ ایسا مت کیجیے جو آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کے ساتھ نہ کریں" ایک بنیادی اصول جو آفاقی سطح پر عمل میں لایا جانا چاہئیے۔ ہمیں دوسری قوموں کے ساتھ اسطرح کا سلوک نہیں کرنا چاہئیے جو ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ساتھ ہو۔
And these -- whatever our wretched beliefs -- is a religious matter, it's a spiritual matter. It's a profound moral matter that engages and should engage us all. And as I say, there is a hunger for change out there. Here in the United States, I think you see it in this election campaign: a longing for change. And people in churches all over and mosques all over this continent after September the 11th, coming together locally to create networks of understanding. With the mosque, with the synagogue, saying, "We must start to speak to one another." I think it's time that we moved beyond the idea of toleration and move toward appreciation of the other.
اور یہ - جو بھی ہمارے تباہ حال عقائد ہیں - مذہبی معاملہ ہیں - ایک روحانی معاملہ ہے۔ یہ ایک گہرا اخلاقی معاملہ ہے جو ہمیں جوڑتا ہے اور ہم سب کو جوڑنا چاہئیے۔ اور جیسا کہ میں کہتی ہوں، یہاں ہر طرف تبدیلی کی ایک بھوک ہے۔ یہاں امریکہ میں، میرا خیال ہے آپ نے اس انتخابی مہم میں دیکھی ہوگی: تبدیلی کی خواہش۔ اور لوگ ہر طرف گرجا گھروں میں اور ہر طرف مسجدوں میں اس پورے بر اعظم میں ستمبر 11 کے بعد، مقامی طور پر افہام و تفہیم کا رابطہ قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔ مسجدوں میں، یہودی عبادت گاہوں میں ، کہہ رہے ہیں، " ہمیں لازماً ایک دوسرے سے بات شروع کرنی چاہئیے۔" میرا خیال ہے کہ یہ وہ وقت ہے کہ برداشت کے نظریے سے آگے بڑھ کر ایک دوسرے کی قدرشناسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
I'd -- there's one story I'd just like to mention. This comes from "The Iliad." But it tells you what this spirituality should be. You know the story of "The Iliad," the 10-year war between Greece and Troy. In one incident, Achilles, the famous warrior of Greece, takes his troops out of the war, and the whole war effort suffers. And in the course of the ensuing muddle, his beloved friend, Patroclus, is killed -- and killed in single combat by one of the Trojan princes, Hector. And Achilles goes mad with grief and rage and revenge, and he mutilates the body. He kills Hector, he mutilates his body and then he refuses to give the body back for burial to the family, which means that, in Greek ethos, Hector's soul will wander eternally, lost. And then one night, Priam, king of Troy, an old man, comes into the Greek camp incognito, makes his way to Achilles' tent to ask for the body of his son. And everybody is shocked when the old man takes off his head covering and shows himself. And Achilles looks at him and thinks of his father. And he starts to weep. And Priam looks at the man who has murdered so many of his sons, and he, too, starts to weep. And the sound of their weeping filled the house. The Greeks believed that weeping together created a bond between people. And then Achilles takes the body of Hector, he hands it very tenderly to the father, and the two men look at each other, and see each other as divine.
میں۔ یہاں ایک کہانی ہے جو میں بیان کرنا چاہونگی۔ یہ "دی لیاد" سے ہے۔ مگر یہ آپکو بتاتی ہے اسکی روحانیت کیا ہونی چاہئیے۔ آپ "دی لیاڈ" کی کہانی جانتے ہونگے۔ 10 سالہ جنگ یونان اور ٹرائے کے مابین۔ ایک موقعہ پر "اچیلیس" مشہور یونانی جنگجو، اپنی فوجوں کو جنگ سے نکال لیتا ہے، اور پوری جنگی کوشش متاثر ہوجاتی ہے۔ اور اسی مسئلہ کے اٹھنے کے دوران، اسکا عزیز دوست، پیٹروکلس، مارا جاتا ہے - اور ایک انفرادی حملے میں جو ہیکٹر، ٹراجان شہزادے کی طرف سے ہوتا ہے۔ اور اچیلیس غم، غصہ، اور انتقام میں پاگل ہوجاتا ہے، اور لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے - وہ ہیکٹر کو مارتا ہے، اسکی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اور پھر اسکی لاش کو تدفین کیلیے اسکے گھر والوں کو واپس دینے سے انکار کردیتا ہے۔ جسکا مطلب یہ کہ، یونانی عقائد کے مطابق، ہیکٹر کی روح ہمیشہ ہمیشہ کیلیے بھٹکے گی اور گم ہو جائے گی۔ اور تب ایک رات، پریام، ٹرائے کا بادشاہ، ایک بوڑھا آدمی، یونانی چھاؤنی میں بھیس بدل کر آتا ہے، اچیلیس کے خیمے تک پہنچتا ہے اپنے بیٹے کی لاش مانگنے کیلیے۔ اور ہر ایک حیرت میں آجاتا ہے جب بوڑھا اپنے سر سے غلاف اتارتا ہےاور اپنے آپکوظاہر کرتا ہے۔ اور اچیلیس اسکی طرف دیکھتا ہے اور اپنے باپ کو یاد کرتا ہے۔ اور رونا شروع کردیتا ہے۔ اور پریام اس آدمی کی طرف دیکھتا ہے جس نے اسکے کتنے ہی بیٹوں کا خون کیا ہے، اور، وہ بھی، رونا شروع کردیتا ہے۔ اور انکے رونے کے شور سے پورا گھر بھر جاتا ہے۔ یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ ساتھ ملکر رونے سے لوگوں کے درمیان رشتہ قائم ہوتا ہے۔ اور پھر اچیلیس ہیکٹر کی لاش کو اٹھاتا ہے، اور پڑی احتیاط کے ساتھ باپ کے حوالے کرتا ہے، اور یہ دو آدمی ایک دوسرےکی طرف دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو دیوتائوں کی مانند دیکھتے ہیں۔
That is the ethos found, too, in all the religions. It's what is meant by overcoming the horror that we feel when we are under threat of our enemies, and beginning to appreciate the other. It's of great importance that the word for "holy" in Hebrew, applied to God, is "Kadosh": separate, other. And it is often, perhaps, the very otherness of our enemies which can give us intimations of that utterly mysterious transcendence which is God.
