I was eight years old. I remember that day clearly like it happened just yesterday. My mother is a bidi roller. She hand-rolls country cigarettes to sustain our family. She is a hard worker and spent 10 to 12 hours every day rolling bidis. That particular day she came home and showed me her bidi-rolling wage book. She asked me how much money she has earned that week. I went through that book, and what caught my eyes were her thumbprints on each page.
میں آٹھ سال کی تھی۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جیسے کہ یہ کل کی بات ہو۔ میری ماں بیڑیاں بنایا کرتی تھی۔ وہ ہاتھ سے بیڑیاں بنا کر ہمارے گھر کا خرچ چلاتی تھیں۔ وہ بہت محنتی ہیں دن میں دس بارہ گھنٹے بیڑی بنانے میں لگی رہتیں ہیں۔ اس دن وہ گھر میں آئیں اور انھوں نے مجھے اپنی تنخواہ کی کتاب دکھائی۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ اس ہفتے انھوں نے کتنا کمایا ہے۔ میں نے کتاب دیکھی، اور جس چیز نے میری توجی کھینچی وہ تھی کہ ہر صفحے پر ان کے انگوٹھے کے نشان تھے۔
My mother has never been to school. She uses her thumbprints instead of a signature to keep a record of her earnings. On that day, for some reason, I wanted to teach her how to hold a pen and write her name. She was reluctant at first. She smiled innocently and said no. But deep down, I was sure she wanted to give it a try. With a little bit of perseverance and a lot of effort, we managed to write her name. Her hands were trembling, and her face was beaming with pride.
میری ماں کبھی اسکول نہیں گئیں تھیں۔ وہ دستخط کی جگہ انگوٹھا لگاتی ہیں تاکہ اپنی کمائی کا ریکارڈ رکھ سکیں. اس دن کسی وجہ سے، میں چاہتی تھی کہ وہ قلم پکڑنا سیکھیں اور اپنا نام لکھیں۔ وہ پہلے تو جھجھک رہی تھیں۔ پھر مسکرا کر بولیں، نہیں۔ مگر میں جانتی تھی، اندر سے وہ کوشش کرنا چاہتی ہیں۔ تھوڑی سی جھجھک اور بہت سی کوشش سے، ہم ان کا نام لکھنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے، اور چہرہ فخر سے دمک رہا تھا۔
As I watched her do this, for the first time in my life, I had a priceless feeling: that I could be of some use to this world. That feeling was very special, because I am not meant to be useful. In rural India, girls are generally considered worthless. They're a liability or a burden. If they are considered useful, it is only to cook dishes, keep the house clean or raise children. As a second daughter of my conservative Indian family, I was fairly clear from a very early age that no one expected anything from me. I was conditioned to believe that the three identities that defined me -- poor village girl -- meant that I was to live a life of no voice and no choice. These three identities forced me to think that I should never have been born.
جب میں نے انھیں ایسا کرتے دیکھا، اپنی زندگی میں پہلی بار، میں ایک انمول احساس سے گزر رہی تھی: کہ میرا بھی اس دنیا میں کوئی مقصد ہے۔ وہ احساس بڑا خاص تھا، کیونکہ میرے خیال سے میں بیکار تھی۔ ہندوستانی دیہاتوں میں لڑکیاں عموماً بے وقعت ہوتی ہیں۔ وہ ایک ذمہ داری ہیں یا ایک بوجھ ۔ اگر انھیں فائدہ مند سمجھا جاتا ہے تو، صرف کھانا پکانے اور گھر صاف رکھنے کے لئے یا بچے پالنے کے لئے۔ ایک ہندوستانی قدامت پسند خاندان کی دوسری بیٹی کی حٰیثیت سے، مجھ پر یہ بات چھوٹی عمر میں ہی واضح تھی کہ کسی کو مجھ سے کوئی امید نہیں تھی۔ میری ایسی اٹھان ہوئی تھی کہ میرا ماننا تھا کہ تین الفاظ میری تشریح کرتے ہیں -- غریب دیہاتی لڑکی -- یعنی میری زندگی بے آواز اور بنا کسی خواہش کے تھی۔ ان تین شناختوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ کاش میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی۔
Yet, I was. All throughout my childhood, as I rolled bidis alongside my mother, I would wonder: What did my future hold? I often asked my mother, with a lot of anxiety, "Amma, will my life be different from yours? Will I have a chance to choose my life? Will I go to college?" And she would reply back, "Try to finish high school first." I am sure my mother did not mean to discourage me. She only wanted me to understand that my dreams might be too big for a girl in my village.
