"All I wanted was a much-deserved promotion, and he told me to 'Get up on the desk and spread 'em.'"
میں صرف ایک جائز ترقی چاہتی تھی، اور اس نے مجھ سے کہا ’میزپر چڑھو اور لیٹ جاؤ۔‘
"All the men in my office wrote down on a piece of paper the sexual favors that I could do for them. All I had asked for was an office with a window."
میرے دفتر کے تمام مردوں نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر وہ تمام جنسی احسان لکھ دیئے جو میں ان پرکرسکتی تھی۔ میں نے تو ان سے محض کھڑکی والا آفس مانگا تھا۔
"I asked for his advice about how I could get a bill out of committee; he asked me if I brought my kneepads."
میں نے اس سے رائے مانگی، کمیٹی سے بل کیسے پاس ہوگا: اس نے مجھے کہا، اگر میں اپنے گھٹنوں کہ بل بیٹھ جاؤں تو۔
Those are just a few of the horrific stories that I heard from women over the last year, as I've been investigating workplace sexual harassment. And what I found out is that it's an epidemic across the world. It's a horrifying reality for millions of women, when all they want to do every day is go to work. Sexual harassment doesn't discriminate. You can wear a skirt, hospital scrubs, army fatigues. You can be young or old, married or single, black or white. You can be a Republican, a Democrat or an Independent. I heard from so many women: police officers, members of our military, financial assistants, actors, engineers, lawyers, bankers, accountants, teachers ... journalists. Sexual harassment, it turns out, is not about sex. It's about power, and about what somebody does to you to try and take away your power. And I'm here today to encourage you to know that you can take that power back.
یہ تو صرف چند ہولناک کہانیاں ہیں جو میں نے پچھلے ایک سال میں خواتین سے سنیں۔ جب کہ میں دفاتر میں جنسی ہراساں کرنے پر تحقیق کررہی تھی۔ اور مجھے یہ پتہ چلا کہ یہ تو پوری دنیا میں پھیلے ایک وبائی مرض کی طرح ہے۔ یہ لاکھوں عورتوں کے لئے ایک ہولناک سچ ہے، جب کہ وہ روزمرہ عام حالت میں محض اپنے کام پر جانا چاہتی ہیں۔ جنسی ہراساں کرنا کوئی تفریق نہیں رکھتا۔ آپ ایک اسکرٹ پہنے ہوں ہسپتال کا یونیفارم، یا کہ فوجی وردی۔ آپ جوان ہوں یا بوڑھی، شادی شدہ ہوں یا کنواری۔ سیاہ یا سفید فام۔ آپ ریپبلکن، یا ڈیکوکریٹ یا آزاد کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ میں نے بہت سی عورتوں سے سنا ہے: پولیس آفیسرز، فوج کے عہدیدار، مالی امور کے معاون، اداکار، انجینیئرز، قانون دان، بینکرز، اکاونٹنٹس، اساتذہ ۔۔۔ صحافی۔ جنسی ہراساں کرنا۔ اس کا وجود، جنسیت ہی کہ لئے نہیں۔ یہ طاقت کا معاملہ ہے، اور یہ کہ کسی نے آپ کے ساتھ کیا کیا آپ کی طاقت کو آپ سے چھین لینے کے لئے۔ اورمیں، آج یہاں آپ کو یہ حوصلہ دینے آئی ہوں کہ آپ وہ طاقت واپس لے سکتی ہیں۔
(Applause)
(تالیاں)
On July 6, 2016, I jumped off a cliff all by myself. It was the scariest moment of my life; an excruciating choice to make. I fell into an abyss all alone, not knowing what would be below. But then, something miraculous started to happen. Thousands of women started reaching out to me to share their own stories of pain and agony and shame. They told me that I became their voice -- they were voiceless. And suddenly, I realized that even in the 21st century, every woman still has a story.
