There's an ancient parable about a farmer who lost his horse. And neighbors came over to say, "Oh, that's too bad." And the farmer said, "Good or bad, hard to say." Days later, the horse returns and brings with it seven wild horses. And neighbors come over to say, "Oh, that's so good!" And the farmer just shrugs and says, "Good or bad, hard to say." The next day, the farmer's son rides one of the wild horses, is thrown off and breaks his leg. And the neighbors say, "Oh, that's terrible luck." And the farmer says, "Good or bad, hard to say." Eventually, officers come knocking on people's doors, looking for men to draft for an army, and they see the farmer's son and his leg and they pass him by. And neighbors say, "Ooh, that's great luck!" And the farmer says, "Good or bad, hard to say."
ایک قدیم حکایت ہے جس میں ایک کسان کا گھوڑا گم ہو جاتا ہے۔ اور پڑوسی آ کر کہتے ہیں، "یہ بہت برا ہوا"۔ تو کسان کہتا ہے، " اچھا ہوا یا برا یہ کہنا مشکل ہے۔" کافی دنوں بعد وہ گھوڑا واپس آ جاتا ہے اور اپنے ساتھ مزید سات جنگلی گھوڑے لاتا ہے۔ پڑوسی آ کر کہتے ہیں، "یہ تو بہت اچھا ہوا۔" لیکن کسان محض کندھے اچکاتے ہوئے کہتا " اچھا ہوا یا برا یہ کہنا مشکل ہے۔" اگلے دن کسان کا بیٹا ان جنگلی گھوڑوں میں سے ایک پر سواری کرتا ہے، اور گھوڑے سے گر کر اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھتا ہے۔ اور پڑوسی کہتے ہیں، "یہ تو بڑی بد قسمتی ہوئی۔" لیکن کسان کہتا ہے، " اچھا ہوا یا برا یہ کہنا مشکل ہے۔" آخر کار، حکومتی اہلکار آتے ہیں اور گھر گھر جاتے ہیں، تاکہ مردوں کو فوج میں بھرتی کر سکیں۔ وہ کسان کے بیٹے کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ دیکھتے ہیں اور اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ پڑوسی کہتے ہیں، " یہ تو بہت ہی اچھا ہوا!" کسان کہتا ہے، " اچھا ہوا یا برا یہ کہنا مشکل ہے۔"
I first heard this story 20 years ago, and I have since applied it 100 times. Didn't get the job I wanted: good or bad, hard to say. Got the job I wanted: good or bad, hard to say. To me, the story is not about looking on the bright side or waiting to see how things turn out. It's about how eager we can be to label a situation, to put concrete around it by judging it. But reality is much more fluid, and good and bad are often incomplete stories that we tell ourselves. The parable has been my warning that by gripping tightly to the story of good or bad, I close down my ability to truly see a situation. I learn more when I proceed and loosen my grip and proceed openly with curiosity and wonder.
میں نے یہ کہانی پہلی مرتبہ بیس سال پہلے سنی تھی، اور تب سے میں نے اسے سینکڑوں دفعہ لاگو کیا ہے۔ اپنی پسند کی نوکری نہیں ملی: اچھا ہوا یا برا، کہنا مشکل ہے۔ اپنی پسند کی نوکری مل گئی: اچھا ہوا یا برا، یہ کہنا مشکل ہے۔ میرے لیے اس کہانی کا مقصد روشن پہلو دیکھنا نہیں ہے یا یہ کہ چیزوں کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ یہ اس بارے میں ہے کہ ہم کسی صورتحال کو کوئی نام دینے کے لیے کتنے مشتاق ہیں، کتنی جلدی ہم اسے ٹھوس قرار دے دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت اتنی ٹھوس نہیں ہوتی، اور اچھی اور بری کہانیاں جو ہم اپنے آپ کو سناتے ہیں اکثر نا مکمل ہوتی ہیں۔ یہ حکایت میرے لیے ایک تنبیہ ہے کہ اچھائی اور برائی کی ان کہانیوں پر مضبوط یقین رکھنے سے، میں حقیقی صورتحال کو دیکھنے کی صلاحیت کھو دیتی ہوں۔ میں زیادہ سیکھتی ہوں جب میں آگے بڑھ کر ان کہانیوں پر اپنا یقین کم کرتی ہوں تجسس اور حیرت کے ساتھ کھل کر آگے بڑھتی ہوں۔
But seven years ago, when I was pregnant with my first child, I completely forgot this lesson. I believed I knew wholeheartedly what was good. When it came to having kids, I thought that good was some version of a superbaby, some ultrahealthy human who possessed not a single flaw and would practically wear a cape flying into her superhero future. I took DHA pills to ensure that my baby had a super-high-functioning, supersmart brain, and I ate mostly organic food, and I trained for a medication-free labor, and I did many other things because I thought these things would help me make not just a good baby, but the best baby possible.
