Chris Anderson: The rights of citizens, the future of the Internet. So I would like to welcome to the TED stage the man behind those revelations, Ed Snowden. (Applause) Ed is in a remote location somewhere in Russia controlling this bot from his laptop, so he can see what the bot can see. Ed, welcome to the TED stage. What can you see, as a matter of fact?
کرس اینڈرسن: شہریوں کے حقوق، انٹرنیٹ کا مستقبل. تو میں TED اسٹیج پر استقبال کرنا چاہوں گا ان انکشافات کے پیچھے آدمی کا، ایڈ سنوڈین ۔ (تالیاں) ایڈ روس میں کہیں ایک دور دراز مقام پر ہیں اپنے لیپ ٹاپ سے اس روبوٹ کو چلا رہے ہیں، چنانچہ وہ دیکھ سکتے ہیں وہ جو یہ روبوٹ دیکھ رہا ہے۔ ایڈ، TED کے اسٹیج پر خوش آمدید. ویسے حقیقتاً آپ کیا دیکھ سکتے ہیں؟
Edward Snowden: Ha, I can see everyone. This is amazing. (Laughter)
ایڈورڈ سنوڈین: واہ، میں سب کو دیکھ سکتا ہوں. یہ حیرت انگیز ہے. (ہنسی)
CA: Ed, some questions for you. You've been called many things in the last few months. You've been called a whistleblower, a traitor, a hero. What words would you describe yourself with?
سی اے: ایڈ، آپ کے لئے کچھ سوالات ہیں۔ آپ کو بہت کچھ کہا گیا ہے گزشتہ چند ماہ میں. آپ کو ایک مخبر اورغدار بلایا گیا ہے، اور ایک ہیرو بھی۔ آپ اپنا تعارف کن الفاظ میں کروایں گے؟
ES: You know, everybody who is involved with this debate has been struggling over me and my personality and how to describe me. But when I think about it, this isn't the question that we should be struggling with. Who I am really doesn't matter at all. If I'm the worst person in the world, you can hate me and move on. What really matters here are the issues. What really matters here is the kind of government we want, the kind of Internet we want, the kind of relationship between people and societies. And that's what I'm hoping the debate will move towards, and we've seen that increasing over time. If I had to describe myself, I wouldn't use words like "hero." I wouldn't use "patriot," and I wouldn't use "traitor." I'd say I'm an American and I'm a citizen, just like everyone else.
ای ایس: آپ جانتے ہیں، ہر ایک جو اس بحث میں شامل ہے مجھے اور میری شخصیت کو سمجھنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ اور یہ کہ مجھے کیسے بیان کریں۔ لیکن جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو، یہ وہ سوال نہیں ہے جسکا جواب ڈھونڈنے کی جدوجہد ہمیں کرنی چاہیئے۔ میں کون ہوں، اس سے بالکل کوئی فرق نہیں پڑتا. اگر میں دنیا کا بدترین شخص ہوں تو آپ مجھ سے نفرت کریں اور آگے بڑھ جایئں. اصل اہمیت ہے مسائل کی۔ اصل اہمیت ہے کہ کس قسم کی حکومت ہم چاہتے ہیں، کس قسم کا انٹرنیٹ ہم چاہتے ہیں، کس قسم کے تعلقات، افراد اور معاشروں کے درمیان. اور میں یہ امید کر رہا ہوں کہ بحث اس طرف منتقل ہو جائے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ وقت گزرنے کے سا تھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے. اگر مجھے اپنا تعارف کروانا پڑے تو میں "ہیرو" جیسے الفاظ نہیں استمعال کروں گا۔ میں "محب وطن" کا استعمال نہیں کروں گا اور میں "غدار" کا استعمال نہیں کروں گا میں کہوں گا میں ایک امریکی ہوں اور میں ایک شہری ہوں، باقی سب کی طرح.
CA: So just to give some context for those who don't know the whole story -- (Applause) — this time a year ago, you were stationed in Hawaii working as a consultant to the NSA. As a sysadmin, you had access to their systems, and you began revealing certain classified documents to some handpicked journalists leading the way to June's revelations. Now, what propelled you to do this? ES: You know, when I was sitting in Hawaii, and the years before, when I was working in the intelligence community, I saw a lot of things that had disturbed me. We do a lot of good things in the intelligence community, things that need to be done, and things that help everyone. But there are also things that go too far. There are things that shouldn't be done, and decisions that were being made in secret without the public's awareness, without the public's consent, and without even our representatives in government having knowledge of these programs. When I really came to struggle with these issues, I thought to myself, how can I do this in the most responsible way, that maximizes the public benefit while minimizing the risks? And out of all the solutions that I could come up with, out of going to Congress, when there were no laws, there were no legal protections for a private employee, a contractor in intelligence like myself, there was a risk that I would be buried along with the information and the public would never find out. But the First Amendment of the United States Constitution guarantees us a free press for a reason, and that's to enable an adversarial press, to challenge the government, but also to work together with the government, to have a dialogue and debate about how we can inform the public about matters of vital importance without putting our national security at risk. And by working with journalists, by giving all of my information back to the American people, rather than trusting myself to make the decisions about publication, we've had a robust debate with a deep investment by the government that I think has resulted in a benefit for everyone. And the risks that have been threatened, the risks that have been played up by the government have never materialized. We've never seen any evidence of even a single instance of specific harm, and because of that, I'm comfortable with the decisions that I made.
سی اے: تو کچھ پس منظر ان کے لئے جو پوری کہانی نہیں جانتے -- (تالیاں) - اس وقت ایک سال پہلے، آپ کو ہوائی میں تعینات کیا گیا این ایس اے کے لئے ایک مشیر کے طور پر۔ ایک سسٹم ایڈ من کے طور پر، آپ کی رسائی تھی انکے سسٹم تک، اور آپ نے کچھ خفیہ دستاویزات کا انکشاف کرنا شروع کیا کچھ منتخب صحافیوں کو جسکے نتیجے میں جون کے انکشافات ہوئے. اس کا محرک کیا تھا؟ ای ایس: آپ جانتے ہیں، جب میں ہوائی میں بیٹھا ہوا تھا اور سالوں پہلے، جب میں انٹیلی جنس برادری میں کام کر رہا تھا، میں نے بہت سی ایسی چیزیں دیکھیں جس نے مجھے پریشان کیا، ہم انٹیلی جنس برادری میں بہت سے اچھے کام کرتے ہیں کچھ چیزیں جو کرنے کی ضرورت ہے کچھ کام جس سے سب کی مدد ہوتی۔ لیکن کچھ چیزیں حد سے آگے بڑھ گئی ہیں۔ کچھ چیزیں ہیں جو نہیں ہونی چاہئے، اور خفیہ طور پر کئے گئے فیصلے عوام کی لاعلمی میں، عوام کی رضامندی کے بغیر، اور حکومت میں ہمارے نمائندوں کے بھی بغیر ان پروگراموں کے بارے میں علم ہونے کے باوجود۔ جب میں واقعی ان مسائل کے ساتھ کشمکش کا شکار ہوا ، تو میں نے سوچا، میں یہ سب سے زیادہ ذمہ دارانہ طریقے سے کس طرح کر سکتا ہوں، کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے خطرات کو کم سے کم کرتے ہوئے؟ اور تمام ممکنہ حل میں جو بہترین حل میری سمجھ میں آیا، کانگریس میں جائے بغیر، جہاں کوئی قوانین موجود نہیں تھے، جہاں کوئی قانونی تحفظ موجود نہیں تھا ایک نجی ملازم کے لئے، میری طرح انٹیلی جنس میں ایک ٹھیکیدار، وہاں ایک خطرہ یہ تھا کہ معلومات ساتھ ساتھ مجھے بھی دفن کر دیا جا تا اور عوام کو کچھ پتہ بھی نہیں چلتا۔ لیکن ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے آئین کی پہلی ترمیم ہمیں کسی وجہ سے ایک آزاد پریس کی ضمانت دیتا ہے، اور وہ یہ کہ ایک مخالف پریس با اختیار ہو، حکومت کو للکارنے کرنےکے لئے، اور حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیئے، تا کہ بات چیت اور مکالمہ ہو سکے کہ ہم کسطرح ناگزیر اہمیت کے معاملات کے بارے میں عوام کو مطلع کریں ہماری قومی سلامتی کوخطرے میں ڈالے بغیر. اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے سے، اور اپنی تمام معلومات ، امریکی لوگوں کو واپس دینے سے، اشاعت کے بارے میں فیصلے کے لیے اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کے بجاےٗ، ایک انتہائی جاندار بحث شروع ہو حکومت کی طرف سے ایک گہری سرمایہ کاری کے ساتھ جو میرے خیال میں ہر ایک کے فائدہ مند ثابت ہؤا۔ اور جن خطرات کا ڈراوا دیا گیا اور جن خطرات کو اچھالا گیا حکومت کیطرف سے وہ کبھی پورے نہیں ہؤے ہم نے ایک بھی ثبوت نہیں دیکھا کسی ایک بھی مخصوص نقصان کا، اور اس کی وجہ سے، میں یہ فیصلہ کر کے پرسکون ہوں۔
CA: So let me show the audience a couple of examples of what you revealed. If we could have a slide up, and Ed, I don't know whether you can see, the slides are here. This is a slide of the PRISM program, and maybe you could tell the audience what that was that was revealed.