6 جولائی، سن 2016 کو، میں نے خود کو ایک چٹان سے گرا دیا تھا۔ وہ لمحہ میری زندگی کا ہولناک ترین لمحہ تھا: ایک اذیت ناک فیصلہ۔ میں تنہا ایک گہری کھائی میں گر گئی تھی یہ جانے بغیر کہ نیچے کیا ہوگا۔ مگر تب کچھ معجزاتی سا ہونے لگا۔ ہزاروں عورتیں میرے پاس آنے لگیں اپنی درد، اذیت اور شرمندگی سے بھرپور کہانیاں سنانے۔ انھوں نے مجھے کہا کہ میں ان کی آواز بن گئی ہوں ان کی کوئی شنوائی نہیں تھی۔ اور اچانک، مجھے احساس ہوا کہ اکیسویں صدی میں بھی، ہر عورت کی ایک کہانی ہے۔
Like Joyce, a flight attendant supervisor whose boss, in meetings every day, would tell her about the porn that he'd watched the night before while drawing penises on his notepad. She went to complain. She was called "crazy" and fired. Like Joanne, Wall Street banker. Her male colleagues would call her that vile c-word every day. She complained -- labeled a troublemaker, never to do another Wall Street deal again. Like Elizabeth, an army officer. Her male subordinates would wave one-dollar bills in her face, and say, "Dance for me!" And when she went to complain to a major, he said, "What? Only one dollar? You're worth at least five or ten!"
جیسے کہ جوئیس، ایک فضائی خدمت گار، جس کا افسر، ہر روز کی میٹنگز میں، اسے اپنی پچھلی رات کی دیکھی ہوئی فحش فلم کی کہانی سناتا اور ساتھ ہی عضوتناسل کی تصویریں بناتا جاتا۔ اس نے شکایت کی کوشش کی۔ اسے پاگل کہہ کر نوکری سے نکال دیا گیا۔ جیسے کہ وال اسٹریٹ بینکر، جواین۔ اس کے دفتر کے مرد اسے "C" سے شروع ہونے والے بے ہودہ لفظ سے بلاتے ۔ اس نے شکایت کی ۔۔ فسادی کا خطاب مل گیا۔ وال اسٹریٹ میں مزید کام کرنے سے قاصر کردیا گیا۔ جیسے کہ ایلزبیتھ، ایک فوج کی افسر۔ اس کے مرد ماتحت اس کے منہ پر ایک ڈالر کا نوٹ لہراتے، اور کہتے، ’’ہمارے لئے ناچو‘‘ اور جب وہ شکایت لے کر میجر کی پاس پہنچی، تو وہ بولا ’کیا؟ صرف ایک ڈالر؟ تم کم از کم پانچ یا دس کے قابل تو ہو!‘
After reading, replying to all and crying over all of these emails, I realized I had so much work to do. Here are the startling facts: one in three women -- that we know of -- have been sexually harassed in the workplace. Seventy-one percent of those incidences never get reported. Why? Because when women come forward, they're still called liars and troublemakers and demeaned and trashed and demoted and blacklisted and fired. Reporting sexual harassment can be, in many cases, career-ending. Of all the women that reached out to me, almost none are still today working in their chosen profession, and that is outrageous.