لیکن سات سل پہلے، جب میرے پہلے بچے کی پیدائش متوقع تھی، میں نے اس سبق کو یکسر فراموش کر دیا۔ مجے یقین تھا کہ میں دل و جان سے جانتی ہوں کہ اچھا کیا ہے۔ جب بچوں کے ہونے کی بات آئی، میں سمجھتی تھی کہ آپ کا بچہ بہت شاندار ہونا چاہیے، بہترین صحت کا حامل جس میں کوئی ایک بھی نقص نہ ہو جو عملی طور پر کوئی قبا پہنے ہوئے اپنے شاندار مستقبل کی طرف بڑھے۔ میں نے ڈی ایچ اے نامی گولیاں کھائیں تاکہ میرے بچے کے تمام نظام ٹھیک ٹھیک کام کریں، وہ ذہین و فطین ہو، میں نے زیادہ تر دیسی خوراک کھائی، اور میں نے ادویات کے بغیر پیدائش کی تربیت بھی لی، اور میں نے دیگر بہت سی مختلف کام کیے کیونکہ میں سمجھتی تھی کہ یہ چزیں میرے بچے کو اچھا بنانے میں مدد کریں گی، نہ صرف اچھا بلکہ بہترین جو ممکن ہو سکتا ہے۔
When my daughter Fiona was born, she weighed 4 pounds, 12 ounces, or 2.15 kilograms. The pediatrician said there were only two possible explanations for her tiny size. "Either," he said, "it's bad seed," "or it's bad soil." And I wasn't so tired from labor to lose the thread of his logic: my newborn, according to the doctor, was a bad plant. Eventually, I learned that my daughter had an ultra-rare chromosomal condition called Wolf-Hirschhorn syndrome. She was missing a chunk of her fourth chromosome. And although my daughter was good -- she was alive, and she had brand new baby skin and the most aware onyx eyes -- I also learned that people with her syndrome have significant developmental delays and disabilities. Some never learn to walk or talk.
لیکن جب میری بیٹی فیونا پیدا ہوئی تو اس کا وزن چار پاؤنڈ، بارہ اونس تھا۔ یا ڈھائی کلو۔ ماہرِ امراض اطفال نے کہا کہ صرف دو ممکنہ وضاحتیں ہو سکتی ہیں اس کے اتنے کم وزن کی۔ "یا تو بیج برا تھا" اس نے کہا، "یا پھر زمین بری تھی۔" میں پیدائش کی تکلیف سے اتنی بھی تھکی ہوئی نہیں تھی کہ اس بات کا مطلب نہ سمجھ پاتی: ڈاکٹر کے مطابق میرا نومولود بچہ، ایک خراب پودا تھا۔ آخر کار مجھے معلوم ہوا کہ میری بیٹی کو ایک غیر معمولی اور نایاب کروموسوم کی بیماری ہے جسے وولف ہرژیورن کا مرض کہتے ہیں۔ اس کے چوتھے کروموسوم کا ایک حصہ غائب تھا۔ اور اگرچہ میری بیٹی اچھی تھی -- زندہ تھی، اور اس کی بالکل نئے بچوں جیسی جلد تھی اور سب سے بڑھ کر رنگارنگ آنکھیں تھی -- مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس بیماری کے شکار لوگ نشو و نما میں تاخیر اور معذوری کی تکلیف جھیلتے ہیں۔ کچھ کبھی بھی چلنا یا بولنا نہیں سیکھ پاتے۔
I did not have the equanimity of the farmer. The situation looked unequivocally bad to me. But here's where the parable is so useful, because for weeks after her diagnosis, I felt gripped by despair, locked in the story that all of this was tragic. Reality, though -- thankfully -- is much more fluid, and it has much more to teach. As I started to get to know this mysterious person who was my kid, my fixed, tight story of tragedy loosened. It turned out my girl loved reggae, and she would smirk when my husband would bounce her tiny body up and down to the rhythm. Her onyx eyes eventually turned the most stunning Lake Tahoe blue, and she loved using them to gaze intently into other people's eyes. At five months old, she could not hold her head up like other babies, but she could hold this deep, intent eye contact. One friend said, "She's the most aware baby I've ever seen."