یہ بنیادی عقیدہ بھی پایا جاتا ہے تمام مذاہب میں۔ یہ کہ کیسا معلوم ہوتا ہے جب اس خوف پر قابو پالیا جائے جو ہم پر ہوتا ہے جب ہم اپنے دشمنوں کی دھمکی کے زیر اثر ہوتے ہیں، اور دوسروں کی قدر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ عبرانی زبان میں، خدا کے متعلق، "پاک" کیلیے لفظ ہے "کادوش": علیحدہ، دوسرا۔ اور اکثر اوقات، غالباً، ہمارے دشمنوں کی وہی دوسرائیت جو ہمیں وہ انتہائی اعلی ترین پراسرار احساس دلاتی ہےجو کہ خدا ہے۔
And now, here's my wish: I wish that you would help with the creation, launch and propagation of a Charter for Compassion, crafted by a group of inspirational thinkers from the three Abrahamic traditions of Judaism, Christianity and Islam, and based on the fundamental principle of the Golden Rule. We need to create a movement among all these people that I meet in my travels -- you probably meet, too -- who want to join up, in some way, and reclaim their faith, which they feel, as I say, has been hijacked. We need to empower people to remember the compassionate ethos, and to give guidelines. This Charter would not be a massive document. I'd like to see it -- to give guidelines as to how to interpret the Scriptures, these texts that are being abused. Remember what the rabbis and what Augustine said about how Scripture should be governed by the principle of charity. Let's get back to that. And the idea, too, of Jews, Christians and Muslims -- these traditions now so often at loggerheads -- working together to create a document which we hope will be signed by a thousand, at least, of major religious leaders from all the traditions of the world.
اور اب یہ ہے میری خواہش: میں چاہتی ہوں کہ آپ مدد کریں بنانے میں، ابتدا کرنے میں اور بڑھانے میں ایک دردمندی کے فرمان کی- جسکی تیاری الہامی سوچ رکھنے والا ایک گروہ کرے جو ہو تین ابراہیمی ادیان یہودیت، عیسائیت، اور اسلام سے، اور جسکی بنیاد سنہرے اصول کے بنیادی اصول پر ہو۔ ہمیں ضرورت ہے ایک تحریک کی ان لوگوں کے درمیان جن سے میں سفر کے دوران ملتی ہوں - اور غالباً آپ بھی ملتے ہونگے - جو کسی بھی شکل میں شامل ہونا چاہتے ہیں، اور جو دعوی کرتے ہیں کہ انکا مذہب، جو کہ وہ محسوس کرتے ہیں - جیسے میں کہتی ہوں - کہ اغوا ہوچکا ہے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم لوگوں کو یہ طاقت دیں کہ وہ دردمندی کے بنیادی عقیدوں کو یاد رکھیں، اور انہیں رہنمائی فراہم کریں۔ یہ فرمان کوئی ضخیم دستاویز نہیں ہوگی۔ میں یہ دیکھنا چاہونگی - اس بات کیلیے رہنمائی کرنے میں کہ صحیفوں کی تاویل کیسے کی جائے، کہ جن مضامین کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ یاد رکھیں جو کہ ربیوں اور آگسٹین نے کہا کہ کس طرح صحیفوں پر خیر کے عمل کے اصولوں کا اطلاق کیا جائے۔ چلیے اسی طرف واپس آتے ہیں۔ اور خیال بھی وہی، یہودیوں، عیسائیوں، اور مسلمانوں کا یہ مذاہب اب اکثر اوقات کم عقلوں کے شمار کیے جاتے ہیں - ایک ساتھ کام کرتے ہوئے ایک دستاویز بنائیں جس پر ہم امید کرتے ہیں کہ کم از کم ایک ہزار لوگوں سےدستخط کروائیں جائیں، دنیا کے تمام بڑے مذاہب کے بڑے مذہبی قائدین سے۔
And you are the people. I'm just a solitary scholar. Despite the idea that I love a good time, which I was rather amazed to see coming up on me -- I actually spend a great deal of time alone, studying, and I'm not very -- you're the people with media knowledge to explain to me how we can get this to everybody, everybody on the planet. I've had some preliminary talks, and Archbishop Desmond Tutu, for example, is very happy to give his name to this, as is Imam Feisal Rauf, the Imam in New York City. Also, I would be working with the Alliance of Civilizations at the United Nations. I was part of that United Nations initiative called the Alliance of Civilizations, which was asked by Kofi Annan to diagnose the causes of extremism, and to give practical guidelines to member states about how to avoid the escalation of further extremism.
