I want you to imagine what a breakthrough this was for women who were victims of violence in the 1980s. They would come into the emergency room with what the police would call "a lovers' quarrel," and I would see a woman who was beaten, I would see a broken nose and a fractured wrist and swollen eyes. And as activists, we would take our Polaroid camera, we would take her picture, we would wait 90 seconds, and we would give her the photograph. And she would then have the evidence she needed to go to court. We were making what was invisible visible.
میں چاہتی ہوں کہ آپ تصور کریں کہ کتنی بڑی پیش رفت ہوئی تھی ان عورتوں کے لئے جو 1980 کی دہائی میں تشدد کا شکار ہوتی تھیں۔ وہ ایمرجنسی روم میں ایسی حالت میں آتیں جِس کو پولیس والے "عاشقوں کا جھگڑا" کہتے اور مجھے نظر آتی ایک مار کھائی ہوئی عورت، ایک ٹوٹی ہوئی ناک ، اور ایک فریکچر ہوئی کلائی کی ہڈی، اور سوجی ہوئی آنکھیں۔ اور ایک کارکن کے طور پر ہم اپنے پولورائڈ کیمرے نکالتے، اس کی تصویر کھینچتے، 90 سیکنڈ انتظار کرتے، اور اس کو تصویر دے دیتے۔ اور اس طرح اس کے پاس وہ ثبوت آجاتا جوعدالت تک جانے کے لئے ضروری تھا- ہم پوشیدہ حقیقت کو ظاہر کرنے میں لگے ہوئے تھے۔
I've been doing this for 30 years. I've been part of a social movement that has been working on ending violence against women and children. And for all those years, I've had an absolutely passionate and sometimes not popular belief that this violence is not inevitable, that it is learned, and if it's learned, it can be un-learned, and it can be prevented. (Applause)
میں یہ کام 30 سال سے کر رہی ہوں۔ میں ایک ایسی سماجی تحریک کا حصہ رہی ہوں جو عورتوں اور بچوں پر تشدد ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اور ان سارے سالوں میں، میرا پرجوش یقین رہا ہے اس بات پر جو بعض اوقات زیادہ شہرت کی حامل نہیں، کہ یہ تشدد کبھی بھی ناگزیر نہیں ہوتا، کہ یہ سیکھا گیا ہوتا ہے، اور اگر اس کو سیکھا گیا ہے، تو اس کو بھلایا جاسکتا ہے، اور اس کو روکا جا سکتا ہے۔ (تالیاں)
Why do I believe this? Because it's true. It is absolutely true. Between 1993 and 2010, domestic violence among adult women in the United States has gone down by 64 percent, and that is great news. (Applause)
مجھے اس پر کیوں یقین ہے؟ کیونکہ یہ سچ ہے۔ یہ بالکل سچ ہے۔ 1993 اور 2010 کے درمیان، امریکہ میں بالغ عورتوں پر خانگی (گھریلو) تشدد کے واقعات میں 64 فیصد کمی واقع ہوئی، اور یہ زبردست خبر ہے۔ (تالیاں)
Sixty-four percent. Now, how did we get there? Our eyes were wide open. Thirty years ago, women were beaten, they were stalked, they were raped, and no one talked about it. There was no justice. And as an activist, that was not good enough. And so step one on this journey is we organized, and we created this extraordinary underground network of amazing women who opened shelters, and if they didn't open a shelter, they opened their home so that women and children could be safe. And you know what else we did? We had bake sales, we had car washes, and we did everything we could do to fundraise, and then at one point we said, you know, it's time that we went to the federal government and asked them to pay for these extraordinary services that are saving people's lives. Right? (Applause)