پڑھنے کے بعد، سب کو جواب دینا اور ان تمام ای میلز پر رونا۔ مجھے ایسا ہوا کہ مجھے بہت کام کرنا ہے۔ پیش ہیں چند چونکا دینے والے حقائق: ہمارے حلقوں میں ۔۔ ہر تیسری عورت ۔۔ اپنے دفتر میں جنسی ہراساں کی جاچکی ہے۔ ان میں سے 71 فیصد واقعات کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ کیوں؟ کیوں کہ جب عورت آگے آتی ہے، انھیں جھوٹا اور فسادی کہا جاتا ہے۔ اور گری ہوئی اور قابل تذلیل ہتک آمیز اور بکواس اور نوکری سے فارغ۔ جنسی ہراساں کرنے کے خلاف رپورٹ کرنے سے اکثر واقعات میں، روزگار ختم ہوجاتی ہے, مجھ تک پہنچنے والی تقریباً تمام ہی خواتین، آج ان کی اکثریت اپنی من چاہی نوکری سے محروم ہے، اور یہ زیادتی کی انتہا ہے۔
I, too, was silent in the beginning. It happened to me at the end of my year as Miss America, when I was meeting with a very high-ranking TV executive in New York City. I thought he was helping me throughout the day, making a lot of phone calls. We went to dinner, and in the back seat of a car, he suddenly lunged on top of me and stuck his tongue down my throat. I didn't realize that to "get into the business" -- silly me -- he also intended to get into my pants. And just a week later, when I was in Los Angeles meeting with a high-ranking publicist, it happened again. Again, in a car. And he took my neck in his hand, and he shoved my head so hard into his crotch, I couldn't breathe. These are the events that suck the life out of all of your self-confidence. These are the events that, until recently, I didn't even call assault. And this is why we have so much work to do.
میں خود ابتدا میں خاموش ہی تھی۔ یہ میرے مس امریکہ بننے والے سال کے آخر میں ہوا تھا، جب میں ٹی وی کی ایک بہت بڑی شخصیت سے ملاقات کررہی تھی نیویارک شہر میں۔ میں سمجھی تھی کہ وہ سارا دن میری مدد کررہا ہے بہت سی فون کالز کرکے۔ ہم ڈنر پر گئے، اور کار کی پچھلی سیٹ پر وہ اچانک مجھ پر چڑھ دوڑا اور اپنی زبان میرے حلق میں پھنسا دی۔ میں پگلی تھی، سمجھی ہی نہیں، ’چلو کام میں لگ جانے کا مطلب ۔۔۔ وہ میری پینٹ میں بھی گھسنا چاہتا تھا۔ اور صرف ایک ہفتہ بعد، جب میں لاس اینجلس میں تھی ایک بڑے مشتہر سے ملاقات کے لئے ویسا ہی دوبارہ ہوا دوبارہ کار میں۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں میری گردن دبوچ لی۔ اس نے اپنی ٹانگوں کے بیچ میں میرے سر کو بہت سختی سے جھٹکا دیا، میں سانس نہیں لے پا رہی تھی۔ یہ ایسے موقع ہوتے ہیں جب ہم اپنی ساری زندگی کی خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں، یہاں تک کہ ابھی کچھ دن پہلے تک۔ میں تو اسے حملہ بھی ںہیں کہتی۔ تھی۔ اسی وجہ سے ہمیں ابھی بہت کام کرنا ہے۔
After my year as Miss America, I continued to meet a lot of well-known people, including Donald Trump. When this picture was taken in 1988, nobody could have ever predicted where we'd be today.
میرے مس امریکہ بننے والے سال کے بعد، میں بہت سے مشہور لوگوں سے ملتی جلتی رہی، جن میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں۔ 1988 میں جب یہ تصویر لی گئی تھی، کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ ہم جہاں آج ہیں وہاں ہوں گے
(Laughter)
(قہقہے)
Me, fighting to end sexual harassment in the workplace; he, president of the United States in spite of it.
میں، دفاتر میں جنسی ہراساں کرنے کے خلاف جنگ کرتے ہوئے: وہ، امریکہ کا صدر اس سب کے باوجود۔
And shortly thereafter, I got my first gig in television news in Richmond, Virginia. Check out that confident smile with the bright pink jacket. Not so much the hair.
اس کے کچھ دن بعد ہی ٹی وی پر مجھے میرا پہلا پروگرام مل گیا رچمنڈ، ورجینیا میں۔ چمکدار گلابی جیکٹ میں اس پراعتماد مسکراہٹ کو دیکھئے۔ زیادہ بالوں کی طرف نہیں۔
(Laughter)
(قہقہے)
I was working so hard to prove that blondes have a lot of brains. But ironically, one of the first stories I covered was the Anita Hill hearings in Washington, DC. And shortly thereafter, I, too, was sexually harassed in the workplace. I was covering a story in rural Virginia, and when we got back into the car, my cameraman started saying to me, wondering how much I had enjoyed when he touched my breasts when he put the microphone on me. And it went downhill from there. I was bracing myself against the passenger door -- this was before cellphones. I was petrified. I actually envisioned myself rolling outside of that door as the car was going 50 miles per hour like I'd seen in the movies, and wondering how much it would hurt.
