It would be nice to be objective in life, in many ways. The problem is that we have these color-tinted glasses as we look at all kinds of situations. For example, think about something as simple as beer. If I gave you a few beers to taste and I asked you to rate them on intensity and bitterness, different beers would occupy different space. But what if we tried to be objective about it? In the case of beer, it would be very simple. What if we did a blind taste? Well, if we did the same thing, you tasted the same beer, now in the blind taste, things would look slightly different. Most of the beers will go into one place. You will basically not be able to distinguish them, and the exception, of course, will be Guinness. (Laughter)
زندگی میں بلا امتیازہونا ایک اچھی بات ہے (ترجیحات اور تعصبات کے بغیر) کئی طریقوں سے مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کافی رنگ کے چشمے ہیں جن کو ہم مختلف معاملات میں استعمال کرتے ہیں مثال کے طور پرہم ایک عام سی مشروب بیئر کو ہی لے لیں اگر میں آپ کو مختلف اقسام کی بیئر چکھنے کو دوں اور کہوں کہ ان کے ذائقے کو شدت اور تلخی کے معیار پر پرکھیں تو مختلف بیئرز مختلف درجات لے لیں گی مگر کیا ہو اگر ہم اس معاملے میں بلا امتیاز ہو جائیں؟ بیئر کی مثال تو سادہ سی ہے اگر ہم ذائقے کا معیار 'بغیر دیکھے' جانچیں؟ اسی طرح انہیں بیئرز کو چکھیں اب اس اندھی آزمائش میں نتیجے بدلنے لگے گیں - زیادہ تربیئرزتو ایک ہی درجے میں آجائیں گی آپ کے لئے ان میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا گینیز کو بہرحال رعایت مل ہی جائے گی ( ہنسی )
Similarly, we can think about physiology. What happens when people expect something from their physiology? For example, we sold people pain medications. Some people, we told them the medications were expensive. Some people, we told them it was cheap. And the expensive pain medication worked better. It relieved more pain from people, because expectations do change our physiology. And of course, we all know that in sports, if you are a fan of a particular team, you can't help but see the game develop from the perspective of your team.
اسی طرح حیاتیات کی قسم جو انسانی اعضا کے بارے میں ہے اس پر سوچتے ہیں کیا ہوتا ہے جب لوگ اپنے جسم سے کچھ امیدیں باندھتے ہیں مثلا ہم لوگوں کو درد کی دوا بیچتے ہیں کچھ لوگوں کو ہم بتاتے ہیں علاج مہنگا تھا کچھ سے کہتے ہیں علاج سستا تھا اوردرد کی مہنگی دوا نے بہتر اثرکیا اس نے لوگوں کو درد سے زیادہ نجات دلائی کیوںکہ امیدیں ہماری حیاتیات کو تبدیل کردیتی ہیں جیسے کہ ہم سب کھیلوں میں دیکھتے ہیں اگرآپ کسی مخصوص ٹیم کے مداح ہیں حالانکہ آپ کھیل میں کوئی مدد نہیں کرپاتے مگر پھر بھی اپنی پسندیدہ ٹیم کی طرف سے ہی کھیل دیکھتے ہیں
So all of those are cases in which our preconceived notions and our expectations color our world. But what happened in more important questions? What happened with questions that had to do with social justice? So we wanted to think about what is the blind tasting version for thinking about inequality? So we started looking at inequality, and we did some large-scale surveys around the U.S. and other countries. So we asked two questions: Do people know what kind of level of inequality we have? And then, what level of inequality do we want to have? So let's think about the first question. Imagine I took all the people in the U.S. and I sorted them from the poorest on the right to the richest on the left, and then I divided them into five buckets: the poorest 20 percent, the next 20 percent, the next, the next, and the richest 20 percent. And then I asked you to tell me how much wealth do you think is concentrated in each of those buckets. So to make it simpler, imagine I ask you to tell me, how much wealth do you think is concentrated in the bottom two buckets, the bottom 40 percent? Take a second. Think about it and have a number. Usually we don't think. Think for a second, have a real number in your mind. You have it?