سی اے: تو مجھے سامعین کو دکھانے دیں کچھ مثالیں اسکی جو آپ نے ظاہر کیا ہے۔ ہم ایک سلائڈ دکھا سکتے ہیں، اور ایڈ، مجھے پتہ نہیں کہ آپ دیکھ سکتے ہیں یا نہیں، سلائڈ یہاں ہیں. یہ PRISM کے پروگرام کی ایک سلائڈ ہے، اور شاید آپ سامعین کو بتا سکتے ہیں کہ کیا آشکار کیا گیا تھا.
ES: The best way to understand PRISM, because there's been a little bit of controversy, is to first talk about what PRISM isn't. Much of the debate in the U.S. has been about metadata. They've said it's just metadata, it's just metadata, and they're talking about a specific legal authority called Section 215 of the Patriot Act. That allows sort of a warrantless wiretapping, mass surveillance of the entire country's phone records, things like that -- who you're talking to, when you're talking to them, where you traveled. These are all metadata events. PRISM is about content. It's a program through which the government could compel corporate America, it could deputize corporate America to do its dirty work for the NSA. And even though some of these companies did resist, even though some of them -- I believe Yahoo was one of them — challenged them in court, they all lost, because it was never tried by an open court. They were only tried by a secret court. And something that we've seen, something about the PRISM program that's very concerning to me is, there's been a talking point in the U.S. government where they've said 15 federal judges have reviewed these programs and found them to be lawful, but what they don't tell you is those are secret judges in a secret court based on secret interpretations of law that's considered 34,000 warrant requests over 33 years, and in 33 years only rejected 11 government requests. These aren't the people that we want deciding what the role of corporate America in a free and open Internet should be.
ای ایس : PRISM کو سمجھنے کے لئے سب سے بہترین طریقہ، کیونکہ ایک تھوڑا سا تنازعہ ہو گیا ہے ، کہ یہ بتایا جائے کہ PRISM کیا نہیں ہے۔ امریکہ میں زیادہ تر بحث میٹا ڈیٹا کے بارے میں ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ صرف میٹا ڈیٹا ہے، صرف میٹا ڈیٹا ہے ، اور وہ ایک مخصوص قانونی اختیار کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو کہ پیٹریاٹ ایکٹ کی دفعہ 215 کہلاتا ہے. جواسطرح کی بغیر وارنٹ جاسوسی کی اجازت دیتا ہے پورے ملک کی بڑے پیمانے پر نگرانی فون ریکارڈز، اس طرح کی چیزیں -- آپ کس سے بات کر رہے ہیں، آپ ان سے کب بات کر رہے ہیں، آپ نے کہاں کا سفر کیا۔ یہ تمام میٹا ڈیٹا واقعات ہیں. PRISM مواد کے بارے میں ہے. یہ ایک ایسا پروگرام ہے جس کے ذریعے حکومت کارپوریٹ امریکہ کو مجبور کر سکتی ہے، وہ کارپوریٹ امریکہ کو اپنا ماتحت بنا کر این ایس اے کے لئے یہ گندے کام کروا سکتے ہیں۔ اگرچہ ان کمپنیوں میں سے کچھ نے مزاحمت کی تھی، اگرچہ ان میں سے کچھ نے-- مجھے یقین ہے " یا ہو" ان میں سے ایک ہے — عدالت میں ان کو چیلنج کیا، وہ سب کے سب ہار گئے کیونکہ یہ کیس کبھی کھلی عدالت میں نہیں لڑے گئے۔ وہ صرف ایک خفیہ عدالت میں میں لڑے گئے تھے. اور ہم نے دیکھا کہ، PRISM پروگرام کے بارے میں کچھ چیزیں میرے لئے بہت تشویشناک ہیں اس کے بارے میں امریکی حکومت کا بیان ہے جسکے مطابق 15 وفاقی ججوں نے ان پروگراموں کا جائزہ لیا اور انکو قانونی قرار دے دیا، لیکن جو وہ آپ کو نہیں بتاتے کہ وہ خفیہ جج ہیں ایک خفیہ عدالت میں قانون کی خفیہ توضیحات کی بنیاد پر انہوں نے 34,000 وارنٹوں کی درخواستوں کا جائزہ لیا 33 سال کے عرصے میں، اور ان 33 سالوں میں صرف 11 حکومتی درخواستیں مسترد ہوئیں۔ ہم نہیں چاہیں گے کہ ایسے لوگ اس بات کا فیصلہ کریں کہ کارپوریٹ امریکہ کا کیا کردار ہوگا کہ ایک آزاد اور کھلا انٹرنیٹ کیسا ہونا چاہیئے۔
CA: Now, this slide that we're showing here shows the dates in which different technology companies, Internet companies, are alleged to have joined the program, and where data collection began from them. Now, they have denied collaborating with the NSA. How was that data collected by the NSA?
سی اے: اب جو سلائڈ ہم یہاں دکھا رہے ہیں، ان تاریخوں کو ظاہر کرتی ہیں جس میں مختلف ٹیکنالوجی کمپنیوں، انٹرنیٹ کمپنیوں نے، مبینہ طور پر اس پروگرام میں شمولیت اختیارکی ہے، اور ڈیٹا جمع کرنا ان کی طرف سے شروع ہوا ہے. اب انہوں نے این ایس اے کے ساتھ تعاون کی تردید کی ہے. تو پھر این ایس اے کی طرف سے ڈیٹا کس طرح جمع کیا گیا ہے؟
ES: Right. So the NSA's own slides refer to it as direct access. What that means to an actual NSA analyst, someone like me who was working as an intelligence analyst targeting, Chinese cyber-hackers, things like that, in Hawaii, is the provenance of that data is directly from their servers. It doesn't mean that there's a group of company representatives sitting in a smoky room with the NSA palling around and making back-room deals about how they're going to give this stuff away. Now each company handles it different ways. Some are responsible. Some are somewhat less responsible. But the bottom line is, when we talk about how this information is given, it's coming from the companies themselves. It's not stolen from the lines. But there's an important thing to remember here: even though companies pushed back, even though companies demanded, hey, let's do this through a warrant process, let's do this where we actually have some sort of legal review, some sort of basis for handing over these users' data, we saw stories in the Washington Post last year that weren't as well reported as the PRISM story that said the NSA broke in to the data center communications between Google to itself and Yahoo to itself. So even these companies that are cooperating in at least a compelled but hopefully lawful manner with the NSA, the NSA isn't satisfied with that, and because of that, we need our companies to work very hard to guarantee that they're going to represent the interests of the user, and also advocate for the rights of the users. And I think over the last year, we've seen the companies that are named on the PRISM slides take great strides to do that, and I encourage them to continue.
ای ایس: صحیح. تو این ایس اے کی اپنی سلائڈ اس کا حوالہ براہ راست رسائی کے طور پر دیتے ہیں. این ایس اے کے ایک حقیقی تجزیہ کارکے نزدیک اسکا مطلب کیا ہے، میری طرح کوئی جو ایک انٹیلی جنس تجزیہ کار کے طور پر کام کر رہا تھا چینی سائبر ہیکرز کی نشانہ بندی کر رہا تھا اس طرح کی مزید چیزوں میں مصروف، ہوائی میں، اس ڈیٹا کا اصل ماخذ براہ راست ان کے سرور سے ہے. اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ کمپنی کے نمائندوں کی ایک جماعت این ایس اے کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھ کر دوستانہ ماحول میں سودے بازی میں مصروف ہے کہ وہ کسطرح اپنی معلومات بانٹیں گے۔ اب ہر کمپنی اس سے مختلف طریقے سے نبٹتی ہے. بعض ذمہ دار ہیں. کچھ کسی حد تک کم ذمہ دار ہیں. لیکن نتیجہ یہ ہے، کہ جب ہم بات کرتے ہیں اس بارے میں کہ کہ کس طرح یہ معلومات دی گئی ہیں، یہ کمپنیوں کی طرف سے خود آ رہی ہیں. یہ لائنوں سے چوری شدہ نہیں ہیں۔ لیکن یہاں یاد رکھنے کے لئے ایک اہم بات یہ ہے: اگرچہ ان کمپنیوں کی طرف سے مزاحمت ہوئی، اگرچہ ان کمپنیوں نے مطالبہ کیا، کہ دیکھو، ایک وارنٹ کے عمل کے ذریعے ایسا کرتے ہیں، ایسا کریں کہ، جس میں کسی قسم کا قانونی جائزہ لیا جائے، کسی قسم کی بنیاد ہو معلومات کو انکے حوالے کرنے کے لئے ان صارفین کے اعداد و شمار، ہم نے گزشتہ سال واشنگٹن پوسٹ میں کہانیاں دیکھیں جو PRISM کی خبر کی طرح اچھی طرح بیان نہیں کی گیئں تھیں جنکے مطابق این ایس اے نے ڈیٹا سینٹر کے مواصلاتی رابطوں میں زبردستی مداخلت کی اپنے اور گوگل کے درمیان رابطوں میں اور اپنے اور یاہو کے درمیان . تو ان کمپنیوں کو بھی جو تعاون کر رہی ہیں مجبوراً لیکن کم از کم امید ہے کہ قانونی طریقے سے این ایس اے کے ساتھ، لیکن این ایس اے اس سے مطمئن نہیں ہے، اور اس کی وجہ سے، ہماری کمپنیوں کو ضرورت ہے بہت سخت محنت کرنے کی اس بات کی ضمانت کی کہ وہ نمائندگی کریں گے صارف کے مفادات کی، اور وکالت کریں گے صارفین کے حقوق کے لئے. اور مجھے لگتا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران، جن کمپنیوں کے نام ہم نے PRISM سلائیڈوں پر دیکھے ہیں، انہوں نے بڑی پیشرفت کی ہے ایسا کرنے کے لیئے، اور میں ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں اس عمل کو جاری رکھنے کے لئے۔
CA: What more should they do?
