"Who’s there?" Whispered in the dark, this question begins a tale of conspiracy, deception and moral ambiguity. And in a play where everyone has something to hide, its answer is far from simple.
'' کون ہے وہاں؟'' تاریکی کی سرگوشی میں کیا گیا یہ سوال،سازشوں، دھوکہ دہی اور اخلاقی پراگندگی کی ایک داستان چھیڑ دیتا ہے۔ اور ایک ایسا کھیل جس میں ہر شخص دوسرے سے کچھ نہ کچھ چھپا رہا ہوتا ہے اس کا جواب اتنا آسان نہیں ہے۔
Written by William Shakespeare between 1599 and 1601, "Hamlet" depicts its titular character haunted by the past, but immobilized by the future. Mere months after the sudden death of his father, Hamlet returns from school a stranger to his own home, and deeply unsure of what might be lurking in the shadows. But his brooding takes a turn when he’s visited by a ghost that bears his father’s face. The phantom claims to be the victim of a “murder most foul,” and convinces Hamlet that his uncle Claudius usurped the throne and stole queen Gertrude’s heart. The prince’s mourning turns to rage, and he begins to plots his revenge on the new king and his court of conspirators.
1599 سے 1601 کے درمیان لکھا جانے والا شیکسپئیر کا "ہیملیٹ" اپنے خطاب پر مبنی کردار کی تصویر کشی کرتا ہے، جو ماضی میں شکار زدہ ہوتا ہے، مگر مسقتبل میں ناکارگر ثابت ہوتا ہے۔ اپنے باپ کی اچانک وفات کے چند ماہ بعد ہی ہیملٹ مکتب سے اپنے گھر ایک اجنبی کی طرح لوٹتا ہے، اور بالکل غیر واضح ہوتا ہے کہ کہ تاریک سایوں میں کیا پوشیدہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کی سوچوں کا دھارا تب مڑتا ہے جب ایک بھوت اس کے باپ کے روپ میں اس کے سامنے نمودار ہوتا ہے۔ بھوت دعوٰی کرتا ہے کہ وہ ایک انتہائی سفاکانہ قتل کا نشانہ بنا ہے، اسے اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ اس کے چچا کلاڈیس نے اسکا تخت بھی ہتھیا لیا ہے اور ملکہ گرٹروڈ کا دل بھی چرا لیا۔ شہزادے کا الم غضب میں بدل جاتا ہے اور وہ نئے بادشاہ اور اس کے سازشی ساتھیوں سے انتقام لینے کی تدبیریں سوچنے لگ جاتا ہے۔
The play is an odd sort of tragedy, lacking either the abrupt brutality or all-consuming romance that characterize Shakespeare’s other work in the genre. Instead it plumbs the depths of its protagonist’s indecisiveness, and the tragic consequences thereof. The ghost’s revelation draws Hamlet into multiple dilemmas– what should he do, who can he trust, and what role might he play in the course of justice? These questions are complicated by a tangled web of characters, forcing Hamlet to negotiate friends, family, court counselors, and love interests– many of whom possess ulterior motives.
یہ کھیل ایک عجیب قسم کی حزنیہ داستان ہے، جس میں ویسی ناگہانی بہیمیت اور رومانویت موجود نہیں ہے جو کہ شیکسپیئر کےتمام دوسرے ڈراموں کا خاصہ رہا ہے۔ اس کے بجائے یہ اپنے ہیرو کی متذبذب طبیعت اور اس کے سنگین المناک نتائج کی گہری چھانٹ پٹک کرتی ہے۔ بھوت کا انکشاف ہیملٹ کو بہت سی الجھنوں سے آشکار کر دیتا ہے۔ اسے کیا کرنا چاہیے، کس پر اعتبار کرے، اور انصاف کے کٹہرے میں اسے کونسا کردار ادا کرنا چاہئے۔ یہ سوالات پیچیدہ کرداروں کے الجھے ہوئے جال میں مزید الجھاؤ پیدا کر دیتے ہیں، اور ہیملٹ کو کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے دوستوں ، افراد خانہ، درباری مشیروں اور محبت کرنے والوں سے مشاورت کرے، جن میں سے زیادہ تر کے اپنے پوشیدہ عزاتم ہوتے ہیں۔
The prince constantly delays and dithers over how to relate to others, and how he should carry out revenge. This can make Hamlet more than a little exasperating, but it also makes him one of the most human characters Shakespeare ever created. Rather than rushing into things, Hamlet becomes consumed with the awful machinations of thinking itself. And over the course of the play, his endless questions come to echo throughout our own racing minds.
ہیملٹ مسقلاً تاخیر کرتا رہتا ہے اور تذبذب کا شکار رہتا ہے کہ دوسروں سے کیسا تعلق رکھے اور کس طرح اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرے۔ یہ سب ہیملٹ کو برافروختہ کر دیتا ہے، لیکن اسے شیکسپئیرکا سب سے زیادہ نرم خو بشری کردار بھی بنا دیتا ہے۔ جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے، ہیملٹ جوڑتوڑ کی ایک مستقل مہیب سوچ میں گھر جاتا ہے،اور کھیل کے دوران اس کے لامتناہی سوالات ہمارے ذہن کی غلام گردشوں میں منڈلاتے رہتے ہیں۔
To accomplish this, Shakespeare employs his most introspective language. From the usurping king’s blazing contemplation of heaven and hell, to the prince’s own cackling meditation on mortality, Shakespeare uses melancholic monologues to breathtaking effect. This is perhaps best exemplified in Hamlet’s most famous declaration of angst:
اس کی تکمیل کے لیے، شیکسپیئر اپنی سب سے زیادہ متفکرانہ زبان استعمال کرتا ہے۔ غاصب بادشاہ کی جنت اور دوزخ پر غور و فکر ہو یا شہزادے کے اخلاقیات پر بے معنی افکار شیکسپیئر دم بخود کر دینے والی خودکلامی کا استعمال کرتا ہے۔ کرب کے اس احساس کی بہترین مثال ہیملٹ کی اس خودکلامی میں ملتی ہے۔
"To be or not to be—that is the question: Whether ’tis nobler in the mind to suffer The slings and arrows of outrageous fortune, Or to take arms against a sea of troubles And, by opposing, end them."