اور اصل تو آپ لوگ ہیں۔ میں تو ایک انفرادی عالمہ ہوں۔ باوجود اسکے کہ میں اچھےوقت کو پسند کرتی ہوں، اور جسے میں اپنی طرف آتا دیکھ کے متعجب ہورہی تھی -میں نے دراصل ایک بڑا وقت تنہا گزارا ہے، مطالعہ کرتے ہوئے، اور میں نہیں ہوں ایک بہت - آپ لوگ ہیں ذرائع ابلاغ کے علم کے ساتھ جو مجھے بتائیں کہ یہ ہم ہر ایک تک کیسے پہنچا سکتے ہیں، ہر ایک جو اس کرۂ ارض پر ہے۔ میں نے کچھ ابتدائی باتیں کر رکھی ہیں، اور آرک بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹوڈیسمنڈ ٹوٹو، مثال کے طور پر، بہت خوشی کے ساتھ اپنا نام اس میں دے رہے ہیں، اسی طرح امام فیصل رؤف بھی، نیویارک شہر کے امام۔ مزید یہ کہ، میں اقوام متحدہ میں تہذیبوں کے اتحاد کے ساتھ بھی کام کرونگی۔ میں اقوام متحدہ کے تہذیبوں کے اتحاد(Alliance of Civilizations) کا حصہ تھی، جسے کوفی عنان کی ہدایت تھی کہ انتہا پسندی کی وجوہات دریافت کرے، اور رکن ممالک کو وہ عملی رہنما خطوط فراہم کرے کہ انتہا پسندی کے رجحان کے بڑھنے کو مزید کیسے روکا جائے۔
And the Alliance has told me that they are very happy to work with it. The importance of this is that this is -- I can see some of you starting to look worried, because you think it's a slow and cumbersome body -- but what the United Nations can do is give us some neutrality, so that this isn't seen as a Western or a Christian initiative, but that it's coming, as it were, from the United Nations, from the world -- who would help with the sort of bureaucracy of this.
اورAlliance نے مجھے بتایا ہے کہ اس کام کو کرنے میں وہ بڑی مسرت محسوس کر رہے ہیں۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ - میں دیکھ سکتی ہوں کہ آپ میں سے کچھ لوگ پریشان نظر آرہے ہیں، کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سست رفتاراور بےڈھنگا ادارہ ہے، لیکن جو اقوام متحدہ کرسکتی ہے وہ یہ کہ ہمیں غیر جانبداری فراہم کرسکتی ہے، تاکہ یہ نہ لگے کہ یہ مغربی یا عیسائی آغازیہ ہے، بلکہ یہ آرہا ہے اقوام متحدہ کی طرف سے، دنیا کی طرف سے - جو کہ اسکی ایک طرح کی بیوروکریسی میں بھی مدد کریگا۔
And so I do urge you to join me in making -- in this charter -- to building this charter, launching it and propagating it so that it becomes -- I'd like to see it in every college, every church, every mosque, every synagogue in the world, so that people can look at their tradition, reclaim it, and make religion a source of peace in the world, which it can and should be. Thank you very much. (Applause)
اور میں آپ پر زور ڈالتی ہوں کہ آپ اسکے بننے میں میرے ساتھ شامل ہوں- اس فرمان میں - اس فرمان کی تیاری میں، اسکے اجرا میں اور اسکے پھیلنے میں تاکہ یہ بن جائے میں اسے دیکھنا چاہونگی ہر کالج میں، ہر گرجے میں، ہر مسجد میں، ہر یہودی عبادت گاہ میں پوری دنیا کی، تاکہ لوگ اپنےمذہب کی طرف دیکھیں، اسکو اپنائیں، اور مذہب کو دنیا میں امن کا ذریعہ بنائیں، جو کہ یہ کرسکتا ہے اور کرنا چاہئیے۔ آپکا بہت بہت شکریہ۔ (تالیاں)