Well we all know the World Wide Web has absolutely transformed publishing, broadcasting, commerce and social connectivity, but where did it all come from? And I'll quote three people: Vannevar Bush, Doug Engelbart and Tim Berners-Lee. So let's just run through these guys.
ویسے ہم سب کو ورلڈ وائڈ ویب کا پتہ ہے کہ اس نے بالکل تبدیل کردیا ہے.. اشاعت، براڈ کاسٹننگ، تجارت اور سماجی رابطے، لیکن یہ سب کہاں سے آیا؟ اور میں تین افراد کا ذکر کروں گا : وانیور بش، ڈوگ اینگل بارٹ، ٹم برنرز- لی. تو صرف ان لوگوں کا ذکرکرتے ہیں.
This is Vannevar Bush. Vannevar Bush was the U.S. government's chief scientific adviser during the war. And in 1945, he published an article in a magazine called Atlantic Monthly. And the article was called "As We May Think." And what Vannevar Bush was saying was the way we use information is broken. We don't work in terms of libraries and catalog systems and so forth. The brain works by association. With one item in its thought, it snaps instantly to the next item. And the way information is structured is totally incapable of keeping up with this process.
یہ وانیور بش ہے. وانیور بش جنگ کے دوران امریکی حکومت کا چیف سائنسی مشیر تھا. اور 1945 میں، اس نے ماہانہ اٹلانٹک نامی میگزین میں ایک مضمون شائع کیا. اور مضمون "جیسا کہ ہم سوچ سکتے ہیں" کے عنوان سے تھا. اور جو وانیور بش کہہ رہا تھا کہ جس طرح سے ہم معلومات استعمال کرتے ہیں وہ بے ربط ہے. ہم لائبریریوں کے لحاظ سے کام نہیں کرتے اور کیٹلاگ نظام اور اسی طرح. دماغ تنظیم کے طور سے کام کرتا ہے. اپنی سوچ میں ایک جزو کے ساتھ، یہ فوری طور پر اگلے جزو کا تصور کرتا ہے. اور جس طرح سے معلومات کی تشکیل ہوتی ہے وہ اس عمل کا ساتھ دینے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوتا ہے.
And so he suggested a machine, and he called it the memex. And the memex would link information, one piece of information to a related piece of information and so forth. Now this was in 1945. A computer in those days was something the secret services used to use for code breaking. And nobody knew anything about it. So this was before the computer was invented. And he proposed this machine called the memex. And he had a platform where you linked information to other information, and then you could call it up at will.
اور اس لیے اس نے ایک مشین کی تجویز پیش کی، اور اس نے اسے memex کا نام دیا. اور memex معلومات کو منسلک کرے گی. معلومات کا ٹکڑا معلومات کے ایک متعلقہ ٹکڑے سے اور اسی طرح. اب یہ 1945 میں تھا. ان دنوں میں ایک کمپیوٹر خفیہ سروس کوڈ توڑنے کے لئے استعمال کیا کرتی تھی. اور کوئی بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا. تو یہ کمپیوٹر کی ایجاد سے پہلے کا تھا. اور اسنے اس مشین کی تجویز پیش کی جسے memex کہا جاتا ہے. اور اسکے پاس ایک پلیٹ فارم تھا جہاں آپ معلومات دوسرے معلومات سے منسلک کرتے اور پھر آپ اسے حاصل کر سکتے تھے.
So spinning forward, one of the guys who read this article was a guy called Doug Engelbart, and he was a U.S. Air Force officer. And he was reading it in their library in the Far East. And he was so inspired by this article, it kind of directed the rest of his life. And by the mid-60s, he was able to put this into action when he worked at the Stanford Research Lab in California. He built a system. The system was designed to augment human intelligence, it was called. And in a premonition of today's world of cloud computing and softwares of service, his system was called NLS for oN-Line System.
تو آگے بڑھتے ہوئے، ان لوگوں میں سے ایک جس نے اس مضمون کو پڑھا وہ ڈوگ اینگل بارٹ تھا، اور وہ امریکی ایئر فورس کا افسر تھا. اور وہ اسے انکی مشرق بعید کی لائبریری میں پڑھ رہا تھا. اور اسکی اس مضمون سے کافی حوصلہ افزائی ہوئی، یہ ایک طرح سے اسکی باقی زندگی کی سمت متعین کرگئی. اور 60 کی دہائی کے وسط تک، وہ اس قابل تھا کہ اسے کارگر کرے جب اسنے کیلی فورنیا کے سٹینفورڈ ریسرچ لیب میں کام کیا تھا. اس نے ایک نظام بنایا. اسکے بارے میں کہا گیا کہ، یہ نظام انسانی انٹیلی جنس کو بڑھانے کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا. اور آج کی بدلتی دنیا جیسے کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور سافٹ ویئر سروس میں، اس کا نظام NLS کہلایا تھا آن لائن نظام کے لئے.