سی اے: انکو مزید کیا کرنا چاہیے؟
ES: The biggest thing that an Internet company in America can do today, right now, without consulting with lawyers, to protect the rights of users worldwide, is to enable SSL web encryption on every page you visit. The reason this matters is today, if you go to look at a copy of "1984" on Amazon.com, the NSA can see a record of that, the Russian intelligence service can see a record of that, the Chinese service can see a record of that, the French service, the German service, the services of Andorra. They can all see it because it's unencrypted. The world's library is Amazon.com, but not only do they not support encryption by default, you cannot choose to use encryption when browsing through books. This is something that we need to change, not just for Amazon, I don't mean to single them out, but they're a great example. All companies need to move to an encrypted browsing habit by default for all users who haven't taken any action or picked any special methods on their own. That'll increase the privacy and the rights that people enjoy worldwide.
ای ایس : سب سے بڑی چیز جو ایک انٹرنیٹ کمپنی آج امریکہ میں، اس وقت کر سکتی ہے، وکلاء کے ساتھ مشاورت کے بغیر، دنیا بھر میں صارفین کے حقوق کی تحفظ کے لئے، وہ SSL ویب کی خفیہ کاری کو فعال کرنا ہے ہراس انٹرنیٹ کے صفحے پر جسے آپ دیکھیں. اس کی ضرورت اس لیئے ہے کہ آج، اگر آپ Amazon.com پر "1984" کی ایک کاپی کو دیکھنے کے لئے جاتے ہیں، این ایس اے اس کے ریکارڈ کو دیکھ سکتے ہیں، روسی خفیہ ادارے اس ریکارڈ کو دیکھ سکتے ہیں، چینی خفیہ ادارے اس ریکارڈ کو دیکھ سکتے ہیں، فرانسیسی ادارے، جرمن ادارے، انڈورا کے ادارے. کیونکہ یہ غیرخفیہ ہے اس لیئے وہ سب اسے دیکھ سکتے ہیں. دنیا کی لائبریری Amazon.com ہے، لیکن نہ صرف وہ طے شدہ طور پر خفیہ کاری کوقائم نہیں کرتے، آپ خفیہ کاری کا استعمال کرنے کا انتخاب بھی نہیں کر سکتے ہیں جب کتابوں کے درمیان گھوم رہے ہوتے ہیں. یہ ایسی چیز ہے جسکو ہمیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، نہ صرف ایمیزون کے لئے، میرا مقصد انکو ہدف بنانا نہیں ہے، لیکن وہ ایک زبردست مثال ہیں. تمام کمپنیوں کو ضرورت ہے کہ طے شدہ طور پہ ایک خفیہ براؤزنگ کی عادت کی طرف منتقل ہو جایئں ان تمام صارفین کے لئے جنہوں نے خود کوئی قدم نہیں اٹھایا یا خود کوئی خاص طریقے منتخب نہیں کیے. اس سے نجی معلومات کی حفاظت بڑھے گی اور دنیا بھر میں لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہو گا۔
CA: Ed, come with me to this part of the stage. I want to show you the next slide here. (Applause) This is a program called Boundless Informant. What is that?
سی اے: ایڈ، اسٹیج کے اس حصے پر میرے ساتھ آئیں. میں یہاں آپ کو اگلی سلائیڈ دکھانا چاہتا ہوں. (تالیاں). یہ لامحدود مخبر کے نام سے ایک پروگرام ہے. یہ کیا ہے؟
ES: So, I've got to give credit to the NSA for using appropriate names on this. This is one of my favorite NSA cryptonyms. Boundless Informant is a program that the NSA hid from Congress. The NSA was previously asked by Congress, was there any ability that they had to even give a rough ballpark estimate of the amount of American communications that were being intercepted. They said no. They said, we don't track those stats, and we can't track those stats. We can't tell you how many communications we're intercepting around the world, because to tell you that would be to invade your privacy. Now, I really appreciate that sentiment from them, but the reality, when you look at this slide is, not only do they have the capability, the capability already exists. It's already in place. The NSA has its own internal data format that tracks both ends of a communication, and if it says, this communication came from America, they can tell Congress how many of those communications they have today, right now. And what Boundless Informant tells us is more communications are being intercepted in America about Americans than there are in Russia about Russians. I'm not sure that's what an intelligence agency should be aiming for.
ای ایس: تو، مجھے این ایس اے کو داد دینی پڑے گی اتنے موزوں ناموں کے استعمال کرنے کے لئے. یہ میرا پسندیدہ این ایس اے کے استمعال کردہ خفیہ ناموں میں سے ایک ہے. لامحدود مخبر ایسا پروگرام ہے جسے این ایس اے نے کانگریس سے بھی چھپایا، پہلے کانگریس کی طرف سے این ایس اے سے سوال کیا گیا، ان کے پاس کوئی صلاحیت تھی صرف اندازاً تخمینہ دینے کے لئے کہ کس مقدار میں امریکیوں کی کفتگو اور معلومات میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا نہیں. انہوں نے کہا کہ ہم ان اعدادوشمار کا حساب نہیں رکھتے، اور ہم ان اعدادوشمارکا حساب نہیں رکھ سکتے. اور ہم آپ کو بتا نہیں سکتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہم کتنے مواصلاتی رابطوں میں مداخلت کررہے ہیں، کیونکہ یہ بتانے سے آپ کی خلوت میں بیجا مداخلت ہوگی. اب، میں واقعی ان کی طرف سے ان جذبات کی تعریف کرتا ہوں، تاہم حقیقتاً، اگر آپ اس سلائڈ پر نظر ڈالیں تو، نہ صرف انکے پاس یہ صلاحیت ہے، صلاحیت پہلے ہی موجود ہے. یہ پہلے سے ہی کام کر رہی ہے. این ایس اے کے اپنے اندرونی ڈیٹا فارمیٹ ہیں جو مواصلات کے دونوں جانب کی نگرانی کرتے ہیں۔ اور اگر وہ کہیں کہ یہ بات چیت امریکہ سے آئی ہے وہ کانگریس کو بتا سکتے ہیں کہ کتنے مواصلاتی رابطے ہیں ان کے علم میں اسوقت۔ اور لامحدود مخبر ہمیں بتاتا ہے کہ جتنے مواصلاتی رابطوں میں مداخلت کی جا رہی ہے امریکہ میں امریکیوں کے وہ زیادہ ہیں اس سے جتنے روسیوں کی روس میں کی جا رہی ہے۔ اور میرا خیال نہیں ہے کہ ایک خفیہ ادارے کا یہ مقصد ہونا چاہیئے۔
CA: Ed, there was a story broken in the Washington Post, again from your data. The headline says, "NSA broke privacy rules thousands of times per year." Tell us about that.
سی اے: ایڈ، واشنگٹن پوسٹ میں ایک کہانی شائع ہوئی تھی، پھر آپ کی معلومات سے. شہ سرخی کے مطابق، "این ایس اے نے نجی معلومات کے قوانین کی ایک سال میں ہزاروں بار خلاف ورزی کی ." اس کے بارے میں ہمیں بتائیں.
ES: We also heard in Congressional testimony last year, it was an amazing thing for someone like me who came from the NSA and who's seen the actual internal documents, knows what's in them, to see officials testifying under oath that there had been no abuses, that there had been no violations of the NSA's rules, when we knew this story was coming. But what's especially interesting about this, about the fact that the NSA has violated their own rules, their own laws thousands of times in a single year, including one event by itself, one event out of those 2,776, that affected more than 3,000 people. In another event, they intercepted all the calls in Washington, D.C., by accident. What's amazing about this, this report, that didn't get that much attention, is the fact that not only were there 2,776 abuses, the chairman of the Senate Intelligence Committee, Dianne Feinstein, had not seen this report until the Washington Post contacted her asking for comment on the report. And she then requested a copy from the NSA and received it, but had never seen this before that. What does that say about the state of oversight in American intelligence when the chairman of the Senate Intelligence Committee has no idea that the rules are being broken thousands of times every year?
