I'm going to speak to you about the global refugee crisis and my aim is to show you that this crisis is manageable, not unsolvable, but also show you that this is as much about us and who we are as it is a trial of the refugees on the front line.
میں آپ سے مہاجرین کے عالمی بحران کے بارے میں بات کروں گا اور میرا مقصد آپ کو دکھانا ہے کہ یہ بحران قابلِ انتظام ہے، نا قابلِ حل نہیں، لیکن ساتھ میں آپ کو یہ بھی دکھانا کہ یہ ہمارے بارے میں بھی ہے اور یہ کہ ہم کون ہیں جیسا یہ اگلے محاذ پر موجود مہاجرین کا امتحان ہے۔
For me, this is not just a professional obligation, because I run an NGO supporting refugees and displaced people around the world. It's personal.
میرے لیے یہ صرف ایک پیشہ ورانہ ذمہ داری نہیں ہے، کیونکہ میں دنیا بھر کے مہاجرین اور بے گھر افراد کے لیے ایک این جی او چلاتا ہوں۔ یہ ذاتی مسئلہ ہے۔
I love this picture. That really handsome guy on the right, that's not me. That's my dad, Ralph, in London, in 1940 with his father Samuel. They were Jewish refugees from Belgium. They fled the day the Nazis invaded. And I love this picture, too. It's a group of refugee children arriving in England in 1946 from Poland. And in the middle is my mother, Marion. She was sent to start a new life in a new country on her own at the age of 12. I know this: if Britain had not admitted refugees in the 1940s, I certainly would not be here today.
مجھے یہ تصویر بہت پسند ہے۔ دائیں طرف والا خوبصورت آدمی، میں نہیں ہوں۔ یہ میرے والد رالف ہیں، لندن میں، 1940 میں اپنے والد سیموئیل کے ساتھ ۔ وہ بیلجیم سے آئے ہوئے یہودی مہاجرین ہیں۔ وہ نازیوں کے حملے کے دن ہی فرار ہو گئے تھے۔ اور مجھے یہ تصویر بھی بہت پسند ہے۔ یہ مہاجرین کے بچوں کا ایک گروہ ہے جو پولینڈ سے 1946 میں انگلینڈ پہنچے تھے۔ اور ان کے درمیان میں میری والدہ میرین ہیں۔ انہوں نے ایک نئی زندگی شروع کرنی تھی ایک نئے ملک میں اپنے بل بوتے پر 12 سال کی عمر میں۔ مجھے یہ پتہ ہے: اگر برطانیہ مہاجرین کو داخل نہ ہونے دیتا 1940 کی دہائی میں، میں یقیناً آج یہاں نہ ہوتا۔
Yet 70 years on, the wheel has come full circle. The sound is of walls being built, vengeful political rhetoric, humanitarian values and principles on fire in the very countries that 70 years ago said never again to statelessness and hopelessness for the victims of war. Last year, every minute, 24 more people were displaced from their homes by conflict, violence and persecution: another chemical weapon attack in Syria, the Taliban on the rampage in Afghanistan, girls driven from their school in northeast Nigeria by Boko Haram. These are not people moving to another country to get a better life. They're fleeing for their lives.
لیکن 70 سال بعد، وقت ایک بار پھر اسی جگہ آ کھڑا ہوا ہے۔ دیواروں کے بننے کی باتیں، معاندانہ سیاسی بیان بازی، جلتی ہوئی انسانی اقدار اور اصول انہی ممالک میں جنہوں نے 70 سال پہلے کہا تھا اب کبھی نہیں بے وطن اور نا امید جنگ کے متاثرین سے۔ پچھلے سال، ہر ایک منٹ میں، 24 لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے تنازعے، تشدد اور ظلم و ستم کی وجہ سے: شام میں ایک اور کیمیائی حملے کی وجہ سے، افغانستان میں طالبان کی یلغار سے، شمال مشرقی نائیجیریا میں لڑکیاں اسکولوں سے بے دخل ہوئیں بوکو حرام کی وجہ سے۔ یہ وہ لوگ نہیں جو کسی دوسرے ملک جا رہے ہیں بہتر زندگی کی تلاش میں۔ وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔
It's a real tragedy that the world's most famous refugee can't come to speak to you here today. Many of you will know this picture. It shows the lifeless body of five-year-old Alan Kurdi, a Syrian refugee who died in the Mediterranean in 2015. He died alongside 3,700 others trying to get to Europe. The next year, 2016, 5,000 people died. It's too late for them, but it's not too late for millions of others.