جب کہ میرا وجود تھا۔ اپنے پورے بچپنے میں، اپنی ماں کے ساتھ بیڑیاں بناتے، میں حیران ہوتی تھی: میرا مستقبل کیا ہے؟ میں بے انتہا پریشانی میں اکثر اپنی ماں سے پوچھتی، "اماں، کیا میری زندگی آپ سے مختلف ہو گی؟ کیا مجھے اپنی زندگی کے انتخاب کا موقع ملے گا؟ کیا میں کالج جا سکوں گی؟" اور وہ جواب دیتیں، "پہلے ہائی اسکول مکمل کرنے کی کوشش کرو." مجھے پتہ ہے میری ماں مجھے دل برداشتہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ صرف چاہتی تھی کہ میں سمجھوں کہ میرے خواب شائد میرے جیسی گاوں کی لڑکی کے لئے بہت بڑے ہیں۔
When I was 13, I found the autobiography of Helen Keller. Helen became my inspiration. I admired her indomitable spirit. I wanted to have a college degree like her, so I fought with my father and my relatives to be sent to college, and it worked.
جب میں 13 سال کی تھی تو مجھے ھیلن کیلر کی سوانح عمری ملی۔ ھیلن میرے لئے مشعل راہ بن گئی۔ اس کی روحانی مضبوطی میرے لئے متاثر کن تھی۔ میں اس کی طرح کالج کی ڈگری حاصل کرنا چاہتی تھی، تو میں نے اپنے باپ اور رشتہ داروں سے جھگڑا کیا کہ وہ مجھے کالج بھیجیں۔ اور یہ حربہ کام کر گیا۔
During my final year of my undergraduate degree, I desperately wanted to escape from being forced into marriage, so I applied to a fellowship program in Delhi, which is about 1,600 miles away from my village.
میری انڈر گریجویٹ ڈگری کے آخری سال کے دوران میں شدت سے چاہتی تھی کہ زبردستی کی شادی سے بچ سکوں، تو میں نے دہلی میں فیلوشپ پروگرام میں درخواست بھیجی، جو میرے گاوں سے تقریباً 1600 میل کے فاصلے پر ہے۔
(Laughter)
(قہقہے)
In fact, I recall that the only way I could fill out the application was during my commute to college. I did not have access to computers, so I had to borrow a college junior's cell phone. As a woman, I could not be seen with a cell phone, so I used to huddle his phone under my shawl and type as slowly as possible to ensure that I would not be heard. After many rounds of interviews, I got into the fellowship program with a full scholarship. My father was confused, my mother was worried --
مجھے یاد ہے درخواست فارم بھرنے کا واحد طریقہ یہی تھا جب میں کالج کی جانب محو سفر ہوتی تھی۔ مجھے کمپیوٹرز تک رسائی نہیں تھی، تو مجھے کالج میں ایک جونئیر کا موبائل فون لینا پڑا۔ بطور ایک عورت میں موبائل فون کے ساتھ نہیں دِکھ سکتی تھی، تو میں اس کے فون کو اپنی شال میں چھپائے رکھتی اور جتنی آہستگی سے ہوسکتا تھا ٹائپ کرتی رہی تاکہ کسی کو آواز نہ آنے پائے۔ انٹرویوز کے کئی ادوار کے بعد، مجھے فیلوشپ میں مکمل وظیفے کے ساتھ داخلہ مل گیا۔ میرے والد الجھن کا شکار تھے، میری ماں پریشان تھی ۔۔
(Applause)
(تالیاں)
My father was confused, my mother was worried, but I felt butterflies in my stomach because I was going to step out of my village for the first time to study in the national capital.