ای ایس: ہم نے پچھلے سال کانگریس کی گواہی میں بھی سنا، یہ میرے جیسے آدمی کے لئے ایک حیرت انگیز بات تھی جو این ایس اے سے آیا اور جس نے اصلی اندرونی دستاویزات دیکھے ہیں، جانتا ہے کہ اسمیں کیا ہے، حکام کو حلفیہ گواہی دیتے دیکھنا کہ کوئی زیادتیاں نہیں ہوئی ہیں، کہ این ایس اے کے قوانین کی کوئی خلاف ورزیاں نہیں ہوئی ہیں، جب ہم جانتے تھے کہ یہ کہانی باہر آ رہی تھی. لیکن اس بارے میں خاص طور پر دلچسپ یہ ہے، کہ این ایس اے نے خلاف ورزی کی ہے خود اپنے قواعد کی، اپنے قوانین کی ایک سال میں ہزاروں بار، خاص طور پر ایک واقعہ میں، ان 2776 میں سے ایک واقعہ، جس سے 3000 سے زائد افراد متاثر ہوئے. ایک اور واقعے میں، انہوں نے رخنہ اندازی کی غلطی سے واشنگٹن، ڈی سی میں تمام فون کالوں میں. حیرت کی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کو زیادہ توجہ نہیں ملی، وہ یہ حقیقت ہے کہ نہ صرف 2776 خلاف ورزیاں ہوئیں، بلکہ سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین، ڈایان فینسٹین نے اس رپورٹ کو نہیں دیکھا تھا یہاں تک کہ واشنگٹن پوسٹ نے ان سے رپورٹ پر تبصرہ کے لئے رابطہ کیا ۔ اورپھر انہوں نے این ایس اے سے رپورٹ کی کاپی کی درخواست کی اور اسے موصول کیا، لیکن اس سے پہلے دیکھا بھی نہیں تھا. یہ سب امریکی انٹیلی جنس میں اس کی نگرانی کی حالت کے بارے میں کیا کہتا ہے جب سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین کو کوئی اندازہ ہی نہیں ہے کہ قوانین کو توڑا جا رہا ہے ایک سال میں ہزاروں مرتبہ؟
CA: Ed, one response to this whole debate is this: Why should we care about all this surveillance, honestly? I mean, look, if you've done nothing wrong, you've got nothing to worry about. What's wrong with that point of view? ES: Well, so the first thing is, you're giving up your rights. You're saying hey, you know, I don't think I'm going to need them, so I'm just going to trust that, you know, let's get rid of them, it doesn't really matter, these guys are going to do the right thing. Your rights matter because you never know when you're going to need them. Beyond that, it's a part of our cultural identity, not just in America, but in Western societies and in democratic societies around the world. People should be able to pick up the phone and to call their family, people should be able to send a text message to their loved ones, people should be able to buy a book online, they should be able to travel by train, they should be able to buy an airline ticket without wondering about how these events are going to look to an agent of the government, possibly not even your government years in the future, how they're going to be misinterpreted and what they're going to think your intentions were. We have a right to privacy. We require warrants to be based on probable cause or some kind of individualized suspicion because we recognize that trusting anybody, any government authority, with the entirety of human communications in secret and without oversight is simply too great a temptation to be ignored.
سی اے: ایڈ، اس پوری بحث کا ایک ردعمل یہ ہے: ہمیں کیوں پرواہ کرنی چاہیے اس سب نگرانی کی، سچ میں؟ اگرآپ نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے، تو آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے. اس نقطہ نظر میں غلط کیا ہے؟ ای ایس : ٹھیک ہے، تو پہلی بات یہ ہے، آپ اپنے حقوق کو چھوڑ رہے ہیں. آپ کہہ رہے ہیں کہ مجھے نہیں لگتا کہ مجھے ان کی ضرورت ہو گی، تو میں بس اسی کا یقین کروںگا تو ان سے چھٹکارا حاصل کرتے ہیں، اس سے واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ لوگ صحیح کام ہی کریں گے. آپ کے حقوق اہم ہیں کیونکہ آپ کو پتہ نہیں کہ کب آپ کو ان کی ضرورت پڑ جائے۔ اس کے علاوہ، یہ ہماری ثقافتی شناخت کا ایک حصہ ہے، صرف امریکہ میں نہیں، بلکہ مغربی معاشروں میں اور دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں. لوگوں کے لیئے ممکن ہونا چاہئے کہ وہ فون اٹھائیں اور اور اپنے خاندان کو فون کریں ، لوگوں کےلیئے ممکن ہونا چاہئے کہ وہ ایک ٹیکسٹ پیغام بھیج سکیں اپنے پیاروں کو، لوگوں کےلیئے ممکن ہونا چاہئےکہ وہ ایک کتاب آن لائن خرید سکیں انہیں ٹرین کے ذریعے سفر کرنے کے قابل ہونا چاہئے، لوگوں کےلیئے ممکن ہونا چاہئےکہ وہ جہاز کا ایک ٹکٹ خرید سکیں بغیر اس کے بارے میں سوچے کہ کس طرح یہ واقعات حکومت کے ایک ایجنٹ کو نظر آئیں گے، ممکنہ طور پر صرف آپ کی حکومت ہی کو نہیں مستقبل میں سالوں بعد، کس طرح اس کے غلط معنی نکالے جایئں گے اور وہ سوچیں گے کہ آپ کے ارادے کیا تھے۔ ہمیں ذاتی زندگی پوشیدہ رکھنے کا حق ہے۔ ہمیں ممکنہ وجہ کی بنیاد پر وارنٹ کی ضرورت ہے یا کسی قسم کے انفرادی شبے پر کیونکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اعتماد کرنا، کسی بھی حکومتی افراد پہ، مکمل طور پر انسانی مواصلاتی رابطوں کے سلسلے میں خفیہ طور پہ اور نگرانی کے بغیر یقیناً بہت بڑی ترغیب ہے نظر انداز کرنے کے لئے .
CA: Some people are furious at what you've done. I heard a quote recently from Dick Cheney who said that Julian Assange was a flea bite, Edward Snowden is the lion that bit the head off the dog. He thinks you've committed one of the worst acts of betrayal in American history. What would you say to people who think that?
سی اے: کچھ لوگ آپ کے عمل پہ بہت ناراض ہیں. میں نے ڈک چینی کا حال ہی میں ایک بیان سنا جن کا کہنا تھا کہ جولین اسانج ایک چیونٹی کے کاٹنے کے برابر تھا، ایڈورڈ سنوڈین وہ شیر ہے جس نے کتے کا سر کاٹ ڈالا . وہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے امریکی قوم کی تاریخ کی ، بدترین غداری کا ارتکاب کیا ہے۔ جو ایسا سمجھتے ہیں انکو آپ کیا جواب دیں گے؟
ES: Dick Cheney's really something else. (Laughter) (Applause) Thank you. (Laughter) I think it's amazing, because at the time Julian Assange was doing some of his greatest work, Dick Cheney was saying he was going to end governments worldwide, the skies were going to ignite and the seas were going to boil off, and now he's saying it's a flea bite. So we should be suspicious about the same sort of overblown claims of damage to national security from these kind of officials. But let's assume that these people really believe this. I would argue that they have kind of a narrow conception of national security. The prerogatives of people like Dick Cheney do not keep the nation safe. The public interest is not always the same as the national interest. Going to war with people who are not our enemy in places that are not a threat doesn't make us safe, and that applies whether it's in Iraq or on the Internet. The Internet is not the enemy. Our economy is not the enemy. American businesses, Chinese businesses, and any other company out there is a part of our society. It's a part of our interconnected world. There are ties of fraternity that bond us together, and if we destroy these bonds by undermining the standards, the security, the manner of behavior, that nations and citizens all around the world expect us to abide by.
ای ایس: ڈک چینی بھی واقعی کوئی شئے ہے۔ (ہنسی) (تالیاں) شکریہ. (ہنسی) میرا خیال ہے کہ یہ حیران کن ہے کیونکہ اسوقت جولین اسانج اپنے کچھ عظیم ترین کام سرانجام دے رہا تھا ڈک چینی کہہ رہا تھا کہ وہ دنیا بھر میں حکومتوں کو ختم کرنے جا رہا ہے، آسمانوں میں آگ لگنے والی ہے اور سمندر ابلنے لگیں گے، اور اب وہ اسے ایک چیونٹی کا کاٹنا کہہ رہا ہے. تو ہمیں اسی طرح کے حکومتی حکام کی جانب سے کیئے گئے قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے حد سے بڑھے ہوئے دعووں کے بارے میں مشکوک ہونا چاہئے۔ لیکن چلیں فرض کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو واقعی میں اس بات کا یقین ہے۔ میں اس پر بحث کروں گا کہ ان کا قومی سلامتی کا ایک محدود تصور ہے۔ ڈک چینی جیسے لوگوں کے استحقاق قوموں کو تحفظ نہیں فراہم کرتے۔ عوامی مفاد ہمیشہ قومی مفاد جیسا نہیں ہوتا. ایسے لوگوں کے ساتھ جنگ کرنا جو ہمارے دشمن نہیں ہیں ان مقامات میں جوخطرہ نہیں ہیں ہمیں محفوظ نہیں کرتا، اور یہ لاگو ہوتا ہے جیسا کہ یہ عراق میں ہے یا انٹرنیٹ پر۔ انٹرنیٹ دشمن نہیں ہے۔ ہماری معیشت دشمن نہیں ہے. امریکی کاروبار، چینی کاروباری ادارے، اورر کوئی بھی دیگر کمپنی ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ہے. یہ ہماری باہم مربوط دنیا کا ایک حصہ ہے. اخوت کے تعلقات ہیں جو ہمیں ایک ساتھ جوڑتے ہیں اور اگر ہم ان بندھنوں کو تباہ کر دیں معیار کو، سلامتی کو کمزورکرکے، رویوں کو، جبکہ تمام دنیا کی اقوام اور شہری ہم سے توقع کرتے ہیں کہ ہم اس معیار کی پابندی کریں۔
CA: But it's alleged that you've stolen 1.7 million documents. It seems only a few hundred of them have been shared with journalists so far. Are there more revelations to come?
