I used to think the whole purpose of life was pursuing happiness. Everyone said the path to happiness was success, so I searched for that ideal job, that perfect boyfriend, that beautiful apartment. But instead of ever feeling fulfilled, I felt anxious and adrift. And I wasn't alone; my friends -- they struggled with this, too.
میں سوچتی تھی کہ زندگی کا کل مقصد خوشیوں کو حاصل کرنا تھا۔ سب کہتے تھے کہ خوشیوں کا راستہ کامیابی حاصل کرنے سے ملتا ہے تو میں نے مثالی نوکری تلاش کی، وہ بےعیب دوست اور کمال کا خوبصورت گھر۔ بجائے اپنے آپ کو مکمل محسوس کرنے کے میں نے بے چین اور بے ٹھکانہ محسوس کیا۔ اور میں اکیلی نہیں تھی؛ میرے دوست بھی یہی جدوجہد کر رہے تھے۔
Eventually, I decided to go to graduate school for positive psychology to learn what truly makes people happy. But what I discovered there changed my life. The data showed that chasing happiness can make people unhappy. And what really struck me was this: the suicide rate has been rising around the world, and it recently reached a 30-year high in America. Even though life is getting objectively better by nearly every conceivable standard, more people feel hopeless, depressed and alone. There's an emptiness gnawing away at people, and you don't have to be clinically depressed to feel it. Sooner or later, I think we all wonder: Is this all there is? And according to the research, what predicts this despair is not a lack of happiness. It's a lack of something else, a lack of having meaning in life.
آخر کار میں نے مثبت نفسیات کی تعلیم کیلئے گریجویٹ اسکول جانے کا فیصلہ کیا جاننے کے لئے کہ لوگوں کو سچی خوشی کس چیز سے ملتی ہے لیکن جو میں نے جانا اس نے میری زندگی بدل دی۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ خوشیوں کے پیچھے بھاگنے کی وجہ سے ہی لوگ نا خوش ہیں اور جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا وہ یہ تھا: دنیا بھر میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے، اور حا ل میں وہ امریکہ میں تیس سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ حالانکہ زندگی پہلے سے بہتر ہوتی جا رہی ہے تقریباً ہر قابل فہم معیار کےمطابق، زیادہ لوگ نا امید محسوس کر رہے ہیں، دُکھی اور تنہا۔ ایک خلا ہے جو لوگوں کو کھا رہا ہے، اور آپکو اسکو محسوس کرنے کے لئے دُکھی ہونا ضروری نہیں۔ جلد یا بدیر، میرا خیال ہے کہ ہم سب محسوس کرتے ہیں: کیا یہی سب کچھ ہے؟ اور ایک تحقیق کے مطابق، جو چیز اس مایوسی کی نشاندہی کرتی ہے وہ خوشیوں کی کمی نہیں ہے۔ بلکہ یہ کسی اور چیز کی کمی ہے، زندگی کے با معنی نہ ہونے کی۔
But that raised some questions for me. Is there more to life than being happy? And what's the difference between being happy and having meaning in life? Many psychologists define happiness as a state of comfort and ease, feeling good in the moment. Meaning, though, is deeper. The renowned psychologist Martin Seligman says meaning comes from belonging to and serving something beyond yourself and from developing the best within you. Our culture is obsessed with happiness, but I came to see that seeking meaning is the more fulfilling path. And the studies show that people who have meaning in life, they're more resilient, they do better in school and at work, and they even live longer.