یہ ایک اصل سانحہ ہے کہ دنیا کا سب سے مشہور مہاجر بذاتِ خود آپ سے بات کرنے یہاں نہیں آ سکتا۔ آپ میں سے بہت سے اس تصویر کو جانتے ہیں۔ یہ ایک بے جان لڑکے کا جسم دکھا رہا ہے پانچ سالہ ایلان کردی کا، ایک شامی مہاجر جو 2015 میں بحیرہ روم میں جاں بحق ہوا۔ یہ ان 3700 لوگوں کا حصہ ہے جو یورپ آنے کی کوشش میں مارے گئے۔ اگلے سال 2016 میں، 5000 لوگ مارے گئے۔ اب ان کے لیے بہت دیر ہو چکی ہے، لیکن لاکھوں دوسرے لوگوں کے لیے ابھی دیر نہیں ہوئی۔
It's not too late for people like Frederick. I met him in the Nyarugusu refugee camp in Tanzania. He's from Burundi. He wanted to know where could he complete his studies. He'd done 11 years of schooling. He wanted a 12th year. He said to me, "I pray that my days do not end here in this refugee camp."
ابھی فریڈریک جسیے لوگوں کے لیے دیر نہیں ہوئی۔ میری اس سے تنزانیہ میں ناریگوس کی مہاجر خیمہ بستی میں ملاقات ہوئی۔ اس کا تعلق برونڈی سے ہے۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ کہاں اپنی تعلیم مکمل کر سکتا ہے۔ اس نے گیارہ سال کی پڑھائی مکمل کر لی ہے۔ وہ بارہواں سال چاہتا ہے۔ اس نے مجھے کہا، "میری دعا ہے کہ میری زندگی یہیں ختم نہ ہو اسی مہاجر کیمپ میں۔"
And it's not too late for Halud. Her parents were Palestinian refugees living in the Yarmouk refugee camp outside Damascus. She was born to refugee parents, and now she's a refugee herself in Lebanon. She's working for the International Rescue Committee to help other refugees, but she has no certainty at all about her future, where it is or what it holds.
اور ابھی حلود کے لیے بھی دیر نہیں ہوئی۔ اس کے والدین فلیسطینی مہاجرین تھے جو یرموک کی مہاجر خیمہ بستی میں رہتے تھے دمشق کے باہر۔ وہ مہاجر والدین کے ہاں پیدا ہوئی، اور اب وہ خود ایک مہاجر ہے لبنان میں۔ اب وہ بین الاقوامی بچاو کمیٹی کے لیے کام کرتی ہے دوسرے مہاجرین کی مدد کے لیے، لیکن اس کے لیے کچھ بھی یقینی نہیں اس کے مستقبل کے بارے میں، وہ کہاں ہے اور اس میں کیا ہو گا۔
This talk is about Frederick, about Halud and about millions like them: why they're displaced, how they survive, what help they need and what our responsibilities are. I truly believe this, that the biggest question in the 21st century concerns our duty to strangers. The future "you" is about your duties to strangers. You know better than anyone, the world is more connected than ever before, yet the great danger is that we're consumed by our divisions. And there is no better test of that than how we treat refugees.
یہ گفتگو فریڈرک کے بارے میں ہے، حلود کے بارے میں ہے اور ان جیسے لاکھوں کے بارے میں ہے: وہ بے گھر کیوں ہیں، وہ کیسے زندہ رہتے ہیں، ان کو کیا مدد چاہیے اور ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ مجھے اس پر پختہ یقین ہے، کہ اکیسیویں صدی کا سب سے بڑا سوال اجنبیوں کے بارے میں ہمارے فرائض ہے۔ مستقبل کے "آپ" آپ کی ذمہ داریوں کے بارے میں ہے اجنبیوں کے معاملے میں۔ کسی سے بہتر آپ کو پتہ ہے، دنیا پہلے سے زیادہ جڑی ہوئی ہے، لیکن زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ ہمیں آپس کی تقسیم سے فرصت نہیں۔ اور ہمارے لیے اس سے بہتر کوئی امتحان نہیں کہ ہم مہاجرین سے کیسا سلوک کرتے ہیں۔
Here are the facts: 65 million people displaced from their homes by violence and persecution last year. If it was a country, that would be the 21st largest country in the world. Most of those people, about 40 million, stay within their own home country, but 25 million are refugees. That means they cross a border into a neighboring state. Most of them are living in poor countries, relatively poor or lower-middle-income countries, like Lebanon, where Halud is living. In Lebanon, one in four people is a refugee, a quarter of the whole population.