میرے پاس کسان جیسا صبر و تحمل نہیں تھا۔ میرے لیے یہ صورتحال واضح طور پر بری تھی۔ لیکن یہاں پر یہ حکایت بہت مفید ہے، کیونکہ اس کی تشخیص کے ہفتوں بعد تک میں نا امیدی میں جکڑی رہی، یہ یقین کیے ہوئے تھی کہ یہ سب بہت المناک ہے۔ لیکن، حقیقت -- شکر ہے -- بہت متغیّر ہوتی ہے، اور اس سے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملتا ہے۔ جیسے جیسے میں نے اس پراسرار شخصیت کو جاننا شروع کیا جو میری بچی تھی، المیے کے بارے میں میرا پختہ اور مستحکم نظریہ بدلنے لگا۔ پتہ چلا کہ میری بیٹی کو ریگے موسیقی بہت پسند تھی، اور وہ مسکراتی تھی جب میرے شوہر اس کے ننھے بدن کو اوپر نیچے اچھالتے تھے موسیقی کی لے کے ساتھ. اس کی رنگا رنگ آنکھیں انتہائی شاندار ٹاہو جھیل جیسی نیلے رنگ کی ہو گئیں، اور اسے دوسرے لوگوں کی آنکھوں میں دیکھنا پسند تھا۔ پانچ ماہ کی عمر میں وہ دوسرے بچوں کی طرح اپنا سر نہیں اٹھا سکتی تھی، لیکن وہ دیر تک آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رکھ سکتی تھی۔ ایک دوست نے کہا "میں نےجنتے بچے دیکھے ہیں یہ ان میں سب سے زیدہ ہوشیار بچی ہے۔"
But where I saw the gift of her calm, attentive presence, an occupational therapist who came over to our house to work with Fiona saw a child who was neurologically dull. This therapist was especially disappointed that Fiona wasn't rolling over yet, and so she told me we needed to wake her neurology up. One day she leaned over my daughter's body, took her tiny shoulders, jostled her and said, "Wake up! Wake up!" We had a few therapists visit our house that first year, and they usually focused on what they thought was bad about my kid. I was really happy when Fiona started using her right hand to bully a dangling stuffed sheep, but the therapist was fixated on my child's left hand. Fiona had a tendency not to use this hand very often, and she would cross the fingers on that hand. So the therapist said we should devise a splint, which would rob my kid of the ability to actually use those fingers, but it would at least force them into some position that looked normal.
لیکن جہاں میں اپنی بیٹی میں ایک پرسکون اور چوکنی شخصیت دیکھ رہی تھی، وہیں ایک پیشہ ور معالج جو فیونا کے لیے ہمارے گھر آتی تھی اس کے لیے فیونا ایک اعصابی طور پر سست بچی تھی۔ یہ معالج خصوصی طور پر اس بات سے مایوس تھی کہ فیونا ابھی تک کروٹ نہیں بدل سکتی، اور اس نے مجھے کہا کہ ہمیں اس کے اعصاب کو جگانا ہو گا۔ ایک دن وہ میری بیٹی کے جسم پر جھکی، اس کے ننھے کندھوں کو تھاما، اور انہیں جھٹکتے ہوئے بولی "جاگو!، جاگو!" پہلے سال میں کئی معالجین ہمارے گھر معائنے کے لیے آئے، اور عموماً ان کی توجہ اس بات پر ہوتی تھی کہ میری بیٹی میں کیا خامیاں ہیں۔ میں بہت خوش تھی جب فیونا نے اپنا دایاں ہاتھ استعمال کرنا شروع کیا اور جھولے پر لٹکتی ایک کھلونا بھیڑ کے ساتھ لڑنے لگی، لیکن معالج کی تمام تر توجہ اس کے بائیں ہاتھ پر تھی۔ فیونا اس ہاتھ کا زیادہ استعمال نہیں کرتی تھی، اور اس ہاتھ کی انگلیاں موڑے رکھتی تھی۔ اس لیے معالج نے تجویز کیا کہ انگلیوں پر پلاسٹر لگا دیا جائے، جس سے بچی انگلیاں استعمال کرنے کے قابل نہیں رہے گی، لیکن اس سے کم از کم انگلیوں کی ساخت فطری لگے گی۔
In that first year, I was starting to realize a few things. One: ancient parables aside, my kid had some bad therapists.
