Curiosity: a blessing, or a curse? The paradoxical nature of this trait was personified for the ancient Greeks in the mythical figure of Pandora. According to legend, she was the first mortal woman, whose blazing curiosity set a chain of earth-shattering events in motion.
تجسس: ایک نعمت ہے یا زحمت؟ اس خاصیت کا فطری تناقُض قدیم اہل یونان کے لئے مجسم ہوا دیومالائی کردار پنڈورا میں۔ روایت کے مطابق، وہ پہلی فانی عورت تھی، جس کے حد سے زیادہ تجسس نے زمین پر دل دہلا دینے والے واقعات کے ایک سلسلے کو جنم دیا۔
Pandora was breathed into being by Hephaestus, God of fire, who enlisted the help of his divine companions to make her extraordinary. From Aphrodite she received the capacity for deep emotion; from Hermes she gained mastery over language. Athena gave the gift of fine craftsmanship and attention to detail, and Hermes gave her her name.
پنڈورا کو اگنی دیوتا حیفیسٹس نے تخلیق کیا، جس نے اپنے آسمانی ساتھیوں کو اِسے غیر معمولی بنانے کیلیے اپنے ساتھ شامل کیا۔ ایفرڈائیٹی سے اسے شدتِ جذبات کا تحفہ ملا، حرمیس نے اسے زبانوں پر مہارت بخشی۔ اتھینا نے اسے عمدہ کاریگری اور تفصیلات پر توجہ دینے کا تحفہ بخشا، اور حرمیس نے اس کا نام رکھا۔
Finally, Zeus bestowed two gifts on Pandora. The first was the trait of curiosity, which settled in her spirit and sent her eagerly out into the world. The second was a heavy box, ornately curved, heavy to hold – and screwed tightly shut. But the contents, Zeus told her, were not for mortal eyes. She was not to open the box under any circumstance.
آخر میں زیوس نے پنڈورا کو دو تحفے بخشے۔ بہلا متجسس رہنے کی خاصیت، جو کہ اس کے دل و جاں میں سما گئی اور اسے شوق سے دنیا میں روانہ کر دیا۔ دوسرا تحفہ ایک بھاری بھرکم صندوق تھا، مرصع طور پر خمیدہ، بہت وزنی – اور مضبوطی سے بند کیا گیا تھا۔ لیکن، زیوس نے اسے بتایا کہ اس میں موجود سامان، فانی آنکھ کے دیکھنے کیلیے نہیں ہے۔ خواہ کچھ بھی ہو، اسے کسی بھی حالت میں صندوق کھولنے کی اجازت نہ تھی۔
On earth, Pandora met and fell in love with Epimetheus, a talented titan who had been given the task of designing the natural world by Zeus. He had worked alongside his brother Prometheus, who created the first humans but was eternally punished for giving them fire. Epimetheus missed his brother desperately, but in Pandora he found another fiery-hearted soul for companionship.
زمین پر، پنڈورا ایفیمیتھیس سے ملی اور اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی، ایک ذہین ٹائٹن جسے زیوس نے طبعی دنیا کی ترتیب کا کام سونپا تھا۔ وہ اپنے بھائی پرومیتھییس کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا، جو کہ پہلے انسانوں کا خالق تھا لیکن جسے انسانوں کو آگ دینے کی بہت کڑی ابدی سزا ملی۔ ایپیمیتھیس اپنے بھائی کو شدت سے یاد کرتا تھا، لیکن پنڈورا کی صورت میں اسے ایک اور جوشیلا ساتھی مل گیا۔
Pandora brimmed with excitement at life on earth. She was also easily distracted and could be impatient, given her thirst for knowledge and desire to question her surroundings. Often, her mind wandered to the contents of the sealed box. What treasure was so great it could never be seen by human eyes, and why was it in her care? Her fingers itched to pry it open. Sometimes she was convinced she heard voices whispering and the contents rattling around inside, as if straining to be free. Its enigma became maddening.
پنڈورا زمین پر زندگی ملنے پر بہت پرجوش تھی۔ اسے آسانی سے بیوقوف بنایا جا سکتا تھا اور وہ بے صبری واقعہ ہو سکتی تھی، اس کی علم کی پیاس کو بھڑکا کر اور اپنے اردگرد کو جاننے کی خواہش کو جگا کر۔ اکثر اس کے ذہن میں اس صندوق میں چھپے سامان کا خیال ابھرتا تھا۔ کہ اس میں ایسا کونسا خزانہ تھا جسے انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی تھی، اور یہ اس کی حفاظت میں کیوں دیا گیا تھا؟ اس کو کھولنے کو اسکی انگلیوں میں کھجلی ہوتی رہتی تھی۔ کبھی کبھار اس کو یقین ہوتا کہ اس میں سے سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں اس کے اندر سامان کچھ کھڑکھڑا رہا ہو، جیسے آزاد ہونے کی کوشش کررہا ہو۔ یہ معمہ اسے پاگل کیے جا رہا تھا۔
Over time, Pandora became more and more obsessed with the box. It seemed there was a force beyond her control that drew her to the contents, which echoed her name louder and louder. One day she could bear it no longer. Stealing away from Epimetheus, she stared at the mystifying box. She’d take one glance inside, then be able to rid her mind of it forever...