لیکن اس نے میرے ذہن میں کچھ سوالوں کو ابھارا۔ کیا زندگی میں خوشیوں کے علاوہ کچھ اور بھی ہے؟ اور کیا فرق ہے خوش ہونے میں اور زندگی کے با معنی ہونے میں؟ بہت سے ماہرین نفسیات خوشیوں کو ایک آرام اور آسانی کی کیفیت بیان کرتے ہیں، لمحات میں اچھا محسوس کرنے کی حالت۔ گو کہ اس کے معنی کچھ گہرے ہیں۔ ایک نامورماہر نفسیات مارٹن سیلگمین کہتے ہیں مقصد حاصل ہوتا ہے خود سے آگے بڑھ کر کسی کی مدد یا تعلق قائم کرنے سے اور اپنے اندر بہتری لانے سے۔ ہمارا معاشرہ خوشیوں کو لے کر پاگل ہے، لیکن میں نے دیکھا کہ مقصدیت کی تلاش زیادہ بہتر راستہ ہے۔ اور تحقیق یہ بتاتی ہےکہ وہ لوگ جن کی زندگی با مقصد ہوتی ہے ان میں زیادہ برداشت ہوتی ہے، وہ اسکول اور کام میں بہتر ہوتے ہیں، اور وہ زیادہ لمبی عمر پاتے ہیں۔
So this all made me wonder: How can we each live more meaningfully? To find out, I spent five years interviewing hundreds of people and reading through thousands of pages of psychology, neuroscience and philosophy. Bringing it all together, I found that there are what I call four pillars of a meaningful life. And we can each create lives of meaning by building some or all of these pillars in our lives.
تو اس سب نے مجھے حیران کردیا۔ ہم میں سے ہر فرد کیسے معنی خیز زندگی گزار سکتا ہے؟ یہ جاننے کے لئے، میں نے پانچ سال تک سینکڑوں لوگوں کے خیالات معلوم کئے اور نفسیات کے اسباق کے ہزاروں صفحات پڑھے، نیورو سائنس اور فلسفے کے۔ اور ان سب کے مطابق، میں نے جانا کہ با معنی زندگی گزارنے کے چار ستون ہیں۔ اور ہم سب اپنی زندگی کو با معنی بنا سکتے ہیں ان میں سے کچھ یا سارے ستون اپنا لینے سے
The first pillar is belonging. Belonging comes from being in relationships where you're valued for who you are intrinsically and where you value others as well. But some groups and relationships deliver a cheap form of belonging; you're valued for what you believe, for who you hate, not for who you are. True belonging springs from love. It lives in moments among individuals, and it's a choice -- you can choose to cultivate belonging with others.
پہلا حصہ ہے ۔ تعلق ۔ تعلق کسی سے رشتہ بنانے سے ملتا ہے جہاں آپکو اپنی حقیقت کی بنیاد پر اہمیت دی جاتی ہو اور جہاں آپ بھی لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں ۔ لیکن کچھ رشتے اور گروہ تعلقات کے لئے بہت اوچھی بنیادیں فراہم کرتے ہیں؛ آپ کو آپ کےعقیدے کی بنیاد پر مقام دیا جاتا ہے۔ آپ کی نفرتوں کی بنیاد پر، نہ کہ آپ کی اپنی ذات کے لئے۔ حقیقی رشتہ محبت سے بنتا ہے۔ یہ افراد کے درمیان گزرتے لمحوں میں بستا ہے اور یہ ایک انتخاب ہے۔۔ آپ منتخب کرسکتے ہیں لوگوں کے ساتھ رشتے میں بندھنا۔
Here's an example. Each morning, my friend Jonathan buys a newspaper from the same street vendor in New York. They don't just conduct a transaction, though. They take a moment to slow down, talk, and treat each other like humans. But one time, Jonathan didn't have the right change, and the vendor said, "Don't worry about it." But Jonathan insisted on paying, so he went to the store and bought something he didn't need to make change. But when he gave the money to the vendor, the vendor drew back. He was hurt. He was trying to do something kind, but Jonathan had rejected him.
