I have given the slide show that I gave here two years ago about 2,000 times. I'm giving a short slide show this morning that I'm giving for the very first time, so -- well it's -- I don't want or need to raise the bar, I'm actually trying to lower the bar. Because I've cobbled this together to try to meet the challenge of this session.
میں نے وہ سلائیڈ شو پیش کیا ہے جو میں نے یہاں دو سال پہلے تقریباً 2,000 بار پیش کیا ہے۔ آج صبح میں ایک مختصر سلائیڈ شو پیش کر رہا ہوں جو کہ میری جانب سے پہلی بار پیش کیا جا رہا ہے، چنانچہ ۔۔ یہ اسی طرح ہے ۔۔ مجھے بار کو اوپر کرنے کی خواہش ہے نہ ضرورت، میں دراصل بار کو نیچے کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کیونکہ اس سیشن کے چیلنج پر پورا اترنے کی کوشش کرنے کے لئے میں نے اسے ملا کر بے ڈھنگا بنا دیا ہے۔
And I was reminded by Karen Armstrong's fantastic presentation that religion really properly understood is not about belief, but about behavior. Perhaps we should say the same thing about optimism. How dare we be optimistic? Optimism is sometimes characterized as a belief, an intellectual posture. As Mahatma Gandhi famously said, "You must become the change you wish to see in the world." And the outcome about which we wish to be optimistic is not going to be created by the belief alone, except to the extent that the belief brings about new behavior. But the word "behavior" is also, I think, sometimes misunderstood in this context. I'm a big advocate of changing the lightbulbs and buying hybrids, and Tipper and I put 33 solar panels on our house, and dug the geothermal wells, and did all of that other stuff. But, as important as it is to change the lightbulbs, it is more important to change the laws. And when we change our behavior in our daily lives, we sometimes leave out the citizenship part and the democracy part. In order to be optimistic about this, we have to become incredibly active as citizens in our democracy. In order to solve the climate crisis, we have to solve the democracy crisis. And we have one.
مجھے کرن آرمسٹرانگ کی وہ شاندار پیشکش یاد آ رہی ہے کہ مذہب کو اگر صحیح طور سے سمجھا جائے تو وہ عقیدے کے متعلق نہیں بلکہ رویے کے متعلق ہوتا ہے۔ شاید ہمیں امید پرستی کے متعلق بھی یہی بات کہنی چاہیے۔ ہم امید پرست بننے کی جرات کیسے کر سکتے ہیں؟ امید پرستی کو بعض اوقات ایک عقیدہ، ایک دانشوارانہ کیفیت سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ مہاتما گاندھی کی یہ بات بہت مشہور ہے، "آپ کو وہ تبدیلی خود بن جانا چاہیے جسے آپ دنیا میں دیکھنے کے خواہاں ہیں۔" اور جس نتیجے کے متعلق ہم امید پرستی کی خواہش رکھتے ہیں وہ صرف اعتقاد کے زور پر ہی حاصل نہیں ہوگا، ماسوائے اس حد تک کہ اعتقاد نئے رویے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن لفظ "رویے"، کو بھی، میرے خیال میں، اس تناظر میں بعض اوقات غلط سمجھا جاتا ہے۔ میں روشنی کے بلب تبدیل کرنے اور اس کی جگہ دوہری خصوصیات کے حامل بلب خریدنے کا بڑا حامی ہوں، اور ٹپر اور میں نے اپنے گھر میں 33 شمسی پینل لگائے، اور جیوتھرمل کنوؤں کی کھدائی کرائی اور دیگر تمام کام کیے۔ لیکن جتنا اہم کام روشنی کے بلبوں کو تبدیل کرنا ہے قوانین کو تبدیل کرنا اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اور جب ہم اپنی روز مرہ زندگیوں میں اپنے رویے کو تبدیل کرتے ہیں، تو ہم بعض اوقات شہریت اور جمہوریت کا جزو چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کے متعلق امید پرست ہونے کے لئے ہمیں اپنی جمہوریت میں غیر معمولی حد تک فعال ہونا پڑے گا۔ موسمی بحران کو حل کرنے کے لئے، ہمیں جمہوریت کے بحران کو حل کرنا پڑے گا۔ (تالیاں)۔ اور ہم اس وقت ایک بحران کا شکار ہیں۔
I have been trying to tell this story for a long time. I was reminded of that recently, by a woman who walked past the table I was sitting at, just staring at me as she walked past. She was in her 70s, looked like she had a kind face. I thought nothing of it until I saw from the corner of my eye she was walking from the opposite direction, also just staring at me. And so I said, "How do you do?" And she said, "You know, if you dyed your hair black, you would look just like Al Gore." (Laughter)
میں طویل عرصے سے یہ کہانی سنانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مجھے اس کے متعلق حال ہی میں ایک خاتون نے یاد دلایا جو میری میز کے پاس سے گزر کر گئی تھیں، اور گزرتے ہوئے وہ مجھے گھورتی رہیں۔ وہ تقریبا 70 سال کی تھیں، ان کا چہرہ مہربان تھا۔ میں نے پہلے اس پر غور نہیں کیا لیکن جب میں نے کن انکھیوں سے دیکھا کہ وہ مخالف سمت سے آتے ہوئے بھی مجھے گھور رہی تھیں۔ چنانچہ، میں نے ان سے پوچھ لیا، "آپ کا کیا حال ہے؟" اور انہوں نے جواب دیا، "تمہیں پتہ ہے، اگر تم نے اپنے بال سیاہ رنگے ہوتے، تو تم بالکل الگور جیسے لگتے۔" (قہقہے)۔
Many years ago, when I was a young congressman, I spent an awful lot of time dealing with the challenge of nuclear arms control -- the nuclear arms race. And the military historians taught me, during that quest, that military conflicts are typically put into three categories: local battles, regional or theater wars, and the rare but all-important global, world war -- strategic conflicts. And each level of conflict requires a different allocation of resources, a different approach, a different organizational model. Environmental challenges fall into the same three categories, and most of what we think about are local environmental problems: air pollution, water pollution, hazardous waste dumps. But there are also regional environmental problems, like acid rain from the Midwest to the Northeast, and from Western Europe to the Arctic, and from the Midwest out the Mississippi into the dead zone of the Gulf of Mexico. And there are lots of those. But the climate crisis is the rare but all-important global, or strategic, conflict. Everything is affected. And we have to organize our response appropriately. We need a worldwide, global mobilization for renewable energy, conservation, efficiency and a global transition to a low-carbon economy. We have work to do. And we can mobilize resources and political will. But the political will has to be mobilized, in order to mobilize the resources.