میرے والد الجھن میں تھے، میری ماں پریشان تھی، مگر میرا دل فرط جذبات سے اچھل رہا تھا کیوں کہ میں اپنے گاوں سے باہر قدم نکالنے والی تھی زندگی میں پہلی بار ملک کے دارالحکومت میں پڑھنے کے لئے۔
Of the 97 fellows selected that year, I was the only rural college graduate. There was no one there who looked like me or spoke like me. I felt alienated, intimidated and judged by many. One fellow called me "Coconut Girl." Can you guess why? Anyone? That's because I applied a lot of coconut oil to my hair.
اس سال منتخب ہونے والے 97 امیدواروں میں سے میں واحد دیہاتی کالج گریجویٹ تھی۔ وہاں ایک فرد بھی ایسا نہیں تھا جو میری طرح دکھتا یا بولتا تھا۔ میرا وجود الگ تھلگ، اجنبی، اور دوسروں کی نگاہوں میں رہتا۔ ایک ساتھی مجھے ’’ناریل والی لڑکی‘‘ کہتا۔ پتہ ہے کیوں؟ کوئی بتا سکتا ہے؟ اس لئے کہ میں اپنے بالوں میں بہت سا ناریل کا تیل لگاتی تھی۔
(Laughter)
(قہقہے)
Another asked me where I had learned to speak English, and some of my peers did not prefer to have me on their assignment teams because they thought I would not be able to contribute to their discussion. I felt that many of my peers believed that a person from rural India could not supply anything of value, yet the majority of Indian population today is rural. I realized that stories like mine were considered to be an exception and never the expectation.
ایک اور نے مجھ سے پوچھا، ’میں نے انگریزی کہاں سے سیکھی، اور میرے کچھ ہم جماعت مجھے اپنے تفویض کردہ کام کی ٹیم کا حصہ بنانے سے گریز کرتے کیوں کہ ان کے خیال میں، میں ان کی گفتگو میں کوئی خاطر خواہ حصہ نہیں لے سکتی۔ مجھے محسوس ہوا کہ بہت سے ساتھیوں کے خیال میں دیہاتی انڈیا کا ایک فرد کسی طرح سود مند نہیں ہوسکتا، حالانکہ آج بھی انڈیا کی اکثریت دیہاتوں میں ہی مقیم ہے۔ مجھے لگا کہ میری جیسی کہانیوں کو نابغہ روزگار تو سمجھا جاسکتا ہے مگر ان سے کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی۔
I believe that all of us are born into a reality that we blindly accept until something awakens us and a new world opens up. When I saw my mother's first signature on her bidi-rolling wage book, when I felt the hot Delhi air against my face after a 50-hour train journey, when I finally felt free and let myself be, I saw a glimpse of that new world I longed for, a world where a girl like me is no longer a liability or a burden but a person of use, a person of value and a person of worthiness.
مجھے لگتا ہے کہ ہم سب ایک ایسے سچ کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں جس پر ہمیں اندھا یقین ہے جب تک کہ کوئی ہمیں جگا نہ دے اور ایک نیا جہان سامنے نہ آ جائے۔ جب میں نے پہلی بار اپنی ماں کے دستخط تنخواہ کے رجسٹر پر دیکھے، جب میں نے دہلی کی گرم ہوا کی تمازت اپنے چہرے پر محسوس کی ٹرین کے 50 گھنٹے کے سفر کے بعد، جب میں نے اپنے وجود کو بالآخر آزاد اور اپنے اختیار میں محسوس کیا، میں نے اس نئی دنیا کی ایک جھلک دیکھی جس کی میں بہت عرصے سے منتظر تھی، ایک ایسی دنیا جہاں میری جیسی لڑکی نہ بوجھ ہے اور نہ ذمہ داری بلکہ وہ ایک کار آمد اور مفید شخصیت ہے ایک قابل قدر انسان۔
By the time my fellowship ended, my life had changed. Not only had I traced my lost voice, but also had a choice to make myself useful. I was 22. I came back to my village to set up the Bodhi Tree Foundation, an institution that supports rural youth by providing them with education, life skills and opportunities. We work closely with our rural youth to change their life and to benefit our communities.