یہ وہ تمام معاملات ہیں جن میں ہمارے قبل از وقت تصورات اور ہماری قبل از امیدیں ہماری سوچ کوگدلا کر دیتی ہیں مگردیگر اہم معاملات میں کیا ہوتا ہے؟ ان معاملات میں جن کا تعلق معاشرتی عدل سے ہے ؟ تو اب ہم چاہتے تھے کہ اسی طرح 'بنا دیکھے ' قسم کا ایک طریقہ معاشرے میں عدم مساوات کو جانچنے کے لئے بھی اپنایا جاۓ تب ہم نے عدم مساوات کو دیکھنا شروع کیا اور اس کے لئے ہم نے بڑے پیمانے پر سروے کئے امریکہ اور دیگر ممالک میں اس سروے میں ہم نے دوسوالات پوچھے کیا لوگ جانتے ہیں ہمارے یہاں کس قسم کی سطح تک عدم مساوات موجود ہے؟ اور پھرعدم مساوات کی کون سی سطح ہمارے لئے قابل قبول ہے ؟ آئیے پہلے اول سوال پر غور کریں بالفرض میں امریکہ کے تمام لوگ شامل کرتا ہوں اور انھیں ایسے ترتیب دیتا ہوں کہ غریب ترین دائیں جانب اور امیر ترین بائیں جانب پھر انھیں پانچ گروہوں میں تقسیم کردیتا ہوں غریب ترین بیس فیصد، پھر اگلے بیس فیصد پھر اگلے، پھر اگلے اور پھر امیر ترین بیس فیصد پھر آپ سے سوال کرتا ہوں کہ بتائیں آپ کے خیال میں کتنی دولت ہر گروہ کے پاس موجود رہتی ہے اسے اور آسان کرتے ہیں فرض کریں میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ مجھے بتایئے آپ کے خیال میں کتنی دولت نچلی سطح کے دو گروہوں کے پاس موجود ہے سب سے نیچے والے چالیس فیصد؟ ایک لمحہ لیجئے، سوچیں، اور ایک عدد سوچئے عموما ہم نہیں سوچتے ایک لمحے کے لئے سوچیں اپنے ذہن میں ایک حقیقی نمبرلائیے آگیا نمبر ذہن میں؟
Okay, here's what lots of Americans tell us. They think that the bottom 20 percent has about 2.9 percent of the wealth, the next group has 6.4, so together it's slightly more than nine. The next group, they say, has 12 percent, 20 percent, and the richest 20 percent, people think has 58 percent of the wealth. You can see how this relates to what you thought.
اچھا تو یہ ہے جو ہمیں بہت سے امریکی بتاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ نیچے کے بیس فیصد کے پاس تقریبا 2.9 فی صد دولت ہے اگلے گروہ کے پاس 6.4 فی صد تو مل کر یہ تقریبا 9 فی صد سے تھوڑا سا زیادہ ہوجاتا ہے ان کے خیال میں اگلے گروہ کے پاس 12 فی صد دولت ہے 20 فی صد، اور لوگوں کے خیال مِیں 20 فی صد مالدارترین افراد 58 فی صد دولت رکھتے ہیں اب آپ اندازہ کرلیں یہ آپ کے سوچے ہوۓ نمبر سے کتنے ملتے جلتے ہے؟
Now, what's reality? Reality is slightly different. The bottom 20 percent has 0.1 percent of the wealth. The next 20 percent has 0.2 percent of the wealth. Together, it's 0.3. The next group has 3.9, 11.3, and the richest group has 84-85 percent of the wealth. So what we actually have and what we think we have are very different.
اب جانیئے حقیقت کیا ہے؟ حقیقت قدرے مختلف ہے نچلے گروہ کے 20 فی صد افراد 0.1 فی صد دولت کے مالک ہیں اگلے 20 فی صد افراد 0.2 فی صد دولت کے مالک ہیں یہ مل کر بن جاتا ہے، 0.3 فی صد اگلے گروہ کے پاس 3.9 فی صد دولت ہے 11.3 اور مالدار ترین گروہ 84-85 فی صد دولت کا مالک ہے تو جو اصل میں ہمارے پاس ہے اور جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس ہے اس میں بہت فرق ہے
What about what we want? How do we even figure this out? So to look at this, to look at what we really want, we thought about the philosopher John Rawls. If you remember John Rawls, he had this notion of what's a just society. He said a just society is a society that if you knew everything about it, you would be willing to enter it in a random place. And it's a beautiful definition, because if you're wealthy, you might want the wealthy to have more money, the poor to have less. If you're poor, you might want more equality. But if you're going to go into that society in every possible situation, and you don't know, you have to consider all the aspects. It's a little bit like blind tasting in which you don't know what the outcome will be when you make a decision, and Rawls called this the "veil of ignorance."