64 فیصد ۔۔ ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ ہماری آنکھیں پوری کھلیں تھیں- تیس سال پہلے، عورتیں مار کھاتی تھیں، ان کا پیچھا کیا جاتا تھا، ان کی عزتوں کو پامال کیا جاتا تھا، اور کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتا تھا۔ کوئی انصاف نہیں تھا۔ اور ایک کارکن کے طور پر میرے لئے یہ قابلِ قبول نہیں تھا۔ اور اس سفر پر پہلا قدم یہ ہے کہ ہم منظّم ہوۓ، اور ہم نے بنایا اس غیرمعمولی حیرت انگیز عورتوں کا خفیہ نیٹ ورک جنہوں نے پناہ گاہیں بنائیں، اور اگر وہ پناہ گاہ نہ بنا سکیں، تو انہوں نے اپنے گھر کھول دیئے تا کہ عورتیں اور بچے محفوظ رہ سکیں۔ اور آپ جانتیں ہیں کہ ہم نے مزید کیا کیا؟ ہم نے کھانے بیچے، ہم نے گاڑیاں کو دھویا، اور ہم نے وہ سب کچھ کیا جس سے ہم پیسے اکھٹے کرسکیں، اور ایک مرحلہ پر ہم نے کہا، کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جائیں وفاقی حکومت کے پاس اور مطالبہ کریں کہ وہ خرچہ ادا کریں ان غیرمعمولی خدمات کا جو لوگوں کی جان بچا رہے ہیں۔ صحیح کہا؟ (تالیاں)
And so, step number two, we knew we needed to change the laws. And so we went to Washington, and we lobbied for the first piece of legislation. And I remember walking through the halls of the U.S. Capitol, and I was in my 30s, and my life had purpose, and I couldn't imagine that anybody would ever challenge this important piece of legislation. I was probably 30 and naive. But I heard about a congressman who had a very, very different point of view. Do you know what he called this important piece of legislation? He called it the Take the Fun Out of Marriage Act. The Take the Fun Out of Marriage Act. Ladies and gentlemen, that was in 1984 in the United States, and I wish I had Twitter. (Laughter)
اور پھر، دوسرا قدم، ہم جانتے تھے کے ہمیں قانون کو بدلنے کی ضرورت تھی۔ تو پھر ہم واشنگٹن گئے، اور ہم نے پہلی قانون سازی کے لئے قائل کرنےکی کوششیں کیں- اور مجھے یاد ہے کیپیٹل بلڈنگ کے برآمدوں میں سے گزرنا، میں اس وقت 30 سال کی تھی، میری زندگی میں ایک مقصد تھا، اور میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی اس اہم قانون کے بننے کو چیلنج کرے گا۔ میں شاید 30 سال کی تھی اور ناسمجھ بھی۔ مگر میں نے ایک کانگریس مین کے بارے میں سنا جس کا بہت ہی مختلف نقطہ نظر تھا۔ آپ کو پتہ ہے اس نے اس اہم قانون کو کیا نام دیا؟ اس نے اس کو"ازدواجی زندگی میں سے مزہ ختم کرنے والا قانون" کہا- "ازدواجی زندگی میں سے مزہ ختم کرنے والا قانون" خواتین و حضرآت، یہ 1984 کی بات ہے امریکہ میں اور کاش میرے پاس اس وقت ٹوئٹر ہوتا۔ (ہنسی)
Ten years later, after lots of hard work, we finally passed the Violence Against Women Act, which is a life-changing act that has saved so many lives. (Applause) Thank you. I was proud to be part of that work, and it changed the laws and it put millions of dollars into local communities.
دس سال بعد، بہت زیادہ محنت کے بعد، آخرکار عورتوں کے خلاف تشدد کا قانون پاس ہو گیا، جو کہ زندگی بدل دینے والا قانون ہے جس کی مدد سے بہت ساری زندگیاں بچائی گئیں۔ (تالیاں) شکریہ۔ مجھے فخر تھا کہ میں اس کام کا حصّہ رہی، اور اس نے قوانین بدلے اور اس نے لاکھوں ڈالر مقامی آبادیوں میں ڈالے۔
And you know what else it did? It collected data. And I have to tell you, I'm passionate about data. In fact, I am a data nerd. I'm sure there are a lot of data nerds here. I am a data nerd, and the reason for that is I want to make sure that if we spend a dollar, that the program works, and if it doesn't work, we should change the plan.
اور آپ جانتے ہیں کہ اس نے مزید کیا کیا؟ اس نے اعدادوشمار جمع کئے۔ اور مجھے آپ کو یہ بتانا پڑے گا، کہ میں اعدادوشمار کی بےحد شوقین ہوں۔ دراصل، میں اعدادوشمار کی جنونی ہوں- مجھے یقین ہے یہاں پر اعدادوشمار کے بہت سارے جنونی ہیں۔ میں اعدادوشمار کی جنونی ہوں، اور اسکی وجہ یہ ہے کے میں اس بات کا یقین کر لینا چاہتی ہوں کہ اگر ہم ایک ڈالر خرچ کریں، تو پروگرام چلے، اور اگر نہ چلے، تو ہمیں منصوبہ بدل دینا چاہیے۔
And I also want to say one other thing: We are not going to solve this problem by building more jails or by even building more shelters. It is about economic empowerment for women, it is about healing kids who are hurt, and it is about prevention with a capital P.