حقائق کچھ یوں ہیں: ساڑھے چھ کروڑ افراد پچھلے سال بے گھر ہوئے تشدد اور ظلم و ستم کی وجہ سے۔ اگر یہ کوئی ملک ہوتا، تو یہ دنیا کا 21واں بڑا ملک ہوتا۔ ان میں سے زیادہ تر افراد، تقریباً چار کروڑ اپنے ملک میں بے گھر ہیں، لیکن تقریباً ڈھائی کروڑ مہاجرین ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی ہمسایہ ملک کی سرحد پار کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر، غریب ممالک میں رہ رہے ہیں، نسبتاً غریب یا کم - درمیانی - آمدنی والے ممالک، جیسے لبنان، جہاں حلود رہتی ہے۔ لبنان میں، چار میں سے ایک شخص مہاجر ہے، یعنی تمام آبادی کا چوتھائی حصہ ۔
And refugees stay for a long time. The average length of displacement is 10 years. I went to what was the world's largest refugee camp, in eastern Kenya. It's called Dadaab. It was built in 1991-92 as a "temporary camp" for Somalis fleeing the civil war. I met Silo. And naïvely I said to Silo, "Do you think you'll ever go home to Somalia?" And she said, "What do you mean, go home? I was born here." And then when I asked the camp management how many of the 330,000 people in that camp were born there, they gave me the answer: 100,000. That's what long-term displacement means.
اور مہاجرین لمبے عرصے تک رہتے ہیں۔ بے گھری کا اوسط دورانیہ 10سال ہے۔ میں مشرقی کینیا میں دنیا کے سب سے بڑے مہاجر کیمپ میں گیا۔ اس کا نام داداب ہے۔ یہ 92-1991 میں بنایا گیا ایک "عارضی خیمہ بستی" کے طور پر خانہ جنگی سے بھاگتے صومالی لوگوں کے لیے۔ میں سائلو سے ملا۔ میں نے نا سمجھی سے سائلو کو کہا، "تمہارا کیا خیال ہے تم کبھی اپنے گھر صومالیہ جاو گی؟" اور اس نے کہا، "کیا مطلب، گھر جاو گی؟ میں یہں پیدا ہوئی تھی۔" اور پھر جب میں نے خیمہ بستی کی انتظامیہ سے پوچھا یہاں موجود 330,000 لوگوں میں سے کتنے اسی خیمہ بستی میں پیدا ہوئے، انہوں نے جواب دیا: ۔ 100,000 یہ ہے طویل مدتی بے گھری کا مطلب۔
Now, the causes of this are deep: weak states that can't support their own people, an international political system weaker than at any time since 1945 and differences over theology, governance, engagement with the outside world in significant parts of the Muslim world. Now, those are long-term, generational challenges. That's why I say that this refugee crisis is a trend and not a blip. And it's complex, and when you have big, large, long-term, complex problems, people think nothing can be done.
اچھا، اب اس کی وجوہات گہری ہیں: کمزور ریاستیں جو اپنے لوگوں کی مدد نہیں کر سکتیں، ایسا بین الاقوامی سیاسی نظام جو 1945 کے بعد سے کمزور تر ہے اورالہیات، حکمرانی پر اختلافات، بیرونی دنیا سے معاملات مسلم دنیا کے نمایاں حصوں میں رہے ہیں۔ اچھا اب یہ طویل مدتی، نسلوں چلنے والے مسائل ہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ مہاجرین کا بحران ایک رجحان ہے اور کوئی وقتی ابال نہیں۔ اور یہ پیچیدہ ہے، اور جب آپ کے پاس بڑے، لمبے، طویل مدتی، گھمبیر مسائل ہوں، لوگ سوچتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو سکتا۔
When Pope Francis went to Lampedusa, off the coast of Italy, in 2014, he accused all of us and the global population of what he called "the globalization of indifference." It's a haunting phrase. It means that our hearts have turned to stone. Now, I don't know, you tell me. Are you allowed to argue with the Pope, even at a TED conference? But I think it's not right. I think people do want to make a difference, but they just don't know whether there are any solutions to this crisis. And what I want to tell you today is that though the problems are real, the solutions are real, too.
جب پوپ فرانسس لیمپیاڈوزا گئے، اٹلی کے ساحل پر، 2014 میں، تو انہوں نے ہم سب اور عالمی آبادی کو موردِ الزام ٹھرایا جسے انہوں نے کہا "بے حسی کی عالمگیریت"۔ یہ ایک مضطرب کرنے والا جملہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے دل پتھر کے ہو گئے ہیں۔ اب، میں نہیں جانتا، آپ مجھے بتائیں۔ کیا آپ کو پوپ سے بحث کی اجازت ہے، چاہے ٹیڈ کانفرنس ہو؟ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ ٹھیک نہیں۔ میرا خیال ہے لوگ واقعی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، لیکن انہیں بس معلوم نہیں کہ کیا اس بحران کے کوئی حل ہیں۔ اور میں آج آپ کو جو بتانا چاہتا ہوں کہ اگرچہ مسائل واقعی حقیقی ہیں، ان کے حل بھی حقیقی ہیں۔
Solution one: these refugees need to get into work in the countries where they're living, and the countries where they're living need massive economic support. In Uganda in 2014, they did a study: 80 percent of refugees in the capital city Kampala needed no humanitarian aid because they were working. They were supported into work.