میں سنہرے بالوں والیوں کی عقلمندی ثابت کرنے کے لئے بہت محنت کررہی تھی۔ پر ستم یہ ہوا کہ جو سب سے پہلی کہانی میں نے کی وہ واشنگٹن میں انیتا ہل کی عدالتی کاروائی کی تھی۔ اس کے کچھ بعد ہی، مجھے بھی دفتر میں جنسی ہراساں کیا گیا۔ میں دیہی ورجینیا میں ایک کہانی پر کام کر رہی تھی، اور جب ہم کار میں واپس آئے تو، میرا کیمرہ مین مجھ سے کہنے لگا، سوچتا ہوں کتنا مزہ آیا تھا جب اس نے میرے پستان چھوئے تھے جب وہ مجھے مائکروفون لگا رہا تھا۔ اس کے بعد گراوٹ جیسے بڑھتی ہی گئی۔ میں خود کو بیرونی دروازے کی طرف دھکیل رہی تھی ۔۔ یہ موبائل فون سے پہلے کی بات ہے۔ میں خوف سے جم سی گئی تھی۔ میں صرف کسی طرح اس دروازے سے باہر نکلنا چاہ رہی تھی جب کہ کار کسی فلمی انداز میں 50 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی۔ سوچ رہی تھی کہ ایسا کرنے سے کتنی چوٹ لگے گی۔
When the story about Harvey Weinstein came to light -- one the most well-known movie moguls in all of Hollywood -- the allegations were horrific. But so many women came forward, and it made me realize what I had done meant something.
جب ہاروے وائنسٹین کی کہانی دنیا کے سامنے آئی ۔۔ جو کہ ہالی وڈ کی ایک جانی مانی اور انتہائی مضبوط شخصیت کا مالک تھا ۔۔ الزامات بے حد خوفناک تھے۔ مگر بہت سی خواتین سامنے آگئیں، اس سے مجھے لگا کہ جو میں نے کیا وہ واقعی اہمیت کا حامل تھا۔
(Applause)
(تالیاں)
He had such a lame excuse. He said he was a product of the '60s and '70s, and that that was the culture then. Yeah, that was the culture then, and unfortunately, it still is. Why? Because of all the myths that are still associated with sexual harassment.
اس کے جوابات بہت بکواس تھے اس نے کہا وہ تو 60 اور 70 کی دہائی کا انسان ہے۔ اور اس وقت تو یہ ایک عام سی بات تھی۔ ہاں، اس وقت یہ عام سی بات تھی، اور بدقسمتی سے یہ اب بھی ہے۔ کیوں؟ ان تمام غلط تصورات کی وجہ سے جو اب بھی جنسی ہراساں کرنےسے جڑے ہوئے ہیں۔
"Women should just take another job and find another career." Yeah, right. Tell that to the single mom working two jobs, trying to make ends meet, who's also being sexually harassed.
’عورتوں کو کوئی دوسری نوکری یا کام ڈھونڈ لینا چاہئے۔‘ ہاں، صحیح بات ہے۔ یہ بات دو نوکریاں کرنے والی تنہا ماں کو بتائیں جو اخراجات کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہو۔ اور جسے جنسی ہراساں بھی کیا گیا ہو۔
"Women -- they bring it on themselves." By the clothes that we wear and the makeup that we put on. Yeah, I guess those hoodies that Uber engineers wear in Silicon Valley are just so provocative.