اور میں مزید ایک بات کہنا چاہتی ہوں: ہم اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے مزید جیل بناکر یا مزید پناہگاہیں بناکر- یہ عورتوں کی معاشی خودمختاری کا معاملہ ہے، دکھی بچوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا معاملہ ہے، اور تشدد کی روک تھام کا معاملہ ہے۔
And so, step number three on this journey: We know, if we're going to keep making this progress, we're going to have to turn up the volume, we're going to have to increase the visibility, and we're going to have to engage the public. And so knowing that, we went to the Advertising Council, and we asked them to help us build a public education campaign. And we looked around the world to Canada and Australia and Brazil and parts of Africa, and we took this knowledge and we built the first national public education campaign called There's No Excuse for Domestic Violence. Take a look at one of our spots.
چنانچہ، تیسرا قدم اس سفر کا: ہم جانتے ہیں، کہ اگر اس کامیابی کو جاری رکھنا ہے، تو ہمیں اپنی آوازوں کو بلند کرنا ہو گا، زیادہ سے زیادہ منظرِ عام پر آنا ہو گا، اس اہم کام میں عوام کو شامل کرنا ہو گا۔ اور اس بات کو جانتے ہوۓ، ہم اشتہاری کاؤنسل کے پاس گئے، اور ان سے مدد مانگی کہ ایک عوامی تعلیم کی مہم کو بنائیں- ہم نے دنیا بھرمیں نظریں دوڑائیں، کینیڈا سے لیکر آسٹریلیا اور برازیل اور افریقہ کے کچھ حصوں تک، اور اس معلومات کو لیکر گئے اور ہم نے ملک کی پہلی عوامی تعلیم کی مہم بنائی جس کا نام "گھریلو تشدد کا کوئی جواز نہیں" تھا- یہ دیکھئے ان میں سے ایک اشتہار۔
(Video) Man: Where's dinner?
(وڈیو) مرد: کھانا کہاں ہے؟
Woman: Well, I thought you'd be home a couple hours ago, and I put everything away, so—
عورت: وہ، میں نے سوچا کہ آپ دو گھنٹے پہلے آئیں گے، تو میں نے کھانا سمیٹ دیا، تو ۔۔۔۔
Man: What is this? Pizza. Woman: If you had just called me, I would have known—
مرد: یہ کیا ہے؟ پیزا۔ عورت: اگر آپ مجھے کال کر دیتے، مجھے پتہ چل جاتا ۔۔۔
Man: Dinner? Dinner ready is a pizza? Woman: Honey, please don't be so loud. Please don't—Let go of me!
مرد: کھانا؟ یہ کھانا تیار کا مطلب ہے پیزا؟ عورت: جان، پلیز اونچی آواز میں نہ بولو۔ پلیز مت کرو ۔۔۔۔۔۔ چھوڑو مجھے!
Man: Get in the kitchen! Woman: No! Help!
مرد : کچن میں چلو! عورت: نہیں! بچاؤ!
Man: You want to see what hurts? (Slaps woman)
مرد : تمہیں بتاؤں تکلیف کیسے ہوتی ہے؟ (عورت کو تھپڑ مارتا ہے)
That's what hurts! That's what hurts! (Breaking glass)
ایسے درد ہوتا ہے! ایسے درد ہوتا ہے! (شیشہ ٹوٹنے کی آواز)
Woman: Help me!
عورت: مجھے بچاؤ!
["Children have to sit by and watch. What's your excuse?"]
[بچے تو بیٹھ کر صرف دیکھ ہی سکتے- تمہارا کیا بہانہ ہے؟"]
Esta Soler: As we were in the process of releasing this campaign, O.J. Simpson was arrested for the murder of his wife and her friend. We learned that he had a long history of domestic violence. The media became fixated. The story of domestic violence went from the back page, but actually from the no-page, to the front page. Our ads blanketed the airwaves, and women, for the first time, started to tell their stories. Movements are about moments, and we seized this moment. And let me just put this in context. Before 1980, do you have any idea how many articles were in The New York Times on domestic violence? I'll tell you: 158. And in the 2000s, over 7,000. We were obviously making a difference.