اب دیکھتے ہیں ہم چاہتے کیا ہیں؟ تو اس قدرے مشکل جواب کو معلوم کیسے کیا جاۓ ؟ اس چیز کو سمجھنے کے لئے کہ آخر ہم چاہتے کیا ہیں ہمارے ذہن میں فلسفی "جان رالز" کا خیال آیا اگر آپ کو "جان رالز" یاد ہوں ان کے پاس ایک عادلانہ معاشرے کا تصور موجود تھا ان کے مطابق ایک منصفانہ معاشرہ ایسا ہوتا کہ کہ اگر آپ اس کے بارے میں سب کچھ جان جائیں تو آپ کی خواہش ہوگی کہ کسی بھی سطح پر اس کا حصہ بن جائیں یہ ایک خوبصورت تعریف ہے کیوںکہ اگر آپ مالدار ہیں تو آپ مالدار ہی رہنا چاہیں گے کہ آپ کو اور دولت ملے اور غریب کو کم اگرآپ غریب ہیں تو شاید آپ زیادہ مساوات چاہیں گے لیکن اگر آپ اس معاشرے کا حصہ بننے جارہے ہیں ہر ممکنہ صورت میں، اور آپ زیادہ جانتے بھی نہیں ہیں تو آپ کو ہرمعاملے کو مدنظر رکھنا ہوگا یہ کچھ اس اندھی آزمائش جیسا ہے جس میں آپ نہیں جانتے کہ آپ کے اس فیصلے کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں "رالز" نے اسے 'لاعلمی کا پردہ' کہا ہے
So, we took another group, a large group of Americans, and we asked them the question in the veil of ignorance. What are the characteristics of a country that would make you want to join it, knowing that you could end randomly at any place? And here is what we got. What did people want to give to the first group, the bottom 20 percent? They wanted to give them about 10 percent of the wealth. The next group, 14 percent of the wealth, 21, 22 and 32.
ہم نے ایک اور گروہ منتخب کیا، امریکیوں کا ایک بڑا گروہ اور اسی لاعلمی کے پردے میں ہم نے اس گروہ سے پوچھا کسی ملک میں ایسی کیا خصوصیات ہوں، کہ آپ اس کے شہری بننا چاہیں گے جب کہ آپ جانتے ہوں کہ آپ کوکسی بھی حصے میں جانا پڑسکتا ہے؟ اور جو جواب ملا وہ کچھ ایسے تھا لوگ پہلے گروہ کو کیا دینا چاہتے ہیں، نیچے کے بیس فی صد افراد کو؟ ان کے خیال میں اس گروہ کو 10 فی صد دولت ملنی چاہئے اگلے گروہ کو دولت کا 20 فیصد حصہ 21, 22 اور 32
Now, nobody in our sample wanted full equality. Nobody thought that socialism is a fantastic idea in our sample. But what does it mean? It means that we have this knowledge gap between what we have and what we think we have, but we have at least as big a gap between what we think is right to what we think we have.
تو ہماری مثال میں کوئی بھی مکمل مساوات نہیں چاہتا ہماری مثال میں کسی کا بھی خیال نہیں کہ سوشلزم کوئی اچھا نظریہ ہے تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ معلومات کا کچھ فرق ضرور ہے کس کے درمیان جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس ہے اور اصل میں جو ہمارے پاس ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ایک بڑا بہت فاصلہ جو ہم سمجھتے ہیں کہ صحیح ہے اور جو اصل میں موجود ہے اس کے درمیان بھی موجود ہے
Now, we can ask these questions, by the way, not just about wealth. We can ask it about other things as well. So for example, we asked people from different parts of the world about this question, people who are liberals and conservatives, and they gave us basically the same answer. We asked rich and poor, they gave us the same answer, men and women, NPR listeners and Forbes readers. We asked people in England, Australia, the U.S. -- very similar answers. We even asked different departments of a university. We went to Harvard and we checked almost every department, and in fact, from Harvard Business School, where a few people wanted the wealthy to have more and the [poor] to have less, the similarity was astonishing. I know some of you went to Harvard Business School.
