In 2012, when I painted the minaret of Jara Mosque in my hometown of Gabés, in the south of Tunisia, I never thought that graffiti would bring so much attention to a city.
2012 میں جب میں نے مسجد جارا کے مینار کی نقاشی کی اپنے آبائی قصبے گیبس، جنوبی تیونس میں، تو میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس نقاشی سے شہر کو اتنی توجہ ملے گی۔
At the beginning, I was just looking for a wall in my hometown, and it happened that the minaret was built in '94. And for 18 years, those 57 meters of concrete stayed grey. When I met the imam for the first time, and I told him what I wanted to do, he was like, "Thank God you finally came," and he told me that for years he was waiting for somebody to do something on it. The most amazing thing about this imam is that he didn't ask me anything -- neither a sketch, or what I was going to write.
شروع میں، میں اپنے آبائی قصبے میں کوئی دیوار ڈھونڈ رہا تھا، اور ہوا یوں تھا کہ یہ مینار سن '94 میں تعمیر ہوا تھا۔ اور 18 سال تک، وہ 57 میٹر کا کنکریٹ سرمئی ہی رہا۔ جب میں امام کو پہلی دفعہ ملا اور بتایا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں، وہ بولے، "خدا کا شکر ہے کہ تم بالاخر آ گئے،" اور انہوں نے مجھے بتایا کہ سالوں سے وہ کسی کے منتظر تھے جو یہ کرے۔ ان امام کی سب سے خاص بات یہ تھی کی انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا -- ایک خاکہ بھی نہیں یا کہ میں کیا لکھوں گا۔
In every work that I create, I write messages with my style of calligraffiti -- a mix of calligraphy and graffiti. I use quotes or poetry. For the minaret, I thought that the most relevant message to be put on a mosque should come from the Quran, so I picked this verse: "Oh humankind, we have created you from a male and a female, and made you people and tribe, so you may know each other." It was a universal call for peace, tolerance, and acceptance coming from the side that we don't usually portray in a good way in the media.
میں جو بھی کام تخلیق کرتا ہوں، میں پیغامات لکھتا ہوں اپنے انداز کی خطاشی سے -- جو خطاطی اور نقاشی کا میلاپ پے۔ میں اقوال یا شاعری استعمال کرتا ہوں۔ مینار کے لیے، میں نے سوچا سب سے مناسب پیغام جو مسجد پر لکھا جا سکے قرآن سے آنا چاہیے، چناچہ میں نے یہ آیت منتخب کی: "اے لوگو، ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے بنایا، اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ آپس میں پہچان رکھو۔" یہ امن کے لیے عالمی پیغام تھا، برداشت اورقبولیت کا اس طرف سے جسے ہم عام طور پر میڈیا میں ایک اچھے طریقے سے نہیں پیش کرتے۔
I was amazed to see how the local community reacted to the painting, and how it made them proud to see the minaret getting so much attention from international press all around the world. For the imam, it was not just the painting; it was really deeper than that. He hoped that this minaret would become a monument for the city, and attract people to this forgotten place of Tunisia. The universality of the message, the political context of Tunisia at this time, and the fact that I was writing Quran in a graffiti way were not insignificant. It reunited the community.