کئی سال پہلے، جب میں کانگریس کا ایک نوجوان رکن تھا، میں نے کافی زیادہ وقت جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول، جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کے چیلنج کو حل کرنے میں صرف کیا۔ اور فوجی تاریخ دانوں نے اس جستجو کے دوران مجھے یہ سکھایا کہ عسکری تنازعات کو عام طور پر تین زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے: مقامی جنگیں، علاقائی جنگیں یا میدانِ کارزار، اور سب سے کم لیکن انتہائی اہم عالمگیر، جنگ عظیم۔ حکمت عملی پرمبنی تنازعات۔ اور ہر سطح کے تنازعے میں مختلف طرح کے وسائل مختص کیے جاتے ہیں، ایک مختلف طریقہ، ایک مختلف تنظیمی نمونہ اپنایا جاتا ہے۔ ماحولیاتی چیلنج بھی انہی تین زمروں میں پائے جاتے ہیں، اور ہماری سوچ کے مطابق ان میں سے بیشتر مقامی ماحولیاتی مسائل ہیں: فضائی آلودگی، آبی آلودگی، خطرناک گندگی کے ڈھیر۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ علاقائی ماحولیاتی مسائل بھی موجود ہیں، جیسا کہ وسطِ غرب سے لے کر شمال مشرق، اور مغربی یورپ سے لے کر قطب شمالی اور وسط غرب سے لے کر مسی سپی سے ہو کر خلیج میکسیکو کے مردہ علاقے تک ہونے والی تیزابی بارش۔ اور اس طرح کے بیشمار مسائل ہیں۔ لیکن موسمی بحران انتہائی شاذونادر لیکن اتنا ہی اہم عالمی، یا تزویراتی تنازعہ ہے۔ اس سے ہر چیز متاثر ہوتی ہے۔ اور ہمیں مناسب ردعمل کی ضرورت ہے۔ ہمیں قابلِ تجدید توانائی، تحفظ ماحول، کارکردگی کے لئے عالمی سطح پر تیاری اور کم کاربن کے اخراج والی معیشت کی جانب عالمی منتقلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس مقصد کے لئے کام کرنا ہے۔ اور ہم وسائل اور سیاسی عزم تیار کر سکتے ہیں۔ لیکن وسائل تیار کرنے کے لئے سیاسی عزم کی تیاری کی ضرورت پڑے گی۔
Let me show you these slides here. I thought I would start with the logo. What's missing here, of course, is the North Polar ice cap. Greenland remains. Twenty-eight years ago, this is what the polar ice cap -- the North Polar ice cap -- looked like at the end of the summer, at the fall equinox. This last fall, I went to the Snow and Ice Data Center in Boulder, Colorado, and talked to the researchers here in Monterey at the Naval Postgraduate Laboratory. This is what's happened in the last 28 years. To put it in perspective, 2005 was the previous record. Here's what happened last fall that has really unnerved the researchers. The North Polar ice cap is the same size geographically -- doesn't look quite the same size -- but it is exactly the same size as the United States, minus an area roughly equal to the state of Arizona. The amount that disappeared in 2005 was equivalent to everything east of the Mississippi. The extra amount that disappeared last fall was equivalent to this much. It comes back in the winter, but not as permanent ice, as thin ice -- vulnerable. The amount remaining could be completely gone in summer in as little as five years. That puts a lot of pressure on Greenland. Already, around the Arctic Circle -- this is a famous village in Alaska. This is a town in Newfoundland. Antarctica. Latest studies from NASA. The amount of a moderate-to-severe snow melting of an area equivalent to the size of California.