میرے تدریسی عمل کے اختتام تک میری زندگی بدل چکی تھی۔ مجھے نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی آواز مل گئی تھی، بلکہ میں اس فیصلے کے قابل تھی کہ اپنے آپ کو سود مند بنا سکوں۔ میری عمر 22 سال تھی۔ میں اپنے گاوؑں واپس آئی تاکہ 'بودھی ٹری فاوؑنڈیشن' کی بنیاد رکھ سکوں، ایک ایسا ادارہ جو دیہاتی نوجوانوں کی مدد کرتا ہے ان کے لئے تعلیم، ہنرمندی اور بہتر مواقع مہیا کر کے۔ ہم اپنے دیہی نوجوانوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تاکہ نہ صرف ان کی زندگی بدلے بلکہ وہ معاشرے کے لئے سودمند ثابت ہوں۔
How do I know my institution is working? Well, six months ago, we had a new joinee. Her name is Kaviarasi. I first spotted her in a local college in Tirunelveli during one of my training sessions. As you can see, she has a smile which you can never forget. We guided her to get an opportunity to study at Ashoka University, Delhi. The best part of her story is that she is now back at Bodhi Tree as a trainer working with dedication to make a change in the lives of others like her. Kaviarasi doesn't want to feel like an exception. She wants to be of use to others in this world.
کیسے معلوم ہوتا ہے کہ میرا ادارہ کام کر رہا ہے؟ چھ ماہ قبل، ہمارے ساتھ ایک نئی رکن شامل ہوئیں۔ ان کا نام کوی آرسی ہے۔ میری اس سے پہلی ملاقات ترونیل ویلی کے ایک مقامی کالج میں ہوئی میرے ایک تربیتی اجلاس کے دوران۔ آپ دیکھ سکتے ہیں، اس کی مسکراہٹ ایسی ہے جسے آپ کبھی بھول نہیں سکتے۔ ہم نے اس کی اشوکا یونیورسٹی دہلی میں تعلیم کے لئے رہنمائی کی۔ اس کہانی کا دلچسپ پہلو اس کی واپسی اور بودھی ٹری میں بحیثیت استاد شمولیت ہے وہ مکمل تندہی سے اپنی طرح دوسروں کی زندگی بدلنے کے عمل میں مصروف ہے۔ کوی آرسی خود کو الگ تھلک محسوس نہیں کرنا چاہتی۔ وہ اس دنیا میں دوسروں کے لیے فائدہ مند بننا چاہتی ہے۔
Recently, Kaviarasi mentored Anitha, who also comes from a remote, rural village, lives in a 10-foot-by-10-foot home, her parents are also farm laborers. Kaviarasi helped Anitha secure admission in a prestigious undergraduate program in a top university in India with a full scholarship. When Anitha's parents were reluctant to send her that far, we asked the district administration officials to speak to Anitha's parents, and it worked.
ابھی حال ہی میں، کوی آرسی نے انیتا کی تربیت کی ہے، وہ بھی ایک دور دراز دیہات سے ہی ہے، ایک 10 فٹ چوڑے، 10 فٹ لمبے گھر میں رہتی ہے، اس کے والدین بھی کھیت مزدور ہیں۔ کوی آرسی نے انیتا کی ایک بہترین انڈرگریجویٹ پروگرام میں داخلہ میں مدد کی انڈیا کی ایک مشہور یونیورسٹی میں مکمل وظیفے کے ساتھ ۔ جب انیتا کہ والدین اسے اتنی دور بھیجنے میں ہجکچا رہے تھے، تو ہم نے ضلعی انتظامیہ کے حکام سے گزارش کی کہ وہ انیتا کہ والدین سے بات کریں۔ اور یہ کام کر گیا۔
And then there is Padma. Padma and I went to college together. She's the first in her entire village to attend graduation. She had been working with me at Bodhi Tree until one day she decides to go to graduate school. I asked her why. She told me that she wanted to make sure that she would never be a liability or a burden to anyone at any point in her life.