اس پہلے سال میں، مجھے کچھ چیزیں سمجھ آنے لگیں۔ پہلی یہ کہ قدیم حکایت ایک طرف، میری بیٹی کے معالج برے تھے۔
(Laughter)
(قہقہے)
Two: I had a choice. Like a person offered to swallow a red pill or a blue pill, I could choose to see my daughter's differences as bad; I could strive toward the goal that her therapists called, "You'd never know." They loved to pat themselves on the back when they could say about a kid, "You'd never know he was 'delayed' or 'autistic' or 'different.'" I could believe that the good path was the path that erased as many differences as possible. Of course, this would have been a disastrous pursuit, because at the cellular level, my daughter had rare blueprints. She wasn't designed to be like other people. She would lead a rare life. So, I had another choice: I could drop my story that neurological differences and developmental delays and disabilities were bad, which means I could also drop my story that a more able-bodied life was better. I could release my cultural biases about what made a life good or bad and simply watch my daughter's life as it unfolded with openness and curiosity.
دوسری: میرے پاس انتخاب کا حق تھا۔ جیسے کسی شخص کو لال یا نیلی گولی نگلنے کا حق دیا جاتا ہے، میں چایتی تو اپنی بیٹی کی انفرادیت کو برائی کے طور پر دیکھ سکتی تھی؛ میں اس مقصد کی طرف بڑھ سکتی تھی جسے معالج کہتے تھے کہ، "آپ کبھی نہیں جان سکتیں۔" وہ خود کو شاباش دیتے تھے جب وہ کسی بچے کے بارے میں یہ کہہ سکتے تھے کہ، "آپ نہیں جان سکتیں کہ بچے کی نشو و نما رکی ہے یا وہ آٹسٹک یا منفرد ہے۔" میں یقین کر سکتی ہوں کہ صحیح راستہ وہی ہے جو مٹاتا یے زیادہ سے زیادہ فرق کو۔ بلاشبہ یہ ایک تباہ کن جستجو ہوتی، کیونکہ میری بیٹی کے خلیے غیر معمولی طرز پر بنے تھے۔ اسے دوسرے لوگوں کی طرح تخلیق نہیں کیا گیا تھا۔ وہ ایک مختلف زندگی گزارے گی۔ میرے پاس ایک اور انتخاب تھا: میں اپنی یہ کہانی چھوڑ دیتی کہ اعصابی تبدیلیاں اور نشو و نما میں تاخیر و معذوری بری ہے، یعنی میں اپنی یہ کہانی بھی چھوڑ سکتی ہوں کہ ایک صحت مند جسم والی زندگی بہتر ہے۔ میں اپنے ثقافتی تعصب کو بھی چھوڑ سکتی ہوں کہ کیا چیز زندگی کو اچھا یا برا بناتی ہے اور بس دیکھوں کہ میری بیٹی کی زندگی کیا رخ لیتی ہے کھلے دل سے اور تجسس کے ساتھ۔
One afternoon she was lying on her back, and she arched her back on the carpet stuck her tongue out of the side of her mouth and managed to torque her body onto her belly. Then she tipped over and rolled back onto her back, and once there, she managed to do it all over again, rolling and wiggling her 12-pound self under a coffee table. At first, I thought she'd gotten stuck there, but then I saw her reaching for something that her eye had been on all along: a black electric cord. She was a year old. Other babies her age were for sure pulling up to stand and toddling around, some of them. To some, my kid's situation looked bad: a one-year-old who could only roll. But screw that. My kid was enjoying the new, limber freedom of mobility. I rejoiced. Then again, what I watched that afternoon was a baby yanking on an electric cord, so you know, good or bad, hard to say.