آئیں میں آپ کو یہ سلائیڈز دکھاؤں۔ میرا خیال تھا کہ میں علامتی نشان سے شروع کروں گا۔ یہاں جو چیز کم ہے وہ ہے قطب شمالی کا برف کا تودہ۔ گرین لینڈ تو باقی ہے۔ 28 سال پہلے قطب شمالی کا برفانی تودہ گرما کے اختتام پر دوسرے نقطہ اعتدال لیل و نہار میں یوں دکھائی دیتا تھا۔ گذشتہ خزاں کے دوران، میں نے کولوریڈو کے شہر بولڈر میں واقع سنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر کا دورہ کیا اور پھر مونٹرے میں نیول پوسٹ گریجویٹ لیبارٹری کے محققین سے بات کی۔ گذشتہ 28 سالوں میں یہ کچھ ہوچکا ہے۔ اسے تناظر میں پیش کرنے کے لئے، گزشتہ ریکارڈ 2005 کا تھا۔ گذشتہ موسم خزاں میں یہ کچھ ہوا جس نے درحقیقت محققین کے اوسان خطا کر دیے۔ رقبے کے اعتبار سے قطب شمالی کے برفانی تودے کا سائز پہلے جتنا ہے۔ بالکل وہی سائز تو نظر نہیں آتا، لیکن درحقیقت یہ امریکا جتنا سائز ہے جس میں سے اگر ریاست ایریزونا کے برابر ایک علاقہ نکال دیں تو۔ 2005 میں غائب ہونے والا رقبہ میسی سپی کے مشرق میں واقع ہر چیز جتنا تھا۔ گزشتہ خزاں میں غائب ہونے والی فاضل مقدار اس کے مساوی تھی۔ یہ سرما میں دوبارہ آجاتی ہے لیکن وہ مستقل برف نہیں ہوتی۔ بلکی برف کی پتلی تہ ہوتی ہے۔ غیر محفوظ۔ آئندہ پانچ سالوں سے بھی کم عرصے میں باقی مقدار مکمل طور پر غائب ہو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے گرین لینڈ پر بہت دباؤ ہے۔ پہلے ہی قطب شمالی کے حلقے میں ۔۔ یہ الاسکا کا ایک معروف گاؤں ہے۔ یہ نیو فاؤنڈ لینڈ کا ایک شہر ہے۔ ناسا کی تازہ ترین تحقیق۔ کیلیفورنیا کے سائز کے برابر معتدل سے شدید سطح کا برف کا پگھلاؤ۔
"They were the best of times, they were the worst of times": the most famous opening sentence in English literature. I want to share briefly a tale of two planets. Earth and Venus are exactly the same size. Earth's diameter is about 400 kilometers larger, but essentially the same size. They have exactly the same amount of carbon. But the difference is, on Earth, most of the carbon has been leeched over time out of the atmosphere, deposited in the ground as coal, oil, natural gas, etc. On Venus, most of it is in the atmosphere. The difference is that our temperature is 59 degrees on average. On Venus, it's 855. This is relevant to our current strategy of taking as much carbon out of the ground as quickly as possible, and putting it into the atmosphere. It's not because Venus is slightly closer to the Sun. It's three times hotter than Mercury, which is right next to the Sun. Now, briefly, here's an image you've seen, as one of the only old images, but I show it because I want to briefly give you CSI: Climate.
"وہ بہترین وقت تھا، وہ بدترین وقت تھا": انگریزی ادب کا مشہور ترین ابتدائیہ جملہ۔ میں مختصراً "دو سیاروں کی کہانی" سنانا چاہتا ہوں زمین اور زہرہ کا سائز تقریباً ایک ہی ہے۔ زمین کا قطر تقریباً 400 کلومیٹر طویل ہے، لیکن مجموعی سائز ایک جتنا ہی ہے۔ دونوں میں کاربن کی یکساں مقدار پائی جاتی ہے۔ لیکن فرق اتنا ہے کہ زمین پر کاربن کی مقدار کو وقت کے ساتھ ساتھ کرہ ہوائی سے باہر نکال دیا گیا ہے، جو کہ زمین میں کوئلے، تیل، قدرتی گیس وغیرہ کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ زہرہ پر، اس میں سے بیشتر کرہ ہوائی میں موجود ہے۔ فرق یہ ہے کہ ہمارا اوسط درجہ حرارت 59 ڈگری ہے۔ زہرہ پر، یہ 855 ہے۔ یہ ہماری موجودہ حکمت عملی سے متعلقہ ہے جس میں زمین سے ہر ممکن جلد کاربن کی زیادہ سے زیادہ مقدار نکالنا اور اور استعمال کے بعد اسے کرہ ہوائی میں خارج کر دینا ہے۔ بات یہ نہیں کہ زہرہ سورج سے تھوڑا زیادہ نزدیک ہے۔ یہ عطارد سے تین گنا زیادہ گرم ہے، جو سورج کے بالکل نزدیک ہے۔ اب مختصراً یہ ایک تصویر ہے جو آپ نے واحد پرانی تصویر کے طور پر دیکھی ہے، لیکن میں اسے آپ کو دکھا رہا ہوں کیونکہ میں آپ کو سی ایس آئی دینا چاہتا ہوں: موسم۔
The global scientific community says: man-made global warming pollution, put into the atmosphere, thickening this, is trapping more of the outgoing infrared. You all know that. At the last IPCC summary, the scientists wanted to say, "How certain are you?" They wanted to answer that "99 percent." The Chinese objected, and so the compromise was "more than 90 percent." Now, the skeptics say, "Oh, wait a minute, this could be variations in this energy coming in from the sun." If that were true, the stratosphere would be heated as well as the lower atmosphere, if it's more coming in. If it's more being trapped on the way out, then you would expect it to be warmer here and cooler here. Here is the lower atmosphere. Here's the stratosphere: cooler. CSI: Climate.
عالمی سائنسی برادری کا کہنا ہے کہ انسان کی تخلیق کردہ عالمی حدت آلودگی، کرہ ہوائی میں داخل ہو کر اسے کثیف کر رہی ہے جس سے باہر جانے والی گرم شعاعوں کو راستہ نہیں مل رہا۔ آپ سب کو اس کا علم ہے۔ اور آئی پی سی سی کے گذشتہ خلاصے میں، سائنسدان یہ کہنا چاہتے تھے، "آپ کو کتنا یقین ہے؟" وہ جواب دینا چاہتے تھے کہ "99 فیصد۔" چینیوں نے اس پر اعتراض کیا اور "90 فیصد سے زائد" پر سمجھوتہ طے پا گیا۔ اب ناقدین کا کہنا ہے، "اوہ، ایک منٹ رکیں ذرا، یہ تو سورج سے آنے والی اس توانائی کا فرق ہو سکتا ہے۔" اگر یہ بات سچ ہو، کرہ قائمہ بھی زیریں کرہ ہوائی کی طرح گرم ہو جائے، اگر اس میں زیادہ توانائی آ رہی ہو۔ اگر باہر نکلنے کے راستے پر زیادہ رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے تو آپ کو اسے یہاں زیادہ گرمی ہونے اور یہاں زیادہ سردی ہونے کی توقع ہونی چاہیے۔ یہ رہا زیریں کرہ ہوائی۔ یہ رہا کرہ قائمہ: سرد۔ سی ایس آئی: موسم۔
Now, here's the good news. Sixty-eight percent of Americans now believe that human activity is responsible for global warming. Sixty-nine percent believe that the Earth is heating up in a significant way. There has been progress, but here is the key: when given a list of challenges to confront, global warming is still listed at near the bottom. What is missing is a sense of urgency. If you agree with the factual analysis, but you don't feel the sense of urgency, where does that leave you? Well, the Alliance for Climate Protection, which I head in conjunction with Current TV -- who did this pro bono -- did a worldwide contest to do commercials on how to communicate this. This is the winner.