یہاں ایک مثال ہے۔ ہر صبح میرا دوست جوناتھن ایک اخبار خریدتا ہے نیویارک کے ایک ہی اخبار فروش سے۔ اگرچہ وہ صرف ایک لین دین نہیں کرتے۔ وہ لوگ ایک لمحے کے لئے رکتے ہیں، بات کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کے ساتھ انسانوں والا برتاؤ کرتے ہیں۔ لیکن ایک دفعہ، جوناتھن کے پاس کھلے پیسے نہیں تھے، اور اس دکان والے نے کہا، "آپ اس کے لئے پریشان نہ ہوں۔" لیکن جوناتھن نے پیسے دینے پر اصرار کیا، تو وہ اسٹور گیا اور اس نے کچھ خریدا جس کی اس کو ضرورت نہیں تھی مگر پیسے کھلے کرانے کے لئے۔ لیکن جب اس نے دکان والے کو پیسے دیئے، تو وہ ناراض ہوگیا۔ اسے رنج ہوا تھا۔ وہ کوئی بھلائی کرنےکی کوشش کر رہا تھا، لیکن جوناتھن نے اس کو انکار کر دیا۔
I think we all reject people in small ways like this without realizing it. I do. I'll walk by someone I know and barely acknowledge them. I'll check my phone when someone's talking to me. These acts devalue others. They make them feel invisible and unworthy. But when you lead with love, you create a bond that lifts each of you up.
میرے خیال میں ہم سب غیر محسوس انداز میں کسی نہ کسی کومسترد کر رہے ہوتے ہیں۔ میں کرتی ہوں۔ میں کسی جاننے والے کے سامنے سے گزروں اور اسے نہ پہچانوں۔ کسی سے بات کرتے وقت اپنا فون دیکھنے لگوں۔ یہ عمل دوسروں کو حقیرظاہر کرتے ہیں۔ وہ ان کو کم تری کا احساس دلاتے ہیں۔ لیکن جب آپ محبت سے آگے بڑھتے ہیں، تو ایک رشتہ بناتے ہیں۔ جو ہر ایک کو بلند کرتا ہے۔
For many people, belonging is the most essential source of meaning, those bonds to family and friends. For others, the key to meaning is the second pillar: purpose. Now, finding your purpose is not the same thing as finding that job that makes you happy. Purpose is less about what you want than about what you give. A hospital custodian told me her purpose is healing sick people. Many parents tell me, "My purpose is raising my children." The key to purpose is using your strengths to serve others. Of course, for many of us, that happens through work. That's how we contribute and feel needed. But that also means that issues like disengagement at work, unemployment, low labor force participation -- these aren't just economic problems, they're existential ones, too. Without something worthwhile to do, people flounder. Of course, you don't have to find purpose at work, but purpose gives you something to live for, some "why" that drives you forward.
بہت سے لوگوں کے لئے تعلقات با معنی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہوتے ہیں، جو دوستوں اور خاندان سے جڑے رہتے ہیں۔ دوسرے گروہ کے لئے، با معنی زندگی کا دوسرا ستون ہوتا ہے: مقصد۔ اب، اپنا مقصد ڈھونڈنا ویسا ہی نہیں ہے جیسے کے اپنی پسند کی نوکری تلاش کرنا۔ مقصد اپنی خواہشات سے بالاتر ہو کر کچھ دینے کا نام ہے۔ ایک ہاسپٹل کے ملازم نے مجھے بتایا کے اس کا مقصد بیماروں کی مدد کرنا ہے۔ بہت سے ماں باپ مجھے بتاتے ہیں، " میرا مقصد اپنے بچوں کی پرورش کرنا ہے۔" بامقصد ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی خوبیوں کو دوسروں کے کام میں لائیں۔ یقیناً، ہم میں سے بہت لوگوں کا یہ مقصد ان کی نوکری سے ہی پورا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سے ہم اپنا حصہ دیتے ہیں اور اہم محسوس کرتے ہیں، لیکن اس سے مراد وہ مسائل بھی ہیں، جیسے کام سے بے دلی، بے روزگاری، محنت کشوں کا کام میں کم حصہ لینا -- یہ صرف معاشی مسائل نہیں ہیں بلکہ یہ وجودیت کے بھی ہیں۔ بغیر کسی اہم کام کے, لوگ بیزار ہو جاتے ہیں۔ بلکل ٹھیک ہے کہ آپکو اپنا مقصد نوکری میں نہیں ڈھونڈنا ہوتا، لیکن مقصد آپکو جینے کی وجہ دیتا ہے، وہ "وجہ"جو آپ میں تحریک پیدا کرتی ہے۔
The third pillar of meaning is also about stepping beyond yourself, but in a completely different way: transcendence. Transcendent states are those rare moments when you're lifted above the hustle and bustle of daily life, your sense of self fades away, and you feel connected to a higher reality. For one person I talked to, transcendence came from seeing art. For another person, it was at church. For me, I'm a writer, and it happens through writing. Sometimes I get so in the zone that I lose all sense of time and place. These transcendent experiences can change you. One study had students look up at 200-feet-tall eucalyptus trees for one minute. But afterwards they felt less self-centered, and they even behaved more generously when given the chance to help someone.