حل نمبر ایک: ان مہاجرین کو جن ممالک میں یہ رہتے ہیں انہیں وہاں کام کرنا چاہیے، اور جن ممالک میں یہ رہتے ہیں انہیں بڑے پیمانے پر معاشی امداد کی ضرورت ہے۔ یوگینڈا میں 2014 میں انہوں نے ایک تحقیق کی: دارالکحومت کمپالا میں موجود 80 فیصد مہاجرین کو انسان دوست امداد کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ کام کرتے تھے۔ انہیں کام حاصل کرنے میں مدد دی گئی تھی۔
Solution number two: education for kids is a lifeline, not a luxury, when you're displaced for so long. Kids can bounce back when they're given the proper social, emotional support alongside literacy and numeracy. I've seen it for myself. But half of the world's refugee children of primary school age get no education at all, and three-quarters of secondary school age get no education at all. That's crazy.
حل نمبر 2: بچوں کی تعلیم ایک لازمی ضرورت ہے، کوئی آسائش نہیں، جب آپ طویل مدت سے بے گھر ہوں۔ بچے دوبارہ زندگی کا حصہ بن سکتے ہیں جب انہیں باقاعدہ سماجی اور جذباتی سہارا ملے ریاضی اور خواندگی کے ساتھ ۔ میں نے یہ خود دیکھا ہے۔ لیکن دنیا کے آدھے مہاجرین بچے جو ابتدائی سکول کی عمر کے ہوتے ہیں بالکل کوئی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے، اور تین چوتھائی ثانوی سکول کی عمر کے کوئی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ پاگل پن ہے۔
Solution number three: most refugees are in urban areas, in cities, not in camps. What would you or I want if we were a refugee in a city? We would want money to pay rent or buy clothes. That is the future of the humanitarian system, or a significant part of it: give people cash so that you boost the power of refugees and you'll help the local economy.
حل نمبر 3: زیادہ تر مہاجرین شہری علاقوں میں ہیں، شہروں میں، خیمہ بستیوں میں نہیں۔ اگر میں اور آپ کسی شہر میں مہاجر ہوتے توہم کیا چاہتے؟ ہمیں پیسے چاہیے ہوتے، کرایہ دینے کے لیے اور کپڑے خریدنے کے لیے۔ یہ انسانی ہمدردی کے نظام کا مستقبل ہے، یا اس کا ایک نمایاں حصہ: لوگوں کو نقدی دیں تاکہ مہاجرین کی طاقت میں اضافہ ہو اور مقامی معیشت کو فائدہ ہو۔
And there's a fourth solution, too, that's controversial but needs to be talked about. The most vulnerable refugees need to be given a new start and a new life in a new country, including in the West. The numbers are relatively small, hundreds of thousands, not millions, but the symbolism is huge. Now is not the time to be banning refugees, as the Trump administration proposes. It's a time to be embracing people who are victims of terror. And remember --
اور ایک اور چوتھا حل بھی ہے، یہ متنازعہ ہے لیکن اس کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے۔ سب سے غیر محفوظ مہاجرین کو ایک نیا آغاز دینے کی ضرورت ہے اور ایک نئی زندگی ایک نئے ملک میں، جس میں مغرب شامل ہے۔ ان کی تعداد نسبتاً کم ہے، چند لاکھ، کروڑوں نہیں، لیکں یہ علامتی طور ہر بہت اہم ہے۔ اب وہ وقت نہیں کہ مہاجرین پر پابندیاں لگائی جائیں، جیسا ٹرمپ کی انتظامیہ نے تجویز کیا ہے۔ یہ وقت ہے لوگوں کو گلے لگانے کا جو دہشت کا شکار ہیں۔ اور یاد رکھیے --
(Applause)
(تالیاں)
Remember, anyone who asks you, "Are they properly vetted?" that's a really sensible and good question to ask. The truth is, refugees arriving for resettlement are more vetted than any other population arriving in our countries. So while it's reasonable to ask the question, it's not reasonable to say that refugee is another word for terrorist.