اچھی خبر یہ ہے۔ %68 امریکیوں کا اب یہ خیال ہے کہ عالمی حدت کی ذمہ داری انسانی سرگرمیوں پر عائد ہوتی ہے۔ 69 فیصد کا خیال ہے کہ زمین کی حرارت غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے۔ اس میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے لیکن اصل چیز یہ ہے: جب سامنا کرنے والے چیلنجوں کی فہرست دی جاتی ہے تو عالمی حدت اب بھی سب سے نیچے ہے۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے ہنگامی احساس۔ اگر آپ حقائق پر مبنی تجزیے سے تو اتفاق کرلیں لیکن آپ کو ہنگامی حالت کا احساس نہ ہو، تو پھر آپ کہاں کھڑے ہوں گے؟ موسمی تحفظ کے اتحاد کی سربراہی میرے پاس ہے اور کرنٹ ٹی وی اس میں بلامعاوضہ تعاون کر رہا ہے، اس نے اس کے فروغ کے لئے اس پر اشتہارات بنانے کے ایک عالمی مقابلے کا اہتمام کیا۔ اور فاتح یہ رہا۔
NBC -- I'll show all of the networks here -- the top journalists for NBC asked 956 questions in 2007 of the presidential candidates: two of them were about the climate crisis. ABC: 844 questions, two about the climate crisis. Fox: two. CNN: two. CBS: zero. From laughs to tears -- this is one of the older tobacco commercials. So here's what we're doing. This is gasoline consumption in all of these countries. And us. But it's not just the developed nations. The developing countries are now following us and accelerating their pace. And actually, their cumulative emissions this year are the equivalent to where we were in 1965. And they're catching up very dramatically. The total concentrations: by 2025, they will be essentially where we were in 1985. If the wealthy countries were completely missing from the picture, we would still have this crisis. But we have given to the developing countries the technologies and the ways of thinking that are creating the crisis. This is in Bolivia -- over thirty years.
این بی سی ۔۔ میں یہاں تمام نیٹ ورک دکھاؤں گا ۔۔ این بی سی کے بڑے صحافیوں نے 2007 میں صدارتی امیدواروں سے 956 سوالات پوچھے: ان میں سے دو موسمی بحران کے متعلق تھے۔ اے بی سی: 844 سوالات، دو موسمی بحران کے متعلق تھے۔ فاکس: دو۔ سی این این: دو۔ سی بی ایس: صفر۔ ہنسی سے آنسو۔ یہ تمباکو کا ایک پرانا اشتہار ہے۔ چنانچہ ہم یہاں کیا کر رہے ہیں۔ یہ ان تمام ممالک میں پیٹرول کی کھپت ہے۔ اور ہم۔ لیکن یہ صرف ترقی یافتہ اقوام ہی نہیں۔ ترقی پذیر ممالک بھی اب ہماری پیروی کر رہے ہیں اور اپنی رفتار بڑھا رہے ہیں۔ اور درحقیقت رواں برس ان کے مجموعی اخراج اس مقدار کے مساوی ہیں جو ہمارے یہاں 1965 میں تھی۔ اور وہ حیران کن حد تک تیزی سے قریب آتے جا رہے ہیں۔ مجموعی ارتکاز: 2025 تک، وہ لازمی طور پر وہاں پہنچ جائیں گے جہاں ہم 1985 میں تھے۔ اگر امیر ممالک کو اس تصویر سے مکمل طور پر غائب کر دیا جائے تو ہمارے یہاں پھر بھی یہ بحران ہوگا۔ لیکن ہم نے ترقی پذیر ممالک کو وہ ٹیکنالوجیاں اور سوچ کے انداز دیے ہیں جو بحران کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ بولیویا میں ہے۔ تیس سالوں سے زیادہ۔
This is peak fishing in a few seconds. The '60s. '70s. '80s. '90s. We have to stop this. And the good news is that we can. We have the technologies. We have to have a unified view of how to go about this: the struggle against poverty in the world and the challenge of cutting wealthy country emissions, all has a single, very simple solution.
یہ چند سیکنڈوں میں مچھلیاں پکڑنے کے موسم کا رش ہے۔ 60 کی دہائی۔ 70 کی دہائی۔ 80 کی دہائی۔ 90 کی دہائی۔ ہمیں اسے روکنا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ہم اسے حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس ٹیکنالوجیاں موجود ہیں۔ ہمیں اسے حاصل کرنے کے لئے متحدہ سوچ اپنانی پڑے گی: دنیا میں غربت کے خلاف جدوجہد اور امیر ممالک کے اخراج کو کم کرنے کے چیلنجوں کا اب بھی ایک واحد، کافی آسان حل موجود ہے۔
People say, "What's the solution?" Here it is. Put a price on carbon. We need a CO2 tax, revenue neutral, to replace taxation on employment, which was invented by Bismarck -- and some things have changed since the 19th century. In the poor world, we have to integrate the responses to poverty with the solutions to the climate crisis. Plans to fight poverty in Uganda are mooted, if we do not solve the climate crisis.