’’عورتیں ۔۔ ان واقعات کو ہوا دے کر وجوہات کا سبب خود بنتی ہیں ۔‘‘ کپڑوں کی وجہ سے جو ہم پہنتی ہیں اور وہ میک اپ جو ہم کرتی ہیں۔ ہاں وہ hoodie جو سیلیکون ویلی میں Uber کے انجینئیرز پہنتے ہیں کافی اشتہا انگیز ہوتی ہیں۔
"Women make it up." Yeah, because it's so fun and rewarding to be demeaned and taken down. I would know.
’’یہ سب عورتیں کرتی ہیں۔‘‘ ہاں، کیوں کہ یہ بڑا مزیدار اور تعریف کے قابل ہوتا ہے کہ خود کو بے معنی اور تذلیل شدہ بنایا جائے۔ ہاں میں جانتی ہوں۔
"Women bring these claims because they want to be famous and rich." Our own president said that. I bet Taylor Swift, one of the most well-known and richest singers in the world, didn't need more money or fame when she came forward with her groping case for one dollar. And I'm so glad she did.
’’خواتین یہ سب دعوے مالدار اور مشہور ہونے کے لئے کرتی ہیں‘‘۔ ہمارا اپنا صدر یہی کہتا ہے۔ میں شرط لگا سکتی ہوں کہ ٹیلر سوئفٹ جو، دنیا کی ایک مشہور اور امیر ترین گلوکارہ ہے، اسے مزید شہرت اور پیسے کی ضرورت نہیں مگر جب وہ خود پر زیادتی کا کیس سامنے لائی صرف ایک ڈالر کے لئے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس نے ایسا کیا۔
Breaking news: the untold story about women and sexual harassment in the workplace: women just want a safe, welcoming and harass-free environment. That's it.
فوری خبر: خواتین کو دفاتر میں جنسی ہراساں کرنے سے متعلق ان کہی کہانی: خواتین محض ایک محفوظ، خوش گوار اور ہراساں نہ کرنے والا ماحول چاہتی ہیں۔ بس یہی ہے۔
(Applause)
(تالیاں)
So how do we go about getting our power back? I have three solutions.
تو ہم اپنی کھوئی طاقت دوبارہ کیسے حاصل کریں گے؟ میرے پاس تین حل ہیں۔
Number one: we need to turn bystanders and enablers into allies. Ninety-eight percent of United States corporations right now have sexual harassment training policies. Seventy percent have prevention programs. But still, overwhelmingly, bystanders and witnesses don't come forward. In 2016, the Harvard Business Review called it the "bystander effect." And yet -- remember 9/11. Millions of times we've heard, "If you see something, say something." Imagine how impactful that would be if we carried that through to bystanders in the workplace regarding sexual harassment -- to recognize and interrupt these incidences; to confront the perpetrators to their face; to help and protect the victims. This is my shout-out to men: we need you in this fight. And to women, too -- enablers to allies.
نمبر ایک: ہمیں خاموش تماشائیوں اور وجہ بننے والوں کو اتحادی بنانا ہوگا۔ آج کے دور میں 98 فیصد امریکی اداروں میں جنسی ہراساں کرنے سے متعلق تربیت کی پالیسی ہے۔ 70 فیصد کے پاس اس سے بچت کے پروگرامز ہیں۔ مگر اب بھی، بے انتہا خاموش تماشائی اورگواہ سامنے نہیں آتے۔ 2016 میں، ہارورڈ بزنس ریویو نے اسے ’’خاموش تماشائیوں کا اثر‘‘ قرار دیا۔ اور اب تک ۔۔ 9 ستمبر کو یاد کریں، ہم لاکھوں بار سن چکے ہیں، ’’اگر تم کچھ دیکھو، تو کچھ بولو۔‘‘ ذرا سوچئے، یہ کتنا اثر انگیز ہو اگر ہم اسے باور کرواسکیں دفاتر میں جنسی بددیانتی کے خاموش تماشائیوں کو کہ ۔۔ وہ ایسے واقعات کی نشاندہی اور ان میں مداخلت کریں: ایسے مجرموں کےسامنے آکر کھڑے ہوں: متاثرین کی مدد اور ان کی حفاظت کریں۔ میری یہ صدا ان مردوں کے لئے ہے: ہمیں اس لڑائی میں آپ کی ضرورت ہے۔ اور خواتین کی بھی ۔۔۔ وجہ بننے والوں سے لے کر اتحادیوں تک۔
Number two: change the laws. How many of you out there know whether or not you have a forced arbitration clause in your employment contract? Not a lot of hands. And if you don't know, you should, and here's why. TIME Magazine calls it, right there on the screen, "The teeny tiny little print in contracts that keeps sexual harassment claims unheard." Here's what it is. Forced arbitration takes away your Seventh Amendment right to an open jury process. It's secret. You don't get the same witnesses or depositions. In many cases, the company picks the arbitrator for you. There are no appeals, and only 20 percent of the time does the employee win. But again, it's secret, so nobody ever knows what happened to you. This is why I've been working so diligently on Capitol Hill in Washington, DC to change the laws. And here's what I tell the Senators: sexual harassment is apolitical. Before somebody harasses you, they don't ask you if you're a Republican or Democrat first. They just do it. And this is why we should all care.