تیسرا ستون اپنی ذات کی حدود سے آگے بڑھنا ہے، لیکن ایک بالکل منفرد انداز سے: وجدان کی کیفیت، وجدان کی کیفیت وہ نایاب لمحات ہیں جہاں آپ روز مرہ کی پریشانیوں سے بالاتر ہوجاتے ہیں، اپنے وجود کا احساس مدہم پڑ جاتا ہے، اور آپ خود کو ایک عظیم حقیقت سے جڑا محسوس کرتے ہیں۔ کسی شخص نے مجھے کہا، کہ فن پارہ دیکھنا وجد کی کیفیت میں مبتلا کردیتا ہے کسی اور کے لئے ایسا گرجا گھر میں ہوتا ہے۔ میں ایک ادیب ہوں، تو میرے لئے، یہ کیفیت لکھنے کے دوران ہوتی ہے۔ کبھی میں اتنا محو ہوجاتی ہوں کہ میں وقت اور جگہ کا احساس کھو دیتی ہوں۔ وجدانی تجربات آپکو بدل سکتے ہیں۔ ایک تحقیق کے دوران طالب علم یوکلپٹس کے دوسو فٹ اونچے درخت کو دیکھتے رہے ایک منٹ کے لئے۔ لیکن اسکے بعد وہ اپنی ذات کو چھوٹا محسوس کرنے لگے، اور جب انھیں کسی کی مدد کا موقع دیا گیا تو وہ کافی فراخدلی کا اظہار کرنے لگے۔
Belonging, purpose, transcendence. Now, the fourth pillar of meaning, I've found, tends to surprise people. The fourth pillar is storytelling, the story you tell yourself about yourself. Creating a narrative from the events of your life brings clarity. It helps you understand how you became you. But we don't always realize that we're the authors of our stories and can change the way we're telling them. Your life isn't just a list of events. You can edit, interpret and retell your story, even as you're constrained by the facts.