یاد رکھیے، جو بھی آپ سے پوچھتا ہے، "کیا ان کی اچھی طرح سے جانچ ہوئی ہے؟" یہ یقیناً پوچھنے کے لیے ایک اچھا اور مناسب سوال ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نو آبادکاری کے لیے آنے والے مہاجرین کی ہمارے ممالک میں آنے والے کسی بھی دوسرے گروہ کی نسبت زیادہ اچھی جانچ کی جاتی ہے۔ تو اگرچہ یہ پوچھنے کے لیے ایک مناسب سوال ہے، لیکن یہ مناسب نہیں کہ کہا جائے کہ مہاجرین کا مطلب ہے دہشت گرد۔
Now, what happens --
اب، ہوتا کیا ہے --
(Applause)
(تالیاں)
What happens when refugees can't get work, they can't get their kids into school, they can't get cash, they can't get a legal route to hope? What happens is they take risky journeys. I went to Lesbos, this beautiful Greek island, two years ago. It's a home to 90,000 people. In one year, 500,000 refugees went across the island. And I want to show you what I saw when I drove across to the north of the island: a pile of life jackets of those who had made it to shore. And when I looked closer, there were small life jackets for children, yellow ones. And I took this picture. You probably can't see the writing, but I want to read it for you. "Warning: will not protect against drowning." So in the 21st century, children are being given life jackets to reach safety in Europe even though those jackets will not save their lives if they fall out of the boat that is taking them there.
کیا ہوتا ہے جب مہاجرین کو کام نہیں ملتا، وہ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے، انہیں نقدی نہیں مل سکتی، انہیں باعزت زندگی کا قانونی راستہ نہیں ملتا؟ پھر ہوتا کیا ہے وہ پرخطر راستے چنتے ہیں۔ میں دو سال پہلے لیسبوس گیا، انتہائی خوبصورت یونانی جزیرہ۔ یہ 90,000 لوگوں کا گھر ہے۔ ایک سال میں یہاں سے کوئی پانچ لاکھ مہاجرین گزرے۔ اور میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں جو میں نے دیکھا جب میں جزیرے کے شمالی حصے کی طرف گیا: ان لوگوں کی جیکٹوں کا ایک انبار جو کنارے تک پہنچ پائے۔ اور جب میں نے غور سے دیکھا، وہاں بچوں کی چھوٹی جیکٹیں بھی تھیں، پیلے رنگ کی۔ اور میں نے یہ تصویر اتاری۔ شاید آپ اس کی لکھائی ٹھیک سے نہ دیکھ سکیں لیکن میں اسے پڑھ دیتا ہوں۔ "تنبیہ: یہ ڈوبنے سے نہیں بچاتی۔" تو اکیسیویں صدی میں، بچوں کو ایسی زندگی بچاو جیکٹیں دی جا رہی ہیں یورپ میں عافیت میں پہنچنے کے لیے ایسی جیکٹین جو ان کی زندگی نہیں بچائیں گی اگر وہ کشتی سے گر گئے جس پر وہ سورا ہیں۔
This is not just a crisis, it's a test. It's a test that civilizations have faced down the ages. It's a test of our humanity. It's a test of us in the Western world of who we are and what we stand for. It's a test of our character, not just our policies. And refugees are a hard case. They do come from faraway parts of the world. They have been through trauma. They're often of a different religion. Those are precisely the reasons we should be helping refugees, not a reason not to help them. And it's a reason to help them because of what it says about us. It's revealing of our values. Empathy and altruism are two of the foundations of civilization. Turn that empathy and altruism into action and we live out a basic moral credo.
یہ محض کوئی بحران نہیں ہے، یہ ایک امتحان ہے۔ یہ تہذیبوں کا امتحان ہے جس کا وہ ہمیشہ سے سامنا کرتی آ رہی ہیں۔ یہ ہماری انسانیت کا امتحان ہے۔ یہ مغربی دنیا میں موجود ہم لوگوں کا امتحان ہے کہ ہم کیا ہیں اور ہماری اقدار کیا ہیں۔ یہ ہمارے کردار کا امتحان ہے، صرف ہماری پالیسیوں کا نہیں۔ اور مہاجرین کا معاملہ کافی مشکل ہے۔ وہ دنیا کے دور دراز حصوں سے آتے ہیں۔ وہ صدمات سے گزر چکے ہوتے ہیں۔ وہ اکثر کسی اور مذہب کے پیروکار ہوتے ہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے، نہ کہ ان کی مدد نہ کریں۔ ایک اور وجہ ہے کہ ہم ان کی مدد کریں کہ یہ ہمارے بارے میں کیا بتاتا ہے۔ یہ ہماری روایات کو ظاہر کرتا ہے۔ بے غرضی اور ہم دلی تہذیب کی دو بنیادیں ہیں۔ بے غرضی اور ہم دلی کو عمل میں تبدیل کریں اور ہمیں زندگی گزارنے کے لیے ہمارا بنیادی اخلاقی عقیدہ ملتا ہے۔
And in the modern world, we have no excuse. We can't say we don't know what's happening in Juba, South Sudan, or Aleppo, Syria. It's there, in our smartphone in our hand. Ignorance is no excuse at all. Fail to help, and we show we have no moral compass at all.