ایک سہ پہر وہ کمر کے بل لیٹی ہوئی تھی، اور اس نے قالین پر اپنی کمر کو موڑتے ہوئے محراب بنائی اپنی زبان منہ کے ایک کنارے سے باہر نکالی اور کسی طرح اپنے جسم کو اپنے پیٹ کے گرد مروڑنے میں کامیاب ہو گئی۔ پھر وہ دوبارہ الٹی اور اپنی کمر کے بل واپس لیٹ گئی، ایک دفعہ یہ کرنے کے بعد اس نے یہ سب دوبارہ دہرایا، اپنے 12 پاونڈ کے جسم کو کافی ٹیبل کے نیچے گھماتی اور بل کھاتی رہی۔ پہلے مجھے لگا کہ شاید وہ نیچے پھنس گئی ہے، لیکن میں نے دیکھا وہ کچھ پکڑنا چاہ رہی ہے جس سے اس کی آنکھ ایک بار بھی نہیں ہٹی تھی: ایک سیاہ بجلی کی تار۔ وہ ایک سال کی تھی، اس کی عمر کے دوسرے بچے یقیناً کھڑے ہونے اور چلنے کی کوشش کرتے ہیں، ان میں سے کچھ۔ کچھ لوگوں کے لیے میرے بچے کی صرتحال بہت خراب تھی: ایک سال کی بچی جو صرف بل کھا سکتی ہے۔ لیکن کسے پرواہ ہے۔ میری بیٹی اس نئی لچکدار حرکت کی آزادی سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اور میں مسرور تھی۔ اور پھر اس سہ پہر میں نے اپنے بچے کو وہ بجلی کی تار اکھاڑتے دیکھا، اسی لیے، اچھا یا برا، کہنا مشکل ہے۔
(Laughter)
(قہقہے)
I started seeing that when I released my grip about what made a life good or bad, I could watch my daughter's life unfold and see what it was. It was beautiful, it was complicated, joyful, hard -- in other words: just another expression of the human experience.
میں نے محسوس کیا کہ جب میں اس نظریے پہ اپنا یقین کم کرتی ہوں کہ کیا چیز زندگی کو اچھا یا برا بناتی ہے، تو میں اپنی بیٹی کی زندگی کو نئے موڑ لیتے دیکھ سکتی ہوں۔ یہ خوبصورت تھی، پیچیدہ تھی، خوشیوں بھری، مشکل -- دوسرے لفظوں میں: وہ صرف انسانی تجربے کا ایک اور اظہار تھی۔
Eventually, my family and I moved to a new state in America, and we got lucky with a brand-new batch of therapists. They didn't focus on all that was wrong with my kid. They didn't see her differences as problems to fix. They acknowledged her limitations, but they also saw her strengths, and they celebrated her for who she was. Their goal wasn't to make Fiona as normal as possible; their goal was simply to help her be as independent as possible so that she could fulfill her potential, however that looked for her.
آخر کار، میں اور میرا خاندان امریکہ کی ایک اور ریاست میں چلے گئے، اور ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں نئے معالج مل گئے۔ ان کی توجہ صرف اس بات پر نہیں تھی کہ میرے بچے کے کیا مسائل ہیں۔ انہوں نے اس کی انفرادیت کو حل طلب مسائل کی طرح نہیں لیا۔ انہوں نے نہ صرف اس کی حُدود کو مانا، بلکہ اس کی صلاحیتیوں کو بھی مانا، اور وہ جیسی تھی اس کو ویسے لے کر خوش تھے۔ ان کا مقصد فیونا کو جتنا ہو سکے اتنا عام بچوں جیسا بنانا نہیں تھا؛ ان کا مقصد اسے ممکن حد تک خود مختار بنانا تھا تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر سکے، وہ اس کے لیے جیسا بھی ہو۔
But the culture at large does not take this open attitude about disabilities. We call congenital differences "birth defects," as though human beings were objects on a factory line. We might offer pitying expressions when we learn that a colleague had a baby with Down syndrome. We hail a blockbuster film about a suicidal wheelchair user, despite the fact that actual wheelchair users tell us that stereotype is unfair and damaging. And sometimes our medical institutions decide what lives are not worth living. Such is the case with Amelia Rivera, a girl with my daughter's same syndrome. In 2012, a famous American children's hospital initially denied Amelia the right to a lifesaving kidney transplant because, according to their form, as it said, she was "mentally retarded." This is the way that the story of disabilities as bad manifests in a culture.