نمبر دو: قوانین میں تبدیلی لائیں۔ آپ میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے پاس جبری ثالثی کی شق موجود ہے یا نہیں آپ کی ملازمت کے معاہدہ میں؟ ہاتھ زیادہ تو نہیں ہیں۔ اگر نہیں جانتے، تو جاننا چاہئے۔ میں بتاتی ہوں کیوں۔ ٹائم میگزین کے مطابق، بالکل سامنے اسکرین پر، ’معاہدوں میں چَھپے ہوئےباریک الفاظ دراصل جنسی زیادتیوں کو پوشیدہ رکھنے کی اصل وجہ ہیں۔‘ سنئے یہ کیا ہے۔ جبری ثالثی آپ سےساتویں ترمیم کا حق چھین لیتی ہے جس سےکھلی کچہری ممکن ہوتی ہے۔ یہ راز ہے۔ آپ کو ویسی گواہیاں اور گواہی نامے نہیں ملتے۔ زیادہ تر واقعات میں ادارہ آپ کے لئے خود ثالث متعین کرتا ہے۔ اپیل کا کوئی امکان نہیں، اور محض 20 فیصد ہی ملازمین جیت پاتے ہیں۔ مگر پھر، یہ ایک راز ہے، تاکہ کوئی جان ہی نہ سکے کہ آپ کے ساتھ ہوا کیا تھا۔ اسی لئے میں بہت احتیاط سے کام کر رہی ہوں۔ واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹول ہل پر قوانین کی تبدیلی کے لئے، اور یہ ہے جو میں سینیٹرز کو بتاتی ہوں: جنسی ہراساں کرنا غیر سیاسی ہے۔ جب کوئی آپ کو ہراساں کرتا ہے تو وہ یہ نہیں پوچھتا کہ آپ ڈیموکریٹ ہیں یا ریپبلکن۔ وہ صرف ایسا کردیتے ہیں۔ اور اسی لئے ہم سب کو اس کا خیال کرنا چاہئے۔
Number three: be fierce. It starts when we stand tall, and we build that self-confidence. And we stand up and we speak up, and we tell the world what happened to us. I know it's scary, but let's do it for our kids. Let's stop this for the next generations. I know that I did it for my children. They were paramount in my decision-making about whether or not I would come forward. My beautiful children, my 12-year-old son, Christian, my 14-year-old daughter, Kaia. And boy, did I underestimate them.