اور اس جدید دنیا میں ہمارے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ ہمیں پتہ نہیں ہے کہ جوبا، جنوبی سوڈان میں کیا ہو رہا ہے، یا الیپو، شام میں۔ یہ یہاں ہے، ہمارے سمارٹ فون میں ہمارے ہاتھ میں۔ بے خبری بالکل کوئی عذر نہیں ہے۔ مدد کرنے میں ناکامی یہ دکھاتا ہے کہ ہمیں ٹھیک اور غلط کی ذرا بھی تمیز نہیں۔
It's also revealing about whether we know our own history. The reason that refugees have rights around the world is because of extraordinary Western leadership by statesmen and women after the Second World War that became universal rights. Trash the protections of refugees, and we trash our own history. This is --
یہ، یہ بھی دکھاتا ہے کہ کیا ہم اپنی تاریخ کو جانتے ہیں۔ وجوہات کہ دنیا بھر میں مہاجرین کو حقوق حاصل ہیں وہ ہے غیر معمولی مغربی قیادت مرد و خواتین سیاستدانوں کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے بعد جس کا نتیجہ عالمی انسانی حقوق ہیں۔ اگر ہم مہاجرین کے حقوق کو ردی سمجھیں تو ہم اپنی تارخ کو ردی سمجھ رہے ہیں۔ یہ ہے --
(Applause)
(تالیاں)
This is also revealing about the power of democracy as a refuge from dictatorship. How many politicians have you heard say, "We believe in the power of our example, not the example of our power." What they mean is what we stand for is more important than the bombs we drop. Refugees seeking sanctuary have seen the West as a source of hope and a place of haven. Russians, Iranians, Chinese, Eritreans, Cubans, they've come to the West for safety. We throw that away at our peril.
یہ ہماری جمہوریت کی طاقت کو بھی دکھاتا ہے آمریت سے پناہ گاہ کے طور پر۔ آپ نے کتنے سیاستدانوں کو یہ کہتے سنا ہے، "ہم اپنی مثال کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں، اور اپنی طاقت کی مثال میں نہیں۔" ان کا مطلب ہوتا ہے کہ گرائے جانے والے بموں کی نسبت ہمارے نظریات زیادہ اہم ہیں۔ پناہ گاہ ڈھونڈتے مہاجرین مغرب کو دیکھتے ہیں ایک امید کے سرچشمے اور ایک دارالامان کی حثیت سے۔ روسی، ایرانی، چینی، اریٹیرین، کیوبن، وہ مغرب تحفّظ کے لیے آتے ہیں۔ اور ہم انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
And there's one other thing it reveals about us: whether we have any humility for our own mistakes. I'm not one of these people who believes that all the problems in the world are caused by the West. They're not. But when we make mistakes, we should recognize it. It's not an accident that the country which has taken more refugees than any other, the United States, has taken more refugees from Vietnam than any other country. It speaks to the history. But there's more recent history, in Iraq and Afghanistan. You can't make up for foreign policy errors by humanitarian action, but when you break something, you have a duty to try to help repair it, and that's our duty now.
اور یہ ہمارے بارے میں ایک اور چیز ظاہر کرتی ہے: کہ کیا ہمارے میں اتنی عاجزی ہے کہ ہم اپنی غلطیاں تسلیم کریں۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ مانتے ہیں کہ دنیا کی ساری خرابیوں کی وجہ مغرب ہے۔ وہ نہیں ہے۔ لیکن جب ہم غلطی کریں تو اسے تسلیم کرنا چاہیے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ وہ ملک جس نے پناہ دی سب سے زیادہ مہاجرین کو، امریکہ سے بھی زیادہ، اس نے ویت نام سے کسی بھی ملک کی نسبت زیادہ مہاجرین کو جگہ دی۔ یہ تاریخ بتاتی ہے۔ لیکن حالیہ تاریخ بھی ہے، عراق میں اور افغانستان میں۔ آپ خارجہ پالیسی کی غلطییوں کا مداوا نہیں کر سکتے انسانی ہمدردی کے کاموں سے، لیکن اگر آپ کچھ توڑیں تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اسے جوڑنے کی کوشش کریں، اور اب یہ ہمارا فرض ہے۔
Do you remember at the beginning of the talk, I said I wanted to explain that the refugee crisis was manageable, not insoluble? That's true. I want you to think in a new way, but I also want you to do things. If you're an employer, hire refugees. If you're persuaded by the arguments, take on the myths when family or friends or workmates repeat them. If you've got money, give it to charities that make a difference for refugees around the world. If you're a citizen, vote for politicians who will put into practice the solutions that I've talked about.