سی اے: لیکن مبینہ طور پرکہا جاتا ہے کہ آپ نے چرائی ہیں 1.7 ملین دستاویزات. ایسا لگتا ہے ان میں سے صرف چند سو اب تک صحافیوں کے حوالے کیئے ہیں. کیا اور انکشافات ہونے والے ہیں؟
ES: There are absolutely more revelations to come. I don't think there's any question that some of the most important reporting to be done is yet to come.
ای ایس: بالکل مزید انکشافات ہونے والے ہیں. اسمیں کوئی شک نہیں کہ کچھ انتہائی اہم معلومات ابھی آنا باقی ہیں۔
CA: Come here, because I want to ask you about this particular revelation. Come and take a look at this. I mean, this is a story which I think for a lot of the techies in this room is the single most shocking thing that they have heard in the last few months. It's about a program called "Bullrun." Can you explain what that is?
سی اے: یہاں آئیں کیونکہ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، اس مخصوص انکشاف کے بارے میں. آیئں اور اس پر ایک نظر ڈالیں. یہ ایک ایسی کہانی ہے جو اس کمرے میں موجود ٹیکنالوجی کے ماہر بہت سے لوگوں کے لیئے گزشتہ چند ماہ میں سنی گئی تمام باتوں سے زیادہ حیران کن ہے۔ یہ " بل رن" نامی پروگرام کے بارے میں ہے۔ کیا آپ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں؟
ES: So Bullrun, and this is again where we've got to thank the NSA for their candor, this is a program named after a Civil War battle. The British counterpart is called Edgehill, which is a U.K. civil war battle. And the reason that I believe they're named this way is because they target our own infrastructure. They're programs through which the NSA intentionally misleads corporate partners. They tell corporate partners that these are safe standards. They say hey, we need to work with you to secure your systems, but in reality, they're giving bad advice to these companies that makes them degrade the security of their services. They're building in backdoors that not only the NSA can exploit, but anyone else who has time and money to research and find it can then use to let themselves in to the world's communications. And this is really dangerous, because if we lose a single standard, if we lose the trust of something like SSL, which was specifically targeted by the Bullrun program, we will live a less safe world overall. We won't be able to access our banks and we won't be able to access commerce without worrying about people monitoring those communications or subverting them for their own ends.
ای ایسS: تو بل رن، اور ایک بار پھر ہمیں ان کے کھرے پن کے لئے این ایس اے کا شکریہ ادا کرنا ہوگا، یہ خانہ جنگی کی ایک لڑائی کے نام پر ایک پروگرام ہے. برطانوی ہم منصب اس کو " ایج ہل" کہتے ہیں، جو برطانیہ کی ایک خانہ جنگی کی لڑائی ہے. اور میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کا نام اس وجہ سے رکھا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے ڈھانچے کو ہی نشانہ بنایا ہے. یہ وہ پروگرام ہیں جن کے ذریعے این ایس اے نے جان بوجھ کہ کارپوریٹ شراکت داروں کو بھٹکایا. وہ کارپوریٹ شراکت داروں کو بتاتے ہیں کہ یہ محفوظ معیار ہیں. وہ کہتے کہ، ہمیں آپ کے ساتھ ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے آپ کے سسٹم کو محفوظ بنانے کے لیئے، لیکن حقیقت میں، وہ برا مشورہ دے رہے ہیں ان کمپنیوں کو جسکے نتیجے میں انہوں نے اپنی خدمات کی حفاظت کو کم درجے کا کر دیا . وہ چور دروازے تعمیر کر رہے ہیں جس سے نہ صرف این ایس اے استحصال کر سکتا ہے، بلکہ کوئی بھی جسکے پاس وقت اور پیسہ ہو یہ تحقیق کرنے کا اور تلاش کرنے کا، پھر دخل انداز ہو سکتا ہے دنیا بھر کے مواصلاتی نظام میں. اور یہ واقعی بہت خطرناک ہے، کیونکہ اگر ہم ایک واحد معیار کھو دیتے ہیں تو، اگر ہم SSL جیسا اعتماد کھو دیتے ہیں، جس کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا بل رن پروگرام، کے ذریعے، ہم مجموعی طور پر ایک کم محفوظ دنیا میں رہیں گے. ہم اپنے بینکوں تک رسائی حاصل کے قابل نہیں ہوں گے اور ہم تجارت تک رسائی حاصل کے لئے قابل نہیں ہوں گے اس فکر کے بغیرکہ کوئی ان رابطوں کی نگرانی کر رہا ہے یا اپنے مقصد کے لیئے نقصان پہنچا سکتا ہے۔
CA: And do those same decisions also potentially open America up to cyberattacks from other sources?
سی اے: اور کیا یہی فیصلے ممکنہ طور پر امریکہ کو سائبر حملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں دوسرے ذرائع سے؟
ES: Absolutely. One of the problems, one of the dangerous legacies that we've seen in the post-9/11 era, is that the NSA has traditionally worn two hats. They've been in charge of offensive operations, that is hacking, but they've also been in charge of defensive operations, and traditionally they've always prioritized defense over offense based on the principle that American secrets are simply worth more. If we hack a Chinese business and steal their secrets, if we hack a government office in Berlin and steal their secrets, that has less value to the American people than making sure that the Chinese can't get access to our secrets. So by reducing the security of our communications, they're not only putting the world at risk, they're putting America at risk in a fundamental way, because intellectual property is the basis, the foundation of our economy, and if we put that at risk through weak security, we're going to be paying for it for years.
ای ایس: بالکل. ایک مسئلہ یہ ہے کہ، ایک خطرناک ورثہ جو ہم نے 9/11 کے بعد کے دور میں دیکھا ہے، این ایس اے روایتی طور پر دو کردار ادا کرتا ہے. وہ جارحانہ کارروائیوں کے ذمہ دار رہے ہیں، جو کہ ہیکنگ ہے، لیکن وہ دفاعی کارروائیوں کے بھی ذمہ دار رہے ہیں، اور روایتی طور پر انہوں نے ہمیشہ ترجیح دی ہے جارحیت پر دفاع کو اس اصول کی بنیاد پر کہ امریکی راز زیادہ قیمتی ہیں. اگر ہم ایک چینی کاروبار ہیک کر لیں اور ان کے راز چرالیں، اگر ہم برلن میں ایک سرکاری دفتر ہیک کر لیں اور ان کے راز چرالیں، یہ امریکی عوام کے لئے کم اہمیت کی حامل ہے بہ نسبت اس بات کو یقینی بنانے سے کہ چینی ہمارے راز حاصل نہ کر سکیں. تو ہمارے مواصلاتی رابطوں کے تحفظ کو کم کرنے سے، وہ نہ صرف دنیا کوخطرے میں ڈال رہے ہیں، وہ، ایک بنیادی انداز میں امریکہ کوخطرے میں ڈال رہے ہیں۔ کیونکہ دانشورانہ املاک، ہماری معیشت کی بنیاد ہے، اور اگر ہم اسے کمزور سیکورٹی کے ذریعے خطرے میں ڈال دیں، ہم سالوں تک اس کی قیمت ادا کریں گے۔
CA: But they've made a calculation that it was worth doing this as part of America's defense against terrorism. Surely that makes it a price worth paying.
سی اے: مگر انہوں نے حساب لگایا ہے کہ ایسا کرنا ضروری تھا دہشت گردی کے خلاف امریکہ کے دفاع کے لیئے . یقینا وہ اس کو ایک بھاری قیمت ادا کرنے کے لائق قرار دیں گے .
ES: Well, when you look at the results of these programs in stopping terrorism, you will see that that's unfounded, and you don't have to take my word for it, because we've had the first open court, the first federal court that's reviewed this, outside the secrecy arrangement, called these programs Orwellian and likely unconstitutional. Congress, who has access to be briefed on these things, and now has the desire to be, has produced bills to reform it, and two independent White House panels who reviewed all of the classified evidence said these programs have never stopped a single terrorist attack that was imminent in the United States. So is it really terrorism that we're stopping? Do these programs have any value at all? I say no, and all three branches of the American government say no as well.
ای ایس: ٹھیک ہے، اگر آپ دہشت گردی کو روکنے میں ان پروگراموں کے نتائج پر نظر ڈالیں تو، تو آپ اس کو بے بنیاد پایئں گے، اور آپ کو صرف میری بات پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ پہلی بار ایک کھلی عدالت میں ، پہلی وفاقی عدالت نے اس کا جائزہ لیا ، خفیہ انتظامات سے باہر، ان پروگراموں Orwellian قرار دیا ہے اور ممکنہ طور پرغیر آئینی. کانگریس جس کو اختیار حاصل ہے، کہ اسے ان مسائل کے بارے میں معلومات دی جائیں، اب معلومات حاصل کرنا چاہتی ہے، اس کی اصلاح کرنے کے لئے بل تیار کیا ہے، اور دو آزاد وائٹ ہاؤس کمیٹیوں نے جنہوں نے تمام خفیہ ثبوتوں کا جائزہ لیا کہا ان پروگراموں نے کسی ایک بھی دہشت گرد حملے کو کبھی نہیں روکا ہے جو کہ امریکہ میں متوقع تھا. تو کیا واقعی یہ دہشت گردی ہے جو ہم روک رہے ہیں ؟ کیا ان پروگراموں کی واقعی کوئی اہمیت ہے؟ میں کہتا ہوں نہیں، اور امریکی حکومت کی تینوں شاخوں نے بھی کہا ہے نہیں۔
CA: I mean, do you think there's a deeper motivation for them than the war against terrorism?