تعلق، مقصد، وجدان۔ اب چوتھا ستون جو با معنی زندگی کا مجھے ملا ہے، وہ لوگوں کو حیران کر دیتا ہے۔ چوتھا ستون کہانی سنانا ہے۔ وہ کہانی جو آپ اپنے آپکو اپنے بارے میں سناتے ہیں۔ اپنی زندگی کے واقعات کا بیانیہ آپکی زندگی میں شفافیت لاتا ہے۔ یہ آپکو سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ آپ درحقیقت آپ کیسے بنے۔ لیکن ہم ہمیشہ احساس نہیں کرتے کہ ہم اپنی کہانی کے خود ہی مصنف ہیں اور ہم اس کو سنانے کے انداز کو بدل سکتے ہیں۔ آپکی زندگی صرف واقعات کی فہرست نہیں ہے۔ آپ اس کو مرتب کرسکتے ہیں بدل سکتے ہیں اور دوبارہ سنا سکتے ہیں، چاہے آپ کے پاس حقائق کی قلت ہی کیوں نہ ہو۔
I met a young man named Emeka, who'd been paralyzed playing football. After his injury, Emeka told himself, "My life was great playing football, but now look at me." People who tell stories like this -- "My life was good. Now it's bad." -- tend to be more anxious and depressed. And that was Emeka for a while. But with time, he started to weave a different story. His new story was, "Before my injury, my life was purposeless. I partied a lot and was a pretty selfish guy. But my injury made me realize I could be a better man." That edit to his story changed Emeka's life. After telling the new story to himself, Emeka started mentoring kids, and he discovered what his purpose was: serving others. The psychologist Dan McAdams calls this a "redemptive story," where the bad is redeemed by the good. People leading meaningful lives, he's found, tend to tell stories about their lives defined by redemption, growth and love.
میری ایک نوجوان ’ایمیکا‘ سے ملاقات ہوئی جو فٹ بال کے دورن مفلوج ہو گیا تھا۔ اپنے زخمی ہونے کے بعد ایمیکا نے اپنے آپ سے کہا، "میری زندگی فٹ بال کھیلنے کے وقت بہترین تھی، لیکن اب مجھے دیکھو۔" وہ لوگ جو اس طرح سے کہانیاں سناتے ہیں -- "میری زندگی پہلے اچھی تھی۔ اب خراب ہے۔" زیادہ غمگین اور پریشان ہوتے ہیں۔ لیکن ایمیکا کی یہ کیفیت تھوڑے عرصے رہی۔ لیکن کچھ دنوں بعد اس نے نئی کہانی بُننی شروع کی۔ اس کی نئی کہانی کچھ یوں تھی، "میرے اپاہج ہونے سے پہلے میری زندگی بے مقصد تھی۔ میں بہت تفریح کرتا تھا اور کافی خود غرض انسان تھا۔ لیکن اس حادثے نے مجھے احساس دلایا کہ میں ایک بہتر شخص ہوسکتا تھا۔" کہانی میں اس ترمیم سے ایمیکا کی زندگی جیسے بدل سی گئی۔ خود کو نئی کہانی سنانے کے بعد، ایمیکا نے بچوں کو پڑھانا شروع کردیا، اور اس نے دریافت کیا کہ اسکی زندگی کا کیا مقصد تھا: دوسروں کے کام آنا۔ ماہر نفسیات ’ڈین مک ایڈمز‘ نے اسے ’’کفارے کی کہانی‘‘ سے تعبیر کیا ہے، جہاں برائی کو اچھائی میں بدلا جاتا ہے۔ اس نے دیکھا کہ جو لوگ با مقصد زندگی گزار رہے ہیں، وہ اپنی زندگی کی کہانیاں سناتے ہیں جو محبت، عافیت اور ترقی سے تعبیر ہوتی ہیں۔
But what makes people change their stories? Some people get help from a therapist, but you can do it on your own, too, just by reflecting on your life thoughtfully, how your defining experiences shaped you, what you lost, what you gained. That's what Emeka did. You won't change your story overnight; it could take years and be painful. After all, we've all suffered, and we all struggle. But embracing those painful memories can lead to new insights and wisdom, to finding that good that sustains you.