لیکن ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر معذوری کے بارے میں اتنا روشن خیال نہیں۔ ہم پیدائشی انفرادیت کو " پیدائشی نقائص" کہتے ہیں، جیسے کہ انسان کسی کارخانے میں بننے والی کوئی چیز ہو۔ ہم ترحم بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی ساتھی کے بچے کو ڈاون سنڈروم ہے۔ ہم کسی جسمانی معذور کی خود کشی کی کوشش پر ایک دھماکے دار فلم بنا لیتے ہیں، چاہے حقیقت میں جسمانی طور پر معذور افراد ہمیں یہ بتاتے ہوں کہ یہ دقیانوسی بات، بے جا اور ضرر رساں ہے۔ اور بعض اوقات ہمارے طبی ادارے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون زندہ رہنے کے قابل نہیں۔ ایسا ہی ایک کیس ایملیا ریورہ کا ہے، اس بچی کو بھی وہی بیماری تھی جو میری بیٹی کو تھی۔ 2012 میں بچوں کے ایک مشہور امریکی ہسپتال نے ابتدا میں ایملیا کا گردہ تبدیل کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کے مطابق، وہ "دماغی معذور" تھی۔ اس طرح معذوری کے بارے میں برا نظریہ پنپتا ہے کسی معاشرے میں.
But there's a surprisingly insidious counterstory -- the story, especially, that people with intellectual disabilities are good because they are here to teach us something magical, or they are inherently angelic and always sweet. You have heard this ableist trope before: the boy with Down syndrome who's one of God's special children, or the girl with the walker and the communication device who is a precious little angel. This story rears its head in my daughter's life around Christmastime, when certain people get positively giddy at the thought of seeing her in angel's wings and a halo at the pageant. The insinuation is that these people don't experience the sticky complexities of being human. And although at times, especially as a baby, my daughter has, in fact, looked angelic, she has grown into the type of kid who does the rascally things that any other kid does, such as when she, at age four, shoved her two-year-old sister. My girl deserves the right to annoy the hell out of you, like any other kid.
لیکن ایک حیرت انگیز اور فریبی کہانی بھی موجود ہے -- کہانی کہ دماغی بیماری کے ساتھ پیدا ہونے والے لوگ اچھے ہیں کیونکہ وہ اس دنیا میں ہمیں کچھ جادوئی سکھانے آئے ہیں، یا یہ کہ وہ فطرتاً فرشتہ صفت اور شیریں ہوتے ہیں۔ آپ نے یہ معذوری کے مطلق استعارہ تو سن رکھا ہو گا: وہ ڈاون سنڈروم کا شکار لڑکا جو خدا کا خا ص بچہ تھا، یا وہ لڑکی جس کے پاس واکر اور رابطے کا آلہ تھا جو ایک ننھی سی انمول فرشتہ تھی۔ یہ کہانی میری بیٹی کی زندگی کا پیچھا کرتی ہے کرسمس کے دنوں میں، جب کچھ لوگ بہت بے قرار ہوتے ہیں میری بیٹی کو فرشتوں کے پروں اور تاج میں دیکھنے کے لیے نمائش کی تقریب میں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ ان بے ڈھب پیچیدگیوں سے نہیں گزرتے جو انسان ہونے میں درپیش ہیں۔ اور اگرچہ بعض اوقات، خصوصاً ایک بچی کے طور پر، میری بیٹی فرشتوں کی مانند نظر آتی تھی، وہ ایسے بچے کی طرح بن گئی ہے جو وہ تمام فضول حرکات کرتی ہے جو کوئی بھی دوسرا بچہ کرتا ہے، جیسا کہ جب وہ چار سال کی تھی تو اس نے اپنی دو سالہ بہن کو دھکا دے دیا۔ میری بیٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آپ کی ناک میں دم کر دے، بالکل باقی بچوں کی طرح۔
When we label a person tragic or angelic, bad or good, we rob them of their humanity, along with not only the messiness and complexity that that title brings, but the rights and dignities as well. My girl does not exist to teach me things or any of us things, but she has indeed taught me: number one, how many mozzarella cheese sticks a 22-pound human being can consume in one day -- which is five, for the record; and two, the gift of questioning my culture's beliefs about what makes a life good and what makes life bad.