سی اے: تو آپ کا خیال ہے کہ کوئی گہرا مقصد ہے انکا دہشت گردی کے خلاف جنگ سے زیادہ ؟
ES: I'm sorry, I couldn't hear you, say again?
ES: میں معافی چاہتا ہوں، سن نہیں سکا، دوبارہ کہیئے؟
CA: Sorry. Do you think there's a deeper motivation for them other than the war against terrorism?
سی اے: معاف کیجیئے گا، تو آپ کا خیال ہے کہ کوئی گہرا مقصد ہے انکا دہشت گردی کے خلاف جنگ سے زیادہ ؟
ES: Yeah. The bottom line is that terrorism has always been what we in the intelligence world would call a cover for action. Terrorism is something that provokes an emotional response that allows people to rationalize authorizing powers and programs that they wouldn't give otherwise. The Bullrun and Edgehill-type programs, the NSA asked for these authorities back in the 1990s. They asked the FBI to go to Congress and make the case. The FBI went to Congress and did make the case. But Congress and the American people said no. They said, it's not worth the risk to our economy. They said it's worth too much damage to our society to justify the gains. But what we saw is, in the post-9/11 era, they used secrecy and they used the justification of terrorism to start these programs in secret without asking Congress, without asking the American people, and it's that kind of government behind closed doors that we need to guard ourselves against, because it makes us less safe, and it offers no value.
ای ایس: جی ہاں. حرف آخر ہے کہ دہشت گردی کو جاسوسی کی دنیا میں ہمیشہ سے ایک بہانہ بنایا ہے کسی بھی عمل کی لیئے۔ دہشت گردی ایسی چیز ہے جو لوگوں کو ایک جذباتی ردعمل پر اکساتی ہے جو انہیں اجازت دیتا ہے کہ غیرمعمولی اختیارات اور پروگرام کو بجا قرار دیں جو عام حالات میں وہ نہ دیں۔ بل رن اور ایج ہل قسم کے پروگرام، این ایس اے نے 1990 کی دہائی میں یہ اختیارات مانگے تھے۔ انہوں نے ایف بی آئی کو کہا کہ کانگریس کے پاس جائیں اور کیس پیش کریں۔ ایف بی آئی کانگریس کے پاس گئی اور کیس پیش کیا. لیکن کانگریس اور امریکی عوام نے انکار کر دیا. انہوں نے کہا کہ، یہ خطرہ ہماری معیشت کے لئے مول لینا درست نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ اسمیں نقصان بہت زیادہ ہے ہمارے معاشرے کے لئے، فوائد کے مقابلے میں. لیکن ہم نے دیکھا کہ 9/11 کے بعد کے دور میں، انہوں نے رازداری کا استعمال کیا اور انہوں نے دہشت گردی کے جوازکا استعمال کیا ان پروگراموں کو خفیہ طور پر شروع کرنے کے لئے کانگریس سے پوچھے بغیر، امریکی عوام سے پوچھے بغیر، اور اس طرح کی بند دروازوں کے پیچھے حکومت ہے جسکے خلاف ہمیں اپنی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ ہمیں غیر محفوظ بنا دیتی ہے، اور یہ کوئی قدر فراہم نہیں کرتی.
CA: Okay, come with me here for a sec, because I've got a more personal question for you. Speaking of terror, most people would find the situation you're in right now in Russia pretty terrifying. You obviously heard what happened, what the treatment that Bradley Manning got, Chelsea Manning as now is, and there was a story in Buzzfeed saying that there are people in the intelligence community who want you dead. How are you coping with this? How are you coping with the fear?
سی اے: ٹھیک ہے، ایک سیکنڈ کے لئے یہاں میرے ساتھ آئیں، کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے ایک زیادہ ذاتی سوال ہے۔ دہشت گردی کی بات کرتے ہوئے، زیادہ تر لوگ اس صورت حال کو جس میں آپ اب ہیں روس میں، کافی خوفناک پایئں گے۔ آپ نے ظاہر ہے سنا ہو گا کہ کیا ہوا، بریڈلی میننگ کے ساتھ کیا سلوک ہوا، چیلسی میننگ جو اب ہے، اور اخبار میں ایک کہانی ہے کہ خفیہ اداروں میں لوگ ہیں جو آپ کو مردہ دیکھنا چاہتے ہیں. آپ اس کا مقابلہ کیسے کر رہے ہیں؟ آپ اس خوف کا مقابلہ کیسے کر رہے ہیں؟
ES: It's no mystery that there are governments out there that want to see me dead. I've made clear again and again and again that I go to sleep every morning thinking about what I can do for the American people. I don't want to harm my government. I want to help my government, but the fact that they are willing to completely ignore due process, they're willing to declare guilt without ever seeing a trial, these are things that we need to work against as a society, and say hey, this is not appropriate. We shouldn't be threatening dissidents. We shouldn't be criminalizing journalism. And whatever part I can do to see that end, I'm happy to do despite the risks.
ای ایس: یہ کوئی راز نہیں ہے کہ بہت سی حکومتیں ہیں جو مجھے مردہ دیکھنا چاہتی ہیں۔ میں بار بار واضح کر چکا ہوں کہ میں ہر صبح کو سوتا ہوں یہ سوچتے ہوئے کہ میں امریکی عوام کے لئے کیا کر سکتا ہوں. میں اپنی حکومت نقصان پہنچانا نہیں چاہتا. میں اپنی حکومت کی مدد کرنا چاہتا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر مروجہ طریقِ کار کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں، وہ مجرم قرار دینے کے لیئے تیار یہں مقدمے کی سماعت کیے بغیر، یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے خلاف ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے ایک معاشرے کے طور پر، اور کہیں کہ، یہ مناسب نہیں ہے. ہمیں مخالفین کو دھمکانا نہیں چاہئے. ہمیں صحافت کو مجرم نہیں بنانا چاہئے. اور اس کو اس منزل تک پہنچانے کے لیئے جو کام میں کر سکتا ہوں، خطروں کے باوجود میں کرنے کے لیئے تیار ہوں۔
CA: So I'd actually like to get some feedback from the audience here, because I know there's widely differing reactions to Edward Snowden. Suppose you had the following two choices, right? You could view what he did as fundamentally a reckless act that has endangered America or you could view it as fundamentally a heroic act that will work towards America and the world's long-term good? Those are the two choices I'll give you. I'm curious to see who's willing to vote with the first of those, that this was a reckless act? There are some hands going up. Some hands going up. It's hard to put your hand up when the man is standing right here, but I see them.
سی اے: تو میں اصل میں رائے حاصل کرنا چاہوں گا یہاں حاضرین سے، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وسیع پیمانے پر اختلافی رد عمل ہیں سنو ڈین کے معاملے میں۔ فرض کریں کہ آپ کے پاس یہی دو راستے ہیں؟ آپ اسے دیکھ سکتے ہیں جو انہوں نے کیا ایک بنیادی طور پر نا عاقبت اندیش عمل کے طور پر جس سے امریکہ خطرے سے دوچار ہوا یا ایک بنیادی طور پر ایک بہادرانہ فعل کیطرح دیکھ سکتے ہیں جو امریکہ اور باقی دنیا کےمستقبل کے لئے بہتر ثابت ہو گا؟ میں آپ کو ان دو صورتوں میں سے انتخاب کرنے کو کہوں گا۔ مجھے تجسس ہے کہ کون ووٹ کرے گا پہلی صورتحال کے حق میں کہ یہ ایک نا عاقبت اندیش عمل تھا؟ کچھ لوگ ہاتھ اٹھا رہے ہیں۔ لوگ ہاتھ اٹھا رہے ہیں۔ ہاتھ اٹھانا مشکل ہے جب یہ آدمی یہیں کھڑا ہے، مگر میں انہیں دیکھ رھا ہوں۔
ES: I can see you. (Laughter)
ای ایس: میں آپکو دیکھ سکتا ہوں. (ہنسی)
CA: And who goes with the second choice, the fundamentally heroic act?
سی اے: اور کون دوسری صورتحال کو پسند کرتا ہے، ایک بنیادی طور پر ایک بہادرانہ فعل کو؟
(Applause) (Cheers)
(تالیاں) (مبارک)
And I think it's true to say that there are a lot of people who didn't show a hand and I think are still thinking this through, because it seems to me that the debate around you doesn't split along traditional political lines. It's not left or right, it's not really about pro-government, libertarian, or not just that. Part of it is almost a generational issue. You're part of a generation that grew up with the Internet, and it seems as if you become offended at almost a visceral level when you see something done that you think will harm the Internet. Is there some truth to that?