مگر کیا ہے جو لوگوں سے ان کی کہانیاں بدلوا ڈالتا ہے؟ کچھ لوگ ایک تھراپسٹ کی مدد لیتے ہیں، لیکن یہ آپ اپنے طور پر بھی کر سکتے ہیں، صرف اپنے زندگی کے عکس کو بالغ نظری سے دیکھتے ہوۓ، کہ کس طرح آپکے تجربات نے آپ کی تشکیل کی، آپ نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ یہی ایمیکا نے کیا۔ آپ اپنی کہانی کو راتوں رات نہیں بدل سکتے: یہ سالوں پر محیط ایک درد بھرا عمل بھی ہوسکتا ہے۔ بالآخر ہم سب ہی جھیلتے ہیں اور کوشش بھی کرتے ہیں لیکن ان درد بھری یادوں کو قبول کرنا عقل و فراست کی نئی منزلوں کا پتہ دیتا ہے۔ اس اچھائی کو پانے میں جو آپ کو سنبھالے رکھتی ہے۔
Belonging, purpose, transcendence, storytelling: those are the four pillars of meaning. When I was younger, I was lucky enough to be surrounded by all of the pillars. My parents ran a Sufi meetinghouse from our home in Montreal. Sufism is a spiritual practice associated with the whirling dervishes and the poet Rumi. Twice a week, Sufis would come to our home to meditate, drink Persian tea, and share stories. Their practice also involved serving all of creation through small acts of love, which meant being kind even when people wronged you. But it gave them a purpose: to rein in the ego.
تعلق، مقصد، وجدان، کہانی سنانا: یہ با معنی زندگی کے چار ستون ہیں ۔ جب میں چھوٹی تھی، میں خوش قسمت تھی میرے پاس یہ سارے ستون تھے۔ میرے والدین مونٹریال میں ہمارے گھر میں ایک صوفی آستانہ چلاتے تھے۔ صوفیانہ زندگی ایک روحانی طرزحیات ہے جو محو رقص درویش سے جڑی ہے اور شاعر رومی۔ ہفتے میں دو بار صوفی ہمارے گھر آتے تھے مراقبہ کرنے، ایرانی چائے پینے اور کہانیاں سننے سنانے۔ انکی عادتوں میں ہر کسی کی خدمت کرنا شامل تھا چھوٹے چھوٹے محبت بھرے اقدامات سے۔ جس کا مطلب تھا لوگوں کے برے برتاو کے مقابلے میں نرم دلی سی پیش آنا لیکن اس نے ان کو جینے کا مقصد دیا: انا پرستی کو لگام دی۔
Eventually, I left home for college and without the daily grounding of Sufism in my life, I felt unmoored. And I started searching for those things that make life worth living. That's what set me on this journey. Looking back, I now realize that the Sufi house had a real culture of meaning. The pillars were part of the architecture, and the presence of the pillars helped us all live more deeply.
آخر کار میں نے کالج جانے کے لئے گھر چھوڑ دیا اور زندگی میں روزانہ کی صوفی تربیت کے بغیرخود کو حقیقت سے دور محسوس کررہی تھی۔ پھر ان طریقوں کی تلاش شروع کی جن سے زندگی جینے کے لائق بن سکے۔ اسی نے مجھے اس راہ کا مسافر بنا دیا۔ ماضی کو کو دیکھ کر اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرا صوفی گھر زندگی کے حقیقی مقصد سے بھرا ہوا تھا۔ یہ ستون تعمیرات کا حصہ تھے، ان ستونوں کی موجودگی نے ہمیں اپنی زندگی اچھی طرح گزارنے میں مدد دی۔
Of course, the same principle applies in other strong communities as well -- good ones and bad ones. Gangs, cults: these are cultures of meaning that use the pillars and give people something to live and die for. But that's exactly why we as a society must offer better alternatives. We need to build these pillars within our families and our institutions to help people become their best selves. But living a meaningful life takes work. It's an ongoing process. As each day goes by, we're constantly creating our lives, adding to our story. And sometimes we can get off track.