میں حیران ہوا کہ مقامی آبادی نے میرے کام پر جو ردعمل ظاہر کیا، اور کیسے اس مینار کی وجہ سے وہ فخر کرتے اور جو توجہ انہیں ملی ساری دنیا کے عالمی پریس سے۔ اس امام کے لیے، یہ صرف ایک نقاشی نہ تھی: یہ اس سے بہت گہرا تھا۔ انہیں امید تھی کہ یہ مینار شہر کی ایک یادگار بن جائے گا، اور لوگوں کو تیونس کی اس بھولی جگہ کی طرف کھینچے گا۔ پیغام کی عالمگریت، اس وقت تیونس کا سیاسی منظر نامہ، اور یہ حقیقت کہ میں قرآن نقش و نگار کے انداز میں لکھ رہا تھا غیر اہم نہ تھے۔ اس نے آبادی کو متحد کر دیا۔
Bringing people, future generations, together through Arabic calligraphy is what I do. Writing messages is the essence of my artwork. What is funny, actually, is that even Arabic-speaking people really need to focus a lot to decipher what I'm writing. You don't need to know the meaning to feel the piece. I think that Arabic script touches your soul before it reaches your eyes. There is a beauty in it that you don't need to translate. Arabic script speaks to anyone, I believe; to you, to you, to you, to anybody, and then when you get the meaning, you feel connected to it. I always make sure to write messages that are relevant to the place where I'm painting, but messages that have a universal dimension, so anybody around the world can connect to it.
لوگوں کو، آنے والی نسلوں کو، عربی خطاطی کے ذریعے یہ میں کرتا ہوں۔ پیغام لکھنا میرے فن کا اصل مقصد ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عربی بولنے والے لوگوں کو بھی میری تحریر کا مطلب نکالنے کے لیے بڑا دھیان دینا پڑتا ہے۔ فن پارے سے متاثر ہونے کے لیے اسکا مطلب سمجھنا ضروری نہیں۔ میرے خیال میں عربی رسم الخط آنکھوں سے پہلے آپکی روح کو چھوتا ہے۔ اس میں ایک خوبصورتی ہے جو ترجمے سے بے نیاز ہے۔ میرا ماننا ہے کہ عربی رسم الخط سب کے لیے ہے: آپکے لیے، آپکے لیے، آپکے لیے، ہر ایک کے لیے، اور پھر جب آپ کو مطلب سمجھ آ جائے، تو آپکو اس سے انسیت ہو جاتی ہے۔ میں اس بات کو یقینی بناتا ہوں کہ وہ پیغام لکھوں جو اس جگہ جہاں میں کام کر رہا ہوں سے متعلق ہوں، لیکن پیغامات میں عالمگیریت ہوتی ہے، چناچہ دنیا میں کوئی بھی ان سے جڑ سکتا ہے۔
I was born and raised in France, in Paris, and I started learning how to write and read Arabic when I was 18. Today I only write messages in Arabic. One of the reasons this is so important to me, is because of all the reaction that I've experienced all around the world.
میں پیرس، فرانس میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا، اور میں نے 18 سال کی عمر میں عربی لکھنا اور پڑھنا شروع کی۔ آج میں صرف عربی میں پیغامات لکھتا ہوں۔ اسکی وجہ یہ کیوں میرے لیے اتنا اہم ہے, وہ ردعمل ہے جو دنیا بھر سے مجھے ملا ہے۔
In Rio de Janeiro, I translated this Portuguese poem from Gabriela Tôrres Barbosa, who was giving an homage to the poor people of the favela, and then I painted it on the rooftop. The local community were really intrigued by what I was doing, but as soon as I gave them the meaning of the calligraphy, they thanked me, as they felt connected to the piece.
ریو ڈی جنیرو میں، میں نے ایک پرتگالی نظم ترجمہ کی گبریلا ٹورس باربوسا سے، جو فیویلا کے غریب لوگوں کو تعظیم دے رہی تھیں، اور اسے میں نے ایک چھت پر تقش کیا۔ مقامی آبادی میرے اس کام کے بارے میں کافی تذبذب کا شکار ہوئی، لیکن جسے ہی میں نے انہیں اس خطاطی کے معنی سے آگاہ کیا، انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور اس فن پارے سے تعلق محسوس کیا۔
In South Africa, in Cape Town, the local community of Philippi offered me the only concrete wall of the slum. It was a school, and I wrote on it a quote from Nelson Mandela, saying, "[in Arabic]," which means, "It seems impossible until it's done." Then this guy came to me and said, "Man, why you don't write in English?" and I replied to him, "I would consider your concern legit if you asked me why I didn't write in Zulu."