نمبر تین: سخت بنے رہئے۔ اس کی ابتدا ہوتی ہے ہمارے مضبوط بنے رہنے سے، اور یہ خوداعتمادی ہم خود پیدا کرتے ہیں اور پھر ہم مستحکم آواز اٹھاتے ہیں، اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا۔ جانتی ہوں بہت خوفناک ہے یہ سب، مگر اپنے بچوں کی خاطر کرنا ہوگا۔ اسے اگلی نسلوں کے لئے روکنا ہوگا۔ میں جانتی ہوں کہ میں نے یہ اپنے بچوں کے لئے کیا تھا۔ وہ میرے فیصلوں کی بنیاد تھے کہ مجھے قدم بڑھانا ہے یا نہیں۔ میرے پیارے بچے، میرا 12 سالہ بیٹا، کرسچین، میری 14 سالہ بیٹی، کائیا۔ اور کیا میں نے انھیں کمزور سمجھا تھا۔
The first day of school last year happened to be the day my resolution was announced, and I was so anxious about what they would face. My daughter came home from school and she said, "Mommy, so many people asked me what happened to you over the summer." Then she looked at me in the eyes and she said, "And mommy, I was so proud to say that you were my mom." And two weeks later, when she finally found the courage to stand up to two kids who had been making her life miserable, she came home to me and she said, "Mommy, I found the courage to do it because I saw you do it."
پچھلے سال، اسکول کا آخری دن وہ دن بنا جب میرے کیس کا فیصلہ سنایا گیا، میں پریشان تھی کہ وہ کن حالات کا سامنا کریں گے۔ میری بیٹی اسکول سے واپس آئی اور بولی، ’ماں، بہت سے لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ گرمیوں میں آپ کے ساتھ کیا ہوا‘ پھر اس نے میری آنکھوں میں دیکھا پھر بولی ’’اور ممی، مجھے بہت فخر محسوس ہوا یہ کہتے ہوئے کہ تم میری ماں ہو۔‘‘ اور دو ہفتے بعد، جب بالآخر وہ ان دو بچوں کے سامنا کرنے کے قابل ہوئی جو اس کی زندگی کو اجیرن کررہے تھے، وہ گھر واپس آئی اور مجھ سے بولی، ’’ممی، مجھ میں یہ کرنے کی ہمت اس لئے آئی کیوں کہ میں نے دیکھا کہ آپ نے یہی کیا۔‘‘
(Applause)
(تالیاں)
You see, giving the gift of courage is contagious. And I hope that my journey has inspired you, because right now, it's the tipping point. We are watching history happen. More and more women are coming forward and saying, "Enough is enough."
ہمت کا تحفہ دینا ایک جاری عمل ہے، اور مجھے امید ہے کہ میری زندگی نے آپ کو متاثر کیا ہوگا، کیوں کہ ابھی، یہ ابتدائی مرحلہ ہے۔ ہم تاریخ کو بنتا دیکھ رہے ہیں۔ بہت سی خواتین سامنے آکر کہہ رہی ہیں، ’’بس اب بہت ہوگیا۔‘‘
(Applause)
(تالیاں)
Here's my one last plea to companies. Let's hire back all those women whose careers were lost because of some random jerk. Because here's what I know about women: we will not longer be underestimated, intimidated or set back; we will not be silenced by the ways of the establishment or the relics of the past. No. We will stand up and speak up and have our voices heard. We will be the women we were meant to be. And above all, we will always be fierce.
اب میری آخری التجا اداروں سے ہے، ان تمام خواتین کو دوبارہ ملازمت دیں جن کا کام کاج تباہ ہوگیا کسی بے ہنگم جاہل کی وجہ سے۔ کیوں کہ خواتین کے بارے میں یہ جانتی ہوں: اب ہمیں مزید دھونس، دھمکی اور کم تر سمجھ کر کنارے سے نہیں لگایا جاسکتا: ہمیں کسی بھی طاقت یا سازش کے ذریعے خاموش نہیں کرایا جاسکتا جیسا کہ ماضی میں رواج رہا ہے۔ نہیں۔ ہم کھڑے ہوں گے اور آواز اٹھائیں گے اور اپنی بات کو منوائیں گے۔ ہم وہ عورت بنیں گے جیسا ہمیں ہونا چاہئے تھا۔ اور سب سے بڑھ کر، ہم ہمیشہ سخت رہیں گے۔
Thank you.
شکریہ
(Applause)
(تالیاں)