لوگوں کا کہنا ہے، "اس کا کیا حل ہے؟"۔ یہ رہا حل۔ کاربن کے اخراج کی قیمت لگا دیں۔ ہمیں کاربن ڈائی آکسائیڈ ٹیکس، بلا محصول، کی ضرورت ہے جو بمسارک کے تخلیق کردہ ملازمتی ٹیکس کی جگہ لے اور 19ویں صدی کے بعد بعض چیزوں میں تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔ غریب دنیا میں ہمیں موسمی بحران کے حل کے ذریعے غربت پر ردعمل کو مربوط کرنا ہے۔ اگر ہم موسمی بحران کو حل نہ کر سکے تو یوگنڈا میں غربت کے خلاف جنگ کے منصوبے لاحاصل ہیں ۔
But responses can actually make a huge difference in the poor countries. This is a proposal that has been talked about a lot in Europe. This was from Nature magazine. These are concentrating solar, renewable energy plants, linked in a so-called "supergrid" to supply all of the electrical power to Europe, largely from developing countries -- high-voltage DC currents. This is not pie in the sky; this can be done.
لیکن ردعمل درحقیقت غریب ملکوں میں ایک بڑا فرق پیدا کر سکتا ہے۔ یہ وہ تجویز ہے جس کے متعلق یورپ میں کافی بحث کی گئی ہے۔ یہ نیچر میگزین سے لیا گیا ہے۔ یہ قابل تجدید شمسی توانائی کے مرتکز پلانٹ یورپ کو تمام بجلی فراہم کرنے کے لئے ایک سپر گرڈ سے منسلک ہیں جو زیادہ تر ترقی پذیر ممالک سے حاصل ہوگی۔ بلند وولٹیج ڈائریکٹ کرنٹ۔ یہ کوئی خیالی پلاؤ نہیں ہے؛ یہ قابل حصول ہے۔
We need to do it for our own economy. The latest figures show that the old model is not working. There are a lot of great investments that you can make. If you are investing in tar sands or shale oil, then you have a portfolio that is crammed with sub-prime carbon assets. And it is based on an old model. Junkies find veins in their toes when the ones in their arms and their legs collapse. Developing tar sands and coal shale is the equivalent. Here are just a few of the investments that I personally think make sense. I have a stake in these, so I'll have a disclaimer there. But geothermal, concentrating solar, advanced photovoltaics, efficiency and conservation.
ہمیں اپنی معیشت کی بہتری کے لئے یہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرانا نمونہ کام نہیں کر رہا۔ بہت سے ایسے اچھے سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں جن سے آپ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اگر آپ تارکول کی ریت یا شیل تیل میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں تو آپ کے پاس خام کاربن اثاثوں سے بھرا ہوا کاروبار ہے۔ اور یہ ایک پرانے نمونے پر مبنی ہے۔ منشیات کے عادی افراد اپنے پاؤں کی انگلیوں میں بھی رگیں تلاش کرلیتے ہیں جب ان کے بازوؤں اور ٹانگوں میں ختم ہو جاتی ہیں۔ تارکول ریت اور کوئلہ شیل کو تیار کرنا برابر ہے۔ یہ ان چند سرمایہ کاریوں میں سے ہیں جو میرے ذاتی خیال میں سمجھ میں آتی ہیں۔ میرے ان میں مفادات ہیں لہٰذا میں یہاں اظہار لاتعلقی کرتا ہوں۔ لیکن جیو تھرمل، شمسی توانائی کا ارتکاز، فوٹو وولٹیک کی اعلٰی قسم، کارکردگی اور تحفظ ماحول۔
You've seen this slide before, but there's a change. The only two countries that didn't ratify -- and now there's only one. Australia had an election. And there was a campaign in Australia that involved television and Internet and radio commercials to lift the sense of urgency for the people there. And we trained 250 people to give the slide show in every town and village and city in Australia. Lot of other things contributed to it, but the new Prime Minister announced that his very first priority would be to change Australia's position on Kyoto, and he has. Now, they came to an awareness partly because of the horrible drought that they have had. This is Lake Lanier. My friend Heidi Cullen said that if we gave droughts names the way we give hurricanes names, we'd call the one in the southeast now Katrina, and we would say it's headed toward Atlanta. We can't wait for the kind of drought Australia had to change our political culture. Here's more good news. The cities supporting Kyoto in the U.S. are up to 780 -- and I thought I saw one go by there, just to localize this -- which is good news.