اب ہم نہ صرف دولت کے لئے یہ سوالات اٹھا سکتے ہیں بلکہ دیگر معاملات کے بارے میں بھی پوچھ سکتے ہیں مثلا ہم نے دنیا کے مختلف حصوں کے لوگوں سے پوچھا اسی سوال کے بارے میں آزاد خیال اور قدامت پسند سوچ رکھنے والوں سے ان کا جواب بھی تقریبا یہی تھا ہم نے امیر و غریب سے پوچھا، انھوں نے بھی یہی جواب دیا عورتوں اور مردوں سے، سرکاری ریڈیو سننے والوں، اور فوربز کے قارئین سے ہم نے انگلستان، آسٹریلیا، امریکہ کے لوگوں سے پوچھا بہت ملتے جلتے جوابات یہاں تک کہ ایک یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات سے پوچھا ہم ہارورڈ گئے، تقریبا ہرشعبے کو کھنگالا اور سچ میں، ہارورڈ بزنس اسکول میں جہاں کچھ چاہتے تھے کہ مالدار کو مزید ملے، ثروت مند کوکم یہ یکسانیت حیران کن تھی جانتا ہوں کہ یہاں کچھ حضرات ہارورڈ بزنس اسکول کا حصہ رہے ہیں
We also asked this question about something else. We asked, what about the ratio of CEO pay to unskilled workers? So you can see what people think is the ratio, and then we can ask the question, what do they think should be the ratio? And then we can ask, what is reality? What is reality? And you could say, well, it's not that bad, right? The red and the yellow are not that different. But the fact is, it's because I didn't draw them on the same scale. It's hard to see, there's yellow and blue in there.
ہم نے یہ سوال کسی اور بارے میں بھی کیا ہم نے ایک CEO اور غیر تربیت یافتہ کی تنخواہ کے تناسب کے بارے میں پوچھا؟ تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگوں کے خیال میں تناسب کیا ہے تو پھر ہم پوچھ سکتے ہیں، ان کے خیال میں یہ تناسب کیا ہونا چاہئے؟ اور پھر ہم پوچھ سکتے ہیں، حقیقت کیا ہے؟ حقیقت کیا ہے؟ اورآپ کہہ سکتے ہیں، یہ اتنی بری تو نہیں، ۔۔۔ صحیح؟ لال اور پیلا اتنا مختلف تو نہیں ہیں۔ مگر حقیقتا اس کی وجہ ہے کہ میں نے انھیں ایک پیمانے پر نہیں بنایا یہ دیکھنا بہت مشکل ہے کہ پیلا اور نیلا رنگ بھی وہاں موجود ہے
So what about other outcomes of wealth? Wealth is not just about wealth. We asked, what about things like health? What about availability of prescription medication? What about life expectancy? What about life expectancy of infants? How do we want this to be distributed? What about education for young people? And for older people? And across all of those things, what we learned was that people don't like inequality of wealth, but there's other things where inequality, which is an outcome of wealth, is even more aversive to them: for example, inequality in health or education. We also learned that people are particularly open to changes in equality when it comes to people who have less agency -- basically, young kids and babies, because we don't think of them as responsible for their situation.