جی ہاں، یہی اصول کارفرما ہوتا ہے دوسری ترقی یافتہ برادریوں میں بھی -- اچھی اور بری دونوں میں۔ ٹولیوں اور مسلک کے لوگوں میں: یہ اسی تہذیب کے لوگ ہیں جو با معنی زندگی کیلئے ان ستونوں کو استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کو جینے اور مرنے کی وجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں من حیث القوم بہتر متبادل فراہم کرنے چاہیں۔ ہمیں اپنے خاندانوں اور اداروں میں ان ستونوں کی تعمیر کرنی ہے تاکہ لوگ اپنی ذات میں بہترین بن سکیں۔ لیکن با معنی زندگی گزارنے کے لئے محنت درکار ہوتی ہے۔ اور یہ ایک جاری عمل ہے۔ جیسے جیسے ہردن گزرتا ہے، ہم اپنی زندگی مستقل تخلیق کر رہے ہوتے ہیں، اپنی کہانی میں اضافہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اور کبھی ہم اپنے راستے سے بھٹک بھی سکتے ہیں۔
Whenever that happens to me, I remember a powerful experience I had with my father. Several months after I graduated from college, my dad had a massive heart attack that should have killed him. He survived, and when I asked him what was going through his mind as he faced death, he said all he could think about was needing to live so he could be there for my brother and me, and this gave him the will to fight for life. When he went under anesthesia for emergency surgery, instead of counting backwards from 10, he repeated our names like a mantra. He wanted our names to be the last words he spoke on earth if he died.
میرے ساتھ جب بھی ایسا ہوتا ہے، مجھے اپنا ایک تجربہ یاد آتا ہے جو مجھے میرے والد کے ساتھ ہوا۔ کالج سے گریجویٹ ہونے کے کئ مہینے بعد میرے والد کو ایک جان لیوا دل کا دورہ پڑا جس میں ان کی جان جا سکتی تھی۔ لیکن وہ بچ گئے اور جب میں نے ان سے پوچھا کہ اس وقت وہ کیا سوچ رہے تھے جب وہ موت کا سامنا کر رہے تھے، وہ بولے کہ اس وقت وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ وہ زندہ رہیں تاکہ وہ میرا اور بھائی کا خیال رکھ سکیں، اسی سوچ نے انھیں زندگی کے لئے لڑنے کی ہمت عطا کی۔ جب انھیں آپریشن کے لئے بے ہوش کیا جانے لگا، تو بجائے 10 سے الٹی گنتی گننے کے، انہوں نے وظیفے کی طرح ہمارے نام لینا شروع کر دیئے۔ وہ چاہتے تھے کہ آخری لفظ جو وہ دنیا میں کہیں وہ ہمارا نام ہو اگر وہ مرگئے تو۔
My dad is a carpenter and a Sufi. It's a humble life, but a good life. Lying there facing death, he had a reason to live: love. His sense of belonging within his family, his purpose as a dad, his transcendent meditation, repeating our names -- these, he says, are the reasons why he survived. That's the story he tells himself.
میرے والد ایک بڑھئی اور ایک صوفی ہیں۔ یہ عاجزی کی زندگی ہے، لیکن اچھی زندگی ہے۔ لیٹے لیٹے موت کا سامنا کرتے ہوئے ان کے پاس ایک جینے کی وجہ تھی: محبت۔ انکا اپنے خاندان سے تعلق ہونا بحیثیت ایک باپ کے، ان کا مقصد، انکا اپنی وجدانی کیفیت میں، ہمارے نام پکارنا یہ انکے مطابق وہ وجوہات تھیں جس کی وجہ سے وہ بچ گۓ۔ یہ وہ کہانی ہے جو وہ خود اپنے بارے میں سناتے ہیں۔
That's the power of meaning. Happiness comes and goes. But when life is really good and when things are really bad, having meaning gives you something to hold on to.
یہ طاقت ہے با معنی زندگی کی۔ خوشیاں آتی اور جاتی ہیں۔ لیکن جب زندگی واقعی اچھی ہوتی ہے اور جب حالات بالکل ہی خراب ہوتے ہیں، مقصد ہونے سے آپکو جینے کی وجہ ملتی ہے۔
Thank you.
شکریہ
(Applause)
(تالیاں)