آپ یہ سلائیڈ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں لیکن اس میں کچھ تبدیلی ہے۔ صرف دو ممالک ایسے ہیں جنہوں نے توثیق نہیں کی اور اب ایک رہ گیا ہے۔ آسٹریلیا میں انتخابات تھے۔ اور آسٹریلیا میں عوام کے اندر ہنگامی احساس پیدا کرنے کے لئے ٹیلی ویژن، ریڈیو اور انٹرنیٹ پر اشتہارات کے ذریعے ایک مہم چلائی گئی۔ اور ہم نے آسٹریلیا کے ہر گاؤں اور شہر میں سلائیڈ شو دکھانے کے لئے 250 افراد کو تربیت دی۔ اس میں دیگر بہت سی چیزوں کی شراکت بھی تھی لیکن نئے وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ ان کی پہلی ترجیح کیوٹو کے متعلق آسٹریلیا کا مؤقف تبدیل کرنا ہوگا اور انہوں نے وہی کیا۔ اب ان میں کچھ شعور آیا ہے جس کی جزوی وجہ ان کو درپیش بھیانک خشک سالی ہے۔ یہ جھیل لانیئر ہے۔ میرے دوست ہائیڈی کلنز نے کہا تھا کہ اگر ہم خشک سالیوں کو بھی ایسے ہی نام دیں جیسے طوفانوں کو دیتے ہیں، تو ہم جنوب مشرق والے کو اب کٹرینہ کہیں گے اور کہیں گے کہ یہ اب اٹلانٹا کی جانب بڑھ چکا ہے۔ ہم اس قسم کے مسودے کا انتظار نہیں کر سکتے آسٹریلیا کو ہماری سیاسی ثقافت کو تبدیل کرنا پڑا۔ اچھی خبر یہ ہے۔ امریکا میں کیوٹو کی حمایت کرنے والے شہروں کی تعداد 780 ہے اور میرے خیال میں میں نے ایک اور کو اس میں شامل ہوتے دیکھا، صرف مقامی سطح پر بتانے کے لئے۔ جو کہ اچھی خبر ہے۔
Now, to close, we heard a couple of days ago about the value of making individual heroism so commonplace that it becomes banal or routine. What we need is another hero generation. Those of us who are alive in the United States of America today especially, but also the rest of the world, have to somehow understand that history has presented us with a choice -- just as Jill [Bolte] Taylor was figuring out how to save her life while she was distracted by the amazing experience that she was going through. We now have a culture of distraction. But we have a planetary emergency. And we have to find a way to create, in the generation of those alive today, a sense of generational mission. I wish I could find the words to convey this. This was another hero generation that brought democracy to the planet. Another that ended slavery. And that gave women the right to vote. We can do this. Don't tell me that we don't have the capacity to do it. If we had just one week's worth of what we spend on the Iraq War, we could be well on the way to solving this challenge. We have the capacity to do it.
اب اس بات کے اختتام پر، ہم نے چند روز پہلے انفرادی ہیرو پن کی قدر کو اتنا عام کرنے کے متعلق سنا کہ یہ بے وقعت یا روزمرہ کی چیز بن جائے۔ ہمیں ایک اور ہیرو نسل کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکا میں آج جو لوگ ہم میں زندہ ہیں، بلکہ باقی دنیا کے لوگوں کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تاریخ نے ہمیں انتخاب کا موقع دیا ہے ۔۔ بالکل اسی طرح جیسے جل بولتے ٹیلر اپنی زندگی بچانے کا اندازہ لگا رہی تھی جب اس کی توجہ اس حیران کن تجربے سے بھٹک گئی جس میں سے وہ گزر رہی تھی۔ ہمارے یہاں اب توجہ بھٹکانے کی ثقافت آگئی ہے۔ لیکن ہماری زمین کو ہنگامی صورت حال درپیش ہے۔ اور ہمیں، اپنی زندہ نسل میں، نسلی مشن کا احساس پیدا کرنا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اسے الفاظ میں بیان کرسکتا۔ یہ ایک ہیرو نسل ہی تھی جو اس دنیا میں جمہوریت لے کر آئی۔ ایک اور جس نے غلامی کا خاتمہ کیا۔ اور جس نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا۔ ہم یہ کر سکتے ہیں۔ مجھے یہ نہ بتائیں کہ ہم میں ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں۔ اگر ہمارے پاس اتنی رقم ہوتی جو عراق کی جنگ میں صرف ایک ہفتہ خرچ ہو رہی ہے تو ہم اس مسئلے کے حل کے قریب پہنچ چکے ہوتے۔ ہمارے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
One final point: I'm optimistic, because I believe we have the capacity, at moments of great challenge, to set aside the causes of distraction and rise to the challenge that history is presenting to us. Sometimes I hear people respond to the disturbing facts of the climate crisis by saying, "Oh, this is so terrible. What a burden we have." I would like to ask you to reframe that. How many generations in all of human history have had the opportunity to rise to a challenge that is worthy of our best efforts? A challenge that can pull from us more than we knew we could do? I think we ought to approach this challenge with a sense of profound joy and gratitude that we are the generation about which, a thousand years from now, philharmonic orchestras and poets and singers will celebrate by saying, they were the ones that found it within themselves to solve this crisis and lay the basis for a bright and optimistic human future.
ایک حتمی نقطہ۔ میں امید پرست ہوں کیونکہ میرا اعتقاد ہے کہ ہمارے پاس عظیم چیلنج کے لمحات میں صلاحیت موجود ہے جس کے ذریعے ہم بھٹکانے کے اسباب کو ایک جانب دھکیلتے ہوئے چیلنج پر ہورا اتر سکتے ہیں جو تاریخ ہمارے سامنے رکھ رہی ہے۔ بعض اوقات میں سنتا ہوں کہ لوگ موسمی بحران کے پریشان کن حقائق کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں، "اوہ، یہ کتنا بھیانک ہے۔ ہم پر کتنا بوجھ ہے۔" میری آپ سے درخواست ہے کہ اسے دوبارہ یوں سمجھیں۔ تمام انسانی تاریخ کی کتنی نسلوں کو کسی ایسے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جو ہماری بہترین کوششوں کا متقاضی ہو؟ ایسا چیلنج جس کے لئے ہم اتنی کوششیں کریں جو ہماری استطاعت سے زیادہ ہوں؟ میرے خیال میں ہمیں اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے گہری خوشی اور تشکر کا اظہار اپنانا چاہیے کیونکہ ہم وہ نسل ہیں جس کے متعلق کوئی ہزار سال بعد موسیقی کے شوقین آرکسٹرا ساز اور شاعر اور گلوکار یہ کہتے ہوئے ہماری یاد منائیں گے کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اس بحران کو حل کرنے کی ذمہ داری اٹھائی اور ایک روشن اور امید پرست انسانی مستقبل کی بنیاد رکھی۔
Let's do that. Thank you very much.