اوریہ کہنا صحیح ہو گا کہ بہت سے لوگ جنہوں نے ہاتھ نہیں اٹھایا ابھی بھی اسکے بارے میں سوچ رہے ہیں، کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ کے ارد گرد بحث روایتی سیاسی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہے. یہ بائیں یا دائیں بازو کی بحث نہیں ہے، یہ حکومت کی حامی، لبرل یا نہیں، صرف اس کے بارے میں واقعی نہیں ہے. اسکا کچھ حصہ تقریبا ایک نئی نسل کا مسئلہ ہے. آپ ایک ایسی نسل کا حصہ ہیں جو انٹرنیٹ کے دور میں پلی بڑھی ہے اور آپ تقریبا لاشعوری طور پر ناراض ہو جاتے ہیں جب آپ کچھ ایسا ہوتا دیکھیں جس سے آپ کے خیال میں انٹرنیٹ کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ کیا اسمیں کچھ سچ ہے؟
ES: It is. I think it's very true. This is not a left or right issue. Our basic freedoms, and when I say our, I don't just mean Americans, I mean people around the world, it's not a partisan issue. These are things that all people believe, and it's up to all of us to protect them, and to people who have seen and enjoyed a free and open Internet, it's up to us to preserve that liberty for the next generation to enjoy, and if we don't change things, if we don't stand up to make the changes we need to do to keep the Internet safe, not just for us but for everyone, we're going to lose that, and that would be a tremendous loss, not just for us, but for the world.
ای ایس: میں سمجھتا ہوں یہ بلکل سچ ہے. یہ بائیں یا دائیں بازو کا مسئلہ نہیں ہے، ہماری بنیادی آزادیاں، اور جب میں کہتا ہوں کہ ہماری، میری مراد صرف امریکیوں سے نہیں ہے، میری مراد دنیا بھر کے لوگوں کسے ہے، یہ ایک جماعتی مسئلہ نہیں ہے. یہ وہ چیزیں ہیں جن پر تمام لوگوں کا یقین ہے، اور ان کی حفاظت ہم سب پر منحصر ہے، اور ان لوگوں پر جنہوں نے اسے دیکھا اور فائدہ اٹھایا ہے ایک آزاد اور کھلے انٹرنیٹ سے، اس آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری ہم پر ہے تاکہ اگلی نسل اس سے لطف اندوز ہو سکے، اور اگر ہم چیزوں کو تبدیل نہیں کرتے، اگر ہم تبدیلیاں کرنے کے لئے کھڑے نہ ہوئے ہمیں انٹرنیٹ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے، نہ صرف ہمارے لئے بلکہ سب کے لئے، ہم اسکو کھو دیں گے، اور یہ ایک زبردست نقصان ہو گا، نہ صرف ہمارے لئے بلکہ سب کے لیئے۔
CA: Well, I have heard similar language recently from the founder of the world wide web, who I actually think is with us, Sir Tim Berners-Lee. Tim, actually, would you like to come up and say, do we have a microphone for Tim?
سی اے: ٹھیک ہے، میں نے حال ہی میں اسی زبان میں سنا ہے ورلڈ وائڈ ویب کے بانی کی طرف سے، جو اسوقت ہمارے ساتھ ہیں، سر ٹم برنرس لی. ٹم، آپ یہاں آ کر کچھ کہنا چاہیں گے، ہمارے پاس ٹم کے لئے مائیکروفون ہے؟
(Applause)
(تالیاں)
Tim, good to see you. Come up there. Which camp are you in, by the way, traitor, hero? I have a theory on this, but --
ٹم، آپ کو دیکھ کرخوشی ہوئی، ٓپ ادھر آئیے۔ ویسے آپ کس طرف ہیں، غدار، ہیرو؟ میرا اس کے بارے میں ایک نظریہ ہے، لیکن --
Tim Berners-Lee: I've given much longer answers to that question, but hero, if I have to make the choice between the two.
ٹم برنرس لی: میں نے اس سوال کے بہت طویل جوابات دیئے ہیں ، لیکن ہیرو، اگر مجھے ان دونوں کے درمیان انتخاب کرنا ہے تو.
CA: And Ed, I think you've read the proposal that Sir Tim has talked about about a new Magna Carta to take back the Internet. Is that something that makes sense? ES: Absolutely. I mean, my generation, I grew up not just thinking about the Internet, but I grew up in the Internet, and although I never expected to have the chance to defend it in such a direct and practical manner and to embody it in this unusual, almost avatar manner, I think there's something poetic about the fact that one of the sons of the Internet has actually become close to the Internet as a result of their political expression. And I believe that a Magna Carta for the Internet is exactly what we need. We need to encode our values not just in writing but in the structure of the Internet, and it's something that I hope, I invite everyone in the audience, not just here in Vancouver but around the world, to join and participate in.
سی اے: اور ایڈ، میرا خیال ہے آپ نے پڑھا ہے وہ تجویز جس کے بارے میں سر ٹم بات کر رہے ہیں ایک نئے میگنا کارٹا کے بارے میں، انٹرنیٹ واپس لینے کے لئے. کیا یہ حل سمجھ میں آتا ہے؟ ای ایس: بالکل. میرا مطلب ہے، میری نسل، میں بڑا ہوا نہ صرف انٹرنیٹ کے بارے میں سوچتے ہوئے، بلکہ میں انٹرنیٹ میں پلا بڑھا، اور اگرچہ مجھے کبھی امید نہیں تھی کہ موقع ملے گا اس طرح ایک براہ راست اور عملی انداز میں اس کا دفاع کرنے کا اور اس کو غیر معمولی انداز میں مجسم طور پر اپنانے کا، تقریبا اوتار انداز میں، مجھے لگتا ہے اس حقیقت کے بارے میں کچھ شاعرانہ ہے کہ انٹرنیٹ کے بیٹوں میں سے ایک اصل میں انٹرنیٹ کے قریب ہو گیا ہے ان کے سیاسی اظہار کے نتیجے کے طور پر. اور مجھے یقین ہے کہ ایک نیا میگنا کارٹا انٹرنیٹ کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں اپنی اقدار کی ضابطہ کاری کرنے کی ضرورت ہے نہ صرف تحریری طور پر بلکہ انٹرنیٹ کی ساخت میں، اور یہ مجھے امید ہے کہ، میں سامعین میں سب کو دعوت دیتا ہوں، نہ صرف یہاں وینکوور میں بلکہ دنیا بھر میں، اس میں شمولیت اوراس میں حصہ لینے کے لئے۔
CA: Do you have a question for Ed?
سی اے: آپ ایڈ سے کوئی سوال کرنا چاہیں گے؟
TBL: Well, two questions, a general question —
ٹی بی ایل: ٹھیک ہے، دو سوال، ایک عام سوال —
CA: Ed, can you still hear us?
سی اے: ایڈ، آپ اب بھی ہمیں سن سکتے ہیں؟
ES: Yes, I can hear you. CA: Oh, he's back.
ای ایس: جی ہاں، میں سن سکتا ہوں۔ سی اے: اوہ، وہ واپس آ گیا ہے.
TBL: The wiretap on your line got a little interfered with for a moment. (Laughter)
ٹی بی ایل: آپ کی لائن پر وائر ٹیپ کے ساتھ تھوڑی سی مداخلت ہو گئی. (ہنسی)
ES: It's a little bit of an NSA problem.
ای ایس: یہ ایک تھوڑا سا این ایس اے کا مسئلہ ہے.
TBL: So, from the 25 years, stepping back and thinking, what would you think would be the best that we could achieve from all the discussions that we have about the web we want?
ٹی بی ایل: تو، 25 سال سے، پیچھے دیکھیں اور سوچیں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہم سب سے بہتر کیا حاصل کر سکتے ہیں اس تمام بات چیت سے ایسے ویب کے بارے میں جو ہم چاہتے ہیں؟
ES: When we think about in terms of how far we can go, I think that's a question that's really only limited by what we're willing to put into it. I think the Internet that we've enjoyed in the past has been exactly what we as not just a nation but as a people around the world need, and by cooperating, by engaging not just the technical parts of society, but as you said, the users, the people around the world who contribute through the Internet, through social media, who just check the weather, who rely on it every day as a part of their life, to champion that. We'll get not just the Internet we've had, but a better Internet, a better now, something that we can use to build a future that'll be better not just than what we hoped for but anything that we could have imagined.
ای ایس: جب ہم سوچتے ہیں ہم اس معاملے میں کس حد تک جا سکتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ یہ سوال اس پر منحصر ہے کہ ہم اس کے لیئے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس انٹرنیٹ کا ہم نے ماضی میں لطف اٹھایا ہے بالکل وہی ہے جسکی ہمیں نہ صرف ایک قوم کے کے طور پر بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کو ضرورت ہے، ایک دوسرے کے تعاون سے اور شامل ہو کر، نہ صرف معاشرے کے تکنیکی حصوں میں، بلکہ جیسا آپ نے کہا، صارفین، دنیا بھر کے لوگ جو شراکت کرتے ہیں انٹرنیٹ کے ذریعے، سوشل میڈیا کے ذریعے، جو صرف موسم جانچتے ہیں، جو ہر روز اس پر انحصار کرتے ہیں اپنی زندگی کے ایک حصہ کے طور پر، انکے لیئے کام کرنا ہے۔ ہمیں نہ صرف انٹرنیٹ ملے گا جو پہلے تھا بلکہ، بلکہ ایک بہتر انٹرنیٹ، ایک بہتر حال ملے گا، جو ہم مستقبل کی تعمیر کے لئے استعمال کر سکتے ہیں وہ نہ صرف ہماری امیدوں پر پورا اترے گا بلکہ ہمارے تصور سے بھی بہتر ہو گا۔
CA: It's 30 years ago that TED was founded, 1984. A lot of the conversation since then has been along the lines that actually George Orwell got it wrong. It's not Big Brother watching us. We, through the power of the web, and transparency, are now watching Big Brother. Your revelations kind of drove a stake through the heart of that rather optimistic view, but you still believe there's a way of doing something about that. And you do too.