کیا آپ کو یاد ہے کہ گفتگو کے آغاز میں، میں نے کہا تھا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ مہاجرین کا بحران قابلِ انتظام ہے، ناقابلِ حل نہیں؟ یہ درست ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ ایک نئے انداز سے سوچیں، لیکن میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ آپ کچھ قدم اٹھائیں۔ اگر آپ کاروبار کے مالک ہیں، تو مہاجرین کو نوکری دیں۔ اگر آپ کو دلائل سے دلچسپی ہے تو، تو دقیانوسی خیالات کا مقابلہ کریں جب خاندان کے افراد یا دوست یا کام پر لوگ انہیں دوہرایں۔ اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو امدادی تنظیموں کو دیں جو دنیا بھر میں مہاجرین کی زندگیاں بدلتی ہیں۔ اگر آپ ایک شہری ہیں، ایسے سیاستدانوں کو ووٹ دیں جو ایسے حل کو بروئے کار لائیں گے جن کی میں نے بات کی یے۔
(Applause)
(تالیاں)
The duty to strangers shows itself in small ways and big, prosaic and heroic. In 1942, my aunt and my grandmother were living in Brussels under German occupation. They received a summons from the Nazi authorities to go to Brussels Railway Station. My grandmother immediately thought something was amiss. She pleaded with her relatives not to go to Brussels Railway Station. Her relatives said to her, "If we don't go, if we don't do what we're told, then we're going to be in trouble." You can guess what happened to the relatives who went to Brussels Railway Station. They were never seen again. But my grandmother and my aunt, they went to a small village south of Brussels where they'd been on holiday in the decade before, and they presented themselves at the house of the local farmer, a Catholic farmer called Monsieur Maurice, and they asked him to take them in. And he did, and by the end of the war, 17 Jews, I was told, were living in that village.
اجنبیوں کی ذمہ داری لینا دکھاتا ہے چھوٹے اور بڑے پیمانے پر دلیری اور بہادری۔ 1942 میں، میری خالہ اور نانی برسلز میں رہ رہی تھیں جرمن قبضے کے تحت۔ ان کو طلبی کا حکم نامہ ملا نازی حکام کی جانب سے کہ وہ برسلز ریلوے سٹیشن جائیں۔ میری نانی کو فوراً احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے التجا کی کہ وہ برسلز ریلوے سٹیشن نہ جائیں۔ ان کے رشتہ داروں نے ان سے کہا، "اگر ہم نہ جائیں، وہ نہ کریں جس کا کہا گیا ہے، تو ہم کسی مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔" آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا ہوا وہ رشتہ دار جو برسلز ریلوے سٹیشن گئے۔ وہ کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے۔ لیکن میری نانی اور میری خالہ، وہ ایک چھوٹے سے گاوں چلی گئیں برسلز کے جنوب میں جہاں وہ ایک دہائی پہلے چھٹیوں میں آئیں تھیں، اور وہ ایک مقامی کسان کے گھر گئیں، موریس صاحب نامی ایک کیتھولک کسان کے پاس، اور اس سے پناہ کی دوخواست کی۔ اور اس نے ان کو پناہ دی، جنگ ختم ہونے تک، مجھے بتایا گیا ہے کہ اس گاوں میں 17 یہودی رہ رہے تھے۔
And when I was teenager, I asked my aunt, "Can you take me to meet Monsieur Maurice?" And she said, "Yeah, I can. He's still alive. Let's go and see him." And so, it must have been '83, '84, we went to see him. And I suppose, like only a teenager could, when I met him, he was this white-haired gentleman, I said to him, "Why did you do it? Why did you take that risk?" And he looked at me and he shrugged, and he said, in French, "On doit." "One must." It was innate in him. It was natural. And my point to you is it should be natural and innate in us, too. Tell yourself, this refugee crisis is manageable, not unsolvable, and each one of us has a personal responsibility to help make it so. Because this is about the rescue of us and our values as well as the rescue of refugees and their lives.
اور جب میں لڑکپن میں تھا تو میں نے خالہ سے پوچھا "کیا آپ مجھے موریس صاحب سے ملوا سکتی ہیں؟" اور انہوں نے کہا، "ہاں، وہ ابھی زندہ ہیں۔ چلو، جا کر ان سے ملتے ہیں۔" اور یہ کوئی سن 84 ,83 کی بات ہے، ہم ان سے ملنے گئے۔ اور میرا خیال ہے، جیسے ایک لڑکے کی سوچ ہو سکتی ہے، جب میں ان سے ملا، وہ سفید بالوں والے ایک بزرگ تھے، میں نے ان سے کہا، "آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے اتنا خطرہ کیوں مول لیا؟" انہوں نے کندھے جھٹکتے ہوئے مجھے دیکھا، اور فرانسیسی میں کہا، "اون ڈوا۔" "ایسا کرنا چاہیے۔" یہ ان کے اندر رچا بسا تھا۔ یہ ایک فطری بات تھی۔ اور میری آپ سے یہی طلب ہے کہ یہ ہمارے اندر رچا بسا ہونا چاہیے، فطری ہونا چاہیے۔ اپنے آپ کو بتائیے، یہ مہاجرین کا بحران قابلِ انتظام ہے، نا قابلِ حل نہیں، اور ہم میں سے ہر ایک کی یہ ذاتی ذمہ داری ہے کہ اس میں مدد کرے۔ کیونکہ یہ ہماری اقدار اور ہمیں بچانے کے بارے میں ہے نیز مہاجرین کو اور ان کی زندگیوں کو بچانے کے بارے میں بھی ہے۔
Thank you very much indeed.