آئیے ہم یہ کریں۔ آپ کا بہت شکریہ۔
Chris Anderson: For so many people at TED, there is deep pain that basically a design issue on a voting form -- one bad design issue meant that your voice wasn't being heard like that in the last eight years in a position where you could make these things come true. That hurts.
کرس اینڈرسن: TED میں بہت سے لوگوں کو اس بات پر گہری تشویش ہے کہ بنیادی طور پر نمونے کا مسئلہ ۔۔ بالآخر، ووٹ دینے کے فارم پر نمونے کا مسئلہ ۔۔ ایک خراب نمونے کے مسئلے سے مراد ہے کہ آپ کی آواز نہیں سنی جا رہی جیسا کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں آپ ایک ایسے منصب پر تھے جہاں آپ خوابوں کو سچ کر دکھا سکتے تھے۔ یہ دکھ کی بات ہے۔
Al Gore: You have no idea. (Laughter)
الگور: آپ تصور نہیں کر سکتے۔ (قہقہے)۔
CA: When you look at what the leading candidates in your own party are doing now -- I mean, there's -- are you excited by their plans on global warming?
کرس اینڈرسن: جب آپ اس چیز پر نظر ڈالیں کہ آپ کی اپنی جماعت کے اہم امیدوار ابھی کیا کر رہے ہیں ۔۔ میرا مطلب ہے کہ ۔۔ کیا آپ کو عالمی حدت سے متعلق ان کے منصوبوں پر خوشی ہے؟
AG: The answer to the question is hard for me because, on the one hand, I think that we should feel really great about the fact that the Republican nominee -- certain nominee -- John McCain, and both of the finalists for the Democratic nomination -- all three have a very different and forward-leaning position on the climate crisis. All three have offered leadership, and all three are very different from the approach taken by the current administration. And I think that all three have also been responsible in putting forward plans and proposals. But the campaign dialogue that -- as illustrated by the questions -- that was put together by the League of Conservation Voters, by the way, the analysis of all the questions -- and, by the way, the debates have all been sponsored by something that goes by the Orwellian label, "Clean Coal." Has anybody noticed that? Every single debate has been sponsored by "Clean Coal." "Now, even lower emissions!"
الگور: اس سوال کا جواب میرے لئے مشکل ہے کیونکہ، ایک جانب، میں سوچتا ہوں کہ ہمیں واقعی اس حقیقت کے متعلق زیادہ سوچ رکھنی چاہیے کہ ریپبلکن امیدوار ۔۔ یقینی طور پر جان مکین، اور ڈیموکریٹک جماعت کے دونوں نامزد حتمی امیدوار ۔۔ موسمی بحران کے متعلق تینوں امیدواروں میں خطرہ مول لینے کا ایک انتہائی مختلف انداز پایا جاتا ہے۔ ان تینوں میں قیادت کی صلاحیت ہے، اور ان تینوں کا اختیار کردہ طریقہ اس سے کافی مختلف ہے جو موجودہ انتظامیہ کا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ تینوں امیدوار منصوبے اور تجاویز سامنے لانے کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن مہم کا مکالمہ کہ ۔۔ جیسا کہ سوالوں سے ظاہر ہے ۔۔ اسے تحفظِ ماحول کے ووٹروں کی لیگ سامنے لائی تھی، ویسے، تمام سوالات کا تجزیہ ۔۔ اور، ویسے، مباحث کی مالی معاونت انہوں نے کی ہے جن پر ارویل کا لیبل چسپاں ہے، "صاف کوئلہ" کیا کسی نے اس پر غور کیا ہے؟ ہر مباحثے کو "صاف کوئلے" کا مالی تعاون حاصل ہے۔ "اب، پہلے سے بھی کم اخراج!"
The richness and fullness of the dialogue in our democracy has not laid the basis for the kind of bold initiative that is really needed. So they're saying the right things and they may -- whichever of them is elected -- may do the right thing, but let me tell you: when I came back from Kyoto in 1997, with a feeling of great happiness that we'd gotten that breakthrough there, and then confronted the United States Senate, only one out of 100 senators was willing to vote to confirm, to ratify that treaty. Whatever the candidates say has to be laid alongside what the people say.
ہماری جمہوریت میں کسی مکالمے کی ثروت اور مکمل پن نے اس دلیرانہ اقدام کی بنیاد نہیں رکھی جس کی واقعی ضرورت ہے۔ چنانچہ وہ درست باتیں کہہ رہے ہیں اور وہ ۔۔ ان میں سے جو بھی منتخب ہو ۔۔ درست کام کر سکتا ہے، لیکن میں آپ کو ایک بات بتا دوں: جب 1997 میں میں کیوٹو سے بھرپور جوش کے ساتھ واپس لوٹا کہ کہ ہم نے وہ مسئلہ حل کرلیا ہے، اور پھر امریکی سینیٹ میں کانگریس سے سامنا ہوا، تو 100 میں سے صرف ایک سینیٹر اس معاہدے کی تصدیق یا توثیق کیلئے ووٹ دینے پر تیار تھا۔ جو کچھ امیدوار کہہ رہے ہیں اسے لوگوں کی باتوں کے ساتھ رکھا جائے۔
This challenge is part of the fabric of our whole civilization. CO2 is the exhaling breath of our civilization, literally. And now we mechanized that process. Changing that pattern requires a scope, a scale, a speed of change that is beyond what we have done in the past. So that's why I began by saying, be optimistic in what you do, but be an active citizen. Demand -- change the light bulbs, but change the laws. Change the global treaties. We have to speak up. We have to solve this democracy -- this -- We have sclerosis in our democracy. And we have to change that. Use the Internet. Go on the Internet. Connect with people. Become very active as citizens. Have a moratorium -- we shouldn't have any new coal-fired generating plants that aren't able to capture and store CO2, which means we have to quickly build these renewable sources. Now, nobody is talking on that scale. But I do believe that between now and November, it is possible. This Alliance for Climate Protection is going to launch a nationwide campaign -- grassroots mobilization, television ads, Internet ads, radio, newspaper -- with partnerships with everybody from the Girl Scouts to the hunters and fishermen.