And this is Doug Engelbart. He was giving a presentation at the Fall Joint Computer Conference in 1968. What he showed -- he sat on a stage like this, and he demonstrated this system. He had his head mic like I've got. And he works this system. And you can see, he's working between documents and graphics and so forth. And he's driving it all with this platform here, with a five-finger keyboard and the world's first computer mouse, which he specially designed in order to do this system. So this is where the mouse came from as well.
اور یہ ڈوگ اینگل بارٹ ہے. وہ موسم خزاں میں مشترکہ کمپیوٹر کانفرنس میں ایک پریزنٹیشن دے رہا تھا 1968 میں. جو اس نے دکھایا -- وہ اسی طرح ایک سٹیج پر بیٹھا تھا، اور اس نے اس نظام کا مظاہرہ کیا. اس کے سر پر مائک تھا جیسا کہ میرے پاس ہے. اور وہ اس نظام پر کام کرتا ہے. اور آپ دیکھ سکتے ہیں، وہ (کمپیوٹر) دستاویزات کے درمیان کام کر رہا ہے اور گرافکس اور اسی طرح. اور وہ یہ سب چلا رہا ہے یہاں اس پلیٹ فارم کے ساتھ، ایک پانچ بٹن کے بورڈ کے ساتھ اور دنیا کا پہلا کمپیوٹر ماؤس، جو اس نے خاص طور پر ڈیزائن کیا تاکہ اس نظام کو چلایا جاسکے. تو یہ ہے جہاں سے ماؤس بھی ساتھ ہی آیا تھا.
So this is Doug Engelbart. The trouble with Doug Engelbart's system was that the computers in those days cost several million pounds. So for a personal computer, a few million pounds was like having a personal jet plane; it wasn't really very practical.
تو یہ ڈوگ اینگل بارٹ ہے. ڈوگ اینگل بارٹ کے نظام کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ ان دنوں کمپیوٹرز کی لاگت کئی ملین پونڈ تھی. لہذا، ایک ذاتی کمپیوٹر کے لئے چند ملین پاؤنڈ، ایک ذاتی جیٹ ہوائی جہاز کی طرح سے تھا، یہ واقعی بہت عملی نہیں ہے.
But spin on to the 80s when personal computers did arrive, then there was room for this kind of system on personal computers. And my company, OWL built a system called Guide for the Apple Macintosh. And we delivered the world's first hypertext system. And this began to get a head of steam. Apple introduced a thing called HyperCard, and they made a bit of a fuss about it. They had a 12-page supplement in the Wall Street Journal the day it launched. The magazines started to cover it. Byte magazine and Communications at the ACM had special issues covering hypertext. We developed a PC version of this product as well as the Macintosh version. And our PC version became quite mature.
80 کی طرف چلتے ہیں جب پرسنل کمپیوٹرز آئے، تو پھر پرسنل کمپیوٹرز پر اس قسم کے نظام کے لئے گنجائش تھی. اور میری کمپنی، OWL نے ایپل میکنٹوش کے لئے گائیڈ، کے نام سےایک نظام بنایا. اور ہم نے دنیا کا پہلا ہایپر ٹیکسٹ نظام فراہم کیا. اور یہ مقابلے میں آگے نکلنے لگا ایپل نے HyperCard نامی ایک چیز متعارف کرائی، اور انہوں نے اسے تھوڑا سا الجھا دیا. انہوں نے اس کے آغاز کے دن وال سٹریٹ جرنل میں ایک 12 صفحے کا ضمیمہ شائع کیا تھا. رسالوں نے اسے کور کرنا شروع کر دیا. بائٹ میگزین اور ACM کے کموینیکیشن میگزین نے hpertext سے متعلق خصوصی طور پر لکھا. ہم نے اس کا ایک PC ورژن تیار کیا ساتھ ساتھ Macintosh ورژن بھی. اور ہمارا PC ورژن کافی مکمل طور پر بن گیا تھا.
These are some examples of this system in action in the late 80s. You were able to deliver documents, were able to do it over networks. We developed a system such that it had a markup language based on html. We called it hml: hypertext markup language. And the system was capable of doing very, very large documentation systems over computer networks.
یہ 80s کے اواخر میں اس نظام کی کارروائی کی کچھ مثالیں ہیں. آپ دستاویزات فراہم کرنے کے قابل تھے، اسے نیٹ ورک پر کرنے کے قابل تھے. ہم نے ایک ایسا نظام تیار کیا کہ یہ HTML مارک اپ (کمپیوٹر) زبان کی بنیاد پر تھا. ہم نے اسے hml کہا : ہایپر ٹیکسٹ مارک اپ کی زبان. اور یہ نظام دستاویزات کے نظام کو بہت، بہت بڑے کمپیوٹر نیٹ ورکس پر کرنے کے قابل تھا.