''سوال یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جئیں کہ مر جائیں کیا ہمارا ذہن اس بات کا سزاوار ہے کہ غضبناک تقدیر کے تیر و تفنگ کو برداشت کیا جائے یا پھر ان سب تکالیف کے خلاف سینہ سپر ہو جانا چاہیے اور ان کا سامنا کر کے انہیں نابود کر دینا چاہیے،''
This monologue personifies Hamlet’s existential dilemma: being torn between thought and action, unable to choose between life and death. But his endless questioning raises yet another anxiety: is Hamlet’s madness part of a performance to confuse his enemies, or are we watching a character on the brink of insanity?
یہ خودکلامی ہیملٹ کے وجودیاتی مسئلہ کو بیان کرتی ہے، افکار اور اعمال کے دو پاٹوں کے بیچ الجھا، زندگی اور موت میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے ناقابل، لیکن اس کے لامتناہئ سوالات ایک اور الجھن کھڑی کر دیتے ہیں: کیا ہیملٹ کا پاگل پن اپنے دشمنوں کو الجھانے کیلیے تھا ، یا پھر ہمارا سامنا واقعی پاگل پن کی حدود کو چھوتے ہوئے ایک کردار سے تھا؟
These questions weigh heavily on Hamlet’s interactions with every character. And since he spends much of the play facing inward, he often fails to see the destruction left in his wake. He’s particularly cruel to Ophelia, his doomed love interest who is brought to madness by the prince’s erratic behavior. Her fate is one example of how tragedy could have been easily avoided, and shows the ripple effect of Hamlet’s toxic mind games.
یہ سوالات ہیملٹ سے ملنے والے ہر کردار کے ذہن میں منڈلاتے رہتے ہیں۔ اور کیونکہ وہ کھیل میں زیادہ تر وقت سوچ گزاری میں ہی رہتا ہے، سو اپنےعالم بیداری میں وہ تباہی کے ادراک میں ناکام رہتا ہے۔ وہ اوفلیا کے ساتھ بالخصوص ظالمانہ رویہ اختیار رکھتا ہے، اس کی بدقسمت محبت شہزادے کے غلط رویے کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کی تقدیر ایک معمولی سی مثال ہے کہ کیسے بڑی آسانی سے اس المیہ سے بچا جا سکتا تھا اور یہ سب ہیملٹ کے ذہن میں پنپنے والے سم آلود منصوبوں کا شاخسانہ ہوتا ہے۔
Similar warning signs of tragedy are constantly overlooked throughout the play. Sometimes, these oversights occur because of willful blindness– such as when Ophelia’s father dismisses Hamlet’s alarming actions as mere lovesickness. At other points, tragedy stems from deliberate duplicity– as when a case of mistaken identity leads to yet more bloodshed. These moments leave us with the uncomfortable knowledge that tragedy evolves from human error– even if our mistake is to leave things undecided.
المیہ کی ایسی چونکانے والی علامات کو کھیل کے دوران مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا۔ بسا اوقات یہ خطائیں خودسر کورچشمی کے سبب رونما ہوتی ہیں، جیسا کہ جب اوفلیا کا باپ ہیملٹ کی خطرناک حرکتوں کو محض محبت کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے جھٹک دیتا ہے۔جبکہ بعض مقامات پر یہ المیہ واقعات دیدہ دانستہ فریب کاری کی وجہ سے رونما پذیر ہوتے ہے، جیسا کہ مغالطانہ شناخت کا معاملہ مزید خونریزی کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسے لمحات ہمیں نامرغوب آگہی سے روشناس کراتے ہیں، کہ المیے ہمیشہ انسانی خطاؤں سے ہی جنم لیتے ہیں، اگرچہ ہماری خطا چیزوں کو بغیر فیصلہ کیے عالم تذبذب میں چھوڑ دے۔ ان تمام وجوہات کے
For all these reasons, perhaps the one thing we never doubt is Hamlet’s humanity. But we must constantly grapple with who the “real” Hamlet might be. Is he a noble son avenging his father? Or a mad prince creating courtly chaos? Should he act or observe, doubt or trust? Who is he? Why is he here? And who’s out there– waiting in the dark?
ہوتے ہوئے بھی، شاید ہم ایک چیز پر انگلی نہ اٹھا سکیں اور وہ ہے ہیملٹ کی انسانیت۔ لیکن ہم مستقلاً اسی کشمکش کا شکار رہتے ہیں کہ اصل ہیملٹ تھا کون ؟ کیا وہ اپنے باپ کا انتقام لینے والا ایک عالیشان سپوت تھا؟ یا کہ ایک دیوانہ شہزادہ جو کہ درباری افراتفری کا باعث بنتا ہے؟ اسے عمل کرنا چاہیے تھا یا محض مشاہدہ؟ تشکیک یا پھر بھروسہ ؟ کون ہے وہ؟ کس لیے ہے وہ یہاں ؟ اور وہ تاریکی میں انتظار کرتا ہوا کون ہے ؟