آپ کا بہت بہت شکریہ۔
(Applause)
(تالیاں)
Bruno Giussani: David, thank you. David Miliband: Thank you.
برونو جیوسانی: ڈیوڈ، آپ کا شکریہ۔ ڈیوڈ ملی بینڈـ آپ کا شکریہ۔
BG: Those are strong suggestions and your call for individual responsibility is very strong as well, but I'm troubled by one thought, and it's this: you mentioned, and these are your words, "extraordinary Western leadership" which led 60-something years ago to the whole discussion about human rights, to the conventions on refugees, etc. etc. That leadership happened after a big trauma and happened in a consensual political space, and now we are in a divisive political space. Actually, refugees have become one of the divisive issues. So where will leadership come from today?
ب ج: یہ شاندار تجاویز ہیں اور آپ کی ہر شخص کی ذمہ داری کی تجویز بھی بہت اچھی ہے، لیکن مجھے ایک سوچ سے تھوڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ: آپ نے ذکر کیا اور یہ آپ کے یہ الفاظ ہیں، "غیر معمولی مغربی قیادت" جس نے تقریباً 60 سال پہلے رہنمائی کی انسانی حقوق کی اس ساری بحث کی، جس کے نتیجے میں مہاجرین کا کنونشن ہوا وغیرہ وغیرہ۔ وہ قیادت ایک بڑے صدمے کے بعد آئی تھی اور ایک عمومی سیاسی اتفاقِ رائے کے نتیجے میں، اور اب سیاسی منظر نامہ اختلاف کا شکار ہے۔ درحقیقت، مہاجرین خو ایک اختلافی مسئلہ ہیں۔ تو پھر آج قیادت کہاں سے آئے گی؟
DM: Well, I think that you're right to say that the leadership forged in war has a different temper and a different tempo and a different outlook than leadership forged in peace. And so my answer would be the leadership has got to come from below, not from above. I mean, a recurring theme of the conference this week has been about the democratization of power. And we've got to preserve our own democracies, but we've got to also activate our own democracies. And when people say to me, "There's a backlash against refugees," what I say to them is, "No, there's a polarization, and at the moment, those who are fearful are making more noise than those who are proud." And so my answer to your question is that we will sponsor and encourage and give confidence to leadership when we mobilize ourselves. And I think that when you are in a position of looking for leadership, you have to look inside and mobilize in your own community to try to create conditions for a different kind of settlement.
ڈ م: میرا خیال ہے آپ کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ جو قیادتیں جنگوں میں ڈھلتی ہیں ان کی برداشت اور ان کا رویہ الگ ہوتا ہے اور انداز الگ ہوتا ہے اس قیادت سے جو زمانہ امن میں ڈھلتی ہے۔ تو میرا جواب یہ ہو گا کہ قیادت کو نیچے سے ابھرنا ہو گا، اوپر سے نہیں آنا ہو گا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اس کانفرنس کا ایک موضوع جو دوہرایا جاتا رہا ہے وہ طاقت کی جمہوری تقسیم ہے۔ اور ہمیں اپنی جمہوریتوں کو بچانا ہو گا، لیکن ساتھ میں ہمیں اپنی جمہوریتوں کو رائج کرنا ہو گا۔ اور جب لوگ مجھے کہتے ہیں، "مہاجرین کے خلاف ایک شدید ردعمل ہے،" تو میں ان سے کہتا ہوں، "نہیں، ایک واضح تقسیم ہے، اور اس وقت، جو لوگ خوفزدہ ہیں وہ زیادہ شور مچا رہے ہیں ان سے جو اس پر خوش ہیں۔" تو آپ کے سوال کا میرا جواب ہو گا کہ ہم مدد اور حوصلہ افزائی کریں گے اور قیادت کو اعتماد دیں گے جب ہم متحرک ہوں گے۔ اور میرا خیال ہے کہ جب آپ اس قابل ہوں کہ قیادت کی تلاش کریں تو آپ کو اندر جھانکنا ہو گا اور اپنے لوگوں کو متحرک کرنا ہو گا اور ایسے حالات پیدا کرنے ہوں گے جس سے مختلف نتائج سامنے آ سکیں۔
BG: Thank you, David. Thanks for coming to TED.
ب ج: ڈیوڈ آپ کا شکریہ۔ ٹیڈ میں آنے کا شکریہ۔
(Applause)
(تالیاں)