ایسٹا سولر: جب ہم مصروف تھے اس مہم کو شروع کرنے میں، او۔ جے ۔ سمپسن کو گرفتار کرا گیا اپنی بیوی اور بیوی کے دوست کے قتل کی وجہ سے- ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ایک لمبے عرصے سے خانگی تشدد میں ملوث تھا۔ ذرائع ابلاغ نے گہری توجہ دی۔ گھریلو تشدد کی داستان اخبار کے پچھلے صفحے سے، بلکہ دراصل غیر صفحے سے پہلے صفحے پر شائع ہوئی۔ ہمارے اشتہارات ہر جگہ چھا گئے، اور عورتیں، پہلی بار، اپنی کہانیاں سنانا شروع ہوئیں۔ تحرکیں لمحوں سے بنتی ہیں، اور ہم نےاس لمحے کو استعمال کیا۔ میں صحیح صورتحال بتاتی ہوں۔ 1980 سے پہلے، کیا آ پ کو اندازہ ہے کہ نیویارک ٹائیمز میں کتنے کالم گھریلو تشدد کے بارے میں شائع ہوئے؟ میں آپکو بتاتی ہوں: 158- اور 2000 کی دہائی میں، 7000 سے زیادہ۔ ظاہر ہے کہ ہم فرق ڈال رہے ہیں-
But we were still missing a critical element. So, step four: We needed to engage men. We couldn't solve this problem with 50 percent of the population on the sidelines. And I already told you I'm a data nerd. National polling told us that men felt indicted and not invited into this conversation. So we wondered, how can we include men? How can we get men to talk about violence against women and girls? And a male friend of mine pulled me aside and he said, "You want men to talk about violence against women and girls. Men don't talk." (Laughter) I apologize to the men in the audience. I know you do. But he said, "Do you know what they do do? They do talk to their kids. They talk to their kids as parents, as coaches." And that's what we did. We met men where they were at and we built a program. And then we had this one event that stays in my heart forever where a basketball coach was talking to a room filled with male athletes and men from all walks of life. And he was talking about the importance of coaching boys into men and changing the culture of the locker room and giving men the tools to have healthy relationships. And all of a sudden, he looked at the back of the room, and he saw his daughter, and he called out his daughter's name, Michaela, and he said, "Michaela, come up here." And she's nine years old, and she was kind of shy, and she got up there, and he said, "Sit down next to me." She sat right down next to him. He gave her this big hug, and he said, "People ask me why I do this work. I do this work because I'm her dad, and I don't want anyone ever to hurt her." And as a parent, I get it. I get it, knowing that there are so many sexual assaults on college campuses that are so widespread and so under-reported. We've done a lot for adult women. We've got to do a better job for our kids. We just do. We have to. (Applause)
مگر ابھی بھی ایک انتہائی اہم عنصر موجود نہ تھا۔ تو، چوتھا قدم: ہمیں ضرورت تھی کہ مردوں کو شامل کریں- ہم اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے تھے کہ جب 50 فیصد آبادی ایک طرف کھڑی ہو- اور میں پہلے بتا چکی ہوں، مجھے اعداد و شمار کا جنون ہے- قومی آراء کے سروے سے پتہ چلا کہ مرد محسوس کرتے ہیں کہ ان کو مجرم قرار دیا جارہا ہے اور ان کو اس گفتگو میں شامل نہیں کیا گیا- تو ہم نے سوچا کہ مردوں کو کس طرح شامل کیا جائے؟ ہم مردوں کو کس طرح عورتوں اور بچوں پر تشدد کی مذمت کرنے پر تیار کر سکتے ہیں؟ میرے ایک مرد دوست نے مجھے ایک لے جاکر کہا "تم چاہتی ہو کہ مرد عورتوں اور بچوں پرتشدد کے خلاف بات کریں۔ مرد بات نہیں کرتے۔" (ہنسی) یہاں موجود مرد حضرات سے معذرت کے ساتھ ، میں جانتی ہوں کہ آپ لوگ بات کرتے ہیں۔ مگر میرے دوست نے کہا، " تمہیں پتہ ہے وہ کیا کرتے ہیں؟ وہ اپنے بچوں سے بات کرتے ہیں۔ وہ بچوں سے باپ اور کوچ (استاد) کی حیثیت سے بات کرتے ہیں۔" تو ہم نے یہی کیا۔ ہم مردوں سے ملاقات کی جہاں وہ موجود ہوتے تھے اور ایک پروگرام بنایا کیا۔ اور ایک دفعہ ایک ایسا واقعہ ہوا جو میرے دل میں ہمیشہ رہے گا جب ایک باسکٹ بال کا استاد ایک بھرے ہوئے کمرے میں، اپنے مرد کھلاڑیوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے جڑے مردوں سے بات کر رہا تھا۔ اور وہ لڑکوں کو مرد بنانے کی تربیت کی اہمیت کےبارے میں بات کر رہا تھا اور لاکر روم کے ماحول کو بدلنے اور مردوں کو صحتمند رشتے رکھنے کرنے کے گر بتا رہا تھا- اور اچانک اس کی نظر کمرے میں، پیچھے کھڑی ہوئی اپنی بیٹی پر پڑی، اور اس نے اپنی بیٹی کا نام پکارا، مکیلا، اس نے کہا، " مکیلا، ادھر آگے آؤ۔" وہ نو سال کی بچی تھی اور تھوڑی شرمیلی بھی، اور وہ آگے آئی، اوراس نے کہا،" میرے پاس بیٹھو۔" وہ بچی اس کے پاس بیٹھ گئی۔ اس نے اپنی بچی کو گلے لگایا اور کہا، "لوگ پوچھتے ہیں کہ میں یہ کام کیوں کرتا ہوں۔ میں یہ کام اس لئے کرتا ہوں کیونکہ میں اسکا باپ ہوں، اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی کبھی اسے کوئی تکلیف پہنچائے۔" اور ایک ماں کے طور پر میں سمجھ سکتی ہوں۔ میں سمجھ سکتی ہوں، میں جانتی ہوں کے کالج کمپسوں میں بہت سارے جنسی حملوں کے واقعات ہوتے ہیں جو بہت عام ہیں مگر ان کی رپورٹ بہت کم ہوتی ہے۔ ہم نے بالغ عورتوں کے لئے بہت کام کیا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کے لیے مزید بہتر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ضررورت ہے- ہمیں کرنا ہے۔ (تالیاں)
We've come a long way since the days of the Polaroid. Technology has been our friend. The mobile phone is a global game changer for the empowerment of women, and Facebook and Twitter and Google and YouTube and all the social media helps us organize and tell our story in a powerful way. And so those of you in this audience who have helped build those applications and those platforms, as an organizer, I say, thank you very much. Really. I clap for you. (Applause)
ہم ایک لمبا سفر طے کر کے آئے ہیں پولورائڈ کے زمانے سے یہاں تک ۔ ٹیکنالوجی ہماری دوست رہی ہے۔ موبائل فون نے حالات یکسر بدل دیئے عورتون کی خودمختاری کے حق میں، اور فیس بک نے اور ٹوئٹر نے اور گوگل نے اور یو ٹیوب نے اور تمام سوشل میڈیا نے مدد کی ہمیں منظم ہونے میں اور ایک طاقتور انداز سے اپنی کہانی سنانے میں۔ اور آپ سب حاضرین میں جنہوں نے ان اپلیکیشنز اور پلیٹ فارم کو بنانے میں مدد کی ایک منتظم کی طور پر، میں کہنا چاہتی ہوں، آپ کا بہت بہت شکریہ۔ واقعی ۔ میں آپ کےلئے تالیاں بجاتی ہوں۔ ( تالیاں )
I'm the daughter of a man who joined one club in his life, the Optimist Club. You can't make that one up. And it is his spirit and his optimism that is in my DNA. I have been doing this work for over 30 years, and I am convinced, now more than ever, in the capacity of human beings to change. I believe we can bend the arc of human history toward compassion and equality, and I also fundamentally believe and passionately believe that this violence does not have to be part of the human condition. And I ask you, stand with us as we create futures without violence for women and girls and men and boys everywhere.
میں ایک ایسے شخص کی بیٹی ہوں جو زندگی میں صرف ایک کلب کا حصہ بنا، 'پرامید' کلب ۔ یہ بات آپ بنا نہیں سکتے- اوریہ ان کی ہی پرامیدی اور جذبہ ہے جو میرے ڈی این اے میں شامل ہے۔ میں یہ کام کر رہی ہوں پچھلے 30 سالوں سے، اور میں پہلے سے زیادہ قائل ہوں، انسان کے بدلنے کی صلاحیت میں۔ میرا یقین ہے کہ ہم انسانی تاریخ کا رخ محبت اور برابری کی طرف موڑ سکتے ہیں، اور میں بنیادی طور پر یقین رکھتی ہوں اور شدت سے یقین رکھتی ہوں کہ اس تشدد کو انسانی حالت کا حصّہ نہیں بننا چاہیے- اور میں آپ سے گزارش کرتی ہوں، کہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں ایسے مستقبل کو بنانے کے لئے جو ہر جگہ عورتوں اور لڑکیوں اور مردوں اور لڑکوں سب کے لئے تشدد سے پاک ہو۔
Thank you very much.
بہت بہت شکریہ-
(Applause)
( تالیاں)