جنوبی افریقہ میں، کیپ ٹاون میں، فلپیپی کی مقامی آبادی نے مجھے کچی آبادی کی واحد کنکریٹ کی دیوار میرے کام کے لیے دی۔ یہ ایک سکول تھا، اور میں نے اس پر لکھا نیلسن منڈیلا کا ایک قول، سناتا ہے، [عربی میں] ، اسکا مطلب ہے، "نا ممکن جب تک ہو نہ جائے ممکن نہیں لگتا"۔ ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہا، "جناب آپ اسے انگریزی میں کیوں نہیں لکھتے؟" میں نے اسے جواب دیا، "آپ کی بات میں وزن ہوتا اگر آپ مجھ سے کہتے کہ میں نے اسے زولو میں کیوں نہیں لکھا"۔
In Paris, once, there was this event, and someone gave his wall to be painted. And when he saw I was painting in Arabic, he got so mad -- actually, hysterical -- and he asked for the wall to be erased. I was mad and disappointed. But a week later, the organizer of the event asked me to come back, and he told me that there was a wall right in front of this guy's house. So, this guy -- (Laughter) like, was forced to see it every day. At the beginning, I was going to write, "[In Arabic]," which means, "In your face," but -- (Laughter) I decided to be smarter and I wrote, "[In Arabic]," which means, "Open your heart."
ایک دفعہ پیرس میں، ایک تقریب تھی، اور کسی نے اپنی دیوار نقاشی کے لیے دی۔ اور جب اس نے دیکھا میں عربی میں لکھ رہا ہوں، وہ اتنا غصہ ہوا -- دراصل جیسے پاگل -- اس نے مجھ سے کہا دیوار کو صاف کر دو۔ میں غصہ ہوا اور مایوس بھی۔ لیکن ایک ہفتہ بعد، تقریب کے منتظم نے مجھے واپس آنے کو کہا، اور بتایا کہ اسی آدمی کے گھر کے بالکل سامنے ایک دیوار ہے۔ تو یہ آدمی -- (قہقہے) مجبور ہو گیا، اسے روز دیکھنے کے لیے۔ پہلے میں "[عربی میں]" لکھنے لگا تھا، جسکا مطلب تھا، "منہ کی کھانی پڑی" لیکن -- (قہقہے) میں نے سوچا کچھ بہتر ہونا چاہیے، تو لکھا، "[عربی میں]"، جسکا مطلب تھا، "اپنے دل کو بڑا کرو"۔
I'm really proud of my culture, and I'm trying to be an ambassador of it through my artwork. And I hope that I can break the stereotypes we all know, with the beauty of Arabic script. Today, I don't write the translation of the message anymore on the wall. I don't want the poetry of the calligraphy to be broken, as it's art and you can appreciate it without knowing the meaning, as you can enjoy any music from other countries. Some people see that as a rejection or a closed door, but for me, it's more an invitation -- to my language, to my culture, and to my art.
مجھے اپنی تہذیب پر بہت فخر ہے، اور میں اپنے فنی کام کے ذریعے اس کا سفیر بننے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اور مجھے امید ہے کہ میں دقیانوسی خیالات کو غلط ثابت کر سکتا ہوں، عربی رسم الخط کی خوبصورتی کے ذریعے۔ اب، میں مزید اپنے پیغام کا ترجمہ دیوار پر نہیں لکھتا۔ میں شاعری کی خطاطی کی خوبصورتی کو خراب نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ یہ فن ہے اور آپ اس کا مطلب جانے بغیر اس کو سراہ سکتے ہیں، جیسے آپ مختلف ممالک کی موسیقی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے ٹھکرائے جانے یا بند دروازے سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن میرے لیے، یہ ایک دعوت ہے -- میری زبان کی، میری تہذیب کی، اور میرے فن کی۔
Thank you.
شکریہ۔
(Applause)
(تالیاں)