اور پھرآئی پدما۔ پدما اور میں ایک ساتھ کالج جاتے تھے۔ وہ اپنے پورے گاوں میں پہلی تھی جس نے گریجویشن میں داخلہ لیا۔ وہ میرے ساتھ بودھی ٹری میں کام کرتی رہی یہاں تک کہ وہ دن آیا جب اس نے گریجویٹ اسکول جانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے پوچھا، کیوں؟ وہ بولی کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ وہ کبھی بھی کسی پر بوجھ یا ذمہ داری نہ بننے پائے اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر۔
Padma, Anitha and Kaviarasi grew up in the most tough families and communities one could only imagine. Yet the journey of finding my usefulness in this world served them in finding their usefulness to this world.
پدما، انیتا اور کوی آرسی انتہائی سخت خاندانوں اور معاشرے میں پلیں بڑھیں ہم جن کا صرف تصور ہی کرسکتے ہیں۔ پھر بھی میری اس دنیا میں میری افادیت کی تلاش کے سفر نے انھیں بھی اس دنیا میں اپنی افادیت ڈھونڈنے میں مدد کی۔
Of course there are challenges. I'm aware change does not happen overnight. A lot of my work involves working with families and communities to help them understand why getting an education is useful for everyone. The quickest way to convince them is by doing. When they see their kids getting a real education, getting a real job, they begin to change.
بے شک اس سب میں مشکلات تھیں۔ میں جانتی ہوں تبدیلی راتوں رات نہیں آتی۔ میرے کام کا ایک بڑے حصہ خاندانوں اور مختلف طبقات کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے تاکہ میں انھیں سمجھا سکوں کہ تعلیم کا حاصل کرنا سب کے لئے فائدہ مند ہے۔ مائل کرنے کا تیز ترین طریقہ انھیں ایسا کر کے دکھانا تھا۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے مفید تعلیم حاصل کر رہے ہیں، نوکریوں پر لگ رہے ہیں، وہ تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
The best example is what happened at my home. I was recently given an award in recognition of my social work by the chief minister of my state. That meant I was going to be on television.
جو میرے گھر ہوا وہ اس کی سب سے بہترین مثال ہے۔ حال ہی میں مجھے میرے سماجی کام کے اعتراف میں ایک اعزاز سے نوازا گیا میری ریاست کے وزیر اعلٰی کی جانب سے۔ اس کا مطلب تھا کہ میں ٹیلی ویژن پر آوں گی۔
(Laughter)
(قہقہے)
Everyone was hooked on to the television that morning, including my parents. I would like to believe that seeing her daughter on television made my mother feel useful too. Hopefully, she will stop pressuring me to get married now.
اس صبح میرے والدین سمیت سب لوگ ٹیلیویژن سے چپکے ہوئے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ اپنی بیٹی کو ٹی وی پر دیکھنا انھیں بھی اپنے مفید ہونے کا احساس دے گا۔ امید ہے کہ اب وہ مجھ پرشادی کے لئے دباو ڈالنا بند کردیں گی۔
(Laughter)
(قہقہے)
Finding my use has helped me to break free from the identities society thrusts on me -- poor village girl. Finding my use has helped me to break free from being boxed, caged and bottled. Finding my use has helped me to find my voice, my self-worth and my freedom.
اپنی افادیت پانے نے مجھے بہت سی شناختوں سے نجات دلائی جو اس معاشرے نے مجھ پر مسلط کی تھیں ۔۔ غریب دیہاتی لڑکی۔ اپنی افادیت پانے نے مجھے قید سے نجات پانے میں مدد دی، قفس اور پنجرے سے۔ اپنی افادیت پانے نے مجھے میری آواز پانے میں مدد دی، میری ذاتی اہمیت اور میری آزادی۔
I leave you with this thought: Where do you feel useful to this world? Because the answer to that question is where you will find your voice and your freedom.
میں یہ سوچ آپ کے پاس چھوڑے جا رہی ہوں: کہ آپ اس دنیا میں کہاں خود کو مفید سمجھتے ہیں؟ کیوں کہ اس سوال کا جواب ہی ہے جو آپ کو آپ کی آزادی اور آواز دے گا۔
Thank you.
شکریہ۔
(Applause)
(تالیاں)