So I took this system to a trade show in Versailles near Paris in late November 1990. And I was approached by a nice young man called Tim Berners-Lee who said, "Are you Ian Ritchie?" and I said, "Yeah." And he said, "I need to talk to you." And he told me about his proposed system called the World Wide Web. And I thought, well, that's got a pretentious name, especially since the whole system ran on his computer in his office. But he was completely convinced that his World Wide Web would take over the world one day. And he tried to persuade me to write the browser for it, because his system didn't have any graphics or fonts or layout or anything; it was just plain text. I thought, well, you know, interesting, but a guy from CERN, he's not going to do this. So we didn't do it.
تو میں پیرس کے قریب Versailles کے ایک تجارتی شو میں اس نظام کو لے گیا نومبر 1990ء کے اواخر میں. اور مجھ سے ٹم برنرز- لی نامی ایک اچھے نوجوان آدمی کی طرف سے رابطہ کیا گیا جس نے کہا، "کیا آپ ایان رچی ہیں؟" اور میں نے کہا، "ہاں." اور اس نے کہا، "میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں." اور اس نے مجھے اپنے مجوزہ نظام جسے ورلڈ وائڈ ویب کہا جاتا ہے کے بارے میں بتایا. اور میں نے سوچا، اچھی طرح، کہ ایک دکھاوٹی نام ہے، خاص کر جب سارا نظام اس کے دفتر میں اس کے کمپیوٹر پر چل رہا تھا. لیکن اسے پوری طرح سے یقین تھا کہ اس کا ورلڈ وائڈ ویب ایک دن دنیا پر چھا جائے گا. اور اسنے مجھے اس کے واسطے براؤزر لکھنے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کی، کیونکہ اسکے نظام میں کوئی بھی گرافکس یا شبیہیں یا ترتیب کچھ بھی نہیں تھا؛ یہ صرف سادہ متن تھا. میں نے سوچا، اچھا ، آپ جانتے ہیں، دلچسپ، لیکن CERN سے ایک لڑکا، وہ ایسا نہیں کرسکتا. تو ہم نے اسے نہیں کیا.
In the next couple of years, the hypertext community didn't recognize him either. In 1992, his paper was rejected for the Hypertext Conference. In 1993, there was a table at the conference in Seattle, and a guy called Marc Andreessen was demonstrating his little browser for the World Wide Web. And I saw it, and I thought, yep, that's it. And the very next year, in 1994, we had the conference here in Edinburgh, and I had no opposition in having Tim Berners-Lee as the keynote speaker.
اگلے چند سالوں میں، ہایپر ٹیکسٹ کمیونٹی نے بھی اس کو تسلیم نہیں کیا. 1992 میں، اس کا مقالہ ہایپر ٹیکسٹ کانفرنس کے لئے مسترد کر دیا گیا تھا. 1993 میں، سیٹل میں کانفرنس کے دوران ایک میز پر، اور Mark Andreessen نامی ایک لڑکا ورلڈ وائڈ ویب کے لئے اپنے چھوٹے سے براؤزر مظاہرہ کر رہا تھا. اور میں نے اسے دیکھا، اور میں نے سوچا کہ، جی ہاں، بس یہی ہے. اور اگلے ہی سال، 1994ء میں، یہاں ایڈنبرا میں کانفرنس تھی. اور مجھے ٹم برنرز- لی کو کلیدی اسپیکر کے طور پر لینے میں کوئی اختلاف نہیں تھا.
So that puts me in pretty illustrious company. There was a guy called Dick Rowe who was at Decca Records and turned down The Beatles. There was a guy called Gary Kildall who went flying his plane when IBM came looking for an operating system for the IBM PC, and he wasn't there, so they went back to see Bill Gates. And the 12 publishers who turned down J.K. Rowling's Harry Potter, I guess.
تو یہ مجھے کافی شاندار کمپنی میں رکھتا ہے. ایک Dick Rowe نامی لڑکا تھا جس نے Decca ریکارڈز میں تھا اور بیٹلز کو انکار کر دیا تھا. ایک Gary Kildall نامی لڑکا تھا جو اپنا ہوائی جہاز اڑانے چلا گیا جب IBM ایک آپریٹنگ سسٹم کی تلاش میں آیا اپنے IBM PC کے لئے، اور وہ وہاں نہیں تھا، تو وہ واپس چلے گئے گئے، بل گیٹس کو دیکھنے کے لئے. اور 12 پبلشرز جنہوں نے J.K. Rowling کے ہیری پوٹر کو ٹھکرا دیا تھا، مجھے لگتا ہے.
On the other hand, there's Marc Andreessen who wrote the world's first browser for the World Wide Web. And according to Fortune magazine, he's worth 700 million dollars. But is he happy?
دوسری طرف، Mark Andreessen جس نے دنیا میں ورلڈ وائڈ ویب کے لئے سب سے پہلا براؤزر لکھا. اور فارچون میگزین کے مطابق، اس کی مالیت 700 ملین ڈالر ہے. لیکن کیا وہ خوش ہے؟
(Laughter)
(ہنسی)
(Applause)
(تالیاں)