سی اے: 30 سال پہلے، 1984 میں TED وجود میں آیا. اس کے بعد سے بہت بات چیت اسطرح کی ہوئی کہ اصل میں جارج آرویل نےغلط سمجھا تھا . ہمیں بڑا بھائی نہیں دیکھ رہا ہے. ہم، ویب کی طاقت اور شفافیت کے ذریعے، اب بڑے بھائی کو دیکھ رہے ہیں. آپ کے انکشافات نے ایک قسم کا نیزہ اس پرامید نقطہ نظر کے دل میں گاڑ دیا ہے، لیکن آپ کو اب بھی یقین ہے کہ اسکے بارے میں کچھ ہو سکتا ہے۔ اور آپ کرتے ہیں۔
ES: Right, so there is an argument to be made that the powers of Big Brother have increased enormously. There was a recent legal article at Yale that established something called the Bankston-Soltani Principle, which is that our expectation of privacy is violated when the capabilities of government surveillance have become cheaper by an order of magnitude, and each time that occurs, we need to revisit and rebalance our privacy rights. Now, that hasn't happened since the government's surveillance powers have increased by several orders of magnitude, and that's why we're in the problem that we're in today, but there is still hope, because the power of individuals have also been increased by technology. I am living proof that an individual can go head to head against the most powerful adversaries and the most powerful intelligence agencies around the world and win, and I think that's something that we need to take hope from, and we need to build on to make it accessible not just to technical experts but to ordinary citizens around the world. Journalism is not a crime, communication is not a crime, and we should not be monitored in our everyday activities.
ای ایس: جی ہاں، ایک بحث یہ ہے کہ بڑے بھائی کے اختیارات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے. Yale میں ایک حالیہ قانونی مضمون تھا جو کہتا ہے کہ ایک Bankston-Soltani اصول ہے، جسکے مطابق ہماری رازداری کی امید کی خلاف ورزی ہوئی ہے جب حکومت کی نگرانی کی صلاحیتیں حجم کے حساب سے سستی ہو گئی ہیں، اور ہر بار جب یہ ہوتا ہے ہم کو نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے اور ہماری رازداری کے حقوق کو متوازن کرنے کی. اب جبکہ یہ نہیں ہوا، تب سے حکومت کی نگرانی کے اختیارات میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، اور اس وجہ سے آج ہم اس مسئلہ میں ہیں، لیکن اب بھی امید باقی ہے، کیونکہ افراد کی طاقت بھی ٹیکنالوجی کے ذریعے بڑھ گئی ہے. میں زندہ ثبوت ہوں کہ ایک فرد بھی مقابل کھڑا ہو سکتا ہے سب سے زیادہ طاقتور مخالفین کے خلاف اور دنیا بھر کے سب سے زیادہ طاقتور جاسوسی اداروں کے خلاف اور جیت سکتا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ ہے جس سے ہم امید حاصل کر سکتے ہیں، اور ہم کو یہ قابل رسائی بنانے کی ضرورت ہے نہ صرف تکنیکی ماہرین کے لئے بلکہ دنیا بھر میں عام شہریوں کے لئے. صحافت کوئی جرم نہیں ہے، مواصلات جرم نہیں ہے، اور ہماری روز مرہ سرگرمیوں کی نگرانی نہیں کی جانی چاہئے.
CA: I'm not quite sure how you shake the hand of a bot, but I imagine it's, this is the hand right here. TBL: That'll come very soon. ES: Nice to meet you, and I hope my beam looks as nice as my view of you guys does.
سی اے: مجھے پتہ نہیں کس طرح ایک روبوٹ سے ہاتھ ملاتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے یہ سیدھا ہاتھ ہے، ٹی بی ایل : یہ بہت جلد آئے گا. ای ایس: آپ سے مل کر خوشی ہوئی، اور امید ہے میری تصویر اتنی اچھی لگ رہی ہے جتنی مجھے آپ کی لگ رہی ہے۔
CA: Thank you, Tim.
سی اے:، ٹم شکریہ.
(Applause)
(تالیاں)
I mean, The New York Times recently called for an amnesty for you. Would you welcome the chance to come back to America?
میرا مطلب ہے، نیو یارک ٹائمز نے حال ہی میں آپ کے لئے ایک عام معافی کے لئے کہا. کیا آپ امریکہ واپس آنے کے موقع کا خیر مقدم کریں گے؟
ES: Absolutely. There's really no question, the principles that have been the foundation of this project have been the public interest and the principles that underly the journalistic establishment in the United States and around the world, and I think if the press is now saying, we support this, this is something that needed to happen, that's a powerful argument, but it's not the final argument, and I think that's something that public should decide. But at the same time, the government has hinted that they want some kind of deal, that they want me to compromise the journalists with which I've been working, to come back, and I want to make it very clear that I did not do this to be safe. I did this to do what was right, and I'm not going to stop my work in the public interest just to benefit myself. (Applause)
ای ایس: بالکل، اسمیں کوئی شبہ نہیں، وہ اصول جو اس منصوبے کی بنیاد بنے ہیں عوامی مفاد میں ہیں اور جو اصول بنیاد ہیں امریکہ میں صحافتی قیام کے اور دنیا بھر میں، اور میں سمجھتا ہوں کہ پریس اب کہہ رہا ہے، کہ ہم اس کی حمایت کرتے ہیں، ایسا کرنے کی ضرورت تھی، کہ یہ ایک طاقتور دلیل ہے، لیکن یہ آخری دلیل نہیں ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ عوام کو فیصلہ کرنا چاہئے. لیکن اس کے ساتھ، حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کسی قسم کا معاہدہ کا، وہ مجھ سے سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں ان صحافیوں کے بارے میں جن کے میں ساتھ کام کر رہا ہوں، واپس آنے کے لئے، اور میں اسے بہت واضح کرنا چاہتا ہوں میں نے یہ محفوظ ہونے کے لیئے نہیں کیا ہے. میں نے جو کیا وہ درست تھا اس لیے کیا، اور میں اپنے کام کو روکنے نہیں جا رہا ہوں عوامی مفاد میں نہ کہ صرف اپنے آپ کو فائدہ پہنچانے کے لئے. (تالیاں)
CA: In the meantime, courtesy of the Internet and this technology, you're here, back in North America, not quite the U.S., Canada, in this form. I'm curious, how does that feel?
سی اے: اس دوران میں، انٹرنیٹ اور اس ٹیکنالوجی کی بدولت، آپ، واپس شمالی امریکہ میں ہیں، امریکہ میں نہیں، مگر کینیڈ ا میں اس شکل میں. میں جاننا چاہتا ہوں، کہ کیسا محسوس ہوتا ہے؟
ES: Canada is different than what I expected. It's a lot warmer. (Laughter)
ای ایس: کینیڈا میری توقع سے مختلف ہے. یہ بہت گرم ہے. (ہنسی)
CA: At TED, the mission is "ideas worth spreading." If you could encapsulate it in a single idea, what is your idea worth spreading right now at this moment? ES: I would say the last year has been a reminder that democracy may die behind closed doors, but we as individuals are born behind those same closed doors, and we don't have to give up our privacy to have good government. We don't have to give up our liberty to have security. And I think by working together we can have both open government and private lives, and I look forward to working with everyone around the world to see that happen.
سی اے: TED کا، مشن "پھیلانے کے قابل خیالات" ہے. آپ اس کو ایک خیال میں سمیٹ سکتے ہیں، تو آپ کا پھیلانے کے قابل خیال کیا ہے اسوقت اس لمحے میں؟ ای ایس: میں کہوں گا کہ گزشتہ سال ایک یاد دہانی ہے کہ جمہوریت، بند دروازوں کے پیچھے مر سکتی ہے لیکن ہم افراد کے طور پر پیدا ہوئے ہیں انہی بند دروازوں کے پیچھے، اور ہمیں ہارنے کی ضرورت نہیں ہے اچھی حکومت کے لئے، اپنی نجی زندگی کی حفاظت کےلیئے. ہمیں اپنی آزادی ہارنے کی ضرورت نہیں ہے اپنی سلامتی کے لیئے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ مل کرکام کرنے سے ہم دونوں چیزیں حاصل کر سکتے ہیں، شفاف حکومت اور نجی زندگی، اور میں سب کے ساتھ مل کر کام کرنےکا انتظار کر رہا ہوں، دنیا بھر میں ایسا دیکھنے کے لئے.
Thank you very much.
بہت بہت شکریہ.
CA: Ed, thank you.
سی اے: ایڈ، آپ کا شکریہ.
(Applause)
(تالیاں).