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پنڈورا کے ذہن پر صندوق کا خیال مسلط ہوتا چلا گیا۔ یوں لگتا تھا کہ اس سے طاقتور کوئی قوت ہے جو اسے اس کے سامان کی طرف کھینچ رہی ہے، اور بار بار اس کا نام اونچی آواز میں پکارتی ہے۔ پھر ایک دن یہ سب اس کی برداشت سے باہر ہو گیا۔ ایپیمیتھیس سے چوری چھپے، وہ اس پراسرار صندوق کو گھورتی رہی۔ وہ اس میں بس ایک بار جھانکنا چاہتی تھی، تاکہ اس کے ذہن کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیے اس کے خیال سے چھٹکارا مل سکے۔
But at the first crack of the lid, the box burst open.
لیکن ڈھکن اٹھنے کی پہلی آواز کے ساتھ ہی صندوق کھل گیا۔
Monstrous creatures and horrendous sounds rushed out in a cloud of smoke and swirled around her, screeching and cackling. Filled with terror, Pandora clawed desperately at the air to direct them back into their prison. But the creatures surged out in a gruesome cloud. She felt a wave of foreboding as they billowed away. Zeus had used the box as a vessel for all the forces of evil and suffering he’d created – and once released, they were uncontainable.
عجیب الخلقت بلائیں اور دل دہلا دینے والی آوازیں ایک مہیب دھویں کی شکل میں اس کے گرد گھومنے، چیخنے، اور قہقہے لگانے لگیں۔ خوفزدہ ہو کر، پنڈورا نے ہوا میں بے اختیار پنجے چلائے تاکہ ان کو انکے قید خانے میں واپس بھیج دے۔ لیکن وہ بلائیں ایک خوفناک بادل کی شکل اختیار کر گئیں۔ جب وہ ہلکورے کھاتے ہوئے رخصت ہوئیں تو پنڈورا کو بدشگونی کا احساس ہوا۔ زیوس نے صندوق کو ایسے برتن کے طور پر استعمال کیا تھا جس میں اسکی تخلیق کردہ بدی کی طاقتیں اور تکالیف بند تھیں جو ایک بار آزادہونے کے بعد، دوبارہ قید نہ کی جا سکتی تھیں۔
As she wept, Pandora became aware of a sound echoing from within the box. This was not the eerie whispering of demons, but a light tinkling that seemed to ease her anguish. When she once again lifted the lid and peered in, a warm beam of light rose out and fluttered away.
جب پنڈورا رو رہی تھی، اسے صندوق میں گونجتی ہوئی ایک آواز سنائی دی۔ یہ کسی عفریت کی پراسرار آواز نہیں تھی، بلکہ ایک کھنکتی ہوئی آواز تھی جو اس کا دکھ کم کر رہی تھی۔ جب اس نے صندوق کا ڈھکنا دوبارہ سے کھول کر اس میں جھانکا، تو روشنی کی ایک کرن اس میں سے اٹھی اور پھڑپھڑاتے ہوئے اُڑ گئی۔
As she watched it flickering in the wake of the evil she’d unleashed, Pandora’s pain was eased. She knew that opening the box was irreversible – but alongside the strife, she’d set hope forth to temper its effects.
جب اس نے دیکھا کہ یہ روشنی اس بدی کے پیچھے اڑی جا رہی ہے جو اس نے آزاد کی تھی، تو پنڈورا کی تکلیف کچھ کم ہوئی۔ وہ جانتی تھی کہ صندوق کا کھولنا اب ناقابل واپسی ہے – لیکن تناو کے ساتھ ساتھ اسے امید تھی کہ اس کے اثرات میں دھیرج آ جائے گی۔
Today, Pandora’s Box suggests the extreme consequences of tampering with the unknown – but Pandora’s burning curiosity also suggests the duality that lies at the heart of human inquiry. Are we bound to investigate everything we don’t know, to mine the earth for more – or are there some mysteries that are better left unsolved?
آج پنڈورا کا صندوق اشارہ کرتا ہے ان خوفناک نتائج کی طرف جو نا معلوم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں ہو سکتے ہیں – لیکن اس کے ساتھ ساتھ پنڈورا کی مضطرب خواہش اس دو رُخی کی طرف اشارہ ہے جو انسانی جستجو کا دل ہے۔ کیا ہم پر فرض ہے کہ ہم ہر نا معلوم شے کا کھوج لگائیں، زیادہ کے حصول کیلئے زمین کو کھوجیں – یا کچھ رموز ایسے ہوتے ہیں جن کو لاینحل چھوڑ دینا ہی بہتر ہوتا ہے؟