جب ہم کسی شخص کو قابل رحم یا فرشتہ صفت قرار دے دیتے ہیں، یا اچھا یا برا، ہم ان سے ان کی انسانیت چھین لیتے ہیں، اور اس کے ساتھ نہ صرف بے ترتیبی اور پیچیدگی جو اس لقب کے ساتھ آتی ہے، بلکہ حقوق اور عزت بھی چھین لیتے ہیں۔ میری بیٹی اس لیے پیدا نہیں ہوئی کہ وہ مجھے کچھ سکھائے یا کسی کو بھی کچھ سکھائے، لیکن اس نے بلا شبہ مجھے سکھایا ہے: پہلا یہ کہ موزریلا پنیر کے کتنے ٹکڑے ایک 22 پاؤنڈ کا انسان ایک دن میں کھا سکتا ہے -- جو کہ پانچ ہیں، سب کی اطلاع کے لیے؛ اور دوسرا، اپنے ثقافتی عقائد پر سوال اٹھانے کا تحفہ کہ کیا چیز زندگی کو بہتر بناتی ہے اور کیا برا بناتی ہے۔
If you had told me six years ago that my daughter would sometimes use and iPad app to communicate, I might have thought that was sad. But now I recall the first day I handed Fiona her iPad, loaded with a thousand words, each represented by a tiny little icon or little square on her iPad app. And I recall how bold and hopeful it felt, even as some of her therapists said that my expectations were way too high, that she would never be able to hit those tiny targets. And I recall watching in awe as she gradually learned to flex her little thumb and hit the buttons to say words she loved, like "reggae" and "cheese" and a hundred other words she loved that her mouth couldn't yet say. And then we had to teach her less-fun words, prepositions -- words like "of" and "on" and "in." And we worked on this for a few weeks. And then I recall sitting at a dining room table with many relatives, and, apropos of absolutely nothing, Fiona used her iPad app to say, "poop in toilet."
اگر چھ سال پہلے مجھے یہ بتایا جاتا کہ میری بیٹی بات کرنے کے لیے آئی پیڈ کی ایپ استعمال کرے گی، تو شاید میں سوچتی کہ یہ کتنا افسوسناک ہے۔ لیکن آج جب وہ پہلا دن یاد کروں جب میں نے فیونا کو اس کا آئی پیڈ پکڑایا تھا، ہزاروں الفاظ سے بھرا ہوا، اس کے آئی پیڈ ایپ پر ہر لفظ کو ایک چھوٹا نشان یا چوکور نشان ظاہر کرتا ہے۔ اور مجھے یاد ہے کہ یہ سب کتنا با حوصلہ اور امید افزا حسوس ہوا تھا، حتیٰ کہ اس کے کچھ معالجین نے بھی کہا کہ میری توقعات بہت زیادہ ہیں، اور یہ کہ وہ کبھی ان چھوٹے اہداف کو نہیں چھو سکے گی۔ اور مجھے یاد ہے اپنی حیرت جب اس نے آہستہ آہستہ سیکھا اپنے ننھے انگوٹھے کو موڑنا اور بھر ان بٹنوں کو دبانا جو وہ الفاظ کہہ سکیں جو اسے پسند تھے، مثلاً "ریگے" اور " پنیر" اور وہ سینکڑوں پسندیدہ الفاظ جنہیں ابھی وہ زبان سے ادا نہیں کر سکتی۔ اور پھر ہم نے وہ پھیکے الفاظ بھی سکھائے، حروف جار وغیرہ -- جیسے ""کے" اور"پر" اور "میں." اور ہم نے اس پر چند ہفتے کام کیا۔ اور پھر مجھے یاد آتا ہے کھانے کی میز پر بیٹھنا بہت سے رشتہ داروں کے ساتھ، اور بنا کسی وجہ یا موقع کے، فیونا کا اپنے آئی پیڈ ایپ کو یہ کہنے کے لیے استعمال کرنا، "ٹٹی باتھ روم میں"۔
(Laughter)
(قہقہے)
Good or bad, hard to say.
اچھا یا برا، کہنا مشکل ہے۔
(Laughter)
(قہقہے)
My kid is human, that's all. And that is a lot.
میری بیٹی ایک انسان ہے، یہی حقیقت ہے۔ اور یہ کافی ہے۔
Thank you.
شکریہ۔
(Applause)
( تالیاں)