تو پھر دولت کے دیگر نتائج کیا ہیں؟ دولت ہرگز برائے دولت نہیں ہے ہم نے دیگر چیزوں جیسا کہ صحت کے بارے میں پوچھا؟ ہم نے ڈاکٹر کی لکھی ہوئی دوا کی سہولت کے بارے میں پوچھا؟ زندہ رہنے کے مواقع کتنے ہیں؟ نوزائیدہ بچوں زندگی کی امید کتنی ہے؟ ہم اس سب کو کیسے تقسیم کرنا چاہتے ہیں؟ تعلیم کا کیا حال ہے ؟ نوجوانوں کے لئے اور بڑی عمر کے افراد کے لئے بھی؟ ان سب چیزوں سے قطع نظر، ہم نے یہ جانا کہ لوگ دولت کی عدم مساوات کو پسند نہیں کرتے مگر کچھ اور چیزیں جہاں عدم مساوات، جو حقیقتاً دولت کا نتیجہ ہیں ان کے لئے ناقابل برداشت ہیں مثلاً صحت اور تعلیم کی فراہمی میں عدم مساوات ہم نے یہ بھی دیکھا کہ لوگ اس وقت خاص طور پر کشادہ فکر ہوتے ہیں جب عدل کے لئے تبدیلی کی بات کی جائے ان لوگوں کے لئے جن کی اپنی مرضی بہت کم ہوتی ہے بنیادی طور پر نوزائیدہ اور چھوٹے بچوں کے لئے کیوں کہ ہمارے خیال میں وہ اپنی اس حالت کے خود ذمہ دار نہیں ہیں
So what are some lessons from this? We have two gaps: We have a knowledge gap and we have a desirability gap And the knowledge gap is something that we think about, how do we educate people? How do we get people to think differently about inequality and the consequences of inequality in terms of health, education, jealousy, crime rate, and so on?
بہرکیف، وہ کیا سبق ہیں، جو ان باتوں سے ملتے ہیں؟ ہمارے سامنے دو فرق ہیں: ایک معلومات کا فرق ہے، اور دوسرا آرزو مدندی کا علمیت کا فرق وہ ہے، جس کے بارے میں ہم سوچتے ہیں کہ کیسے لوگوں کو باشعور کیا جائے کیسے انھیں عدم مساوات پر ایک مختلف زاویہ نظر دیا جائے کہ صحت اور تعلیم کے نقطہ نظر سے عدم مساوات کے کیا مضمرات ہیں اسی طرح حسد، جرائم کی شرح اور دیگر مضمرات؟
Then we have the desirability gap. How do we get people to think differently about what we really want? You see, the Rawls definition, the Rawls way of looking at the world, the blind tasting approach, takes our selfish motivation out of the picture. How do we implement that to a higher degree on a more extensive scale?
پھر ہمیں سامنا ہے آرزومندی کے فرق کا ہم کیسے لوگوں کو سمجھائیں کے ہماری حقیقی طلب کیا ہے؟ آپ نے "رالز" کی تعریف کو سنا، کہ وہ کس انداز سے اس دنیا کو دیکھتا تھا اندھی آزمائش کا طریقہ ہماری خودغرضانہ امنگوں سے بالاتر کیسے اس سب پر معیار کے مطابق عملدرامد کرسکتے ہیں ایک وسیع پیمانے پر؟
And finally, we also have an action gap. How do we take these things and actually do something about it? I think part of the answer is to think about people like young kids and babies that don't have much agency, because people seem to be more willing to do this.
اور آخر میں ہمارے سامنے عمل کا فرق ہے۔ ہم چیزوں کو کیسے لیتے ہیں، اور کیسے کوئی عملی اقدام کرتے ہیں میرے خیال میں اس جواب کا کچھ حصہ ان لوگوں کے متعلق سوچنے میں ہے جیسے نوزائیدہ اور ننھے بچے جن کے پاس کچھ اختیار نہیں کیوں کہ لوگ اس بارے میں پھر بھی کچھ کرنے کو تیار ہیں
To summarize, I would say, next time you go to drink beer or wine, first of all, think about, what is it in your experience that is real, and what is it in your experience that is a placebo effect coming from expectations? And then think about what it also means for other decisions in your life, and hopefully also for policy questions that affect all of us.
قصہ مختصر، میرے خیال میں اگلی بار جب آپ بیئریا شراب خریدنے جائیں، تو سب سے پہلے یہ سوچیں، کہ وہ کیا ہے جسے آپ کا تجربہ حقیقت سمجھتا ہے اور وہ کیا ہے جسے آپ کا تجربہ محض ایک جھوٹا بہلاوہ مانتا ہے کیا یہ امیدوں کا تانا بانا تو نہیں ہے؟ اور پھر سوچیں کہ اس کا آپ کی زندگی کے دیگر فیصلوں پر کیا اثر پڑسکتا ہے اور شائد کچھ اصولی سوالات پر بھی جو ہم سب پراثرانداز ہوتے ہیں
Thanks a lot.
بہت بہت شکریہ
(Applause)
( تالیاں )