یہ چیلنج ہماری تمام تہذیب کی بناوٹ کا جزو ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ فی الواقعی ہماری تہذیب کا خارج شدہ سانس ہے۔ اور اب ہم نے اس عمل کو میکانکی شکل دے دی۔ اس طرز کو تبدیل کرنے میں ایک وسعت، پیمانہ، تبدیلی کی رفتار درکار ہے جو اس چیز سے ماورا ہے جو ہم نے ماضی میں کیا ہے۔ چنانچہ، اسی لئے میں نے آغاز میں کہا، جو بھی آپ کرتے ہیں، اس میں امید پرست بنیں، لیکن فعال شہری بھی بنیں روشنی کے بلبوں کو تبدیل کرنے کی بجائے قوانین کی تبدیلی کا مطالبہ کریں۔ عالمی معاہدوں کو بدلیں۔ ہمیں ہی آواز بلند کرنی ہے۔ ہمیں اس جمہوریت کو حل کرنا ہے ۔۔ یہ ۔۔ ہماری جمہوریت میں گلٹی نکل آئی ہے۔ اور ہمیں ہی اس میں تبدیلی لانی ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کریں۔ انٹرنیٹ پر جائیں۔ لوگوں سے رابطہ کریں۔ انتہائی فعال شہری بن جائیں۔ قانونی مہلت لیں ۔۔ ہمیں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا کوئی پلانٹ نہیں لگانا چاہیے جب تک وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے اس کا ذخیرہ نہ کرسکے۔ اس سے مراد ہے کہ ہمیں انتہائی جلد یہ قابل تجدید وسائل تعمیر کرنا ہوں گے۔ اب، کوئی بھی اس پیمانے پر بات نہیں کر رہا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اب اور نومبر کے درمیان یہ ممکن ہے۔ موسم کے تحفظ کا اتحاد ایک ملگ گیر مہم چلانے والا ہے ۔۔ نچلی سطح کی تحریک، ٹی وی اشتہار، انٹرنیٹ اشتہار، ریڈیو، اخبارات ۔۔ ہر کسی کے ساتھ شراکت کے ذریعے جن میں گرل اسکاؤٹس سے لے کر ماہی گیر تک شامل ہیں۔
We need help. We need help.
ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔
CA: In terms of your own personal role going forward, Al, is there something more than that you would like to be doing?
کرس اینڈرسن: اپنی ذاتی سطح پر الگور کیا آپ کچھ مزید کرنا چاہیں گے؟
AG: I have prayed that I would be able to find the answer to that question. What can I do? Buckminster Fuller once wrote, "If the future of all human civilization depended on me, what would I do? How would I be?" It does depend on all of us, but again, not just with the light bulbs. We, most of us here, are Americans. We have a democracy. We can change things, but we have to actively change. What's needed really is a higher level of consciousness. And that's hard to -- that's hard to create -- but it is coming. There's an old African proverb that some of you know that says, "If you want to go quickly, go alone; if you want to go far, go together." We have to go far, quickly. So we have to have a change in consciousness. A change in commitment. A new sense of urgency. A new appreciation for the privilege that we have of undertaking this challenge.
الگور: میری دعا ہے کہ میں اس سوال کا جواب تلاش کر لوں۔ میں کیا کر سکتا ہوں؟ بک منسٹر فلر نے ایک بار لکھا تھا، "اگر تمام انسانی تہذیب کے مستقبل کا دارومدار مجھ پر ہوتا، تو میں کیا کرتا؟ تو میں کیا کر سکوں گا؟" اس کا انحصار ہم سب پر ہے، لیکن دوبارہ، صرف روشنی کے بلبوں سے نہیں۔ ہم، ہم میں سے بیشتر یہاں موجود، امریکی ہیں۔ ہمارے پاس جمہوریت ہے۔ ہم چیزوں کو بدل سکتے ہیں، لیکن ہمیں فعال انداز سے تبدیل کرنا ہے۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے شعور کی بلند سطح۔ اور یہ مشکل ہے۔۔ یہ قائم کرنا مشکل ہے ۔۔ لیکن یہ ہوجائے گی۔ ایک پرانا افریقی محاورہ ہے جو آپ میں سے بعض کو پتا ہوگا وہ کہتا ہے، "اگر تم جلدی جانا چاہتے ہو تو تنہا جاؤ؛ اگر تم دور جانا چاہتے ہو، اکٹھے جاؤ۔" ہمیں جلدی دور جانا ہے۔ چنانچہ ہمیں شعور میں تبدیلی لانی ہے۔ وابستگی میں تبدیلی۔ ہنگامی ضرورت کا نیا احساس۔ اس استحقاق کا ایک نیا ادراک کہ ہمیں اس چیلنج سے عہدہ برآ ہونا ہے۔
CA: Al Gore, thank you so much for coming to TED.
کرس اینڈرسن: الگور، TED آمد پر آپ کا بہت شکریہ۔
AG: Thank you. Thank you very much.
الگور: آپ کا شکریہ۔ آپ سب کا بہت شکریہ۔ (تالیاں)